اُردو دُنیا کا ایک جہاں دیدہ ادیب :عالمگیر ادب‘‘کامخلص ترجمان

۲۰۰۳ء کی بات ہے،کچھ سماجی، تعلیمی، ادبی و معاشی مقاصد کو لے کرشہرِ گلستان بنگلور میں کچھ ہم خیال دوستوں نے’’ عزم اکادمی‘‘ کے نام سے ایک فلاحی اِدارہ قائم کیا تو اکادمی کے چیرمین،جناب عبد الحمید صاحب نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنے اُستادِ محترم حمیدسہروردی صاحب کو اکادمی مدعو کریں گے ،اور اکادمی کے دفتر، مقاصد اور عزائم کے معائنے اور اُن کے مشوروں اور رہنمائیوں کی گزارش کریں گے۔ اکادمی کے سارے ہی ذمہ داران نے، جن میں ہم بھی بحیثیتِ ڈائرکٹر شامل تھے، اِس تجویز کا خیر مقدم کیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر ہی ریاست کی ادبی دُنیاکی قدآور شخصیت ’’حمید سہر وردی‘‘کی صورت میں ہمارے درمیان موجودتھی اور اُس سے ہم محوِکلام تھے۔ اگرچہ ،میں نے موصوف کے ساتھ گلبرگہ کے دو ایک مشاعرے ضرور پڑھے تھے ،اوراِس طرح صرف سر سری سی ملاقات رہی تھی، لیکن اکادمی میں اُن کی تشریف آوری کے موقع پر اُنہیں پہلی بار قریب سے دیکھنے کا ، ان کو سمجھنے کا اور اُن کی خیالات سے استفادے کاموقع ملا۔ اگرچہ کہ وہ نہایت ہی مختصر وقت کے لیے ہمارے ساتھ رہے، لیکن جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن ثابت ہوئی تھی وہ اُن کی سادگی تھی، اوراِسی سادگی میں لپٹی ہوئی اِس سادہ اِنسان کی زندہ دِلی ادبی دُنیامیں اس کی عظمت اور قد آوری کی دلیل بن گئی تھی۔ پھر اِس پر ایک طویل عرصہ گزرا، کہ یکایک ہمیں پچھلے ہفتے ۸۸۶ صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب بذریعہ پوسٹ موصول ہوئی:’’حمید سہروردی:شخصیت اور ادبی جہات‘‘کے عنوان سے، جسے دیکھ کر ہم حیران تھے کہ ،ممدوح اور حامدین ایک ہی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور اِن سب نے مل کر اپنے ممدوح کے لیے ایک عظیم کارنا مہ انجام دیا ہے۔بعض خاص وجو ہ سے اِسے ہم کارنامہ کہنا چاہتے ہیں، اور وہ یہ کہ فکر و نظر کی تاریکی میں جس چراغ نے ادب اور شعر و سخن کے بے شمار گوشے منور کیے ، اور ادبی کائنات کی شش جہات میں صالح فکری کی روشنی پھیلائی، اُس کے گھر میں بھی ایک ایسی نسل پلی بڑھی اور رہی بسی ہے ،جو اِس کے کاز اور کار کو آگے بڑھانے کی نہ صرف متمنی ہے، بلکہ اپنی صلاحیتوں کا لو ہا بھی منوا رہی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اگر گھر کا بزرگ قلمکار چاہے تو اپنے گھر کو بھی اپنے رنگ میں رنگ سکتا ہے۔ اِس کا ثبوت یہ ضخیم کتاب ہے، جو خالصتاً اِس کے فرزندانِ ذی مرتبت کے کارنامے کی حیثیت سے ہمارے سامنے ہے۔اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے تو حمید بھائی نے اپنے گھر کو متاثر کیا ہے ،پھر ساری ادبی دُنیا پر اپنے فکر و فن کے انمٹ نقوش ثبت کیے، جو ایک نادِ ر واقعہ سے کم نہیں ۔ ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے ادبا ء و شعراء کو فی زمانہ اگر سب سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ہے تو وہ ہے اُس کی اولاد اور اس کے اہلِ خانہ۔اِس اعتبار سے ہم حمید بھائی کو، اُن کے اہل و عیال سمیت خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ پورے کا پورا خاندان ایک ٹیم بن کر اردو کی خدمت انجام دے رہا ہے اور جم کر انجام دے رہا ہے۔ تاریخ ِ ادب میں اُن کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے نہ صرف گھر کے اندر سے بلکہ بیرون سے بھی کمک منظم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ چنانچہ جن ادباء شعراء اور قلمکارانِ ادب کی ایک قطار ہمیں زیرِ نظر کتاب میں نظر آتی ہے اور جنہوں نے آگے بڑ ھ کر اِس کارِ عظیم میں اپنا نام درج کروایاہے ،تو اس کا کریڈیٹ بھی ہم حمید سہروردی صاحب کے فرزندان کو ہی دینا چاہتے ہیں۔ قابلِ مبارکباد ہیں،’’عالمگیر ادب‘‘کے مدیر محترم عارف خورشید صاحب، جنہوں نے اپنی ادارت میں غضنفر اقبال اور خرم عماد صاحبان کے تحقیقی کاموں کو منظر عام پر لانے کی سعی مبروک کی ہے ، اور ایک تاریخ مرتب فرمائی ہے۔

