آئی ایس آئی کے سابق سربراہ، جنرل (ر) حمید گل سے
خصوصی انٹرویو
انٹرویو:عابد محمود عزام
عابد محمود عزام: متحدہ قومی موومنٹ کے بھارت کو خط لکھنے کے بارے میں آپ
کیا کہتے ہیں؟
جنرل (ر) حمید گل: متحدہ قومی موومنٹ اپنے آخری سفر پر ہے۔ اب متحدہ کا
اختتام ہوا چاہتا ہے۔ اس کی آخری سانسیں چل رہی ہیں۔ یوں سمجھیں کہ اب
متحدہ بستر مرگ پر پڑی ہے۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جو بستر مرگ پر پڑا
ہو وہ کیا کرے گا۔ متحدہ کا بھی یہی حال ہے۔ وہ اب ہاتھ پاﺅں مار رہی ہے۔
اس کی رخصتی کا وقت ہے، لیکن اب وہ خود کو بچا نہیں سکتی۔ بھارت کو خط
لکھنا ملک سے غداری ہے۔ متحدہ نے بھارت کو خط لکھ کر بہت برا کیا ہے۔ اس کو
ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مجھے تو حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو متحدہ کا
دفاع کر رہے ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس کا یہ اقدام غلط ہے، متحدہ کے
شریک اس کے باوجودبھی اس کے دفاع میں جتے ہوئے ہیں۔ سب کچھ سامنے آجانے کے
بعد بھی اس اقدام کا دفاع کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
عابد محمود عزام: کیا مائنس الطاف حسین کی پالیسی درست ہے؟
جنرل (ر) حمید گل: پتا نہیں یہ پالیسی کیسے کامیاب ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا
کہ یہ پالیسی درست ہے۔ کیوں کہ جماعتیں دلوں سے کھرچی نہیں جاسکتیں۔ محبت
کو دلوں سے نکالا نہیں جاسکتا۔ زبردستی کسی پر اپنا حکم نہیں ٹھونسنا
چاہیے، یہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ کسی کو دباﺅ میں لاکر کوئی فیصلہ کامیاب نہیں
ہوتا۔ زبردستی لوگوں کے رویوں کو نہیں بدلا جاسکتا۔ یہ صرف متحدہ کا معاملہ
نہیں، بلکہ پوری دنیا کا مسلمہ اصول ہے۔ آپ فلسطین کو لے لیں، اسرائیل ظلم
کرکے بھی فلسطینیوں کے رویے کو تبدیل نہیں کرسکا۔ آپ کشمیر کی مثال سامنے
رکھیں، وہاں بھی بھارت زبردستی کرکے ان کو دبا نہیں سکا ہے۔ افغانستان میں
امریکا بدترین ظلم کرکے بھی طالبان کو اپنے فیصلوں پر مجبور نہیں کرسکا۔ یہ
دنیا کا اصول ہے کہ جب کسی سے زبردستی فیصلہ منوانے کی کوشش کی جائے تو اس
میں ناکامی ہوتی ہے۔ ہمیشہ گفتگو کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے۔ مائنس الطاف
کی پالیسی کو نہیں اپنانا چاہیے۔ اپنے ہی غلط اقدامات کی وجہ سے متحدہ خود
ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ اگر اس کو ختم کرنے کی کوشش کی تو یہ جعلی
کوشش ہوگی اور جعلی کوشش کامیاب نہیں ہوا کرتی۔ جیسے جماعت اسلامی پر
پابندی لگائی گئی تھی تو کیا جماعت اسلامی ختم ہوگئی؟ نہیں۔ اسی طرح جہادی
جماعتوں پر پابندی لگائی جاتی ہے تو کیا یہ جماعتیں ختم ہوجاتی ہیں؟ نہیں
ہوتیں۔ کسی بھی جماعت کو زبردستی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ زبردستی ان کے رویوں
میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ لوگوں کے دلوں سے محبت نہیں نکالی جاسکتی۔
انتظار کریں اپنے کاموں کی وجہ سے یہ لوگ خود ہی اپنی پارٹی کوناکام کریں
گے۔
عابد محمود عزام: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کراچی آپریش کا پائیدار حل بھی نکلے
گا یا کوئی سیاسی حکمت عملی بھی ہونی چاہیے؟
جنرل (ر) حمید گل: بالکل! کراچی آپریشن کا پائیدار حل نکلے گا۔ کراچی
