دنیامیں اکثرسیاسی جماعتوں کے
رہنماء اپنی بصیرت اوردانشمندی کے ساتھ مشکل اوقات میں اپنی جماعت
اورکارکنوں کی نہ صرف تربیت کرتے ہیں بلکہ مشکل اورکٹھن حالات میں ان کی
رہنمائی کرتے ہوئے خودکوایک رہنماثابت کرتے ہیں لیکن ایم کیوایم ایک ایسی
واحدبدنصیب جماعت ہے جوآئے دن اپنے لیڈرالطاف حسین کے بیانات پرملک اور
بیرونِ ملک انتہائی آزمائش میں مبتلا رہتی ہے اوراس کے دوسرے رہنماء مارے
خوف کے اپنے لیڈرکے ہر کوہِ گراں بیان کے نیچے پستے چلے جارہے ہیں۔جب سے
الطاف حسین پر برطانیہ میں منی لانڈرنگ اورعمران فاروق کے قتل کے مقدمات کا
گھیراتنگ ہوتاجارہاہے وہ اسی قدرخوف میں مبتلاایک عجیب جنون میں مبتلا ایسے
بیان داغتے رہتے ہیں جن پر بعدازاں اکثر ان کو معافی مانگنی پڑتی ہے
یاپھرمعاملہ مزیدمشکل ہوتواپنے بیان کی خودہی غلط تشریح کرکے اپنے گلے کے
قریب آنے والے پھندے سے بچنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیتے ہیں۔پچھلی
دودہائیوں سے کراچی میں اپنی خونخوارسیاست کی بناء پرجوفصل تیارکی ہے اب اس
کوکاٹنے کاوقت آن پہنچاہے اورکراچی کی ہرگلی اورمحلے کابے گناہ خون شب
وروزان کی نیندحرام کئے ہوئے ہے اوربالخصوص حالیہ کراچی آپریشن نے الطاف
حسین کے سیاسی ڈرامے کونہ صرف بے نقاب کردیا ہے بلکہ دہشتگردی،بھتہ
خوری،اغواء برائے تاوان اورٹارگت کلنگ کرنے والے درجنوں مجرموں کے حلفیہ
اقبالی بیانات کے بعددونوں ملکوں میں قانونی کاروائی سے بچنے کیلئے عجیب
وغریب حرکات اورتقریروں سے خودکوگہری اندھی کھائیوں میں گرتے چلے جارہے ہیں۔
دراصل سیکورٹی اداروں نے کراچی آپریشن کواگلے چھ ماہ میں منطقی انجام تک
پہنچانے کی حکمت عملی طے کرلی ہے۔واضح رہے کہ صوبائی حکومت سندھ نے حال ہی
میں رینجرزکومزیدایک سال تک قیام کی منظوری دی ہے جس کی آخروقت تک الطاف
حسین نے انتہائی پرزورمخالفت کی۔باخبرذرائع کے بقول ایک سال کا عرصہ توبہت
ہے،رینجرزآپریشن کوچارسے چھ ماہ کے اندرپایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کرچکے
ہیں،اس سلسلے میں سیکورٹی اداروں بالخصوص متحدہ کے بارے میں یہ تمام
انفارمیشن اکٹھی کرلی ہیں کہ پارٹی کاعسکری ونگ کون کون چلاتاتھا،اہداف کون
دیتاتھا،اسلحہ فراہم کرناکس کی ذمہ داری تھی اورسارے سیٹ اپ کابنیادی
ڈھانچہ کیاتھا۔اس حوالے سے ٹھوس اور درست معلومات اکٹھی کرناایک طویل پراسس
تھاجواب مکمل ہوچکاہے۔لہندااب اس سیٹ اپ کوتوڑنے اورذمہ داران کوکٹہرے میں
لانے کیلئے زیادہ وقت مطلوب نہیں۔
ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ فاٹااوربندوبستی علاقوں میں دہشتگردی کے خلاف
جاری آپریشن سمیت(شہری دہشتگردی) کوجڑسے اکھاڑنے کیلئے بھی ایک ہی حکمت
عملی طے کی گئی ہے جس میں سب سے بنیادی نکتہ رائے عامہ ہموار کرناہے ،جس
میں سیکورٹی فورسزکوتوقع سے بڑھ کرکامیابی ملی ہے۔اس حوالے سے جوجائزہ