میرے لیے ہی کیا کسی کے لیے بھی کتاب پر تبصرے کا حق ادا کرنا ممکن نہیں۔ جو کچھ خامہ فرسائی ہے، بس کتاب کے تعارف کی غرض سے ہے۔ اِن سطور میں ہم کتاب کے ’’جغرافیہ‘‘ کی حد تک اِظہار خیا ل کو محدور رکھیں گے اور قارئین پر چھوڑ دیں گے کہ وہ اِس کتاب تک رسائی حاصل کرکے علم و تحقیق، کی اپنی پیاس کو کس طرح بجھاتے ہیں اور قابل لوگ اِس پر کیا تبصرہ کرتے ہیں۔!

کتا ب کا آغاز عارف خورشید صاحب کے فکر انگیز اداریے سے ہوتا ہے۔ خرم عماد ،نورالحسنین،اکرم نقاش صاحبان نے کتاب کی تمہید باندھتے ہیں اور پھر کتاب ایک خوبصورت ترتیب کے ساتھ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔’’خاکے‘‘ کے زیر عنوان،ڈاکٹر وہاب عندلیب ،امجد علی فیض،خواجہ منظور الدین،منظور وقار،سید اختر کریم صاحبان نے موصوف کے خوب خاکے کھینچے ہیں۔ اور’’منظومات‘‘کے عنوان کے تحت ،پروفیسرراہی قریشی،جمیل مجاہد،ڈاکٹر صغریٰ عالم،خان شمیم،نورالدین نور،پروفیسر مسعود سراج،رؤف صادق،شاذرمزی، نے توصیفی شعروں کے گل بوٹے کھلائے ہیں۔’’انٹرویوز‘‘ کے تحت،عارف خورشید،نور الحسین ،م ناگ،ڈاکٹر سید احمد قادری،نثار احمد صدیقی،محمد عارف اقبال،سید سجاد اختر،ڈاکٹر عبد الحیٔ،نظام الدین احمد،ڈاکٹر غضنفراقبال کے لیے ہوئے انٹریویز ہیں، جن میں حمید سہر وردی صاحب کی ہمہ گیر فکرکا وسیع کینواس اُبھر کر سامنے آتا ہے۔’’اہلِ قلم کے مضامین‘‘ کے تحت ایک ذیلی عنوان’’افسانہ نگار‘‘ہے اور اِس کے تحت ’’افسانہ نگار بہ نظر افسانہ نگار‘‘کے تحت جوگندر پال ،پروفیسر اختر یوسف،ابراہیم اختر،مظہر الزماں خان،پروفیسر بیگ احساس،نور الحسنین،رحمٰن حمیدی،معین الدین عثمانی،ڈاکٹر کوثر پروین کے مضامین شامل کیے گیے ہیں۔’’افسانہ نگار بہ نظر شاعر‘‘ کے زیر عنوان احسن یوسف زئی،رؤف صادق،سید سجاد اختر ڈاکٹر محمد سہیل احمد ،سید مجتبیٰ نجم کے خوب صورت مضامین درج ہیں۔’’افسانہ نگار بہ نظر ناقدین و مبصرین‘‘ کے عنوان کے تحت مہدی جعفر،سلیم شہزاد،ڈاکٹر نظام صدیقی،ڈاکٹر ذکاالدین شاماں،پروفیسر ارتکاز افصل،ڈاکٹر لینڈا وینیٹک،ڈاکٹر طارق سعید،انور داغ،ڈاکٹر سہیل بیابانی،ڈاکٹر مادھوری چھیڈا،سید مجیب الرحمٰن،ڈاکٹر صدیق محی الدین،ڈاکٹر شکیل احمد خان،ڈاکٹر عمر فاروق،ڈاکٹر رشاد نیازی،ڈاکٹر حشمت فاتحہ خوانی،مختار احمد منو،ڈاکٹر عبد الانیس،غلام ثاقب نے خوب جم کر لکھا ہے۔

