بلوچستان میں لسانی تنازعات کی
ایک نئی لہر اٹھی ہوئی ہے اور اس لہر میں پشتون یا بلوچی عنصر ہی شامل نہیں
ہے بلکہ قبائلی تنازعات ، لسانی مسائل (بلوچی و براہوئی) اور قبائلی
سرداروں میں حکومت پاکستان سے سیاسی و معاشی مفادات حاصل کرنے رجحان بھی
شامل ہے۔ افغانستان میں امریکی کاروائی کے بعد شمالی بلوچستان میں پشتون
آبادیوں میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب زور پکڑتا مذہبی رجحان بھی بلوچستان
کے مسائل میں ایک اہم مئلہ بن کر کھڑا ہے۔ تاریخ بلوچستان کے مصنف گل خان
نصیر کے مطابق زمانہ قدیم میں قلات اور قلات کے گردو نواح پر سیوا نامی ایک
قدیم ہندو خاندان کی حکومت تھی جو غالباََ دراوڑوں کی زبان بولتے تھے ،
سورارب ، خصدار اور کرخ وغیرہ میں جاموٹ آباد تھے ، بلوچوں کا یہ نو وارد
کہستانی قبیلہ جو برزکوہی قبیلہ نام سے مشہور ہوا رفتہ رفتہ داروڑی زبان کے
لفظ سے بگڑ کر بر وہی یا براہوئی ہوگیا۔ جبکہ انوررومان لکھتاہے ’’براہوئی
بلوچ یگانگت کانظریہ حال ہی میں میر گل خان نصیر اور ملک صالح محمد نے پیش
کیا لیکن یہ قیاس کرناکہ براہوئی بلوچ ہیں ایسے ہی غلط ہوگا جیسے یہ کہناکہ
وہ عرب افغان ہیں یاایرانی ہیں ۔(حوالہ براہوئی نسائی ادب کاتحقیقی وتنقیدی
مطالعہ ایم فل مقالہ عبدالقیوم بیدار براہوئی اکیڈمی رجسٹرڈ کوئٹہ پاکستان
ص ۱۰۔۱۱)۔ پروفیسر جاید اختر اپنے کتاب براہوئیات میں لکھتے ہیں "براہوئی
کے متعلق دراوڑی نظریہ دنیا بھر کے ماہرین لسانیات میں ایک متفقہ نظریہ ہے
کہ براہوئی دراوڑی زبانوں کے خاندان میں شمال مشرقی دراوڑی گروہ سے تعلق
رکھتی ہے۔ جیسا کہ ایم ایس انڈرونوف تحریر کرتا ہے:
"According to the modern conception Brahui belongs to the north-western
group of the Dravidian languages. It is ppearantly most closely related
to the north-eastern group of these langueges, which includes Malto and
Kurukh."(86)
براہوئی زبان کے متعلق نہ صرف یہ رائے ہے بلکہ براہوئی قوم کو بھی دراوڑی
تسلیم کرلیا گیا ہے جیسا کہ مشہور ماہر لسانیات (Anthropologist) ٹامس
آرٹراٹ مین براہوئی قوم اور شمالی ہند کے دیگر دراوڑی لوگوں کے مابین نسلی
رشتوں کو واضح کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے:’’تقریباً دو لاکھ براہوئی بولنے
والے لوگ پاکستان کے قلات، خیرپور اور حیدرآباد اضلاع میں مکمل طور پر
ایرانی اور ہندو آریائی زبانوں میں محصور ہیں اور اپنے قریب ترین لسانی
رشتہ داروں سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر جدا ہیں۔‘‘(۸۷)
کچھ مقامی دانشوروں نے براہوئی کو دراوڑی تو قرار دیا مگر وہ دراوڑی کو
سامی النسل یا دراوڑی و سامی کو ہم نسل تصور کر بیٹھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ
اس وقت تک دراوڑی نسل پر تحقیق اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اور اس کو بحیرہ
رومی یا بحر شامی (Meditarranian) فرض کیا گیا۔ اور یہ نظریہ جیمز ہورنل
(James Hornell) نے پیش کیا، اس سلسلے میں اس کے مندرجہ ذیل الفاظ ملاحظہ
