ایک اور روایت کا مفہوم ھے کہ جس لڑکے،لڑکی کی شادی کی
عمر ھو جائے اور ماں باپ ان کی شادی نہ کریں ، اب اگر وہ زنا میں مبتلا ھوں
تو ماں باپ کے اوپر بھی اس کا وبال ھو گا اور اگر بچہ اگر اچھے کام کرے تو
والدین کو بھی اس کا ثواب ملے گا۔ ذرا ملاحظہ کریں کہ بچے کے کردار کی ذمہ
داری کا ماں باپ سے کتنا گہرا تعلق ھے کیونکہ بچے کی تربیت کی ذمہ داری ماں
باپ کی ھے اور اگر انہوں نے ایمانداری سے کوشش کی تو پھر ھی وہ بری الزمہ
ھو سکیں گے۔ دنیا کی کوئی قوم دیکھ لیں ان کے بچوں میں ان کی قومیت،ثقافت
جھلکتی نظر آئے گی لیکن ھمارے بچوں میں نظر آئے گی تو اوٹ پٹانگ ثقافت اور
اس کی وجہ ماں باپ خود ھیں۔
50 سال یا اس سے پہلے کی مائوں کے پاس بچوں کیلئے وقت اور توجہ موجود تھی۔
بچے ان کی ترجیح ھوا کرتے تھے۔ وہ گھر کے کام کرتِیں تو بچوں سے کبھی غافل
نہیں ھوتیں۔ بچوں کو پل پل کی راھنمائی،حفاظت،توجہ ملتی اور وہ دیکھ دیکھ
کر،سن سن کر سیکھتے رھتے۔ مائیں بچوں کے ساتھ جان مارا کرتی تھیں۔ بچوں کو
ھر پل کا پیار پراعتماد بنا دیتا تھا۔
آجکل غریبوں کے گھروں کو چھوڑ کر اکثر گھروں میں مائوں کی اکثریت ایسی ھے
کہ گھر میں صفائی کیلئے ملازمہ ھے،برتن ملازمہ دھو دیتی ھے۔ کپڑے دھونے
کیلئے مشینیں ھیں اور یہ بھی ملازمہ کی ذمہ داری ھے۔ مائوں کو بس کھانا
بنانا ھوتا ھے اور امیر گھروں میں تو وہ بھی خانسامہ بناتا ھے۔ مائیں
تقریبا فارغ ھوتی ھیں۔ ایسی صورتحال میں بچوں کی تربیت بہت اچھی ھونی چاھئے
تھی اور بچوں کیلئے پیار اور توجہ کی کمی ھرگز نہیں ھونی چاھئے تھی لیکن آج
کی مائوں نے اپنی بہنوں،سہیلیوں کے ساتھ فون پر لمبی لمبی باتیں کرنی ھوتی
ھیں۔ فون سے جان چھوٹے توفلمیں، ڈرامے جان نہیں چھوڑتے تو بیچارے بچے کیلئے
کتنا وقت بچے گا۔ بچے والدہ سے نہانے اور کھانے کے علاوہ اپنی تربیت کا
اکثر حصہ کارٹون دیکھ کر حاصل کرتے ھیں۔ ماں اپنے بچوں کو خود فارغ رھنے
کیلئے باقائدہ کارٹونوں کا عادی بناتی ھے۔ ذرا سوچیں ایک بھولا بھالا بچہ
جسے ابھی دنیا کا پتہ ھی نہیں ھے وہ کارٹون دیکھ کر کیا سیکھے گا۔ بھولے
ذھن والا بچہ جب ھر وقت کارٹون دیکھتا ھے تو یہ اس کے دل و دماغ میں بس
جاتے ھیں۔ اکثر بچوں کو تو خواب میں یا جاگتے میں یہ کارٹون نظر آنا شروع
ھو جاتے ھیں۔ عینک بھی جلدی لگ جاتی ھے۔ یہ کارٹون آپس میں ھر وقت لڑائی
کرتے ھیں اور بھولے بچے یہ دیکھ کر لڑاکے کارٹون جیسا رویہ اپنا لیتے ھیں۔
یہ کارٹون جسطرح بولتے ھیں بچے بھی وھی لہجہ سیکھ جاتے ھیں اور لوگ کہتے
ھیں کہ بچے بڑے بدتمیز ھیں۔ کچھ مائیں تو ملبہ اپنے خاوند کے خون پر ڈال
دیتی ھیں کہ خون ھی ایسا ھے۔ چھوٹا بیم ،ٹام جیری اور اسطرح کے دوسرے
کارٹون بچوں کو حقیقی دنیا سے دور اوٹ پٹانگ خیالی دنیا میں لے جاتے ھیں۔
یہ کارٹون بچوں میں خوابوں،خام خیالی اور مارکٹائی کی تبلیغ ھیں اور اگر اس
کو خالص مذھبی نکتہ نظر سے دیکھیں تو صورتحال انتہائی خطرناک ھے۔ سارے نہیں
لیکن بچوں کی اکثریت ان کارٹون کی شوقین کر دی گئی ھے ۔ ان کارٹونوں میں
بچوں کے بھولوں ذھنوں میں جس زندگی کا نقش بنیاد بناتا ھے وہ لڑائی جھگڑے
والی زندگی ھے۔ وہ مرد عورت کے اختلاط والی زندگی کا تصور ھے اور کوئی اس
اختلاط بھری زندگی کا بھیانک نتیجہ دیکھنا چاھے تو مغربی معاشرے کا بغور
مشاھدہ کر لے،اس کے بھیانک نقصانات بتانے کیلئے ایک علیحدہ تحریر لکھنے کی
ضرورت ھے۔
اس کے علاوہ کارٹون فلم میں جو لڑائی جھگڑا ھے،اس کو بہت احتیاط سے سوچنے
سمجھنے کی ضرورت ھے۔ ایک بچہ لڑائی جھگڑے کی تعلیم پا کر جب بڑا ھو گا تو
ذرا سوچیں اس کا اپنے ماں باپ،بہن بھائی،بیوی بچوں سے کیسا رویہ ھو گا۔ جب
اس کے ذھن میں کوئی تعمیری بنیاد بنائی ھی نہیں گئی تو بڑا ھو کر کیا
تعمیری کام کر سکے گا۔ بڑا تیر مارے گا تو کوئی ڈگری لے لے گا لیکن کوئی
بڑا تعمیری کام کرنے کے قابل نہیں ھو گا۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں تو کارٹون
سے ملنے والی تربیت کے نتیجے میں دب کر ختم ھو چکیں۔
جاری ھے،اگلی قسط پڑھیں۔ |