’’زاویہ نظر‘‘کے تحت،مشاہیر ادب کے تاثرات درج کیے گیے ہیں اور اِن کو مختلف کیٹیگریز میں بانٹا گیا ہے۔ مثلاً’’افسانہ نگار بہ نظر افسانہ نگار‘‘ کے تحت کلام حیدری،دیویندراسر،ظفر پیامی،جیلانی بانو،پروفیسر رشید امجد،کنورسین،ڈاکٹر اکرام باگ،فیروز عابد،انیس رفیع م ناگ،ڈاکٹر سید احمد قادری،ڈاکٹر احمد صغیر ،خورشید حیات،ڈاکٹر حمید اﷲ خان،نے اپنے قلم کے گہر لٹائے ہیں۔اِسی طرح’’ افسانہ نگار بہ نظر شاعر‘‘ کے زیر ِذیلی عنوان ،کمار پاشی،ندا فاضلی،عقیق احمد عتیق،ولی شاہ جہان پوری،افتخار امام صدیقی،عبد الاحد ساز،پروفیسر ناز قادری،رفیق جعفر،احمد کمال پروازی،صابر فخر الدین،نسیم عزیزی،شاہق بجنوری،نے اپنے قلم کا جادو جگایا ہے۔’’افسانہ نگار بہ نظر نقاد اور مبصر‘‘ کی کیٹیگری میں پروفیسر گوپی چند نارنگ،شمس الرحمٰن فاروقی،ڈاکٹر انور سدید،پروفیسر وہاب اشرفی،ڈاکٹر عصمت جاوید،پروفیسر عتیق احمد،ڈاکٹر ا بن فرید،شہنشاہ مرزا،پروفیسر سلیمان اطہر جاوید،پروفیسر لئیق صلاح،احمد حسین شمس،ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی،حقانی القاسمی،ڈاکٹر اسلام عشرت،امتیاز خالق،ڈاکٹر نسیم احمد،سلطان احمد ساحل،خالد عرفان،ڈاکٹر ضیا،عزیز اﷲ سرمست،ڈاکٹر ہاجرہ پروین،ڈاکٹر غضنفر اقبال،نے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔پھر ایک اور عنوان باندھا گیا ہے: ’’صاحبِ کتاب پر اہلِ قلم کے مضامین‘‘ اور اِس کے تحت ذیلی کیٹیگریز دیے گیے ہیں۔’’نظم نگاری‘‘ کے ذیل میں قاضی سلیم،عبدالاحد ساز، علیم صبا نویدی،حامد اکمل،جیسے اصحابِ قلم کے مضامین شامل ہیں۔’’شاعر بہ نگاہ افسانہ نگار‘‘ کے تحت پروفیسر اختر یوسف،ڈاکٹر اکرام باگ،مشرف عالمی ذوقی،شاعر بہ نگاہ ناقدین و مبصرین،ڈاکٹر عصمت جاوید،پروفیسر عتیق اﷲ سید اختر صادق،ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی،ڈاکٹر مقبول احمد مقبول،ڈاکٹر اے آرمنظر،واجد اختر صدیقی،ڈاکٹر محمد منظور احمد دکنی،ڈاکٹررخسانہ سلطانہ،نے جم کر لکھا ہے۔

