جمبوپبلشنگ: اردو ادب کی دنیا میں پہلا قدم

"فیض ہوئے ہیں مر کے امر"[تاریخی و کتابیاتی جائزہ]
جمبو پبلشنگ اشاعتی حلقوں میں جانا پہچانا نام ہے۔ یہ ایک ابھرتی ہوئی پبلشنگ کمپنی ہے جس نےدس سال کے عرصے میں اچھا خاصا مقام بنالیا ہے۔

۲۰۰۵ء میں قائم شدہ جمبو پبلشنگ نے اسپورٹس اور خصوصی طور پر کرکٹ کی موضوع پر بہت عمدہ کتابیں شائع کیں ہیں جو پوری دنیا میں مقبول ہوئیں۔

جمبو پبلشنگ نے اردو ادب کی دنیا میں بھی قدم رکھ لیا ہے اور "فیض ہوئے ہیں مر کے امر " اس سلسلے کی یہ انکی پہلی کاوش ہے۔۴۱۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۲۰۱۴ء میں شائع ہوئی ۔اسے پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ اور میاں محمد سعید نے مشترکہ طور پر مرتب کیا ہے۔

جمبو پبلشنگ کی انفرادیت انکی کتابوں سے نظر آتی ہے۔ ابتدا ہی سے انھوں نے اعلیٰ معیار اپنایا ہوا ہے۔ انکی کتابیں ڈیزائننگ اور پرنٹنگ کے اعتبار سے بہترین تصور کی جاتی ہیں۔ نئے اور نوجوان مصنفین کو موقع فراہم کرنا اور انھیں فروغ دینا بھی جمبو پبلشنگ کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس ادارے سے شائع ہونے والی کتب کی طلب عرصے دراز سے ملکی اور غیر ملکی سطح پر جاری ہے۔

پیش نظر کتاب "فیض ہوئے ہیں مر کے امر" ایک سوانحی کتابیات ہے۔ فیض کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ان تمام تحریروں کے مطالعہ کے بعد ارود ادب میں فیض احمد فیض کا رتبہ متعین کیا جا چکا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کیلئے یہ تصنیف وجود میں آئی۔

اس تصنیف کی مرتبہ ڈاکٹرنسیم فاطمہ پاکستان میں شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کی خاتون اول قرار پائیں۔ انکے شریک کار میاں محمد سعید یہ کتابیات سازی کے ماہر ہیں۔

" فیض ہوئے ہیں مر کے امر" میں اردو ادب کے عصر حاضر میں ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کے بارے میں سوانحی، تاریخی اور کتابیاتی جائزہ لیا گیا ہے۔ مصنفہ پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ سابق صدر شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس ، جامعہ کراچی، نے اردو ادب میں ماسٹرزاور لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس میں پی ایچ ڈی جامعہ کراچی سے کیا۔آپ ۴۰ کتاموں اور لاتعداد تحقیقی و تنقیدی مضامین کی مصنفہ ہیں۔ مضامین، تبصرے اور انٹرویوز مختلف رسائل و جرائد، اخبارات اور ویب سائٹ پر شائع ہو رہے ہیں۔ جامعہ کراچی کے بعد سندھ آرکائیو میں بھی کئی سال خدمات انجام دیں۔ شاگردوں میں تخلیقی ذوق پیدا کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

