امام الاعظم ابى حنيفہ رحمه الله اور خطیب بغدادی کی کتاب (تاریخ بغداد) پرایک تحقیقی نظر
(syed imaad ul deen, samandri )
حافظ أبي بكر أحمد بن علي الخطيب
البغدادي کی کتاب تاريخ بغداد چوده جلدوں میں ہے ، اس کتاب میں فقهاء
ومحدثين وأرباب علوم وأئمہ دین ودیگرمشاہیر زمانہ کے تقریبا (7831 ) تراجم
وسوانح واحوال بیان کیئے گئے ہیں ، اوریہ کتاب خطيب البغدادي کی أهم اوربڑی
مشہورکتاب ہے ، کتاب میں تمام علماء بغداد کی تاریخ بیان کرتے ہیں ، مقدمة
الكتاب میں وضاحت فرماتے ہیں کہ یہ تاریخ ان لوگوں پرمشتمل ہوگی،
تسمية الخلفاء والأشراف والكبراء والقضاة والفقهاء والمحدثين والقراء
والزهاد والصلحاء والمتأدبين والشعراء من أهل مدينة السلام الذين ولدوا بها
وبسواها من البلدان ونزلوها وذكر من انتقل عنها ومات ببلدة غيرها ومن كان
بالنواحي القريبة منها ومن قدمها من غير أهلها
یعنی اس سلسلہ میں أهل مدينة السلام یعنی (بغداد) کے خلفاء ، واشراف ،
وكبراء ، وقضاة ، وفقهاء ، ومحدثين ، وقراء، وزهاد ، وصلحاء ، ومتأدبين ،
وشعراء کا تذکره ہوگا ، اورأهل مدينة السلام سے وه مراد ہیں جو وہاں پیدا
ہوئے یا کسی دوسرے مقام سے آکر وہاں سکونت پذیر ہوئے ، اور وه جو بغداد
کوچهوڑکر دوسری جگہ فوت ہوئے ، اوروه جواس کے قرب وجوارمیں ساکن تهے یا
وہاں آکر رہے ، ان کی کنیت ، ان کا حسب نسب ، مشہور واقعات ، تاریخ وفات
وغیره بقدر اپنی علم ومعرفت جمع کیئے ہیں الخ
یہ تو کتاب " تاريخ بغداد " سے متعلق بات تهی ، امام الأعظم أبى حنيفة رحمه
الله سے متعلق خطيب البغدادي رحمہ الله جو کچهہ ذکرکیا ہے ، اصل بات میں نے
وہی عرض کرنی ہے، خطيب البغدادي رحمہ الله نے تقریبا ( 44 ) چوالیس صفحات
پرامام الأعظم أبى حنيفة رحمه الله کے فضائل ومناقب لکهے ہیں ، پهراس کے
بعد وه اقوال لکهے ہیں جو امام صاحب کے خلاف منقول ہیں ، اوران اقوال کو
نقل کرنے سے پہلے خطيب البغدادي رحمہ الله یہ تمہید بیان کی ہے۔
(( قال الخطيب وقد سقنا عن أيوب السختياني وسفيان الثوري وسفيان بن عيينة
وأبي بكر بن عياش وغيرهم من الأئمة أخبارا كثيرة ٹضمن تقريظ أبي حنيفة
والمدح له والثناء عليه والمحفوظ ثم نقله الحديث عن الأئمة المتقدمين
وهؤلاء المذكورون منهم في أبي حنيفة خلاف ذلك وكلامهم فيه كثير لأمور شنيعة
حفظت عليه متعلق بعضها بأصول الديانات وبعضها بالفروع نحن ذاكروها بمشيئة
الله ومعتذرون إلى من وقف عليها وكره سماعها بأن أبا حنيفة عندنا مع جلالة
قدره أسوة غيره من العلماء الذين دونا ذكرهم في هذا الكتاب وأوردنا أخبارهم
وحكينا أقوال الناس فيهم على تباينها والله الموفق للصواب ))
خطيب البغدادي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:
ہم نے أيوب السختياني اورسفيان الثوري اورسفيان بن عيينة اورأبي بكر بن