آپریشن سے کراچی کے حالات بہتر ہورہے ہیں۔ کراچی آپریشن بلاتفریق ہونا
چاہیے۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ جب نائن زیرو پر چھاپا پڑا تھا تو
بلاول ہاﺅس پر بھی چھاپا مارنا چاہیے تھا۔ تمام جماعتوں میں چھپے جرائم
پیشہ افراد پر ہاتھ ڈالنا چاہیے۔ جو لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں، ان کے پیچھے
بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ ٹارگٹ کلر کوئی عام لوگ نہیں ہوتے۔ یہ جماعتوں کے
لاڈلے ہوتے ہیں۔ ان کو ہر قسم کی سہولت دی جاتی ہے، بہت پیسا دیا جاتا ہے،
ان کی زندگی عیاشی میں گزرتی ہے۔ ان ٹارگٹ کلرز کو پیسوں کا لالچ ہوتا ہے۔
ان کی سرپرستی بڑے بڑے لوگ کرتے ہیں۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو ان کو ملک سے
باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ افراد بغیر لالچ کے کوئی کام نہیں
کرتے۔ جیسا کہ مجاہدین بغیر لالچ کے کام کرتے ہیں، اپنی جانوں کا نذرانہ دے
دیتے ہیں، اپنی عیاشی کی زندگی چھوڑکر اپنے مقصد کے لیے کام کرتے ہیں، جب
کہ سیاسی پارٹیوں کے جرائم پیشہ افراد ان کی طرح نہیں ہوتے۔یہ لوگ لالچ کی
وجہ سے کام کرتے ہیں اور ان کی سرپرستی یہ جماعتیں کر رہی ہوتی ہیں۔
عابد محمود عزام:آپ کے خیال میں کراچی کے حالات کا مستقل حل کیا ہونا
چاہیے؟
جنرل (ر) حمید گل: اس کا حل یہی ہے کہ جلد از جلد کراچی آپریشن مکمل کیا
جائے۔ جرائم پیشہ افراد کو کٹہرے میں لایا جائے، ان کو سزائیں دی جائیں۔
فوجی عدالتیں قائم ہوچکی ہیں، جو اپنا کام کریں گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کی
کوشش ہے کہ فوج ان کے مالی معاملات میں ہاتھ نہ ڈالے۔ یہ جیسے بھی چاہیں
پیسے کمائیں، ان کو نہ پوچھا جائے۔ نیب کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔
سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں ان کو کھلی چھوٹ مل جائے۔ دراصل ہمارا عدالتی نظام
کھوکھلا ہے۔ اس کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اللہ کا
عدالتی نظام لے کر آﺅ، اللہ کی حکمرانی قائم کرکے چلو، چھوٹے چھوٹے سیکٹر
بناﺅ، ان کا نظام چلانا آسان ہوگا۔ ابھی جو نظام چل رہا ہے یہ بلیک میلنگ
کا سسٹم ہے۔ یہ نظام درست نہیں ہے۔ اگر نیب سیاست دانوں سے کہتا ہے کہ
آمدنی کے ذرایع بتاﺅ کہ اتنا پیسا کہاں سے آیا ہے تو ان کو بتانا پڑے گا۔
آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مثال سامنے رکھیں کہ خلیفہ وقت خطبے کے لیے
کھڑے ہوئے تو ایک عام آدمی نے پوچھا کہ آپ نے جو کرتا پہنا ہے، یہ کیسے بن
گیا، آپ کا تو قد بڑا ہے۔ اس کپڑے سے تو آپکا کرتا نہیں بن سکتا۔ خلیفہ وقت
نے خود اپنی گواہی دی ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ناجائز
کام ہورہے ہیں۔ اس نظام کو بدلنا پڑے گا۔ یہ عوام دشمن نظام ہے۔ اگر یہ لوگ
نہیں بدلیں گے تو قدرت اس نظام کو خود بدل دے گی۔
عابد محمود عزام: آپ پاک بھارت تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا
حکمرانوں کی پالیسی ٹھیک ہے؟
جنرل (ر) حمید گل: مجھے تو دال میں کچھ کالا دکھائی دے رہا ہے۔ فوج کو
پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فوج کو بارڈر پر الجھایا جارہا ہے۔ بھارت
سرحد پر گولا باری کرتا ہے، ہماری فوج اس کا جواب دیتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے
کہ یہ فوج کو مزید الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ فوج کو مزید مصروف
کردیا جائے۔ فوج بلوچستان میں بھی الجھی رہے، کراچی میں بھی الجھی
رہے،سرحدوں پر بھی الجھی رہے اور ضربِ عضب آپریشن میں بھی الجھی رہے۔
خورشید شاہ نے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ اگر نواز شریف ہماری پالیسی
پر عمل کریں گے تو وہ مزید 10 سال حکومت کرسکتے ہیں۔ ان کی پالیسی کیا ہے
۔یہی کہ پیسے بناﺅ، فوج کو پھنساﺅ۔
عابد محمود عزام: پاک افغان تعلقات اور پاکستان کے کردار کے باوجود
مخالفانہ بیانات کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جنرل (ر) حمید گل: طالبان کے کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے اور دسمبر تک
مذاکرات کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ جب مذاکرات ہی نہیں ہورہے تو پاکستان کا
کردار کیسا؟ پاکستان نے جب بھی مذاکرات کی کوشش کی، اس وقت ہی نتیجہ برعکس
نکلا ہے۔ طالبان تو ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ طالبان کے نئے
امیر کی قیادت میں طالبان اب بھی حملے کررہے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز ہی انہوں
نے افغانستان میں بڑے حملے کیے ہیں، جن میں درجنوں اہلکار مارے گئے ہیں۔ ان
کے علاوہ بھی طالبان نے کئی چھوٹے حملے کرکے مخالفین کو نقصان پہنچایا
ہوگا۔ طالبان کے اہداف میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ داراصل افغان حکومت
ناکام ہوگئی ہے۔ حکومت عوام کی ضروریات پوری نہیں کرسکی۔ عوام کے مطالبات
پورے نہیں کرسکی ہے۔ افغان عوام کا اعتماد بھی اب حکومت پر نہیں ہے اور
طالبان مزید کامیاب ہورہے ہیں۔
عابد محمود عزام: آپ ملا عمر کے بعد طالبان کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
جنرل (ر) حمید گل: ملا عمر کے بعد بھی طالبان زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔
آپ نے دیکھ لیا کہ ملا عمر کے بعد بھی طالبان کے حملوں میں کوئی کمی نہیں
آئی ہے۔ وہ پہلے سے بھی بڑھ کر حملے کررہے ہیں۔ ان کا فیصلہ علمائے کرام نے
کرنا ہوتا ہے، وہ کردیا ہے۔ سب نے نئے امیر ملا اختر منصور کے ہاتھ پر بیعت
کرلی ہے۔ کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے۔ اختلاف کی باتیں جھوٹی ہیں۔
طالبان کے فیصلے شوریٰ میں ہوتے ہیں۔ شوریٰ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا
ہے۔ طالبان ایک نظریے کا نام ہے، ان کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کیا ہوا ملا
عمر چلے گئے۔ ان کے چلے جانے سے طالبان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
عابد محمود عزام: پاکستان کو افغان طالبان کے بارے میں کس حد تک غیر
جانبدار رہنا چاہیے؟
جنرل (ر) حمید گل: طالبان کے بارے میں کوئی غیر جانبداری نہیں ہونی چاہیے۔
افغان طالبان تو ہمارا اثاثہ ہیں۔ آج اگر پاکستان کو پوری دنیا میں اہمیت
حاصل ہے، وہ صرف انہیں کی وجہ سے ہی تو ہے۔ آج اگر پاکستان امریکا، بھارت
اور اسرائیل کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے، یہ طالبان کی وجہ سے ہی تو ہے اور
اب لگتا ہے ایران کو بھی مسئلہ ہے، اس کا صرف ایک فیکٹر ہے اور وہ طالبان
ہیں۔ افغان طالبان کی وجہ سے ہی ساری دنیا کی نظریں ہم پر ہیں۔ |