سیلاب اور متاثرین!

ہر ساون رُت جہاں اپنے ساتھ خوشگوار احساسات لے کر آتی ہے وہاں درد کا سیلاب بھی اپنے دامن میں چھپائے لاتی ہے ،جو کہ نا قابل تلافی نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے ۔میں برسات کی تباہ کاریوں اور حکومت کی نام نہاد حکمت عملیوں کا رونا نہیں رونا چاہتی جو کہ ہر سال کی طرح پھر ہمیں منہ چڑا رہی ہیں ۔میں نے پہلے بھی کہا تھا وہ اور قومیں ہوتی ہیں جو ایک ہی سانحہ سے سبق لے لیتی ہیں اور پھرممکنہ حادثات و سانحات سے بچاؤ کے لیے مضبوط حکمت عملیاں وضع کرتی ہیں تاکہ ان کی کارکردگی پر حرف نہ آئے یا شاید ان اقوام میں اپنے عوام کے لیے احساس زیادہ موجود ہے جبکہ ہمارے ہاں عرصہ ہوا احساس زیاں کی موت واقع ہو چکی ہے ،جب ہوس کا میل کانوں میں بھر جائے اور لالچ کی پٹی آنکھوں پر بندھ جائے تو نہ کوئی تڑپتا ،ڈوبتا ،مرتا دکھائی دیتا ہے نہ ہی آہ و بکا سنائی دیتی ہے ،بلاشبہ اس کی صریحاً قصوروار ہماری حکو متیں ہیں جو سالہا سال سے معصوم افراد کو نا گہانی لہروں کی نذر ہوتے دیکھ رہی ہیں مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔کیا قیامت ہے کہ ہر سال سینکڑوں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں ان کا سب کچھ بہہ جاتا ہے اور کچھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں مگر پھر بھی ایسے انتظامات نہیں کیے جاتے جو ہمیں بروقت ہمارانقصان ہونے سے بچا سکیں ،مانا قدرتی آفات سے لڑنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے مگر ایسے انتظامات تو کئے جا سکتے ہیں جن سے نقصان کم سے کم ہو ۔مگر شاید اس مد میں اس لیے قابل قدر کام نہیں کیا جاتا کیوں کہ اس میں بہنے والے اور متاثر ہونے والے وہ لوگ ہیں جن کی حیثیت ہمارے حکمرانوں کے نزدیک تنکوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جن کے دریاؤں کے بند ٹوٹتے ہی آنسوؤں کے بند بھی ٹوٹ جاتے ہیں اورظالم سیلابی ریلا ان کی عمر بھر کی جمع پونجی ، خواب اور یادیں سب کچھ بہا کرلے جاتا ہے ،کیا چند سکے امداد یا چند تھیلے آٹا ان خوابوں کا نعم البدل ہو سکتے ہیں جن کو غریب اپنے لہو سے سینچتاہے۔شہزاد نئیریاد آگئے۔
موجۂ سیلاب ِغم عزمِ جوانی لے گیا
آنکھ میں جو خواب تھے نمکین پانی لے گیا

سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب یہ طے ہے کہ ہر سال ہمیں سیلاب جیسی آفت سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے تو کیا پورے ملک میں ایسا کوئی انسان موجود نہیں ہے جس میں عزم اور بصیرت موجود ہو کہ جس کی خدمات لیکر اس آفت سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکیں ؟ ہم ٹاک شوز ، بیانات اور خطابات میں یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ قدرتی آفات سے نپٹنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور ہم متاثرین کی بحالی کے لیے مناسب اقدامات کر رہے ہیں اور متاثرہ مقامات کا دورہ بھی تمام وزراء خود کرتے دکھائی دیتے ہیں ہوائی جہاز کے ذریعے اور ہمدردانہ جذبات کا یہ عالم ہے کہ کل تک جو سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ پانی میں کھڑے ہو کر کیا کرتے تھے اس سال لیپ ٹاپ کے ذریعے کرتے دکھائی دئیے ۔آئی ڈی پیز کا مسئلہ ہو یا متاثرین کی بحالی کا ہماری تمام تر کاوشیں وقتی دکھاوا ہی ثابت ہوتی ہیں ،اور یہی انتظار کیا جاتا ہے کہ مون سون ختم ہو اور عوام اس دوران ہونے والی تکلیفات کو بھول جائیں اور ہمیشہ سے یہی ہو تا آرہا ہے کہ اسی بحث و تکرار میں برسات کا موسم گزر جاتا ہے اور وہی متاثرین جب بے یارو مدد گار ہوتے ہیں تو کوئی ملک دشمن عناصر سے ہاتھ ملا لیتا ہے، کوئی علم بغاوت بلند کرتا ہے اور کوئی خود سوزی میں مسائل کا حل ڈھونڈتا رہ جاتا ہے اور دوسری طرف نکاسی آب کا مسئلہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔

ان حالات میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا واقعی حکومت مسائل میں گھرے افراد کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ؟کیا حکومت کی طرف سے احتیاطی تدابیراختیار کر کے بڑے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے ؟اگر دوسرے ممالک میں سیلابی پانی کو متبادل طریقوں سے ریزرو وائر اور چھوٹے چھوٹے ڈیموں میں محفوظ کیا جاسکتا ہے تاکہ دریاؤں میں پانی کم ہونے کی صورت میں سیلاب کا پانی رحمت ثابت ہو تو ہمارے ہاں کیوں نہیں ؟نکاسئی آب کے لیے سیوریج سسٹم یعنی نالوں اور نالیوں کا جو جال بچھایا گیا ہے یہ اس قدر ناقص کیوں ہے کہ جونہی ہلکی سی بھی بارش ہو تو نشیبی علاقے زیر آب آجاتے ہیں ۔دریاؤں کے کناروں پر موجود پشتوں کو کیوں مضبوط نہیں بنایا جاتا ؟کیوں اس سلسلے میں ترجیحاتی بنیادوں پر کام نہیں کیا گیاآخر اس میں ایسی کونسی مصلحت ہے کہ جس کی موجودگی میں سیلاب سے لیکر علاقائی سیوریج کو مثالی نہیں بنایا جا رہا ۔

محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ جس سال زیادہ سردی پڑتی ہے تو اسی سال پہاڑوں پر زیادہ برف باری ہوتی ہے تو اسی سال پہاڑوں پر موجود گلشئیر زیادہ مقدار میں پگھلتے ہیں اور پھر مون سون بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہوتی ہیں جبکہ اکثر ماہرین موسمیات سیلاب آنے کی اہم وجہ پہاڑوں پر درختوں کا کٹاؤبتاتے ہیں ۔ہم جتنا وقت اس بحث میں گزارتے ہیں کہ سیلاب کیوں آتے ہیں اگر تھوڑا سا وقت اس فکر میں گزاریں کہ ہم نقصانات کو کم کیسے کر سکتے ہیں تو ہمیں ہر سال اس ناگہانی آفت سے اس قدر پریشان نہ ہونا پڑا۔اور بارانِ رحمت عوام کے لیے اس قدر زحمت ثابت نہ ہو ۔بلاشبہ اس پر ہماری قیادت کواس پر کبھی تو سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے تاکہ اگلے سال ہم اس پریشانی سے حتی الامکان بچ سکیں ۔فی الوقت سب سے اہم مسئلہ جوکہ ملک کو درپیش ہے اور جس پر سنجیدگی سے حکومت کو سوچنے کی ضرورت ہے وہ ہے کہ متاثرین کے لیے جو پیسہ اکٹھا ہوگا وہ مستحق افرادتک کیسے پہنچے گا ؟

ہر سیلابی آفت پر حکومت ،NGOs ،پاک افواج اور سیاسی افراد سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے سر گرم عمل دکھائی دیتے ہیں اور ہر صاحب ِ حثیت بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ عطیہ ہے مگر یہ ضمانت کوئی نہیں دیتا کہ امداداور بحالی کے لیے مختص کئے گئے فنڈز کا تمام پیسہ متاثرین کی مدد کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ۔پاکستان کی بڑی بد قسمتی ہے کہ یہاں وقت ٹپاؤ پالیسی کے تحت جیبیں بھر لی جاتی ہیں اور غریب بیچارہ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے ۔مگر اب جبکہ موجودہ حکومت نے غربا ء کے لیے کوئی قابل قدر کام نہیں کیا بلکہ وہ افلاس و تنگدستی میں مہنگائی کے سیلاب سے بھی نبرد آزما ہیں ایسے میں حکومت وقت کو چاہیئے کہ ایسے افراد کو ان منصوبوں کی نگرانی پر معمور کرے جو متاثرین کی بحالی کے لیے شروع کئے جانے والے منصوبوں اور فنڈز کا حساب رکھنے اور لینے والوں کی بھی نگرانی کریں ۔مگر وہ خلوص نیت سے یہ کام سرانجام دیں اور اس سلسلہ میں ہنگامی بنیادوں پرایسے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ جو بھی فنڈ یا امداد مختص کی جائے وہ حق داروں کو ہی ملے اور’’ مال بناؤ ۔۔وقت ٹپاؤ‘‘ والوں پر کڑی نظر رکھی جائے ۔اس سے کم ازکم کچھ نہ کچھ تو عوام کو ڈیلیور ہوتا ہوانظر تو آئے اور کوشش کی جائے کہ ایسی حکمت عملیاں وضع کی جائیں کہ اب کی بار ساون رت آئے تو دریاؤں کے بندنہ ٹوٹیں اگر ٹوٹیں۔۔ تو۔۔۔ آنسوؤں کے بند نہ ٹوٹنے پائیں۔
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.