بھارت کا جارہانہ اور پاکستان معذرتانہ رویہ؟
(Mir Afsar Aman, Karachi)
بھارت نے پاکستان کو کبھی بھی دل
سے تسلیم نہیں کیا۔کوئی بھی موقع ہو پاکستان کونقصان پہنچانے سے پیچھے نہیں
ہٹتا۔کچھ دن پہلے توبے وقوفی کی توحد کر دی۔ دنیا میں بھارت کی جگ ہنسائی
بھی ہوئی۔ ہوا یوں کہ ایک کبوتر پاکستان سے اُڑ کر بھارت پہنچ گیا۔ بھارت
میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ کہا گیا یہ کبوتر پاکستان نے جاسوسی کے لیے
بھیجا ہے۔ کبوتر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی پھر اُس کا ایکسرے کیا تھا جب
کچھ نہ ملا اور ملنا بھی کیا تھاتو نتیجہ نکلا کہ کبوتر ویسے ہی بھارت کی
حدود میں آ گیا تھااس طرح بے چارے کبوتر کی گلوخلاصی ہوئی۔اب ایک مسلمان
باپردہ خاتون کو جاسوسی کاالزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا ہے اُس سے پوچھ
گچھ ہو رہی ہے۔بھارت کا ایسا جارہانہ رویہ شروع سے ہے بھارت میں کوئی بھی
واقع رونماہ ہو جائے بھارت کی حکومت اور بھارت کا میڈیا بغیر ثبوت کے
پاکستان اور خاص کر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام لگا دیتا
ہے۔ الزامات کی اس آڑ میں خود پاکستان میں تخریبی کاروائیاں کرتا رہتا ہے۔
مودی صاحب نے ڈھاکا میں بیان دیا ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش بنانے میں مکتی
باہنی بنا کر اور اُسے ٹرنینگ دے کے اور بلا آخر بھارت کی فوجیں سابقہ
مشرقی پاکستان میں داخل کر کے بنگالیوں کی بنگلہ دیش بنانے میں مدد کی تھی۔
اس سے قبل اندرا گاندھی صاحبہ نے بنگلہ دیش بنانے پر کہا تھاکہ میں نے
مسلمانوں سے بھارت پر ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی
نظریہ بحر ہند میں ڈبو دیا ہے۔ بھارت اب بھی پاکستان کو توڑنے کے لیے
سازشیں کر رہا ہے۔ افغانستان کے سرحدی پٹی پر درجنوں کونسل خانے کھول کر
وہاں سے بلوچستان میں تخریب کاری کر رہا ہے۔کراچی کو ہی لیجیے جو ۱۹۷۱ ء
میں بنگلہ دیش بنانے کے بعد اس کا ہدف ہے اپنے ایجنٹ الطاف حسین صاحب کی
پیٹھ ٹھوکتا رہتا ہے کراچی میں افراتفری کے لیے پیسے سے اس کی مدد کرتا رہا
ہے اور کر رہا ہے۔ جس کا ثبوت حال میں ہی ایم کیو ایم کے راہنما محمد انور
نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے دیا ہے کہ ایم کیو ایم بھارت سے پیسے لیتی رہی
ہے جس پر محمدانور کو ایم کیو ایم سے حال ہی میں نکال بھی دیا گیا ہے۔اس کے
ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے کارکن بھارت سے ٹرنینگ بھی لیتے رہیں ہیں جس کا
ثبوت ر اؤ انوا ر صاحب پولیس آفیسر نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو میڈیا کے
سامنے پیش کر کے دکھادیا۔بھارت نے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
سیاچین پر قبضہ کیا۔ڈکٹیڑمشرف کے دور میں در اندازی کے بہانا کرتے ہوئے
کشمیر کی کنٹرول لین پر لوہے کی کانٹوں کی باڑ لگائی۔ذرا ذرا سی بات
پربہانے بنا کر مذاکرات کو یکسر ختم کر دیا ہے۔ پاکستان کا مؤ قف ہے کہ
بھارت نے جنگ کے ذریعے کشمیر پر جارہانہ قبضہ کیا ہے اس سے اپنی فوجیں واپس
بلا کر اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں رائے
شماری کرائے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کہ ساتھ
رہنا چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں کیے گئے اپنے وعدے پر عمل کرنے کے بجائے
بھارت اب کہتا پھرتا ہے کہ آزاد کشمیر بھی میرا حصہ ہے پاکستان مجھ سے اس
پر بات کرے۔سندھ طاس معاہدے پر عمل کرنے کے بجائے پاکستان کے دریاؤں پر غیر
قانونی ڈیم بنا لیے ہیں جب چاہتا ہے پاکستان کی طرف پانی چھوڑ کر سیلابی
