آئے روز کچھ نا کچھ سیلاب کی
تباہ کاریاں جاری کہ ایک نیا مسئلہ جنم لے اٹھا جی ہاں ہر طرف خبروں کی
زینت بنا ہوا قصور کا مشہور اسکینڈل کی طرف اشارہ ہے-
ایسے واقعات کا سن کے انسان پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے دماغ ماؤف ہوجاتا ہے
انسان دنیا کی لالچ میں کتنا آگے چلاجاتا ہے کہ دوسروں کی عزت ناموس کا
سودا کرنے پر اسے اپنی ماں بہن بیٹی کی ناموس کا بالکل خیال نہیں رہتا-
امام شافعی نواللہ مرقدہ فرماتے ہیں زنا ایک قرض ہے جو کل زانی کی عزت سے
وصول ہوجاتا ہے ولی ہر چہ گوید دیدہ گوید حضرت امام صاحب کا یہ قول ایک
حقیقت ہے اس سے انکار ایک کو حماقت ہی کہ سکتے ہیں مگر دنیا کی لالچ انسان
کو اندھا بہرا گونگا کر دیتی ہے-
ایک زمانہ تھا سنا کرتے تھے کہ جب انسان گناہ کرتا ہے اللہ اس کے سامنے ایک
رکاوٹ بنا دیتا ہے اگر وہ کراس کر جائے تو ایک اور رکاوٹ پھر ایک اور بند
رک جائے تو بہت اچھا اگر حدود عبور کرتا رہا تو دل کالا ہوجاتا ہے توبہ کی
توفیق ختم ہوجاتی ہے یہ وہ مقام ہوتا ہے جسکو حدیث شریف میں بے حیائی سے
تعبیر فرمایا ہے اگر انسان بے حیا بن جائے پھر جو چاہے کرتا رہے اس مقام پر
پہنچ کے انسان کو قرآن اندھا بہرا گونگا کہتا ہے کیونکہ نہ کچھ نظر آتا ہے
کہ صحیح غلط کی پہچان کر سکے نہ نصیحت سنتا ہے نہ ہی ماضی کی داستان پڑہ کے
عبرت لیتا ہے-
گزرے دنوں کی بات ہے درسگاہ حیث میں حضرت الشیخ مفتی محمد زرولی خان صاحب
دامت برکاتہم نے ایک واقعہ سنایا قصور کے واقعہ کا سنا تو بھولا سبق یاد
آیا-
ایک غریب آدمی آتا ہے باشاہ سلامت میری مدد کر دیجئے میری ناموس کا جنازہ
نکلتا ہے کچھ کر نہیں سکتا ظالم کے سامنے بے بس ہوں خدا را آپ کچھ کیجئے
بادشاہ فرماتا ہے اصل بات بیان کرو آنسؤں کی آبشار ہچکچاتی زبان جب گویا
ہوتی ہے تو خاموشی کے اس عالم کہانی کچھ یوں بیاں ہوتی ہے-
بادشاہ سلامت ایک ظالم رات کو میرے گھر آتا ہے میرے سامنے میری بیوی سے
زبردستی کرتا ہے میں بے بس لاچار کمزور وہ ظلم طاقتور تعلق دار حکمراں ہے
میری مدد آپ ہی کردو۔۔۔۔۔۔۔۔سر پر دست شفقت رکھ کر بادشاہ روتا ہوا کہتا ہے
جب وہ آجائے آپ خاموشی سے میرے پاس آجانا اگر کوئی دربان نہ چھوڑ ے تو آپ
میرے کمرے کی طرف پتھر پھینکنا میں آجاؤں گا-
ظالم آتا ہے غریب کو گھر سے نکالتا ہے تو وہ دربار جا کر مذکورہ ہدایات پر
عمل کرتا ہے بادشاہ منہ ڈھانپ کر تلوار لیتا ہے بجلی کی چمک کی طرح موقع
واردات پر پہنچتا ہے اور ایک ہی وار سے ظالم کا سر تن سے جدا کر دیتا ہے
اور مظلوم غریب سے معافی بھی طلب کر کے کہتا ایک گلاس پانی پلا دو خدا کی
قسم کھائی تھی جب تک مظلوم کی داد رسی نہ ہو کچھ نہیں کھاؤں گا نہ پیؤں گا
اب ظالم کا قلع قمع ہوچکا ہے تو بس ایک گلاس پانی عنایت فرمادیجئے-
یہ تھے وقت کے بادشاہ سید سلطان محمود غزنوی اور ہاں ظالم کون تھا کوئی اور
نہیں بادشاہ کا اپنا بھانجا مگر انصاف پسند خوف خدا قیامت کو سامنے رکھنے
والوں کو انصاف کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا-
جناب شریف برادران قصور کا واقعہ تو سانے آگیا نہ جانے کتنے اسکینڈل پس
پردہ ہوں گے خدا را مظلوم کی فریاد سن لو عمل درآمد کروانا نہیں اب عمل
درآمد کر کے دکھاؤ کیا کھلواڑ بنارکھا ہے اس ملک کا غریب کو کیوں انصاف
ملتا وجہ کیا ہے؟
جناب راحیل شریف صاحب آپ آجاؤ اس کیس کی پیروی کرلو فوجی عدالت میں اس کیس
کو چلا کر جلد از جلد ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچادو امید کی کرن سرزمین
پاکستان پر آپ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملک کی عام عدالتوں کا تو
انصاف دیکھ لیا عوام نے جب ایک عالمی کنجر خانے سے تعلق رکھنے والی کو یہ
کہ کر آزاد کر دیا کہ اسکو قوانین کا علم نہیں تھا- |