’’ تنقیدی تلا زمے ‘‘:تنقیدی اظہار کا دلکش استعا رہ

 ادبی افق پر اپنی شعا ئیں بکھیر تی ہو ئیں ڈاکٹر ہا جرہ با نو ……تخلیقی پہنا ئیوں کی طرف محو سفر ہیں ،’’دا ئروں کی دھنک ‘‘ کی طرح ان کے تخلیقی دا ئرے بسیط ہو تے جا رہے ہیں ……اب دیکھئے یہ دائرے ……کہاں تک پھیلتے ہیں !!

’’تنقیدی تلا زمے‘‘انکے تنقیدی اظہار کا دلکش استعا رہ ہے،جسے انہوں نے اد بی کا ئنات میں پیش کر تے ہو ئے یہ امید ظاہر کی ہے کہ ’’میرے مضامین کا مقصد صرف علم میں اضا فہ کر نا نہیں ہے،بلکہ انسا نی ذہن و دل کی تشکیل بھی ہے ،یہ چند مضا مین پیش ہیں ،جو مختلف رسا ئل و اخبا رات میں شائع ہو ئے ہیں ،جن میں میں نے شخصیتوں کے انمو ل پہلو ؤں کیسا تھ ادبی رنگینی میں اوس کی شفا فیت شامل کر نے کی سعی کی ہے ،ادبی مو ضو عات کی پھو ٹتی کو نپلوں میں نئی پتیوں کی آہٹ محسوس کر وانے کی کو شش کی ہے ،جو اس امر کی بخوبی گو اہی دیں گی کہ خزاں میں بھی ادب اپنی بہار ضرور دکھا تا ہے ،……دیکھنا یہ ہے کہ اب کتنی زبا نیں اور آنکھیں اس گو اہی کی گوا ہی دیں گی ‘‘(تنقیدی تلا زمے از ابتدائیہ صفحہ ۱۲)

محترمہ کو شاید تنقیدی فضا پر پھیلی عصبیت اور علا قا ئیت ،جدید آواز اور ابھرتے ہو ئے قلم کو درخور اعتنا نہ سمجھنے والے پہلو ؤں کا شدید احساس ہے ……!!

معا ملہ جو بھی ہو ،مگر ’’تنقیدی تلا زمے ‘‘کی قر أ ت کے بعدیہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی تخلیق کی آبیاری خون جگر سے کی ہے،اس لئے ان کی تحریروں میں تا بناکی ،رخشندگی ،شگفتگی ،تا زگی ،سبز رتوں کی مہک ،جذبات و احساسات کی خوشبو ،افکار کی گیرائی ،بصیرت کی روشنی اور روح کی تا زگی حلول کر گئی ہے ،انہیں اپنے ما فی الضمیر کو مر بوط ،منظم اور حسین پیرا ئے میں ڈھالنے کا ہنر آتا ہے ،تنقید اور تحقیق کا شعوری عر فان بعض مقا مات پر صاف نما یاں ہے ۔بہت حدتک ایسی ہی تحریر یں ’’انسا نی ذہن و دل کی تشکیل‘‘میں معاون ثابت ہو تی ہیں اور ایسی ہی تخلیق ادبی کائنات میں قبو ل کی جا تی ہے ۔بقو ل رتن سنگھ:’’ادب کے مندر میں صرف وہی پھو ل قبو ل کئے جا تے ہیں جو زندگی کو خوبصو رتی عطا کر تے ہیں ،زندگی کو بہتر بنانے کے سپنے سمو ئے جب ادیب اپنی تخلیق کی آبیار ی خون جگر سے کر تا ہے ،تبھی اس کی فصل پر ایسے پھول کھلتے ہیں ،جن کی تا زگی دائمی ہو تی ہے ،ان کی خوشبو کو وقت اپنے دامن میں سمیٹ کر مستقبل کی طرف سفر کر تا ہے ،تو آنے والی نسلوں کی زندگی مہک اٹھتی ہے ،یہ وہ خو بصورتی ہے ،جس سے دھر تی خوبصورت ہو جا تی ہے اور آسمان اس خوبصورتی کا نظارہ کر نے کے لئے افق تک جھک آتا ہے‘‘(بیتے ہوئے دن ’’میری زندگی کا سفر‘‘صفحہ ۲۶۶)