عياش وغيرهم أئمہ کرام سے أبي حنيفة رحمہ الله کی مدح وثناء وتعریف میں
بیان کردئیے ہیں ، لیکن ناقلین حدیث کے یہاں ائمہ مذکورین کے ایسے اقوال
بهی محفوظ ہیں جو مذکوره بالا بیان (یعنی امام الأعظم کے فضائل ومناقب ) کے
خلاف ہیں ، اور انهوں نے اس بارے میں بہت کلام کیا ہے ، اوراس کلام کی وجہ
وه امور شنیعہ ہیں جوان کے متعلق محفوظ کی گئ ہیں ، ان میں سے بعض تواصول
دین سے متعلق ہیں اوربعض فروع سے متعلق ہیں ، ہم ان شاء الله ان کا ذکرکریں
گے ، جولوگ اس کو (یعنی امام الأعظم کے مخالف اقوال) سننا ناپسند کریں توہم
ان سے معذرت کرتے ہیں ، اس لیئے کہ ہم أبي حنيفة رحمہ الله کے جلالت قدر (
بلند مرتبہ) کے قائل ہیں ، لیکن ان کواس بارے میں دوسرے علماء کی طرح
سمجهتے ہیں کہ ان (أبي حنيفة رحمہ الله) کے خلاف جوباتیں بیان کی گئ ہیں ان
کوبهی ہم بیان کردیں جیسا کہ ہم نے دوسرے علماء کے ذکرمیں کیا ہے ۰ اهــ
یہ تمہید لکهنے کے بعد خطيب البغدادي رحمہ الله نے پهر وه اقوال نقل کیئے
ہیں جو امام الأعظم أبى حنيفة رحمه الله کے خلاف بیان کیئے گئے ہیں اور یہ
یاد رہے کہ یہ مخالف اقوال اور جَرحیں سب غیرمفسراورغیرمُبین السبب ہیں
یعنی ان تمام جَرحوں کی کوئ وجہ اورسبب اورتفصیل وتشریح بیان نہیں کی گئ ہے
بس صرف فلاں فلاں سے نقل کی گئ ہیں ، اسی طرح خود خطيب البغدادي رحمہ الله
نے بهی ان مخالف اقوال اور جَرحوں کے ناقلین اور راویوں کی عدالت کی توثیق
نہیں کی ہے ، لہذا یہ دونوں باتیں اہم ہیں یعنی جَرحیں سب
غیرمُفسَّراورغیرمُبَینُ السَبَب ہیں اورخود خطیب نے ان کے راویوں کی توثیق
نہیں کی ہے۔
امام الأعظم رحمہ الله پرکی گئ ان جَرحَوں پرایک تحقیقی نظر
اس بارے میں ان تمام جَرحَوں پرتحقیقی نظرڈالی جائے توبحث کے دو پہلو
ہوسکتے ہیں ، نقلی اور عقلی ، نقلی بحث تو یہ ہے کہ خود خطیب بغدادی ان
مخالف اقوال اورجَرحَوں صحت کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیئے تیارنہیں ہیں ،
لہذا یہ مخالف اقوال اورجَرحَیں نقل کرنے سے پہلے خطیب بغدادی نے جوتمہید
لکهی جو اوپر مذکور ہوئ وه تمہید اس بات کی شاہد ہے کہ خطیب بغدادی نے
جَرحَیں نقل کرنے سے پہلے ومعتذرون إلى من وقف عليها وكره سماعها کہ کر
معذرت کی ہے اورکہا کہ چونکہ یہ جَرحَیں امام الأعظم رحمہ الله کے خلاف
روایت کی گئ ہیں اورتمام علماء کے متعلق وه مخالف وموافق امور نقل کرتے ہیں
، اس لیئے ان جَرحَوں کو بهی نقل کریں گے ، اوراس کے ساتهہ ساتهہ امام
الأعظم رحمہ الله کی جلالت قدر وعلوشان کا اعلان واقراربهی کرتے ہیں بأن
أبا حنيفة عندنا مع جلالة قدره أسوة ، اب ظاہر ہے کہ اگر ان مخالف اقوال
اورجَرحَوں میں سے فروع یا عقائد سے متعلق کوئ بهی جَرَح یقینی طور پر خطیب