’’زاویۂ نظر‘‘ کے زیر عنوان،مشاہیرِ ادب کے تاثرات ایک دوسرے انداز میں پیش کیے گیے ہیں۔یعنی’’شاعر بہ نگاہ شاعر‘‘ کے ذیلی عنوان کرشن کمار طور،ش ک نظام،ندا فاضلی،بلراج کومل،بشر نواز،رشید افروز، شاہد عزیز، انور سلیم، شاہد جمیل ، ڈاکٹر شائستہ یوسف،صابر فخر الدین، ناظم خلیلی، سردار سلیم،جیسے شعراء شامل ہیں اور اپنا نذرانہ ٔ عقیدت پیش کیا ہے۔’’شاعر بہ نگاہ نقاد اور مبصر‘‘ کے ذیل میں شمس الرحمٰن فاروقی، پروفیسر شمیم حنفی،محمد علی صدیقی، مہدی جعفر، پروفیسر ابو الکلام قاسمی،ادیب سہیل، ڈاکٹر کوثر مظہری، ڈاکٹر محمود شیخ، ڈاکٹر منظر حسین، ڈاکٹر حشمت فاتحہ خوانی، ڈاکٹر رفعت النساء بیگم، سیددستگیر پاشاہ دولت کوٹی، محمد عبد المقتدر تاج کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔پھر’’صاحبِ کتاب پر اہلِ قلم کے مضامین‘‘ کے زیر عنوان، ایک ذیلی عنوان’’علمی و ادبی مضامین(مضامین)‘‘ہے جس میں ساجد حمید،رفیق جعفر،ڈاکٹر محمد طیب انصاری، حقانی القاسمی، پروفیسر مظفر شہ میری،سردار سلیم، ڈاکٹر محبوب ثاقب ، ڈاکٹر اطہر معز، اقبال احمد، صاحبان نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔

ایک اور’’زاویہ نظر‘‘ کے ذریعہ ’’مشاہیر ادب کے تاثرات‘‘ کے تاثرات کو مختلف ذیلی عنوانات میں بانٹا گیا ہے۔ جیسے’’ناقدین اور مبصرین کی سوچ آراء‘‘ ایک ذیلی عنوان ہے، جس میں محمد علی صدیقی، پروفیسر فضیل جعفری، ڈاکٹر ابن فرید، پروفیسر انیس اشفاق، ڈاکٹر ذکاالدین شایاں، سید ظفر ہاشمی،خواجہ منظور الدین، سید مجیب الرحمٰن ، ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی، پروفیسر عبد الرب استاد، ڈاکٹر رخسانہ سلطانہ، ڈاکٹر حضور معین الدین،جیسے اربابِ قلم ہیں ، جن کے رشحات قلم کتاب کی شان بڑھاتے ہیں۔ ’’سخنوروں کی سوچ‘‘ کے ایک اور عنوان کے نیچے،پرکاش فکری ، پروفیسر ناز قادری، مضطر مجاز، ڈاکٹر ظفر مرادآبادی، سید مجتبیٰ نجم جیسے نام ہیں ،جن کی عظمت کے گن ساری ادبی دُنیا گنگناتی رہتی ہے۔

’’افسانہ نگاروں کی سوچ آراء‘‘کے زیر عنوان ڈاکٹر نیر مسعود، سید محمد اشرف، ڈاکٹر شفق، علی امام نقوی، ڈاکٹر جلیل تنویر، نے اپنا اپنا حق رفاقت ادا کیا ہے۔ایک اور خوبصورت عنوان ’’عشرتِ قطرہ ‘‘ ہیرے کی طرح جگمگاتا نظر آتا ہے اور اِس کے ذیل میں’’صاحبِ کتاب پر معاصرین کے تاثرات‘‘ کے تحت پروفیسر شاہ حسین نہری، ڈاکٹر عبد الباری، عشرت ظفر، قدیر زماں، اقبال مسعود، ڈاکٹر سید یحیٰ نشیط،پروفیسر رؤف کوشتر، محمودشاہد، ڈاکٹر سید اقبال خسرو قادری، ڈاکٹر حبیب نثار، پروفیسرسید شاہ مدار عقیل، پروفیسر محمد اعظم شاہد، ڈاکٹر داؤد محسن، ڈاکٹر عبدالحمید مخدومی، ڈاکٹر محمد افتخار الدین اختر، پروفیسر محمد عبد الحمید اکبر، پروفیسر محمد بدر الدین، میر شاہ نواز شاہین،پروفیسر عبد الرب استاد، ڈاکٹر اے آر منظر ، ڈاکٹر غلام دستگیر شیخ، شیخ محمد ابراہیم انوری، شیخ ابراہیم ، مختار شیخ، محمد عبید اﷲ، صادق کرمانی، ڈاکٹر عبد الشکور حسینی، ڈاکٹر سید شوکت اﷲ حسینی، سیدہ نصرت جہاں، مسعود علی تما پوری، ڈاکٹر عبد الباری، محمد کاشف رضا شاد مصباحی، باسط فگار، حسن محمود، الحاج محمد عبدالرحیم سہروردی،کی فکری کاوشیں بھی جگمگاتی نظر آتی ہیں۔