یہ کتا ب چھ ابواب پر مشتمل ہے ،’’افکار ،اصناف ،اشخاص ،ابلاغ ،اپنی مٹی اپنے رنگ ‘‘اور ’’نقد پارے ‘‘۔
’’افکار ‘‘کے تحت پانچ مضا مین شامل ہیں ،پہلا مضمون ’’داستانوں میں ذکر حیوانات ‘‘یہ مضمون ڈاکٹر ہا جرہ با نو کی ذہنی ریا ضت ،علمی توسع اور مطالعا تی وسعت کا آئینہ ہے ،انہو ں نے اسطو ری تفا عل میں حیوانات کی تمثیلی عبا رتیں تلاش کی ہیں ،حیوانی صفات کے کئی سطحوں کو متحر ک کیا ہے ،انکی نفسیات ،کر دار ،حسن سلوک ،جذبات و احساسات ،محسن کی خدمت ،ایثا ر و قر با نی ،وفا داری ،جبلت ،دور اندیشی ،ان کے حر کا ت و سکنات سے آنے والے مصا ئب کا عرفان ،طبی فوائد ،سا ئنسی ارتقاء میں حیوانات کے کر دار کی احتیاج ،حیوانات کے حسن و جمال میں حسینان عالم کے جما لیاتی تفوق کا استعا رہ (آج کے تنا ظر میں نہیں )اور انکی آوازوں کی طلسما تی کشش اور حسین لے پر انسانی سر شا ری کا حسین تجزیہ پیش کیا ہے ۔اس طرح داستانوں کی انفرادی قر أت اور امتیازی پہلو ؤں کی جستجو ڈاکٹر ہاجرہ بانو کے ہاں روشن ہو گئی ہے ،یہ کام یقینا حیوانات کی مزاج شناسی اور مشا ہداتی نظروں کے بغیر ممکن نہیں ۔

اس باب کا دوسرا مضمون ’’خواتین افسا نہ نگارو ں کے کر دار و ں کی تجسیم و تقلیب ‘‘(۹۱۵۰تا۱۹۸۰خواتین افسانہ نگا روں کے خصوصی حوا لے سے )لکھی گئی ایک تحقیقی تحریر ہے ،جس میں انہوں نے افسا نوی کا ئنات کے نشیب و فر از ،عروج و زوا ل ،تخئیلی وفور میں زمینی حقائق کا بیا ں ،افسانے کی حسرت بھری شام ،مسرت بھری صبح ،تہذیبی اور ثقا فتی روایت کی خوشبو ،قدیم و جدید افسا نوی انسلاکات ……اور بھی کئی اہم پہلوؤں کو سمیٹنے کی کا میاب کوشش کی ہے ،خصوصا ’’قر ۃ العین حیدر ،عصمت چغتائی ،شکیلہ اختر ،جیلا نی بانو ،واجدہ تبسم ،امیر زہرہ ،سر تاج بانو ،رشیدہ رضوی ،جمیلہ ہا شمی ،اختر جما ل،شمیم صا دقہ ،شمیم افروز ،نصرت آرا،عصمت آرا،ذکیہ مشہدی ،صبوحی طارق ،قمر جہاں ،تسنیم کو ثر ،صدیقہ بیگم اور تسنیم سلیم کی افسا نوی لہروں میں اتر کر فن ،مو ضوع ،اسلوب اور تکنیک پر نا قدا نہ نظر ڈالی ہے اور اپنا نقطہ ٔ نظر یوں پیش کیا ہے :’’ان دہا ئیوں پر ڈالی گئی سر سر ی نظر سے ان خواتین افسانہ نگاروں میں طرح طرح کے محا سن نظر آتے ہیں ،جن کی بنا پر ہم ان کی تحریروں کو سرا ہتے ہو ئے صنف افسا نہ کی خدمت گذاروں میں شمار کر تے ہیں،ان افسانہ نگاروں نے مو ضوع تلاش کر تے وقت خلوص اورجستجو سے کام لیا ہے اور اپنے فکر و فن کو جو لا نیاں دکھا کر فنی لو ازمات کو پیش نظر رکھ کر جس حد تک فن کے مبا دیات اور اصول سے مناسبت اور لگا ؤ ہے اس حدتک اسنے انہیں اپنے افسا نوں میں بر تا ہے ،اپنی اپنی قدرت کے مطابق زبان و بیان میں نکھار پیدا کر نے کی کوشش کی ‘‘(ایضا صفحہ ۳۶تا۳۷)اس باب میں شامل ’’پر بودھ چند ر اودے اور دستور عشاق کی مما ثلت ،سب رس و دستور عشاق کا مو ازنہ ‘‘اور ’’سب رس یا ہزار رس‘‘اپنی نو عیت کے اہم مـــــــضامین ہیں ،مو ضو عا تی سطح پر تینوں مضامین ایک دوسرے سے مر بو ط ہیں ،مگر یکسا نیت یا کہی ہو ئی بات کو دو با رہ دہرا ئی نہیں گئی ہے ،اس لئے تنوع بر قرار ہے ۔