مشترک مصنف میاں محمد سعید علمی و ادبی ذوق کے مالک ہیں۔ خانوادہ نواب آف بھاولپور سے انکا تعلق ہے۔ بی اے اور ایل ایل بی کیا ادبی خدمات میں سوانحی کتابیات سازی انکا اہم کارنامہ ہے۔ ایک ویب سائٹ
www.bio.bibliography
کے ذریعے ان افراد کو متعارف کرارہے ہیں جنکا تعلق اردو ادب سے ہے۔ جن میں ادباء اور شعراء کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ ویب سائٹ ابتدا میں
Global Urdu Forum
کے نام سے متعارف ہوئی تھی۔ آپ کی تحریریں کئی رسائل و جرائد میں شائع ہو ئیں۔میاں محمد سعید کی کتابی شکل میں یہ پہلی کاوش ہے۔ادبی ذوق اور ادبی خدمات کی وجہ سےبزم اکرم کے تحت شائع ہونے والے رسالے ادب و کتب خانہ کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ آرٹس کونسل، پاکستان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس جرنل اور مختلف انجمنوں کے رکن ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب "فیض ہوئے ہیں مر کے امر" کے مصنفین کے مطابق "پیش نظر کتابیاتی و تاریخی تحقیق کا یہی مقصد ہے کہ فیض کے بارے میں سوانحی، تخلیقاتی و کتابیاتی حقائق پیش کئے جائیں"۔

ڈاکٹر جمیل جالبی اس تصنیف کے پیش لفظ میں بیان کرتے ہیں کہ "کتابیات کی یوں تو بہت سی اقسام ہیں جن میں ایک سوانحی کتابیات بھی ہے۔ نسیم فاطمہ نہ صرف کتابیات کی استاد رہی ہیں بلکہ کتابیات گری کا انکا تجربہ کم وبیش ۳۵ سال پر مشتمل ہے۔ انکی پہلی سوانحی کتابیات ڈاکٹر جمیل جالبی کے بارے میں تھی۔ سندھ میں اردو مخطوطات اور اسکے علاوہ انگریزی میں ببلیوگرافیکل ہیری ٹیج آف پاکستان ۲۰۱۳ء میں شائع ہوئیں۔ میاں محمد سعید بھی کتابیات کے میدان کے کھلاڑی ہیں۔ بایوببلیوگرافی ڈاٹ کا م کے نام سے اردو ادب پر مشاہیر کی کتابیات منتقل کرتے ہیں۔ موجودہ کتابیات کا بغور جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ یہ کتابیات تحقیق میں ایک روشن باب کا اضافہ کرتی ہے یعنی کتابیاتی تحقیق کی عمدہ مثال ہے۔ اسی نوعیت کے تحقیقی کام اگر ادب کی دیگر شخصیات پر بھی کر لئے جائیں تو مستقبل کے محقق کے لئے کام آسان ہو جائیگا"۔
زیر نظر کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے تحریر کیا ہے لکھتے ہیں،" بس یہ کہنا کافی ہے کہ یہ کتابیات ایک مکمل اور جامع کاوش ہے جسکو معیاری بنانے میں ڈاکٹر صاحبہ نے کمال محنت و جستجو سے کام لیا ہے اور محض تصانیف سے قطع نظر ، مضامین و مقالات کے بارے میں اور ان اندراجات کے بارے میں جنھیں "تخلیقات و منتخبات فیض" کے تحت دیکھا جا سکتا ہے۔ معلومات یکجا کرنے کے لئے حد درجہ محنت و مشقت برداشت کی ہے۔ چنانچہ دور افتادہ مقامات سے شائع ہونے والے اور غیر معروف و غیر متعلقہ رسائل و کتب اور اخبارات سے بھی اس کتابیات کےلئے انھوں نے اپنا مفید مطلب مواد جمع کیا۔اس طرح اس کتابیات سے شاید ایسے بھی متعدد اندراجات سامنے آئیں گے جو فیض کے چاہنے والوں اور متلاشیوں کے علم میں بھی نہ ہوں گے۔

ایسی معیاری کتابیات یوں ہی مرتب نہیں ہوجاتی، اس کے لئے مرتب کا فنی شعور، اخلاص و سنجیدگی اور مہارت و تجربہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ جو اس کتابیات میں پوری طرح موجود ہے۔ان مناسبتوں کے باوصف ڈاکٹر نسیم فاطمہ اور ان کے شریک کار میاں محمد سعید کا یہ ایک ایسا کام بلکہ اہم کارنامہ ہے جو مطالعات فیض کے لئے ایسی دیگر موجودہ اور ساتھ ہی مستقبل میں مرتب ہونے والی کتابیات کے وجود میں آنے کے باوجود ہمیشہ ایک ناگزیر ماخذ کا کام دے گا"۔

