قائدین جہاد آزادی۱۸۵۷ء میں ایک نمایاں شخصیت: مولانا سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی شہید
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
مجاہدِ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء مولانا
سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نگینہ ضلع بجنور کے سادات گھرانے سے تعلق
رکھتے تھے۔علماے بدایوں و بریلی سے حصولِ علم کیا۔حدیث کا درس حضرت شاہ ابو
سعید مجددی رام پوری تلمیذِ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے لیا۔مولانا
حکیم شیر علی قادری سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ آپ مجاہدِآزادی مفتی عنایت
احمدکاکوری تلمیذِ شاہ محمداسحاق دہلوی تلمیذ ونواسۂ شاہ عبدالعزیز محدِّث
دہلوی کے دست راست تھے۔مفتی عنایت احمد کاکوری نے بریلی اورمولانا سیدکفایت
علی کافیؔ مرادآبادی نے مرادآبادکے علاقے میں انگریزوں کے خلاف۱۸۵۷ء میں
جہادکے فتاویٰ جاری کیے۔آپ نے ذکیؔ مرادآبادی[۱۸۶۴ء] جو امام بخش ناسخؔ کے
شاگرد تھے،سے سخن آرائی سیکھی۔
مولانا سید کفایت علی کافیؔ؛ جنرل بخت خاں روہیلہ کی فوج میں کمانڈر ہو کر
دہلی آئے۔بریلی، الہ آباد اور مرادآباد میں انگریز سے معرکہ آرائی رہی۔بعض
علاقوں کو انگریز سے بازیاب کرانے کے بعد جب اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں
آیا تو آپ ’’صدرِ شریعت‘‘ بنائے گئے۔ امداد صابری لکھتے ہیں: ’’انگریز؛
مرادآباد سے بھاگ کر میرٹھ اور نینی تال چلے گئے، نواب مجو خاں حاکم
مرادآباد مقرر ہوگئے۔ عباس علی خاں بن اسعد علی خاں ہندی توپ خانہ کے افسر
معیّن ہوئے اورمولوی کفایت علی صاحب صدرِ شریعت بنائے گئے، انھوں نے عوام
میں جہادی روح پھونکی۔ شہر میں ہر جمعہ کو بعد نماز انگریزوں کے خلاف وعظ
فرماتے جس کا بے حد اثر ہوتا تھا۔‘‘[ماہ نامہ ترجمانِ اہلِ سنت کراچی جنگ
آزادی ۱۸۵۷ء نمبرجولائی ۱۹۷۵ء،ص۹۷]
مرادآباد میں شورش کے ایام میں مولانا کافیؔ حالات کی رپورٹ بذریعہ خط جنرل
بخت خاں کو بھیجتے رہے۔ آپ نے فتاویٰ جہاد کی نقلیں مختلف مقامات پر
بھیجیں۔مولانا وہاج الدین مرادآبادی[شہادت۱۸۵۸ء] بھی حریت پسند اور قائدینِ
جہادِ آزادی۱۸۵۷ء میں تھے، آپ اور مولانا کافیؔ نے مل جُل کر مرادآباد میں
ماحول سازی کی اور لوگوں کو جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ انگریزی مظالم کے خلاف
آواز بلند کی اور راے عامہ ہم وار کی۔ آنولہ ضلع بریلی میں حکیم سعیداﷲ
قادری کے یہاں قیام پذیر رہ کر اطراف میں حریت کی صدا بلند کرتے رہے۔یہاں
سے بریلی گئے اور خان بہادر خاں نبیرۂ حافظ الملک حافظ رحمت خاں روہیلہ سے
ملاقات کی،ان سے جہاد کے عنوان پر تبادلۂ خیال کیا۔واضح ہو کہ روہیلہ
پٹھانوں کا یہ قبیلہ بڑا جری و بہادر تھا، اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کا بڑھیچ
قبیلہ اوپر جا کر روہیلوں سے جا ملتا ہے۔ مولانا کافیؔ بریلی سے مرادآباد
آئے اور تگ ودو میں لگے رہے۔
۲۶؍اپریل ۱۸۵۸ء کو جنرل مونس گورہ فوج لے کر مرادآباد پر حملہ آور ہوا۔
مجاہدین جاں نثاری سے لڑے۔نواب مجو خاں آخری وقت تک ایک مکان کی چھت پر
بندوق چلاتے نظر آئے۔ آخر کار جامِ شہادت نوش کیا۔سقوطِ مرادآباد کے ساتھ
ہی تمام انقلابی رہ نما منتشر ہو گئے۔ جو انگریز حکومت کے ہاتھ آئے وہ تختۂ
دار پر چڑھا دیے گئے یا حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور[کالاپانی] کی سزا سے
ہم کنار ہوئے۔مولانا کفایت علی کافیؔ کو فخرالدین کلال کی مخبری سے انگریز
نے گرفتار کر لیا۔ سزاؤں کا اذیت ناک مرحلہ شروع ہوا۔ جسم پر گرم گرم استری