فرمائیے: ’’وہ بحیرۂ روم کے آس پاس یا گرد و نواح کی نسل سے تعلق رکھتے تھے
اور ایک مدت تک عراق میں رہے، جب اکادیوں (Akadians) اور سامیوں کی طرف سے
دباؤ پڑنے لگا تو براہ بلوچستان (جہاں ان کی ایک زبان، براہوئی اب تک موجود
ہے)، ہندوستان میں داخل ہوئے اور سندھ و گنگا کی وادیوں کے کنارے پھیل گئے۔‘‘(۸۸)
براہوی ریاست قلات اور براہوئی حکمران امیر میرو خان میرواڑی براہوئی نے
۱۴۰۱ ء میں براہوئی ریاست کے بنیاد ڈالی کچھ عرصہ انکے موت کے انکے
جانشین امیر محمدعمر خان میرواڑی براہوئی نے حکومت کی ڈورسنبھالی ’’میر جلب
خان چٹھو لاسی ‘‘ نے براہوئی حکومت پر لشکر کشی کی امیر محمد خان براہوئی
جاں بحق ہوئے ۔۱۴ سال ’’میر جلب خان چٹھو لاسی ‘‘ قلات میں بر سر اقتدار
ہوئے ۔بعد ازاں میر محمد عمر خان براہوئی کے فرزند میر بجار خان براہوئی نے
واپس اپنے تخت پر قابض ہوئے ۔کچھ عرصہ انکے موت کے انکے بعد جانشین
امیرابراہیم و حسن میرواڑی براہوئی نے حکومت کی ڈور سنبھالی۔ ۱۶۶۶ میں
اقتدار ا براہوئی احمد زئی قبیلہ کا سپرد ہوا اسی طرح ۱۴ اگست ۱۹۴۷ تک قلات
کے شاہی خاندان براہوئی قوم تھا۔۱۸۹۰ تک ریاست قلات کو براہوئیستان یا
براہوئی ریاست قلات کہتے تھے ۔برطانیہ حکومت نے براہوئی ریاست سے جن علاقہ
جات کو لیز پر لیاتھا انکو (بلوچستان ) کے نام دیا ۔یہی کام نام انگریزی
حکومت کے مفاد میں تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ براہوئی ریاست قائم
رہیں ، ۱۹۷۰ میں جب ون یونٹ ختم ہوا تو کچھ پشتون بیلٹ کو اور تمام براہوئی
ریاست یا براہوئستان کو بغیر رائے شماری کا بلوچستان نام دیا اس نام سے
زیادہ تر براہوئی قوم کو نقصان ہورہا ہے ۔براہوئی نوجوان بلوچیت کے نام پر
قتل ہورہے ہیں ۔براہوئی زبان بلوچیت کے مفاد کے خاطربے پرسان حال ہیں ۔
بلوچستان کا رقبہ347190کلومیٹر اور آبادی7.914ملین افراد پر مشتمل ہے ۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے طور پر بلوچوں کے کچھ خاص قبیلوں کا نام
لیا جاتا ہے لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ،بلوچ دوسری قوموں کے
مقابلے میں اقلیت میں ہیں ۔ براہوئی ریسرچ انسٹی تیوٹ کے چیئرمین ماہر
بشریات و لسانیت نذیر شاکر براہوی کے مطابق ایک قدیم ترین لسانی اور نسلی
باقیات رکھنے والی قوم ( براہوی) کا نام بلوچستان میں شجر ممنوعہ ہے ، جو
اپنے نام یا کام کے ساتھ براہوی استعمال کرتے ہیں ان کے سامنے رکاؤٹوں کے
پہاڑ کھڑے کردیئے جاتے ہیں اور ان پر Divde and Rule کا الزام لگا دیا جاتا
ہے حالانکہ سنہ العقیدہ براہوی مسلمانوں کی تعداد 2.7ملین ہے جو سندھ ،
بلوچستان اور افغانستان میں بھی پائے جاتے ہیں اور ان کے مشہور قبائل میں
مہمند، حسینی ،چنگل ، بنگلزئی ، جوگیزئی ، میوانی ، مہمند شاہی نمایاں
ہیں۔جب کسی قوم کی تاریخ پڑھی جاتی ہے تو ماہر لسانیات و تاریخ داں ایسے
اسناد سے جانچتے ہیں اور ایسے عالمی معیار کے مطابق درست انداز میں پیش
کرنے کی کوشش کرتے ہیں، دوسری جانب ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ تاریخ