بغدادی کے نزدیک ثابت وصحیح ہوتی تو امام الأعظم رحمہ الله کی جلالت قدر
وعلوشان کا اعلان واقرار کیوں کرتے ؟؟
اورپهر مزید یہ کہ خطیب بغدادی یہ مخالف اقوال اورجَرحَیں کے نقل کرنے کے
بعد جابجا ان کے اوپر تردیدی اقوال بهی بیان کرتے ہیں حالانکہ جَرَح کے باب
میں تعدیل کا موقع نہیں ہوتا کیونکہ تعدیل ومناقب وفضائل کا باب تو ختم
ہوچکا ہے ، مثلا خلق قرآن ( قرآن کے مخلوق) کا عقیده کی روایت نقل کرنے کے
بعد خطیب بغدادی نے امام احمد بن حنبل رحمہ الله کا یہ قول اس کی تردید میں
نقل کیا لم يصح عندنا أن أبا حنيفة كان يقول بخلق القرآن ، یعنی امام احمد
بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے کہ
أبوحنیفہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تهے ، اسی طرح ایک جگہ امام احمد بن
حنبل رحمہ الله کی طرف جوجَرَح امام الأعظم رحمہ الله کے کذاب ہونے کی
منسوب ہے اس کونقل کرنے کے بعد خطیب بغدادی نے لکها کہ يحي ابن مُعين
(إمامُ الجرح والتعديل) سے پوچها گیا کہ آیا أبوحنیفہ ثـِقـَه ہیں ؟؟ تو
يحي ابن مُعين (إمامُ الجرح والتعديل) نے جواب دیا قـال نعـم ثـقــة ثـقــة
، ہاں ثـِقـَه ہیں ثـِقـَه ہیں، اور دوسری اہم بات یہ کہ امام احمد بن حنبل
رحمہ الله نے اپنی مُسند میں امام الأعظم رحمہ الله کی حدیث بهی نقل کی ہے
اور امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے اپنی مُسند میں بے اصل احادیث کونقل
نہیں کیا اس لیئے اگر وه کذاب سمجهتے تو ان کی حدیث کیوں نقل کرتے ؟؟ (حدیث
ملاحظہ کریں مسند بریده ج 5 ، ص 35 ) لہذا خطیب بغدادی کے اس
اندازپرغورکرنے کے بعد یہ بات أظهرمن الشمس ہوجاتی ہے کہ خطیب بغدادی نے
امام الأعظم رحمہ الله کے مخالف اقوال وجَرحیں نقل کرنے میں محض اپنا
مُؤرخَـانہ فرض ادا کیا ہے وه خود ان کے قائل نہیں تهے یا یہ کہیئے کہ وه
خود ان کی رائے وفیصلہ نہیں ہے جیسا کہ خطیب بغدادی کی مذکوره بالا تمہید
وطرزبیان سے واضح ہے۔اسی طرح علماء امت نے امام الأعظم رحمہ الله پرطعن
وجرح کرنے والوں پرمستقل کتب کی صورت میں مُدلل ومفصل رد وجواب بهی لکها ہے
، اورخود خطیب بغدادی کی نقل کرده ان جَرحوں کی رد میں مستقل کتب لکهی گئ
ہیں ، مثلا جوکتب میری نظرسے گذری ہیں وه درج ذیل ہیں:
خطیب بغدادی کی رد میں لکهی گئ علماء امت کی مستقل کتابیں
الكتب المؤلفة في الرد على الخطيب البغدادي
1 = مقدمة كتاب جامع مسانيد الإمام الأعظم ، للخطيب الخوارزمي
2 = ألسهم المصيب في الرد على الخطيب ، لابن الجوزي
3 = ألسهم المصيب في كبد الخطيب ، للملك المعظّم أبي المظفر عيسى بن سيف
الدين أبي بكر بن ايوب الحنفي
4 = ألإنتصار لإمام ائمة الأمصار ، لسبط ابن الجوزي
5 = تنوير الصحيفة بمناقب الإمام أبي حنيفة ، لابن عبدالهادي الحنبلي
6 = السهم المصيب في نحر الخطيب ، للإمام السيوطي