رپورٹیں تیار کی گئیں ،اس کے مطابق عوام کی اکثریت دہشتگردوں کے خلاف
آپریشن کے حق میں ہے اورپاک فوج کی بھرپور سپورٹ کررہے ہیں۔بالخصوص کراچی
میں امن کی بحالی پرایک دہائی کے بعدلوگوں نے سکھ کا سانس لیاہے اوروہ
سمجھتے ہیں کہ شہرمیں مستقل قیام امن کیلئے ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوروں، دہشت
گردوں اوردیگرکرمنلزکاخاتمہ ضروری ہے۔ آپریشن کے ذمہ داروں میں اس بات
پربھی خاصااطمینان پایا جاتاہے کہ عوام،آپریشن کے حق میں سوشل میڈیاپربھی
کھل کرسیکورٹی اداروں کوسپورٹ کررہے ہیں۔
ذرائع کاکہناہے کہ کراچی آپریشن کیلئے رائے عامہ ہموارکرنے کے ساتھ ساتھ
سیکورٹی اداروں کوسیاسی جماعتوں کی سپورٹ بھی درکار تھی جبکہ یہ مسئلہ یوں
حل ہوگیا کہ عوام کوموڈ دیکھ کرہرچھوٹی بڑی سیاسی پارٹی بھی آپریشن کی
حمائت کرنے پرمجبورہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت نہ صرف کراچی کی ہر چھوٹی بڑی
سیاسی ومذہبی پارٹی،بلکہ ملک گیرسطح کی کسی بھی پارٹی نے متحدہ کے بے بنیاد
پروپیگنڈے پرکان دھرنے سے انکارکردیاہے،یوں متحدہ اس وقت بدترین سیاسی
تنہائی کاشکارہے ۔ کسی ایک پارٹی کی جانب سے بھی نائن زیروپرچھاپے کی مذمت
کی گئی نہ یہ کہاگیاکہ کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف یکطرفہ آپریشن ہے حتیٰ
کہ متحدہ کونئی زندگی دینے والے سابق آمرفاسق کمانڈومشرف کی عوامی پارٹی نے
بھی اپنے ہونٹ سی لیے ہیں جبکہ متحدہ کے حق میں دبی دبی آوازبلند کرنے والی
قاف لیگ بھی خاموش ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کی جانب سے ابتداء میں متحدہ
کاساتھ دینے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن پی پی کی اعلیٰ قیادت کے پاس بھی
حقائق کاادراک کرتے ہوئے آپریشن میں اپنا بھرپوررول اداکرنے کے سواکوئی
چارۂ کارنہیں بچاجسے کراچی میں آپریشن کی کامیابی کیلئے ایک اہم اورفیصلہ
کن ڈویلپمنٹ قراردیاجارہاہے۔
ذرائع کاکہناہے کہ آپریشن کے حق میں توقع سے بڑھ کررائے عامہ ہموارہونے اور
تمام سیاسی پارٹیوں کی اعلانیہ اورخاموش حمائت پرسیکورٹی ادارے خاصے مطمئن
ہیں اوران کی کوشش ہے کہ اس ماحول سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے کراچی کاامن
بربادکرنے والوں پرحتمی اورکاری ضرب لگادی جائے۔ادھرذرائع کے مطابق توقع ہے
کہ کراچی آپریشن کے حوالے سے چارسے چھ ماہ کے مجوزہ وقت کے دوران لندن میں
چلنے والے دواہم کیسوں میں سے بھی کسی ایک کامنطقی نتیجہ بھی سامنے آجائے
گاجوکہ یقینا متحدہ کیلئے جان لیواثابت ہوسکتاہے۔
دوسری جانب الطاف حسین کی نفرت انگیزتقریرکاانتظام کرنے اورسہولت کار کا
رول اداکرنے پرمتحدہ کے جن رہنماؤں کوایف آئی آرمیں نامزدکیاگیاہے ،ان کی
گرفتاری کیلئے حکمت عملی طے کرلی گئی ہے۔واضح رہے کہ ایف آئی آرمیں