پھر’’صاحبِ کتاب پر طلبہ کے مضامین‘‘ کے تحت عبد الباری مسعود، ڈاکٹر خواجہ فاروق احمد، عشرت آر ا خانم ، ڈاکٹر اطہرمعز، حافظ شکیل احمد باغبان، محمد مسیح اﷲ ، ڈاکٹر محمد سمیع الدین، ڈاکٹر جاں نثار معین، ڈاکٹر محسنہ فاطمہ، ڈاکٹر کوثر فاطمہ،ڈاکٹر فریدہ بیگم، شمیم ریحانہ، محمد یحیٰ ، انجم فاطمہ، سید عارف مرشد،جسیے طلباء کو بھی حمید بھائی کو خراج تحسین پیش کر نے کے مواقع فراہم کیے گیے ہیں۔پھر ایک اور ذیلی عنوان ’’صاحب کتاب تحقیقی مقالات کے تناظر میں‘‘ہے اور اِس کے تحت،سیدہ رفعت ہاشمی، ڈاکٹر طیب خرادی، تسلیم بیگم ، عائشہ صدیقہ، ڈاکٹر سیدہ تبسم سلطانہ، ڈاکٹر نکہت پروین، رقمطرازی کا فرض نبھاتے نظر آتے ہیں۔
اِسی طرح’’صاحبِ کتاب کی تخلیق اور اہلِ قلم کے تجزیے‘‘ کے تحت موصوف کے افسانوں پرمختلف اصحابِ قلم نے تجزیاتی اِظہار خیا ل کیا ہے۔ پہلے’’افسانے‘‘ لیے گیے ہیں ۔ اس کی ترتیب اس طرح ہے۔امیر بخش کون؟(حمید سہروردی)……تجزیہ: ڈاکٹر محمود شیخ،شہر کی انگلیاں خونچکاں(حمید سہروردی)……تجزیہ : یوسف عارفی،بے اعتنائی(حمید سہر وردی)……تجزیہ(رؤف صادق)۔پھر ’’مکالمے (افسانچے)(حمید سہر وردی)‘‘ کا تجزیہ ہے۔ جس کا عنوان ہے’’ اثبات کی کھوج میں:پروفیسر انتخاب حمید‘‘۔ ’’نظمیں‘‘ کے تحت ایک نظم ہے’’ایک بے کیف لمحہ کی خالص نظم(حمید سہر وردی)‘‘ اور اس کا تجزیہ،رؤف صادق نے کیا ہے۔
’’کمرہ ، بلی اور مرغی(حمید سہر وردی)‘‘ پر تجزیہ سجاد اخترکا ہے۔’’ایک دوست کے نام(حمید سہروردی)‘‘ کا تجزیہ، زرینہ بیگم چودھری نے کیا ہے۔