پھیری گئی۔ زخموں پرنمک مرچ چھڑکی گئی۔ اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے
انگریزوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ جب اس مردِ مجاہد سے انگریز مایوس ہو چکا
تو برسرِ عام چوک مرادآباد میں اس عاشقِ رسول کو تختۂ دار پر لٹکا دیا۔
[ملخصاً،نفس مصدر،ص۹۷۔۹۸]
۴؍مئی ۱۸۵۸ء کو مقدمہ کی پیشی ہوئی اور جلد ہی پھانسی کی سزا سنائی
گئی۔مسٹرجان انگلسن مجسٹریٹ کمیشن مرادآباد نے فیصلہ سنایا کہ: ’’چوں کہ اس
مدعا علیہ ملزم نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور عوام کو قانونی
حکومت کے خلاف ورغلایا اور شہر میں لوٹ مار کی، ملزم کا یہ فعل صریح بغاوتِ
انگریزی سرکار ہوا۔ جس کی پاداش میں ملزم کو سزاے کامل دی جائے۔……حکم
ہوا-مدعا علیہ کو پھانسی دے کر جان سے ماراجائے۔جان انگلسن،۶؍مئی ۱۸۵۸ء……
مقدمہ کی پوری کارروائی صرف دو دن میں پوری کردی گئی۔۴؍مئی کو پیش ہوا، اور
۶؍مئی کو حکم دے دیا گیا۔اور اسی وقت پھانسی دے دی گئی۔[مرادآباد:تاریخ
جدوجہد آزادی، سید محبوب حسین سبزواری،ص۱۴۴؛ علما وقائدین جنگِ
آزادی۱۸۵۷ء،یٰسٓ اختر مصباحی،دارالقلم دہلی۲۰۱۰ء،ص۲۵۔۲۶]
جب پھانسی کا حکم سنایا گیا مولانا کافیؔ مسرور و وارفتہ تھے۔ قتل گاہ کو
جاتے ہوئے زبان پر یہ اشعار جاری تھے
کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا
پر رسول اﷲ کا دینِ حَسَنْ رہ جائے گا
ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا
بلبلیں اُڑ جائیں گی، سوٗنا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا، تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ولیکن حشر تک
نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا
مولانا سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ تختۂ دار
بھی آتشِ عشق سرد نہ کرسکا۔ مذکورہ اشعار آپ کی رسول کریم علیہ الصلوٰۃ
والتسلیم سے والہانہ محبت و عقیدت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مردِ حق آگاہ
مولانا کافیؔنے گویا بزبانِ حال یہ پیغام دیا کہ زندگی وہی ہے جو رسول
مختار صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم میں گزرے۔ مولانا سیدکفایت علی
کافیؔ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی نے اپنے اشعار میں ’’سلطانِ
نعت گویاں‘‘ فرمایا ہے
مہکا ہے مِری بوئے دہن سے عالم
یاں نغمۂ شیریں نہیں تلخی سے بہم
کافیؔ سلطان نعت گویاں ہیں رضاؔ
اِن شاءَ اﷲ میں وزیر اعظم
اعلیٰ حضرت آپ سے بہت متاثر تھے۔ ملفوظات میں کئی مقامات پر عمدہ الفاظ میں
ذکر فرمایا ہے۔ اس محبت و تعلقِ روحانی کی اصل وجہ عشق رسالت میں مماثلت و
انگریز مخالفت ہی ہوسکتی ہے۔ مولانا کافیؔ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔ آپ کی
منثور و منظوم کتابوں کے نام اس طرح ہیں:
[۱]ترجمہ شمائل ترمذی؛منظوم [۲]مجموعہ چہل حدیث؛ منظوم [۳]خیابانِ فردوس
[۴]بہارِ خلد [۵]نسیمِ جنت [۶]مولودِ بہار [۷]جذبۂ عشق [۸]دیوانِ کافی
[۹]تجملِ دربارِ رحمت[۱۸۴۱ء میں حج وزیارت کی سعادت پائی، اس موقع پر تحریر
کی۔] [علما وقائدین جنگ آزادی۱۸۵۷ء،یٰسٓ اختر مصباحی،دارالقلم
دہلی۲۰۱۰ء،ص۲۴]
مولاناکفایت علی کافیؔ کے نقوشِ قدم مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ملک کی
آزادی کو ۶؍دہائیاں گزر چکیں۔ انگریز گئے، فرقہ واریت کا زہر چھوڑ گئے۔
حکومت مسلمانوں سے لی اور مشرکین کو لوٹائی۔ منافرت کا جو بیج بویا تھا وہ
آج تناور ہو چکا ہے۔ ایسے ماحول میں مولانا کافیؔ کی عزیمت و استقامت ہمارے
لیے عزم و حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ |
|