پاکستان ۔۔۔فاتحِ عالم

فاتحِ عالم بننا ہر سلطنت کا خواب رہا ہے اور بڑی حد تک اب بھی ہے۔ کبھی یونانی فاتحِ عالم تھے ، کبھی رومی ، کبھی عرب، کبھی انگریز اور کبھی امریکہ۔ دنیا کے کئی ایک ممالک فاتحِ عالم بننے میں اپنی اپنی باری لے چکے ہیں، اور کئی اپنی باری کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔اس وقت چین فاتحِ عالم بننے کی پوری پوزیشن میں ہے۔کبھی روس اور کبھی جرمن بھی فاتحِ عالم کا تاج سر پر سجانے کے ادھورے خواب دیکھ چکے ہیں۔برِصغیر دنیاکے زراور مردم خیز علاقوں میں سے ایک ہے، لیکن یہ علاقہ ہمیشہ انکساری اور عاجزی کی زندہ تصویر ہی بنا رہا ہے۔ اس علاقے پر کبھی آریہ حملہ آور ہوئے تو کبھی یونانی، کبھی افغانوں نے یہاں کی ہواؤں میں آہ و فغاں کے بین بکھیرے تو کبھی مغربی ممالک نے اس دھرتی کے سینے کو اپنی توپوں کے گولوں سے چھلنی کیا۔لیکن ستم یہ کہ اس شرافت کی منہ بولتی راج کماری نے کبھی اپنا کوئی ایودھا کسی غیر ملکی دھرتی پر سامراجیت کے لئے نہیں بھیجا۔ پاکستان اسی علاقے کا ایک ابھرتا ہوا ’گبر و‘ہے۔ اس علاقے کے دوسرے ممالک میں بھارت اور بنگلہ دیش ہیں۔ یہ تینوں ممالک آپس میں اچھے تعلقات نہ رکھنے کے باعث اپنی عوام کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ کر چکے ہیں اور مذید کی توقع ہی نہیں یقین دہانی بھی موجود ہے۔

پاکستان کا سب سے قریبی ہمسایہ بھارت ، پاکستان کا دشمن نمبر ایک ہونے کا پورا پورا ثبوت فراہم کرتا ہے: مشرقی پاکستان کی علیحدگی، بلوچستان کا موجودہ انتشار، سندھ میں بد امنی، کالا باغ نہ بننے دینا،افغانستان میں پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں،عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا، وغیرہ ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کی تاریکی میں بھارت کی پاکستان دشمنی ایک تاریک حقیقت کی طرح اپنا وجود بہت آسانی سے منوا لیتی ہے۔بنگلہ دیش اور افغانستان کے ساتھ تعلقات تغیر کا شکار رہتے ہیں،کبھی صلحانہ اور کبھی معاندانہ۔اس ساری فضامیں چین ، چودھویں کے چاند کی طرح پاکستان کی تاریکیوں میں روشنی بکھیرتا نظر آتا ہے۔ اور اﷲ کے بعد اس زمیں پر وہی پاکستان کا سب سے بڑا سہارا اور گزارہ ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان کے اپنے اندر دشمنوں کی کون سی کمی ہے۔ کرپشن کا بازار گرم ہے،اور گناہوں کی صفائی کا حمام بھی گرم ۔ جتنی مرضی کرپشن کر لین، مملکتِ خدا داد کو فرق ہی نہیں پڑتا۔ سب سے زیادہ کرپشن کرنے والے یہاں سب سے زیادہ معزز ہیں۔’چور، اچکا چوہدری، غنڈی رن پردھان‘۔ یہ ہے ہمارا پیارا پاکستان۔ہر شاخ پے الو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہوگا۔یہ بات تو میرا خیال ہے الوؤں پر تہمت ہے، وہ بیچارے گلستان کو کیا کہتے ہیں۔ الوؤں میں اگر کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی تو لوگ ان کو ’الو ‘ کیوں کہتے۔برباد کرنے کے لئے بڑے بڑے ماسٹر مائنڈ وں کی ضرورت ہوتی ہے، الوؤں کا یہ کام نہیں ، وہ تو انسانوں کی نحوست کی نشاندہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

ایسی حالت میں پاکستان کے فاتحِ عالم بننے کی بات مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟

لیکن یقین کریں یہ بات اپنی جگہ اتنی بھی بے وزن یا بے حیثیت نہیں کہ اسے اٹھا کے چھت پے پھینک دیا جائے۔ میں آپ کو یقین دلانے کی تھوڑی سی کوشش کرتا ہوں،اور اگر آپ نہ مانے تو پھر میں بھر پور کوشش کروں گا ۔

