نائلہ کا تعلق امریکہ کی ایک بڑی این جی او سے تھا ۔ جس
کاکام غریب لوگوں کو راشن مہیا کرنا تھا۔ این جی او اور کاروباری حضرات کی
طرف سے اسے باقاعدہ فنڈز آتے رہتے تھے ۔ دو یا تین ماہ بعد نائلہ ملک کے سب
سے مہنگے ہوٹل میں پروگرام کرواتی ۔ اس میں ایک سو کے لگ بھگ غرباء میں
سامان خوردونوش تقسیم کیا جاتا ۔ نائلہ ان غرباء کے ساتھ تصویریں بناواتی
جو اگلے دن ملک کے تمام اخبارت کی زینت بنتیں۔جس کی وجہ سے اس کے فنڈ اور
شہرت میں اضافہ ہو جاتا۔
کل ہونے والا پروگرام بھی نائلہ کی بہت بڑی کامیابی تھی جس میں ملک کی بڑی
کاروباری شخصیات کے ساتھ بڑے بڑے سیاستدان اور وزراء نے بھی شرکت کی تھی ۔
اس پروگرام میں کروڑں کا فنڈ بھی جمع ہوا تھا۔ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے
نائلہ نے کہا تھا کہ اس کابچپن سے ہی خواب تھا کہ ملک سے غربت کا خاتمہ
ہو۔اس نے بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا کہ اسے غریبوں سے پیار ہے اور ان کے
لیے وہ کسی بھی طرح کی قربانی دے سکتی ہے۔
اب وہ اپنے بنگلے کے لان میں بیٹھی بڑے فخر کے ساتھ اخبارات میں اپنی
تصویریں اور صحافیوں کے اس کی ذات کی عظمت پر تبصرے پڑھ رہی تھی۔ ان تبصروں
میں اسے رحم دل،مخلص اور غریبوں کی غم خوار کے القابات سے یاد کیا گیا
تھا۔کہ اچانک اسے ایمبولینس کے سائرن کی آواز کے ساتھ گلی میں لوگوں کا شور
سنائی دیا ۔ نائلہ نے اپنے نوکر فضلو کو بلا کر پوچھا کہ باہر کیا ہوا ہے۔
فضلو نے بتایا بیگم صاحبہ پچھلی گلی میں رہنے والے جید ہ جو کئی دنوں سے آپ
سے راشن اور کچھ پیسوں کا سوال کرتا رہتا تھا اور آپ نے اس جھوٹا کہہ کر
گھر سے دھکے مروا کر نکلوا دیا تھا اس نے غربت اور بھوک کے ہاتھوں تنگ کر
اپنی تین بیٹیوں ایک بیٹا اور بیوی کو مار کر خود کشی کر لی۔ |