کیا ہم آزادی منانے کا حق رکھتے ہیں؟

یومِ آزادی کی آمد آمد ہے۔ جشنِ آزادی کی تیاریاں ہر بڑے شہر میں عروج پر ہیں تو ایسے میں چھوٹے شہر بھی پیچھے نہیں۔ بڑی بڑی عمارتوں پر چراغاں کیا جارہا ہے۔ بازاروں میں آزادی کے نغمے کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔ سکولوں میں بچوں کو سخت گرمی کے موسم میں وطن کی محبت کا درس دیا جا رہا ہے۔ موسم گرما کی تعطیلات میں کے پی کے حکومت کے دل میں وطن کی محبت کا جن جاگ چکا ہے اور یکم اگست سے سکولوں کو گویا زبردستی کھلوا کر بچوں کو بلایا گیا ہے۔ جشنِ آزادی کی تیاریاں شروع کرائی گئی ہیں۔بچوں کو نہ تو اس طرح کی سہولیات میسر کی گئی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو گرمی کی تپش سے بھی بچا سکیں اور اپنی توانائی بھی بحال کر سکیں۔ یہ ہوتی ہے آزادی، ہر چیز سے آزاد۔

بازاروں میں وطنِ عزیز کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح کچھ جھنڈے بڑے ہیں جو سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں لہرائے جاتے ہیں۔ کچھ جھنڈے بلکہ جھنڈیاں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، پرچیوں کی صورت میں دھاگے سے باندھ کر ایک لڑی کی صورت میں پروئی ہوتی ہیں۔اور کچھ جھنڈے چھوٹے برے بیجوں کی صورت میں بھی فروخت ہو رہے ہیں۔ پھر چودہ اگست کی رات گزرتے ہی پندرہ اگست کو ہم شاید کچھ زیادہ ہی آزاد ہو جاتے ہیں۔ جیسے عید کے لیے چاند رات کو شیطان جہنم کی قید سے آزاد ہوتا ہے اور پھر اس رات جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ پورے رمضان کا کفارہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی کیسے گناہوں سے بچا رہا۔ اسی طرح چودہ اگست کی رات گزرتے ہی اگلے دن پندرہ اگست کو ہماری ساری آزادی سڑکوں پر، گلیوں میں، ندی نالوں میں رلتی ، بہتی نظرآتی ہے۔جتنی جھنڈیاں لڑیوں کی صورت میں ہم نے اپنے گھروں میں، گلیوں ، چوباروں میں سجائی ہوتی ہیں، ان کی اکثریت ہم پاؤں تلے روند کر گزر جاتے ہیں، اور یہ پروا نہیں ہوتی ہے کہ یہ ہمارے پاک وطن کا پیارا جھنڈا ہے۔اس کا احترام کریں گے تو دل میں خود بخود وطن کی عزت جاگے گی، وطن کی محبت جاگے گی۔ اس کے خلاف کوئی کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔ لیکن ہماری اس سوچ پر افسوس جو ہم نہیں سوچتے ۔

ہم پاکستانی صرف کاغذی آزادی مناتے ہیں۔ ہمیں تقریریں کرنے کا فن بھی خوب آتا ہے اور دوسروں کو گول گول گھمانے کا بھی۔اس ہنر میں بھی ہم طاق ہیں کہ اپنے بھائی کا خون کیسے نچوڑا جائے، کیسے اس کو گلیوں میں رسوا کی جائے۔ ہمیں اس چیز کی آزادی واقعی میسر ہے کہ ہمیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں۔ قانون کے رکھوالے جو خود قانون شکن بن جائیں تو پھر ان کی آزادی کون چھین سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اکثریت ہر گز بری نہیں۔ وہ وطنِ عزیز کی آزادی کو سمجھتے ہیں کہ کس طرح یہ آزادی حاصل کرنے کے لیے دل سے ، دماغ سے جدو جہد کی گئی۔ پھر اس آزادی کی خاطر کتنی قربانیاں دی گئیں۔ ہزاروں ماؤں کی گودیں اجڑیں، ہزاروں خواتین کے سرکے تاج بے سر کے رہ گئے۔ لاکھوں بچے یتیم و یسیر ہو گئے۔ ہزاروں افراد لٹے پٹے اپنے گھروں کو چھوڑ کر پاکستان کی جانب ہجرت کر کے آئے اور آج بھی وہ اپنے گھر کو ترس رہے ہیں۔لیکن لے کے رہیں گے آزادی، بن چھین کے رہیں گے آزادی، آج بھی یہ نعرہ ہمارے جسم میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔

ہمیں کس طرح کی آزادی میسر ہے۔ کہیں بموں کے دھماکوں میں سینکڑوں ، ہزاروں افراد جان بحق ہو جاتے ہیں۔ دہشت گرد کسی بھی گنجان آباد علاقے میں گھس کر بندوق پستول ہاتھ میں لیے چاروں طرف فائرنگ کرتے ہوئے آزادی سے فرار ہو جاتے ہیں۔ بچے، بوڑھے، خواتین کوئی بھی اپنی طرف آئی ہوئی اندھی گولی کو روک نہیں پاتا۔ابھی ان کے اہل و عیال کے آنسو خشک بھی نہیں ہوئے ہوتے کہ اﷲ کی طرف سے طوفانِ نوح کا ایک حصہ سیلاب کی صورت میں ہمارے دیہاتوں ، شہروں کو ملیا میٹ کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ کہیں ساتھ میں بہت سے ذی روح یعنی جانور اور انسان بھی بہہ جاتے ہیں تو کہیں ان کے گزر بسر کا سامان ان سے بہت دور، سینکڑوں میل دور کسی اور کے کام آرہا ہوتا ہے۔ اس وقت بھی یہی صورت حال ہے۔ دہشت گردی کے طوفان سے تو اﷲ کے فضل و کرم سے ہماری پاک آرمی اور رینجرز کے جوان کافی حد تک نپٹے ہوئے ہیں۔ جو معدودے چند غدار رہ گئے ہیں، وطن دشمن ایجنٹوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں، ان شاء اﷲ وہ وقت دور نہیں جب انکے گلے میں بھی پھانسی کا پھندا ہو گا۔ یعقوب میمن کی طرح وہ ہر گز بے گناہ پھانسی پر نہیں لٹکائے جائیں گے، بلکہ ان کو بہت سی ماؤں کو ، بہنوں کو، بیٹیوں کو قیامت کے دن جواب دینا ہو گا جب وہ اﷲ کی عدالت میں سر جھکائے داغِ ندامت لیے کھڑے ہوں گے۔ اس وقت ان کی ندامت کسی کام نہ آئے گی۔ سیلاب کو بند باندھنے کے لیے ہمیں اﷲ پاک کی طرف ہر امتحان کے بعد کافی وقت دیا جاتا ہے کہ اسکی تیاری کر لیں، پھر بھی یہ امتحان ممکن ہے، لیکن ہم اﷲ کے اشارے کو ہر گز نہیں سمجھتے۔ بس یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اس سال آگیا ہے یہ سیلاب، اب اگلے سالوں میں دس پندرہ سالوں تک نہیں آئے گا۔ نہ تو نیا دڈیم بنتا ہے نہ کوئی بیراج، نہ کوئی اور انتظام کے سیلاب شہروں، دیہاتوں کا رخ نہ کر سکے۔ کیوں کہ ہم آزاد قوم ہیں، اور آزادی سے سوچتے ہیں۔ کچھ زیادہ آزادی نہیں ہو گئی ہماری سوچوں میں؟

آزادی منانے کے لیے ذہنی، جسمانی، روحانی آزادی کے ساتھ ساتھ اخلاقی، سیاسی، معاشی آزادی بھی ضروری ہے۔ لیکن کیا ہم سب اس قسم کی کسی بھی آزادی کا نعرہ لگا سکتے ہیں؟ میرے خیال میں تو ہر گز نہیں۔ہمارے پاس ذہنی آزادی میسر نہیں۔۱۹۴۷ء سے پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے، اور ان کے بعد ہم جاگیرداروں، ساہو کاروں اور غداروں کے غلام رہے اور ہیں۔ آزادی کے بعد جتنے عام انتخابات ہوئے، شاید ہی ہم نے کسی بھی حلقے سے کسی ایسے فرد کا انتخاب کیا ہو، جو ثقہ ہو۔ ثقہ فقہ کی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب وہ شخص جو پورے کا پورے اسلام میں داخل ہو۔ یعنی جھوٹ نہ بولتا ہو، کسی کو دھوکا نہ دیتا ہو، امانت میں خیانت نہ کرتاہو، کسی کا حق نہ مارتا ہو۔ اسلام کے ارکان کو پورا پورا ادا کرتا ہو وغیرہ وغیرہ۔ ہم اندھی تقلید کرنے والے ہر گز یہ نہیں سوچتے کہ پارٹی ٹکٹ کے تحت ان کے حلقے سے انتخاب میں کھڑا ہونے والا فرد پارٹی کی پالیسی کے تحت ہی چلے گا۔ اسکی اپنی کوئی مرضی نہیں ہو گی۔ اور پاکستان کے رواج کے مطابق پارٹی منشور انتخابات سے پہلے کچھ اور ہوتا ہے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پارٹی کے منشور میں ایک سو اسی ڈگر ی کا فرق پڑ جاتا ہے۔منشور میں جتنی ایمانداری کا چرچا ہوتا ہے، اس کے بعد مخالف پارٹیاں پھر شور شرابا کرتی رہتی ہیں کہ کہاں گئے وہ بدعنوان عناصر کو گلیوں میں گھسیٹنے کے نعرے۔ تو ہم ذہنی طور پر ہر بار اس پارٹی کو ہی ووٹ دیتے ہیں کہ شاید اس بار سدھر جائے۔ اگر بفرضِ محال دوسری پارٹی کو بھی ووٹ دے دیں تو بھی یہ علم ضرور ہوتا ہے کہ اس امیدوار کی انتخاب سے پہلے پانچوں گھی می ہی تھیں، اور انتخاب جیتنے کے بعد سر بھی کڑاہی میں ہو جائے گا۔ ہم ہمیشہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ کی حدیث کے مطابق مؤمن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔

ہم روحانی طور پر بھی آزاد نہیں۔ کہ ہم اﷲ کے احکامات اور اسکے نبی پاک ﷺ کی سنتوں پر اسکی روح کے مطابق عمل پیرا ہونے سے قاصر ہیں۔ اگرچہ عادتاً ہم نماز بھی پڑھ لیتے ہیں لیکن بے حیائی سے پھر بھی نہیں رکتے ۔ رمضان المبارک کے روزے بھی رکھ لیتے ہیں لیکن ہمسایہ ہمارا پھر بھی بھوکا ہی سوتا ہے۔ حج بھی کر لیتے ہیں لیکن غریبوں، مسکینوں ، یتیموں کے مال پر اسی طرح قبضہ کیا ہوتا ہے۔ہمیں عشقِ مصطفٰی ﷺ کا دعویٰ ضرور ہے کہ جہاں کہیں شانِ مصطفٰی ﷺ میں معمولی سی بھی گستاخی ہوتی ہیں وہاں ہزاروں عاشقانِ رسول ﷺ نکل آتے ہیں اور پھر جو نعرۂ رسالت کے پردے جو وطن کی املاک کا نقصان ہوتا ہے، افراد کے رزق کو پاؤں تلے روندا جاتا ہے ، اس سے ہمیں یہ احساس ہمہ وقت رہتا ہے کہ ہم آزاد ہیں۔اگر ان لوگوں کو، یعنی دعویٰ عشق کرنے والوں کو کہا جائے کہ حقوق العباد کے بارے میں بھی اسی نبی کریم ﷺ نے کچھ احکامات بھی دیے ہیں جن کے عشق میں آج سرخرو ہونے نکلے ہو، ان کے بارے میں بھی کچھ سوچو تو پھر کہتے ہیں کہ پہلے عشق کو تو نبھا لیں، پھر ان افراد کا بھی سوچ لیں گے۔یا پھر آئیں بائیں شائیں کر کے رہ جاتے ہیں۔اگر ہم روحانی طور آزاد ہونا چاہیں، قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہیں اور اسکی تعلیمات پر عمل کرنے کا سوچیں، رسول پاک ﷺ کے احکامات کو اپنی زندگی کے لیے مشعلِ راہ بنانا چاہیں تو نام نہاد پیر، اور مولوی جنھیں شریعت کی بس الف با کا ہی علم ہے (اس الف با کے پیچھے کس دنیا کے کون کون سے راز عیاں ہیں، نہیں جانتے) ہمیں اس صراطِ مستقیم سے کوسوں دور بھگا لے جاتے ہیں، اور ہم روحانی طور پر غلام کے غلام ہی رہ جاتے ہیں۔

معاشی طور پر ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے غلام ہیں۔ ہمارے گھر کے باتھ روم کے بجٹ سے لے کر ملک کے بڑے بڑے پراجیکٹ کے بجٹ تک یہ دو ادارے امریکہ (درپردہ اسرائیل) کی ہدایات پر بناتے ہیں۔اور پھر وقتاً فوقتاً پورے سال میں ان کی طرف سے ہدایات بھی ملتی ہیں اور دھمکیاں بھی۔ اب تو صرف یہی انتظار ہے کہ کب ان اربابانِ اختیار کی طرف سے ہوا، آگ ، پانی ( جو کہ اﷲ کی طرف سے وافر مقدار میں میسر ہے) اور سورج کی روشنی پر ٹیکس لگتا ہے۔ کب ہمارے سونے پر، جاگنے پر، چلنے پر ٹیکس لگتا ہے۔ اگرچہ بالواسطہ طور پر لگ تو چکا ہے۔

تو میرے عزیز ہم وطنو! سوچیے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم آزادی کا جشن اس طرح منا سکیں جیسا کہ آزاد قوموں کا حق ہے؟
******************
 

Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 71221 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More