میری پہلی مضبوط دلیل یہ ہے کہ اتنے نا مساعد حالات کے باوجود ،جب پاکستان کے اندر اور باہر دشمنوں کی کمی نہیں،اگر پاکستان ایٹمی طاقت بن سکتا ہے ، تو سپر پاور یا فاتحِ عالم کیوں نہیں بن سکتا؟ بالکل بن سکتا ہے۔آخر فاتحِ عالم بننے کی پہلی شرط ایٹمی طاقت بننا ہی تو ہے۔ جب پہلی شرط پوری ہو گئی ہے، تو کسی روز آخری بھی ہو جائے گی۔

کسی بھی کام کے ہونے میں سب سے پہلے حالات کا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا ایسے حالات ہیں کہ پاکستان فاتحِ عالم بن سکے ؟ یا ایسے حالات کیسے پیدا ہو سکتے ہیں؟ہم اس پر بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ امریکہ بہادر کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں اور سپر پاور یا فاتحِ عالم کی نشست خالی ہو ، تب پاکستان سپر پاور ہو سکتا ہے۔ تو کیا امریکہ کے ہاتھ پاؤں پھول نہیں چکے؟ بالکل پھول چکے ہیں، اور تھوڑے بھی نہیں بلکہ بہت زیادہ۔ اس سے تو اپنی وسیع فوج کی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہیں۔ اور وہ حیلوں ،بہانوں سے عرب ممالک میں فوج کشی کر کے اپنے اخراجات پورے کر رہا ہے، اور کبھی تو اسے اپنی فوج کے بعض حصوں کے فالتو ہونے کا یقین بھی آ جاتا ہے اور کئی ہزار فوجیوں کو فارغ بھی کر چکا ہے۔ اس کی معیشت کا دیوالیہ نکلا ہوا ہے لیکن ابھی آخری سانسیں باقی ہیں۔امریکی ریاستوں میں بھی یو ایس ایس آر کی طرح علیحدگی کے جذبات فروغ پا چکے ہیں۔دوسرا قانونِ فطرت بھی اپنی تکمیل کرنے کو بے قرار ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔لہٰذا سپر پاور یا فاتحِ عالم کی نشست خالی ہونے کو بالکل تیار ہے۔اس لئے پاکستان کے سپر پاور بننے کے امکانات بہت یقینی ہیں۔

آپ کہیں گے کہ اگلا فاتحِ عالم تو چین ہو گاکیوں کہ اس تناظر میں وہ دنیا پر چھائے جا رہا ہے
1۔ آپ اس کا بھی جواب سن لیں۔چین کے لوگوں کی ایک نفسیات ہے۔ہر قوم کی ایک نفسیات ہوتی ہے۔ چین کی نفسیات میں حکمرانی کی بجائے صلح ، امن اور دوستی ہے۔ چینی لوگ کسی کے گھر مہمان بھی جائیں تو مہمان بن کے نہیں بیٹھتے بلکہ میزبان کے ساتھ کام کاج کرنے لگتے ہیں ۔ جو قوم مہمان جتنا اخلاقی رعب اپنے میزبان پر نہیں ڈال سکتی وہ فاتحِ عالم بننے کا ارمان کیوں کر کرے گی۔دوسرا وہ معاشی سکیموں پر زیادہ مرکوز ہیں، وہ کاروباری سطح پر کامیاب ہیں اس لئے وہ سیاسی سطح پر دوسروں کا وبال اپنے گلے کیوں ڈالیں گے۔تیسرا یہ کہ وہ قد کاٹھ میں اتنے بارعب نہیں کہ اقوامِ عالم ان کو اپنا حکمران نفسیاتی سطح پر قبول کر سکیں اس لئے ان کے فاتحِ عالم بننے کا جواز بہت کم ہے۔ لہٰذا اب فاتحِ عالم بننے کی باری پاکستان ہی کی ہے۔ اگر آپ اب بھی نہیں مانے تو بات آگے بڑھاتے ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر چین فاتحِ عالم بننے میں دلچسپی نہ لے گا تو کوئی اور مغربی ملک جیسا کہ فرانس، جرمن یا برطانیہ ہیں ، سپر پاور بننے کا زیادہ اہل ہوگا۔ ہم آپ کو اس کاجواب بھی سنا دیتے ہیں۔فرانس ایک پڑھا لکھا ملک ہے۔ ساری دنیا کی مصیبت اپنے سر لینے کی وہ غلطی ہر گز نہیں کرے گا۔ ویسے بھی یورپی ممالک انسانی حقوق، اور شخصی آزادی میں اتنا آگے جا چکے ہیں کہ ان کے نزدیک فاتحِ عالم کوئی بڑی چیز نہیں ہے۔ وہ اگر ایسا کرے گا تو یہ بات انقلابِ فرانس کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہو گی۔ وہ دنیا سے ملنے والی اتنی بڑی نیک نامی کے بدلے ساری دنیا کی رسوائی کیوں مول لے گا۔دوسرا وہاں کے لوگ بہت زیادہ انٹیلیک چوئل ہیں۔ فاتحِ عالم کا منصوبہ بنتے بنتے وہاں اس کے خلاف کوئی نہ کوئی تحریک چل نکلے گی اور فاتحِ عالم بننے کا خواب ،تعبیر آور نہیں ہو گا۔