پھروہ شخصی نظمیں بھی اِس میں شامل ہیں جو’’حمید سہروردی‘‘ صاحب نے مختلف ا صحابِ قلم کی شان میں بطورِ خراج ِ تحسین تخلیق فرمائیں:جیسے ڈاکٹر عصمت جاوید شیخ، قاضی سلیم، ڈاکٹر وہاب عندلیب، پروفیسر عتیق اﷲ، پروفیسر صادق، خلیل مامون، پروفیسر شاہ حسین نہری، معین الدین جینا بڑے، راز امتیاز، شری کانت ورما، سید اختر کریم، محمد خرم عماد سہروردی، محمد فرقان دانیال سہر وردی۔خوبصورت اظہارات کا مظہر،ڈاکٹر صدیق محی الدین،نظم : راستے(سدھیر کولٹکر ؍حمید سہر وردی)،مید سہر وردی کی ترجمہ نگاری: اسلم مرزا،فیچر:میں آندھیوں کے پاس تلاشِ صبا میں ہوں: حامد اکمل، کے علاوہ’’رپورتاژ‘‘ اِن عنوانات کے تحت جمع کیے گیے ہیں۔اُس رات کی بات :(طلعت گل)،زرخیز تخلیقی زمین پر اُگی ایک خوش رنگ کونپل(ڈاکٹر محمد سہیل)،’’صاحبِ کتاب کی تحریرات‘‘ کے تحت حمید سہر وردی صاحب کی تخلیقات کی فہرست دی گئی ہے اور اِس فہرست میں یہ نام شامل ہیں:
میں کا تعارف،میرے تخلیقی محرکات اور آج کی ادبی فضا،گلبرگہ: یہ خلد بریں ارمانوں کی،اکیلا درخت: پہچان اور اجنبیت کے مابین آگہی،نادیدہ: آگہی کا استعارہ،احسن یوسف زئی،تحقیق و تجزیہ: ایک تبصرہ،نظر’خدا‘ محمد علوی،محمد علوی کی نظم ’خدا‘ تجزیاتی مطالعہ،افسانہ ’رحل‘ ڈاکٹر کوثر پروین،ڈاکٹر کوثر پروین کی ’رحل‘، اورگزشت و رفت کی کہانیاں ہیں طویل۔کتاب کے آخری حصے میں ’’تصویری البم‘‘ دی گئی ہے جس میں تصویروں میں موصوف کی زندگی سے جڑی ایک تاریخ سمیٹ دی گئی ہے۔

کتاب کی تزئین و صفحہ سازی باسط فگارنے بڑی محنت سے کی ہے۔ سرورق کے تخلیق کار محمد ایاز الدین پٹیل ہیں۔تبریزمحمد کان راجاؔ نے کمپوزنگ کا فریضہ نبھا یا ہے۔17مارچ 2014ء کو منظر عام پر آنے والی صفحات ۸۸۶ پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف 500روپے ہے،جو قارئین کی ہمت افزائی کا باعث بن سکتی ہے۔ اورین پرنٹرس حیدرآبادنے طباعت میں اپنے تجربہ کاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ اردو ادب کی مثبت اور صالح قدروں کے امین،عالم گیر ادب،اورنگ آباد(دکن)کے کتابی سلسلہ۵ کے مدیر عارف خورشیدنے مدیرانہ صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا ہے۔ترتیب و تحقیق،غضنفراقبال، خرم عماد کی ہے۔اُن کی محنت ِ شاقہ’’حمید سہر وردی: شخصیت اورادبی جہات‘‘میں صاف جھلکتی ہے۔مجلس مشاورت میں پروفیسر شاہ حسین نہری،نورالحسنین،ڈاکٹر سحر سعیدی،اسلم مرزا،ڈاکٹر عظیم راہی،ساحر کلیم،جیسے خدمت گارانِ اُردو شامل ہیں۔اور اِسے نوائے دکن پبلی کیشنز’ـبیت العنکبوت‘ پلاٹ نمبر ۷، مجنوں ہلز، رشید پورہ اورنگ آباد(431001)،مہاراشٹرا،کے زیر اہتمام شائع کیا گیاہے۔اور اِس کے ناشر و تقسیم کار گلبرگہ ’’کاغذپبلیشرز‘‘ ہیں، جن کا پتہ ہے:زبیر کالونی، ہاگر گا کراس، رنگ روڈ، گلبرگہ585104(کرناٹک)۔

یہ ہے وہ کتا ب جسے دیکھ کر ایک حسرت سی ہمارے دِل سے بھی اُٹھتی ہے کہ اِس کتاب میں ہم دو سطر بھی لکھنے کے قابل نہ ہوئے۔ خیر یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ لیکن اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے دونوں فرزندان کے دِل میں جو محبت و عزت وعظمت ہمارے لیے موجود ہے وہ ہمارے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ دُعا کرتا ہوں کہ اﷲ اِس کتاب کی قبولیت کو چہار دانگِ عالم میں پھیلادے اور محققین کے لیے ایک نمونہ بنائے اور طلبائے ادب کی خاطر رہنمایانہ دستاویز بھی۔نیز اِن دونوں فرزندانِ حمید کی عمر میں برکت دے اور اِنہیں حمید سہر وردی کا حقیقی ادبی وارث بنائے، اور دُنیا کو علامہ اِقبال کے الفاظ میں یہ کہنے کا کبھی موقع نہ ملے کہ:
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر وارثِ میراثِ پد ر کیوں کر ہو
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83277 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.