" فیض: تاریخی و کتابیاتی جائزہ" کے عنوان سے ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے " فیض ہوئے ہیں مر کے امر" کے بارے میں اس تصنیف میں تفصیل سے بیان کیا ہے تحریر کرتی ہیں،" اردو ادب کے عصر جدید میں ترقی پسند شاعری کا نمائندہ مورخین نے فیض احمد فیض کو تسلیم کیا ہے۔ اردو ادب کے یہ وہ ممتاز منفرد شاعر ہیں جنھیں انکی زندگی ہی میں سراہا گیا۔ انھیں سرکاری حلقوں اور عوام الناس دونوں میں مقبولیت کا شرف حاصل رہا۔ انکی خوبصورت تراکیب شعری اور پر اثر مصروں کی داد دیتے ہوئے مصنفین نے اپنی تخلیقات و مطبوعات کا عنوان مصرع کو قرار دیا مثلا "آج بازار میں پابجولاں چلو" ، " بے کسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے"،"وہ تو جب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں"۔

ڈاکٹر نسیم فاطمہ حاصل مطالعہ میں تحریر کرتی ہیں کہ "مستقبل کا محقق سابقہ مطالعہ کے لئے اس کتابیاتی معاون کو مفید پائے گا اور اپنے موضوع سے متعلق حوالے حاصل کرکے تحقیق کی تکمیل کرسکے گا۔ اسکے مطالعہ کے ذریعہ تحقیقی مقالات میں موضوعات کی تکرار سے بچا جاسکے گا۔ فیض کی بیرون ملک پذیرائی سے دیگر شعراء و نثرنگاروں کی ہمت افزائی ہو گی"۔اظہار تشکر میں شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھتی ہیں ،" ہم شہر کراچی کے تمام کتب خانہ داروں، ذاتی ذخائر کے مالکین اور دیگر شہروں میں مقیم ان حضرات کے دلی ممنون ہیں جنھوں نے اس کام میں تعاون فرمایا۔ سید خالد محمود نے جمبو پبلشنگ سے اس کی اشاعت کا اہتمام کرکے فیض کے شائقین پر احسان کیا۔ ہم ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں"۔

یہ کتابیات علمی و ادبی تمام اقسام کےمواد کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے۔ اس کی تخلیق کا مقصد ہے کہ فیض احمد فیض کے بارے میں کتابیاتی، تخلیقی اور سوانحی حقائق کو پیش کیا جائے۔

زیر تبصرہ کتاب کا سر ورق فیض کی زندگی سے بھر پور تصویر سے مزین ہے۔ فیض کی اولین اور آخری تحریریں شامل ہیں۔ انکی وفات پر دنیا بھر کے لوگوں کے احساسات و جذبات کا اظہار اور قطعات وفات شامل ہیں۔ فیض پر اردو، انگریزی، پنجابی، سندھی اور دیگر زبانوں میں تراجم کی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ انکی کی زندگی کا ہر پہلو اس میں جھلکتا ہے۔

یہ تصنیف کتابیاتی تحقیق کا سنگ میل ہے۔ نئے کتابیات سازوں کے لئے ایک رہبر کا کام انجام دے گی۔اس سے طلباء و اساتذہ نیز محققین استفادہ کرینگے۔ سوانحی میدان میں یہ ایک نیا تجربہ ہے جو تحقیق میں معاون و مدد گار ثابت ہوگا۔ شخصی مطالعہ کے ضمن میں اسکی حیثیت مربوط حوالہ جاتی کتب کی ہے۔ جسے ہر جامعاتی و عوامی نیز ادبی کتب خانوں کی زینت ہونا چاہئے۔"فیض ہوئے ہیں مر کے امر" کے مرتبین ڈاکٹر نسیم فاطمہ اور میاں محمد سعید اس اہم کارنامہ پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