جہاں تک جرمن کا تعلق ہے تو اس کے دانت پہلے ہی کھٹے ہو چکے ہیں بلکہ نکالے جا چکے ہیں۔ نہ بیسویں صدی جیسے حالات پیدا ہوں، نہ عظیم جنگوں کا ماحول بنے، اور نہ کوئی دوسرا ہٹلر آئے، نہ جرمن دنیا پر حکومت کرنے کے خواب سجائے۔ یورپی ممالک کو اس وقت آپس میں لڑانا اتنا مشکل ہے جتنا سورج کو مغرب سے طلوع کرنا۔وہ پڑھی لکھی اقوام اب شخصی آزادی کی اتنی قائل ہو چکی ہیں کہ اتنی نہ خدا کی قائل ہیں نہ آخرت کی۔یہ شخصی آزادی کی نفسیات انہیں کسی طرح بھی فاتحِ عالم بننے کا درس نہیں دے سکتی۔ویسے بھی وہ اس میدان میں نہیں کودے گا کیوں کہ اتنی بڑی دنیا کو اچھی زندگی سپلائی کرنا کسی بھی ذمہ دار شخص کے لئے پریشانی کا مسئلہ ہے۔ وہ اپنا سکون کیوں برباد کرے گا۔ جرمن ایسا یا تو سوچے گا نہیں اور اگر سوچے گا تو کرے گا نہیں اور اگر کرے گا تو کامیاب نہیں ہو گا کیوں کہ اگر اسے کامیاب ہونا آتا ہوتا تو پچھلی صدی میں ہی ہو جاتا۔اس لئے اب فاتحِ عالم کی فہرست میں جرمن کا نمبر بہت نیچے جا چکا ہے۔اور آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے تو اسے تو ابھی تک اپنی بقا کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ کہاں اس کی سلطنت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا ، اور اب کہاں سکاٹ لینڈ بھی علیحدگی کے لئے ریفرنڈم کروا رہا ہے۔ اور آہستہ آہستہ عوامی رائے علیحدگی کے حق میں استوار ہو جائے گی۔ اس طرح برطانیہ ابھی اپنے سکڑنے کے عمل سے دوچار ہے اگر بچ گیا تو پھر بھی اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ دنیا پر حکومت کا مزہ چکھ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ لطف اتنا سستا نہیں۔ویسے تاریخی طور پر بھی برطانیہ دوبارہ فاتحِ عالم نہیں بنتا ۔ فطرت ایک قوم کو اس طرح کے مواقع ایک سے زیادہ بار دیتی ہی نہیں۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ کبھی یونان سپر پاور تھا اور آج اس جتنا کنگال یورپ کا کوئی دوسراملک نہیں۔ اسکا تو دیوالیہ نکلا ہوا ہے، کبھی رومی سپر پاور تھے اور پھر ان کی طاقت سمٹتی چلی گئی۔کبھی ایران علاقے کا ’ہوا‘ ہوا کرتا تھا اور پھر اس کی ہوا بھی نکل گئی اور ابھی ابھی اس نے عالمی پابندیوں سے مشکل سے جان چھڑائی ہے۔دنیا میں کوئی قوم ایک سے زیادہ بار سپر پاور نہیں بنی۔ اس لئے برطانیہ کے فاتحِ عالم بننے کا خوف کسی کی نیند حرام نہیں کر سکتا۔ان سارے حالات میں فاتحِ عالم کی باری پاکستان کے سر ہی آتی نظر آتی ہے۔