’’سب رس و دستور عشاق کا موازنہ ‘‘کر تی ہو ئی مصنفہ نے انشا ئیہ نگا ری کے نقطہ ٔ آغاز کی نشا ندہی جس اعماق و امعان اور فکری بصیرتوں سے کیا ہے ،وہ ان کی اعلی ذہنیت کی دلیل بن گئی ہے ،دس اہم نکاتوں کے سا تھ ڈاکٹر ہا جرہ بانو نے یہ وضاحت کی ہے کہ :’’وجہی تصنیف میں ایک جدت طرا زی لا نا چا ہتے تھے ،چا ہے اس کا پلاٹ کہیں سے ما خو ذ ہو ،انشا ئیہ کی تحریر ان کی جدت طرا زی سے میل رکھتی ہے، ملا وجہی نے جدت طرازی کی جستجو میں ایک نئی صنف کی بنیاد ڈالدی ،جسے ’’انشا ئیہ ‘‘کا نام بعد میں ملا ‘‘اور پھر اپنے نقطہ ٔ نظر کی تا ئید میں کئی حوا لے بھی نو ٹ کئے ہیں ،جن سے اس نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔

’’اصناف ‘‘جن مضامین کو محیط ہے ،وہ کچھ اس طرح ہیں ’’انشا ئیہ میں غزل کا رنگ ،انشا ئیہ اور مزاج کا نقطہ ٔافتراق ،انشا ئیہ اور مقا لہ کے خدوخال ،مغرب میں ایسیز کا آغاز ،اردو ادب کی شا ہکار صنف نا ول نگا ری ‘‘یہ باب اپنی نو عیت کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اور انشا ئیہ کے کئی اہم نکا توں سے قا ری کو آشنا کر اتا ہے ،یہ باب مصنفہ کی پسندیدہ مو ضوع کا اشا ریہ بھی ہے ۔

’’اشخاص‘‘میں ’’غالب ،سر سید ،مو لانا ابو الکلام آزاد،سجاد حیدر یلدرم ،میرا جی ،کنہیا لال کپور ،پطرس بخاری ،فکر تو نسوی ،وزیر آغا اور نذر قا ضی عبدا لستار ‘‘جیسی تہہ دار شخصیتوں سے ڈاکٹر ہاجرہ با نو نے اپنی تحریر کو وقار عطا کیا ہے ،اس باب میں مصنفہ نے اپنی شگفتگی ٔ تحریر اور دلکش اسلوب سے قاری کے احساس پر حسین نقوش ابھار نے کی کو شش کی ہے ۔میرا جی پر ان کے قلم کی گل افشا نی تمہیدی کلمات سے جلوہ ریز ہو کر سامنے آتی ہے ،جو ایک تمہیدہی نہیں ،بلکہ سر زمین کشمیر سے جڑی سچا ئیاں ہیں ،وہاں کی زمینی صداقتیں ہیں ،جنہیں اس سر زمین کے کسی حوالے کو حیطہ ٔ تحریر میں لا نے والا فنکار فر اموش نہیں کر سکتا ،وہاں کے قدرتی حسن و جمال میں پو شیدہ آہوں ،آنسوؤں ،چیخوں زخموں اور دردو کسک کے کھلتے پھول کی بے رونقی آج بھی کتنوں کو آبدیدہ کر دیتی ہے ۔ڈاکٹر ہا جر ہ بانو نے شخصیات پر قلم اٹھا تے ہوئے اس بات کا ضرور خیال رکھا ہے کہ انکی تخلیقی کو ائف کے ساتھ ایک حد تک ان کی چلتی پھر تی تصویر بھی پیش کر دی جائے ۔

