یہ تحریر میں نے تقریباً ایک سال پہلے لکھی مگر کسی نا
گزیر وجوہات کی بنا پر آپ لوگوں کے ساتھ شئیر نہ کر سکا۔ چونکہ آجکل ملک
میں ود ہولڈنگ ٹیکس اور اسکے خلاف ہڑتالوں کا چرچا ہے اسلئیے سو چا کہ آپ
لوگوں سے ایک سوال پوچھ لوں کہ ہم ٹیکس کیوں دیں۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دنوں پہلے میری نظر سے ایک کتاب گزری جس کے مصنف ایف بی آر کے ایک
سابقہ سینئیر افسر ہیں۔ جس میں انہوں نے کرپشن نہ کرنے کے بارے میں تفسیلًا
ذکر کیا۔ مجھے بھی خیال آیا کہ میں بھی اپنا قلم اٹھاؤں اور اس عوام سے
سوال پوچھوں کہ وہ ٹیکس کیوں دے اور کیوں نہ دے۔
ہم ٹیکس اس لئے ادا کرتے ہیں کہ ہمیں حکومت کی طرف سے
تعلیم،صحت،روٹی،کپڑا،مکان،جانومال کی حفاظت، انصاف،پانی، گیس،بجلی،روڈ اور
سفری سہولیات میسر ہوں۔
آجکل وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار ٹیکس اصطلاحات میں مصروف ہیں اور ان کی کوشش
ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی ٹیکس چور نہ ہو۔ مگر میں نے سوچا کہ آخر اوپر
بیان کی گئی سہولیات کے بدلے کوئی پاگل ہی ہے جو ٹیکس ادا نہ کرے تو میں
ٹیکس چوری کی وجہ تلاش کرنے کے لیئے نکلا اور میں جس نتیجے پر پہنچا وہ میں
آپ کے سامنے بیاں کرتا ہوں۔
آجکل کے اس جدید دور میں بھی ہم تعلیم،صحت،روٹی،کپڑا،مکان،جان ومال کی
حفاظت، انصاف،پانی، گیس،بجلی،روڈ اور سفری سہولیات سے محروم ہیں۔ اور ان سب
سہولیات کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو ایک خطیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، جیسا کہ
الیکشن سے پہلے تو بلند و بانگ دعوے تھے کہ بجلی کا مسلہ کچھ ماہ میں حل ہو
جائے گا مگر ایک سال گزرنے کے بعد وزیر پانی و بجلی نے بیان دے دیا کہ بجلی
کا مسلہ توحل ہو نہیں سکتا عوام بارش کے لیے دعا کرے مجھے لگتا ہے کہ وزیر
صاحب کو اپنی وزارت کے ساتھ لگے بجلی کے نام سے نفرت اور پانی کے نام سے
لگاو ہے۔ ٹیکس دینے کے باوجود عوام کو اپنے پیسوں سے مہنگے UPS اور جنریٹر
مجبوراً خریدنے پڑتے ہیں، آخر عوام کے پیسوں سے بجلی کیوں نہیں بن سکتی۔ اس
قوم کے مقدر میں سیلاب کے پانی میں یا کراچی کے سمندر میں ڈوب کر مرنا تو
ہے مگر پینے کا پانی اس قوم کے مقدر میں نظر نہیں آتا۔ عوام کے ٹیکس کے
پیسوں سے وزیرومشیر ائیرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر منرل واٹر کے مزے لوٹتے
ہیں اور بے چاری عوام اپنے پیسوں سے مہنگے مہنگے داموں پانی کے ٹینک مافیا
سے پانی خریدنے پر مجبور ہے۔
جان و مال کی حفاظت کی بات کی جاے تو وہ بھی ٹیکس دینے کے باوجود عوام کی
اپنی ذمہ داری ہے کیوں کہ پولیس کے اوپر سے تو اعتماد کب کا اٹھ چکا اور اب
اگر آپ کو اپنی جان و مال کی حفاظت کرنی ہے تو پرائیویٹ گارڈز کی سہولت آپ
کو خود ہی حاصل کرنی پڑے گی۔میں یہاں پر ایک بات بتاتا چلوں کہ کینٹ میں
موجود ایک سکول جہاں سول حضرات کے بچوں کو آرمی کے بچوں سے سو سے لے کر دو
سو فیصد زیادہ فیس دینی پڑتی ہے اسی سکول میں سیکورٹی کی مد میں فی بچہ سو
روپے ماہانہ ادا کرنے پڑتے ہیں۔ مجھے اپنی آرمی پر سو فیصد اعتماد اور فخر
ہے مگر کینٹ کے اندر آرمی کے زیرانظام چلنے والے سکول میں بھی بچوں کو اگر
حفاظت کے لیے رقم ادا کرنی پڑے تو سرحدوں کی حفاظت کے لیے تو ہمیں فکر مند
رہنا چاہیے۔
ہمارا کوئی بھی کام بنا رشوت دیے نہیں ہوتا، تعلیم کی سہولت ہمیں میسر
نہیں،صحت اور تعلیم کے لیے ہمیں پرائیویٹ اداروں میں جانا پڑتا ہے۔ سی این
جی کے لیئے لمبی لمبی قطاروں میں لگنا پڑتا ہے، انصاف کے لیے رشوت کی ضرورت
ہے۔جس ملک کا بال بال قرضے میں ڈوبا ہوا ہو اوراس ملک کا وزیر اعظم اپنے
لیے PIA کی پرواز میں 36 قسم کے کھانے کی فرمائش کرے تو میرا من کرتا ہے کہ
میں عوام سے پوچھوں کے جس چیز کا وعدہ ٹیکس کے بدلے حکومت ہم سے کرتی ہے وہ
سب کچھ ہمیں خود ہی کرنا ہے تو کیا ہمیں اپنے خون و پسینہ کی کمائی سے ٹیکس
دینا چاہیے ہے کہ نہیں۔ کیونکہ
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے، |