آپ اب بھی کہیں گے کہ ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ ہمارا ہمسایہ بھارت ہم سے کئی گنا زیادہ پاور رکھتا ہے۔ ہم سے پہلے وہ سپر پاور یا فاتحِ عالم بن جائے گا۔ لگتا ہے مجھے آپ کے اس خیا ل کو بھی باطل ثابت کرنا پڑے گا ۔ جو آدمی نہ ماننے کا ارادہ ہی کر لے اس کا کیا ،کیا جا سکتا ہے۔لیکن منطقی بات کی پھر بھی اہمیت تو ہوتی ہے۔ دیکھیں بھارت بے شک ہم سے کافی بڑا ہے اور اس کی طاقت بھی ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اس کے مسائل بھی تو ہم سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ اس کی غربت ہی قیامت تک ختم نہیں ہونی۔ پھر اس کے اندر بہت انتشار ہے۔ مختلف اقوام اپنی اپنی آزادی کی منتظر ہیں۔ لیکن حکومت ا ن کو اپنے پر پرزے نکالنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ دوسرا ہمسایہ ممالک بھارت کے اندر اپنی خفیہ ایجنسیوں کو متحرک نہیں کر رہے۔ انڈیا کو ٹوٹنے کا بہت برا خطرہ درپیش ہے۔ کچھ سال پہلے تو مشرقی پنجاب ٹوٹتے، ٹوٹتے بچا ہے۔ اس وقت بھی اس کا بھارت کے ساتھ جوڑ مضبوط نہیں بس وقتی الفی ہے جو کسی بھی زور کے وار سے اتر جائے بھی اور بھارت کا اندرونی انتشار بیرونی گڑ بڑ کی شکل اختیار کر لے گا۔تیسرا بھارت کے اندر کئی ایک قوموں کا کسی ایک نکتے پر اکٹھے ہونا محال ہے خاص طور پر زمینی دوری کی شکل میں کیوں کہ اس وقت کا اتحاد تو زمینی مجبوری ہے۔ مرتا ، کیا نہ کرتا۔ چارونا چار کچھ علاقے اس کے ساتھ ہیں۔ دلوں کی نفرت ان کے چہروں سے پڑھی جا سکتی ہے۔چوتھا ان کا مذہب یعنی ہندو ازم اپنے اندر ایسی جان نہیں رکھتا کہ جدید سائینسی ذہن کو مطمئن کر سکے۔ اس کی ثقافت اپنے علاقوں کی حدود کی محتاج ہے۔ اس میں عالمگیریت نہیں ہے۔ وہ بس بھارت کو اکھنڈ بھارت بنانے کے خواب سے آگے نہیں بڑھے گا اور نہ آج تک بڑھا ہے۔ پانچواں یہ کہ ان کے پاس پٹھانوں کو طرز پر کوئی قوم نہیں ہے۔ پتھر کے احساس والی یہ قوم ماضی میں بھی بھارت کو تاراج کرتی رہی ہے اور اب بھی کر سکتی ہے۔ بھارت ان سے کام تو لے سکتا ہے لیکن لڑ نہیں سکتا۔ وہ ان سے دلی طور پر ڈرتا ہے: دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کے پیتا ہے۔ بھارت تو خود ایک دلدل ہے اس نے فاتحِ عالم کیا خاک بننا ہے۔ باری پاکستان ہی کی ہے۔

اب ہو سکتا ہے کہ آپ کو افریقہ کا خیال آ جائے کہ وہاں سے بھی کوئی فاتحِ عالم نکل سکتا ہے۔اور پاکستان پھر پسِ پردہ چلا جائے۔ کوئی بات نہیں اگر آپ کو قائل کرنے ہمیں افریقہ بھی جانا پڑا تو جائیں گے۔ اب فاتحِ عالم بننے کی باری پاکستان کی ہی ہے۔ دیکھیں افریقہ اپنے مسائل سے دوچار ہے۔ غربت، ناخواندگی، بد امنی، دہشت گردی، وبائی امراض جیسے بڑے بڑے گردابوں سے نکلے گا تو عالمی سطح پر کچھ کرنے کا سوچے گا۔سارے افریقہ میں ایک بھی ایٹمی طاقت نہیں ہے۔تعلیمی معیار کسی خوشگوار مستقبل کی نوید نہیں سنا رہا۔ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وہاں سے تو تین صدیوں تک فاتحِ عالم نکلنے کے امکانات بھی بہت مدھم ہیں۔ اور پھر یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ ان کو حاکم قبول کون کرے گا ۔ ان کے خلاف بغاوتوں کو فوراً سلسلہ شروع ہو جائے گا اور وہ استحکام میں نہیں رہ سکتے۔ ان کی غلامانہ صدیوں کے اثرات ابھی ان کی نفسیات میں کافی گہرے ہیں۔لہٰذا افریقی ممالک کی باری ابھی بہت دور ہے۔