نامزدکئے جانے والوں میں وسیم اختر،فاروق ستار،حیدرعباس رضوی،مقبول صدیقی
،رؤف صدیقی،رشیدگوڈیل،خواجہ اظہارالحسن ،خوش بخت شجاعت، کشورزہرہ، زاہدہ
بیگم اوردیگرشامل ہیں۔ ان میں سے صرف ایک روؤف صدیقی نے حفاظتی ضمانت
کروائی ہے جبکہ باقی نامزدکردہ رہنماؤں میں شامل حیدر عباس رضوی کی گرفتاری
کیلئے سیکورٹی اداروں نے چاندرات کوان کے گھر پرچھاپہ ماراتھاتاہم ان
کوابھی گرفتارنہیں کیاگیا۔ سیکورٹی ادارے سے جڑے ذرائع کے بقول حیدرعباس
رضوی کی گرفتاری سے کئی اہم معلومات حاصل ہوں گی جن کی اہم تفصیلات متحدہ
کے کئی ٹارگٹ کلنگ کے ملزمان پہلے ہی اگل چکے ہیں۔
قومی اداروں کے پاس بعض ایسی معلومات ہیں جن کے مطابق کراچی میں ہونے والی
فرقہ وارانہ دہشتگردی میں مذکورہ متحدہ رہنماء رول اداکرتے رہے ہیں۔
ادھرسیکورٹی اداروں نے حراست میں لیے جانے والے رابطہ کمیٹی کے رکن
قمرمنصورسے مکمل اوربھرپورتفتیش کا فیصلہ کرلیاہے۔ذرائع کے مطابق قمر
منصورایسے کئی رازوں کے امین ہیں جومتحدہ کے عسکری ونگ کے خاتمے کیلئے
کارآمدثابت ہو سکتے ہیں،یہی سبب ہے کہ رینجرزنے قمرمنصورکواپنی ٩٠روزہ
حراست میں رکھنے کافیصلہ کیاہے۔
ادھروزیرداخلہ چوہدری نثارنے الطاف حسین کی حالیہ تقریرپراپنے شدیدردعمل
کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اس سے پہلے الطاف حسین کی تقاریرپربرطانوی حکومت کو
صرف خط لکھاگیاتھا مگر اب الطاف نے گزشتہ دو تقاریر میں تمام حدیں پار کر
دی ہیں جس کے بعدقانونی ماہرین باقاعدہ ایک قانونی ریفرنس تیار کررہے ہیں
جوبرطانوی حکومت کوروانہ کیاجائے گا۔ موجودہ حکومت کسی کو کسی طور پر بھی
ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت اور نہ ہی ان اداروں کی حرمت پر کوئی
آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں درج کیے گئے
مقدمات سیاسی نہیں بلکہ عدالتی ہیں۔ الطاف حسین کراچی میں رینجرز اور قانون
نافذ کرنے والے اداروں کی وجہ سے مشکلات کا شکار نہیں ہیں بلکہ یہ ان کی
اپنی زبان ہے جس کی وجہ سے وہ مشکلات سے دوچار ہیں۔
چوہدری نثارنے مزیدکہاکہ گزشتہ حکومت نے اس اہم مقدمے میں برطانوی حکومت کے
ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا تھاجبکہ ہم نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے مقدمے
میں سکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کو دو ملزمان میں معظم علی اور خالد شمیم سے
باقاعدہ تفتیش کی اجازت دی جبکہ ایک اہلکارکے مطابق محسن علی سے تفتیش کی
ابھی تک اجازت نہیں دی گئی۔ ملزم محسن علی پر الزام ہے کہ وہ ان دوافرادمیں
شامل ہے جس کوڈاکٹرعمران فاروق کوقتل کرنے کے لیے برطانیہ بھیجاگیاتھا۔
تیسرے ملزم تک رسائی دینے میں کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں جنہیں جلد ہی
دورکرلیا جائے گا۔
بدلایوں رنگ آپ نے حیرت ہے مجھے
گرگٹ کومات دے گئی فطرت جناب کی |