’’ابلاغ‘‘میں ان عنوانات کے ساتھ چار مضامین کی شمو لیت ہے ’’صحافت اورادبی صحافت ،اردو زبان اور میڈیا ،ادبی رسائل کا کر دار ‘‘اور ’’اداریہ نگا ری ‘‘……یہ باب عصری تنا ظر میں اپنی اہمیت و افا دیت کا احساس دلا تا ہے ،کیو نکہ آج صحافت نے عوا می شعور کی بیداری،انسانی ذہن دل کی تعمیر و تشکیل میں جو کر دار ادا کیا ہے اور سیا سی ،سما جی،معا شی نشیب و فر از سے اطلاعات اساس سماج کو ہر لمحہ باخبر رکھنے میں جو رول ادا کیا ہے ،اس سے انکار ممکن نہیں ۔اس باب میں ڈاکٹر ہاجرہ بانو کی بیدار مغزی اور عصری آگہی کا چراغ روشن ہے ،انہوں نے صحافت اور ادبی صحافت پر اپنے انفرادی نقطہ نظر سے روشنی ڈالنے کی کو شش کی ہے ،ناول ،افسا نے ،کہانی اور تنقیدی مضامین کو انہو ں نے ادبی صحافت میں شامل کیا ہے ،وہ پریم چند کی کہا نیاں ہوں ،یا غالب کا شعری آہنگ ،ایم ایف حسین کی مصوری ہو یا ساحر ؔکی سا حری ،ان عظیم فنکاروں کے تما م ادبی شہ پاروں کو انہوں نے ادبی صحافت کا نمو نہ کہا ہے ،وہ کہتی ہیں :’’جذبات و احساسات کی رگوں میں رچی بسی کہا نیاں ،افسانے اور گیت جب سا منے آتے ہیں تو وہ دردو کرب سے لپٹی کسی ایسی خبر کی خبر دے جا تے ہیں جس کے محور پر انسا نی ذہن غور وفکر کر نے پر مجبور ہو جا تا ہے کہ اس خبر کے سلسلے کہاں جا کر ختم ہو تے ہیں (ایضا صفحہ ۱۸۲تا۱۸۳)صحافت اور ادبی صحافت کے نقطہ افتراق کو نما یاں کر نے کیلئے ان کا یہ خیال سامنے آتا ہے :’’صحافت اور ادبی صحافت کے نہایت ہی با ریک سے فرق کو سمجھنے کیلئے اس امر پرنظر ثانی کر نی ہو گی کہ صحافی کی نظر صرف اور صرف خبر یا اطلاع پر ہو تی ہے ،جبکہ ادبی صحافت میں خبر یا اطلاع سے متعلق ایک مستحکم نقطہ نظر پیش کیا جا تا ہے ،ایک عام صحافی اپنی خبریں اور اطلاعات میکانکی انداز سے پیش کر تا ہے ،جبکہ ادبی صحافی ان اطلاعات کے پس پر دہ محرکات کو اپنے جذبات کے ساتھ شعوری طور پر آزادانہ پیش کر کے اپنے نمایاں نقطہ نظر قا ری کے مد مقابل رکھتاہے ‘‘(ایضاصفحہ ۱۸۳)۔