کیا اب آپ مان گئے کہ اب پاکستان ہی فاتحِ عالم بننے کا اصلی اور حقیقی حقدار ہے۔نہیں؟ کوئی بات نہیں۔ اب ہم زمینی حقائق کی روشنی میں آپ کو قائل کرنا چاہیں گے۔کیوں کہ زمینی حقائق سب سے بڑی دلیل ہوتے ہیں۔پاکستانی اس زمانے میں دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے ہیں۔ پاکستانی قریباً ہر ملک میں ملازمت، تجارت وغیرہ۔۔ ہر کام کر رہے ہیں۔ وہ تو بعض ملکوں کی پارلیمنٹ میں بھی اپنی سیٹیں پکی کر چکے ہیں۔ ان کی بیرونی ممالک میں آبادیاں بڑی تیزی سے فروغ پذیر ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ کم از کم دو باتیں ساری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ بھلا کیا؟ ایک پاکستانی کلچر اور دوسری اردو زبان۔ اردو زبان اس وقت دنیا کی بہترین زبانوں میں شمار ہو رہی ہے۔ بہت ساری زبانوں پر اسے کئی ایک پہلوؤں کے لحاظ سے برتری حاصل ہے۔ ہر علاقے میں اردو کے شاعر ،ادیب اور نثاراردو رسالے، میگزین اور کتابیں شائع کر رہے ہیں۔ان رسالوں میں صرف اردو ہی نہیں پاکستان بھی ہے۔ کسی اور ملک کے لوگ دنیا کے اتنے علاقوں تک نہیں جا چکے اور نہ ہی دنیا کی اور کوئی زبان اتنے اہلِ زبان لے کر ، اتنی وسیع دنیا تک رسائی پا سکی ہے۔ یہ اعزاز اس غریب ملک کے غریب عوام کو ہی حاصل ہے جو متعدد مقاصد کے حصول کے لئے دنیا کے کونے کونے میں جا چکے اور سما چکے ہیں۔پاکستان اگر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ کرتا جائے، اور پاکستان سے لوگ اسی رفتار سے باہر جاتے رہیں، اور مغربی ممالک کی اپنی مقامی آبادی اسی رفتار سے گراوٹ کا شکار ہوتی رہے، جس کے ہونے کا قوی امکان بھی موجود ہے،تو پاکستان ایک دن فاتحِ عالم کیسے نہ بنے گا۔ پاکستانی مرد دنیا کے بہترین مردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پاکستانی ویسے بھی دنیا کے خوبصورت ترین لوگ ہیں۔ پاکستانی جتنے متحرک اور جفاکش ہیں اور کون ہو گا۔پاکستانی ذہانت کس سے پو شیدہ ہے۔ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ کئی اور بہترین طاقتیں بھی رکھتے ہیں۔ کھیلوں میں ہم کسی سے کم نہیں ہے۔ علم و ادب میں ہمارا سقہ چلتا ہے۔ اصل سے بہتر نقل ہمارا ہی قول ہے۔ہم میں اتنی زیادہ حساسیت بھی نہیں کہ ہم کسی کا کچھ بگاڑ نہ سکیں۔ ہم اتنے فلسفی بھی نہیں کہ عملی طور پر ناکارہ ہو جائیں۔ہمارے سیاست دانون کی دنیا میں مثال ہی نہیں ملتی۔ ہم تو بہت پہلے ہی فاتحِ عالم بننے کی پلاننگ کر چکے ہیں اور اپنا بہت بڑا سرمایہ بیرونی ممالک میں منتقل بھی کر چکے ہیں۔ دنیا کے ریکارڈ میں کم ترین عمر میں نوبل انعام حاصل کرنے والی بچی پاکستانی ہے۔پاکستانی بچے دنیا میں کسی سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ یہ ہمارا کل ہیں جو کہ فاتحِ عالم بننے کا ہے۔ ہمارے اسپیشل لوگ بھی دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اب تو آپ کو مان لینا چاہیئے کہ اب فاتحِ عالم بننے کی باری پاکستان ہی کی ہے۔ کیا اب بھی نہیں مانے آپ؟ نہیں؟ تو آپ جیسے اپنی بات پر اڑ جانے والوں کی آئندہ پاکستان میں آبادی بڑھے گی۔جب ہم کسی کی بات مانیں گے ہی نہیں تو فاتحِ عالم کون ہو گا ۔ یقیناً پاکستان ہی ہو گا ۔ کیوں کہ جب ہم کسی کی مانیں گے ہی نہیں تو ہم ہاریں گے بھی نہیں۔ جب ہاریں گے نہیں تو فتح ہماری ہی ہو گی۔ مختصر یہ کہ چاہے آپ مانیں ، چاہے نہ مانیں، فاتحِ عالم پاکستان ہی ہو گا۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313091 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More