کو اپنی پسند کے مطابق بنانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ براہوی یا براہوئی
قوم ، بلوچ قوم سے جداگانہ قوم ہے ، براہوی قوم نے 550سال بلوچستان پر
حکومت قائم رکھی اب براہوی قوم کے دانش ور یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں غیردراوڑ
یعنی بلوچ ، آریا ، توارانی اور عرب قرار دینے کی کوشش1931ء سے کی جا رہی
ہے اور بلوچی تحریکوں میں براہویوں کو جوتا جاتا ہے۔براہوی یہ بھی اعتراض
کرتے ہیں کہ ہماری تاریخ کا تہذیبی ورثہ بلوچوں کے نام منتقل کیا جارہا ہے
حالاں کہ 1931ء سے پہلے براہوی قوم کی حکومت بننے تک براہوی عوام بلوچ کے
برعکس براہوی ہونے پر فخر کرتے تھے۔ 20اگست 1749ء کو نصیر خان براہوی قلات
میں حاکم تھے اور ان کی سلطنت افغانستان ایران ، ہندوستان پنجاب ، سندھ اور
پشاور تک تسلیم کی جاتی تھی اور ان کی فوج کو براہوی فوج کہا جاتا تھا ، جس
کے دستہ سراواب کو تین قبائل کے فوجیوں میں تقسیم کیا گیا لیکن بد قسمتی سے
تاریخ کو ایک منصوبے کے تحت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اور براہوی تاریخ
دانوں کے مطابق گلی خان نصیر نے براہوی حکومت میں بلوچوں کو ناجائز حیثیت
دینے کیلئے براہوی تاریخ کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی جس کی وجہ سے عظیم
تر بلوچستان کے مفروضے پر کام شروع ہوا، جب سندھی بلوچ یوسف عزیز مگسی کو
انگریزوں نے 1931ء میں گرفتار کیا تو انہوں نے ایک سیاسی تنظیم انجمن اتحاد
بلوچاں کی بنیاد ڈالی اور یہی سے براہوی اور بلوچ نوجوانوں کو سیاسی مقاسد
کیلئے اکٹھا کیا گیا ،جبکہ پشتون اور سندھیوں نے اپنی ملی شناخت کو برقرار
رکھتے ہوئے انگریزوں کے خلاف جدوجہد قائم رکھی۔ 11اگست1947ء جب یہ طے پایا
گیا کہ برطانوی اقتدار اعلی کے ختم ہوتے ہی ہندوستان کی ریاستیں آزاد اور
خود مختار ہونگی اور اپنے لائحہ عمل کے مطابق آزاد ہونگی اس ایک نقطے پر
میر احمد یار خان نے ریاست قلات کی آزادی کا اعلان کیا اور جمعہ کے خطبے
میں بار بار عظیم تربلوچستان کی بات کی مگر جب 7اور17مارچ 1948ء کو لسبیلہ
اور مکران کی ریاستیں پاکستان میں شامل ہوگئیں تو بعد میں میر احمد یار خان
جو عظیم تر بلوچستان کا خان اعظم بننے کا خواب دیکھ رہا تھا تو اپنی ریاست
قلات کو 27مارچ 1948ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔بلوچستان
ایک قوم اور ایک زبان کا سیاسی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا تو اس سے ان کے
سپردکاروں نے یہ وطیرہ بنالیاہے کہ بیرونی عناصر جس میں بھارت پیش پیش ہے ۔
اسٹرٹیجک طور پر اہم بلوچستان میں لسانیت ، قومیت ، عصبیت اور فرقہ واریت
کے نام پر وحدت پاکستان کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔بلوچستان عظیم تر ہے
کیونکہ وہ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم سب صوبہ ہے اور اس میں مختلف
اکائیاں بستی ہیں ۔جن کا اتحاد توڑنے کا مقصد پاکستان کو تقسیم کرنا ہے
ہمیں اس سازش کو سمجھنا ہوگا۔
|