ڈاکٹر ہاجرہ بانو کے اس نظریہ سے جزوی اتفاق کیا جا سکتا ہے ،ادب صحافت کا حصہ ہے یا نہیں ؟ناول ،افسانہ ،گیت ،کہانیاں اور تنقیدی مضامین کو ادبی صحافت کے زمرے میں شا مل کر سکتے ہیں یا نہیں ؟یہ ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے ،ما ضی میں ا س نظر یہ پر مبا حثے بھی سامنے آئے ہیں ،ان مبا حثوں میں اثبات و نفی کے زاویے روشن ہیں ،بعضوں نے اسے تسلیم کیا ہے اور بعضوں نے تر دید ۔’’اردو زبان و میڈیا ‘‘اور ’’ادبی رسائل کا کر دار ریسرچ کے میدان میں ‘‘ان دونوں مضامین میں اردو کی مقبولیت ،محبوبیت ،وسیع الظرفی اور خدماتی پہلو ؤں کو بڑی سلیقگی سے اظہاری پیکر دیا گیا ہے ،جبکہ ’’اداریہ نگا ری ‘‘ان نکاتوں پر مشتمل ہے جو مدیر کو روشنی عطا کر تے ہیں اور وہ ان روشنی کے ذریعے سیا سی ،سما جی اور معاشی ظلمات کا سینہ چا ک کر تے ہیں ،یہی روشنی ایک مدیر کو اپنی تحریری حسا سیت کے مظاہر کا حوصلہ بخشتی ہے۔

’’اپنی مٹی اپنے رنگ ‘‘یہ باب ’’مر ہٹواڑہ میں اردو ڈرامہ ،مرہٹواڑہ کی شا عری کے سنگ میل ،ورق کا غذی پو رہ ،راجہ غضنفر ‘‘اور ’’شفیق فا طمہ شعری ‘‘کے تخلیقی ابعاد کو محیط ہے ،یہ باب وطن کی سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو اور مصنفہ کے دلی جذبات و کو ائف کا استعارہ ہے ،مر ہٹواڑہ کی ادبی فعا لیت کی لہریں اس باب میں مو جزن ہیں ،وہاں کے ادبی آسمان کے درخشاں ستاروں سے قا ری آشنا ہوتا ہے ،ڈاکٹر ہا جرہ با نو اس امر سے بخو بی آشنا ہیں کہ جو زمینیں اپنے لعل وگہر کی قیمت نہیں سمجھتیں اس کی شا دا بی دیر پا نہیں رہتی ،مکینوں کے شعور سے ہی وہاں کی زمینیں لہلہا تی ہیں ،تا ریخی ،تہذیبی ،ثقا فتی ،تمد نی اور لسا نی وراثت آنے والی نسلوں تک منتقل ہو تی ہے ،جس سے آنے وا لی نسلوں کی زندگی مہک اٹھتی ہے ،اس لئے یہ باب ڈاکٹر ہاجرہ بانو کے ادبی تحر ک کا اشاریہ ہے ۔

’’نقد پارے ‘‘گلہائے عقیدت و محبت سے معمور ایسا باب ہے جس میں ادبی دانشوروں اور اہل نظر کے تصورات و خیالات کی خوشبو بسی ہو ئی ہے ،یہ باب ڈاکٹر ہا جرہ بانو کی محبو بیت و مقبولیت کا احساس دلا تا ہے ،بڑے بڑے نا قدوں نے انہیں سراہا اور انکی خد مات کا اعتراف کیا ہے ۔

یہ کتاب اپنی ظاہری حسن اور با طنی جمال سے آئے دن چھپنے والی کتابوں کے ہجوم میں کچھ الگ اور مختلف ہے ،مو ضوعا تی اور اسلو بیات رنگا رنگی اس کتا ب کے امتیا زات ہیں ،امید ہے کہ ادبی دنیا میں ’’اردو انشا ئیہ اور بیسویں صدی کے اہم انشا ئیہ نگار ‘‘سے اپنی شنا خت قا ئم کر نے والی ڈاکٹر ہا جرہ با نوکی دوسری تصنیف’’تنقیدی تلا زمے ‘‘کا بھی بھر پو ر استقبال کیا جا ئے گا ۔
Abdul Wahab
About the Author: Abdul Wahab Read More Articles by Abdul Wahab: 6 Articles with 9673 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.