کیفیت پیدا کردہ کر ہے۔پاکستان کو مجبور کر دیا کہ کشمیر پر بات کرنے کے
بجائے پانی پر مذاکرات کرے۔مطلب جعلی مذاکرات کا ڈول ڈال کر اور اسے طوالت
دے کر آج پاکستان کو دفاہی پوزیشن پر لے آیا ہے۔پاکستان ہر وقت مذاکرات
مذاکرات کی بات کرتا ہے بھارت اپنی مرضی سے مذاکرات کی کبھی بات کرتا ہے
کبھی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مذاکرات کنسل کر دیتا ہے اور پاکستان بغلیں
بجاتا رہتا ہے۔پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان بھارت کی عوام کے
درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنے کی بات کرتا ہے۔کبھی آلو پیاز کی تجارت کی
باتیں کرتا ہے۔کبھی فلم اسٹاروں اور ثقافتی وفود کے تبادلے کی باتوں میں
پاکستان کو مصروف رکھتا ہے۔ اپنے ایجنٹوں سے کہلواتا رہتا ہے ہم ایک ہیں
ہمارا رہن سہن ایک جیسا ہے ۔اور اصل مسئلے سے توجہ ہٹائے رکھنے کی پالیسی
پر عمل کرتے کرتے پاکستان کو اُلجھائے رکھتا ہے۔ ہمارے موجودہ نادان حکمران
بھی بنیے کی اس چال میں نادانستہ پھنس کر کہتے ہیں پاکستان اوربھارت میں
صرف ایک لکیر کا فرق ہے باقی دونوں قومیں ایک ہیں۔ مگر پاکستان کے خالق
حضرت قائد اعظم ؒ نے کہا تھا برصغیر میں دو قومیں ہیں دونوں کے الگ الگ
مذہب ہیں ایک قوم صرف ایک خدا پر یقین رکھتی اور دوسری قوم کے لاتعداد
خداہیں ایک قوم گائے کوذبح کرتی ہے اور کھاتی ہے جبکہ دوسری قو م گائے کی
پوجا کرتی ہے اور اِس پیشاب پیتی ہے۔ دونوں قوموں کے رہن سہن ایک دوسرے سے
الگ ہیں ان کے قومی ہیرو الگ الگ ہیں۔اسی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا
تھا اگر پاکستان کو ہمارے حکمرانوں نے قائم رکھنا ہے تو اسی نظریہ پر عمل
کرنا ہو گا۔ اسی کو نظریہ پاکستان کہتے ہیں اور یہ ہی پاکستان کی بقا کا
ضامن ہے۔ باقی سب نظریے پاکستان کی بیچکنی کرنے والے نظریے ہیں۔اﷲ نے
پاکستان کو ایٹمی قوت عطا کی ہے۔ہمارے حکمرانوں کے پاس عصا موسوی ہے اور وہ
مصنوعی سانپوں سے ڈر رہے ہیں۔پاکستان کے حکمرانوں سے گزارش ہے کہ بھارت کے
ساتھ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں ہمیشہ برابری کی سطح کے مذاکرات پر تیار
ہوں ورنہ نہیں۔بھارت کے جارہانہ رویہ کے سامنے معذرتانہ رویہ تبدیل کریں۔
کہاں بھارت سے کشمیر پر بات ہوتی تھی اور کہاں اب بھار ت کے دورے پر ہمارے
سلامتی کے مشیر جائیں گے یعنی بھارت اپنی سلامتی کے لیے ہم سے بات کرے گا
نام نہاد ممبئی ہوٹل حملے ،گرداس پور حملہ اور دہشت گردی پر بات ہو گی
کشمیر کا ذکر نہیں ہو گا۔ ٹھیک ہے ہم بھی پاکستان کی سلامتی کی بات کریں
گے۔لیکن کیا ہم نے بنگلہ دیش میں پاکستان توڑنے کے مودی کے بیان پر تیاری
کر لی ہے؟کیا ہم نے سمجھوتہ ٹرین اور اُس جیسے دوسرے واقعات و حادثات جو
بھارت میں رونما ہو چکے ہیں کی تیاری کر لی ہے؟کیا پاکستان میں بھارت کی
دہشت گردی کے ثبوت ساتھ رکھ لیے ہیں؟ کیا بھارت کی ایم کیو ایم کے کارکنوں
کو دہشت گردی کی ٹرنینگ اور فنڈنگ کے ثبوت کی تیاری کر لی ہے؟کیا بھارت کی
آبی دہشت گردی کی تیاری کر کے جا رہے ہیں؟ہمیں اپنے سپہ سالار کی طرح کھل
کر کشمیر پر بات بھی کرنی چاہیے چاہے کچھ بھی ہوئے کشمیر ہماری شہ رگ ہے جس
پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے ہمارا کیس مضبوط ہے اقوام متحدہ میں
بھارت خود گیا تھا اُس نے کشمیر میں رائے شماری کرانے کا پوری دنیا،
کشمیریوں اور پاکستان سے اپنا وعدہ پورا کرنا پڑے گا۔ ہم حکمرانوں سے
سدرخواست کرتے ہیں کہ بھارت کے جارہانہ رویہ کے خلاف معذرتانہ رویہ سے
پرہیز کریں برابری اور انصاف کی بنیاد پر مذکرات کریں۔اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ |
|