7 = تأنيب الخطيب على ما ساقه في ترجمة أبي حنيفة من الأكاذيب ، للعلامـة
محمد زاهد الكوثري ، رحمهم الله جميعـــا۔
خطیب بغدادی کی نقل کرده جرحوں کی رد وجواب میں مذکوره کتابوں کے لکهنے
والے سب کے حنفی نہیں ہیں ، بلکہ امام سيوطي شافعي المسلک ہیں ، اورخود
خطیب بغدادی بهی شافعي المسلک ہیں ، اور امام ابن الجوزي حنبلي المسلک ہیں
، ، اسی طرح علامہ ابن عبدالهادي حنبلي المسلک ہیں ، ، توان اقوال اورجرحوں
کے جهوٹ وباطل ہونے کی اس سے بڑهہ کرکیا شہادت چائیے کہ خود اپنے مسلک کے
علماء نے اوراسی طرح احناف کے علاوه دیگر مسالک کے علماء نے مستقل کتب لکهہ
کر خطیب بغدادی کی منقولہ جرحوں کو باطل وبے اصل قراردیا ،
اسی طرح کتاب مكانة الإمام أبي حنيفة بين المحدثين. للشيخ محمد قاسم عبده
الحارثي، اور علامہ خوارزمي کی کتاب جامع مسانيد الإمام الأعظم کی مقدمہ
میں اورامام ابن حجر الهيتمي رحمه الله کی کتاب الخيرات الحسان میں ، اور
کتاب عقود الجمان في مناقب الإمام الأعظم أبي حنيفة النعمان ، میں اور اسی
طرح العلامة المحدث الناقد المحقق البارع الفقيه الشيخ محمد عبد الرشيد
النعماني رحمہ الله کی کتاب مكانة الإمام أبي حنيفة في الحديث: میں بهی ان
تمام جرحوں کا کافی وشافی رد وجواب موجود ہے ، اوربالخصوص الشيخ العلامة
المحدث المحقق عبدالفتاح أبوغدة رحمه الله کی تمام تحقیقات اس بارے میں
لاجواب ہیں۔
حـــاصل كــــــلام
امام الأعظم أبوحنيفه رحمه الله کے جوفضائل ومناقب واوصاف خطیب بغدادی نے
بیان کیئے ہیں ، ان میں سب سے بڑا شرف ومرتبہ تو آپ کی تابعیت کا ہے ، اس
کے بعد کمال درجہ عقل وفہم وذہانت وفطانت کے ساتهہ ساتهہ تمام علوم وفنون
میں تبحر امام الأعظم أبوحنيفه رحمه الله کے خاص اوصاف ہیں ، خود خطیب
بغدادی نے امام الأعظم کی تیزفہمی وباریک بینی وکمال عقل وفہم کے بیان میں
مستقل باب قائم کیا ، اسی طرح امام الأعظم کا تجارت وکاروبار بهی تها تو اس
سلسلہ میں حُسن معاملہ ، امانت ودیانت ، بہترین تاجرانہ اوصاف وغیره بیان
کرنے کے لیئے بهی خطیب بغدادی نے حُسن معاملہ کے بیان میں مستقل باب قائم
کیا ، اسی طرح امام الأعظم کی عبادت وریاضت و ورع اور شب بیداری ، وتلاوت
قرآن کی کثرت ، وعلم وفضل وفقاہت ، اورحق پراستقامت وپختگی ، وغیره اوصاف
وخصائص بیان کرنے کے لیئے بهی خطیب بغدادی نے مستقل ابواب قائم کیئے ہیں ،
توایسے جامعُ الصفات وکثیرُالمناقب شخص کے ساتهہ کسی کی طرف سے تعصب وحسد
کا ہونا کوئ بعید بات نہیں ہے ،بلکہ دیگرائمہ اسلام کے ساتهہ بهی یہی ہوا
ہے ،
اوربقول علامہ ابن عبدالبَر رحمہ الله کہ امام عبدالله ابن المبارک رحمہ
الله سے پوچها گیا کہ فلاں شخص ابوحنیفہ رحمہ الله پراعتراض کرتا ہے ، تو
امام عبدالله ابن المبارک رحمہ الله یہ شعر پڑها
حـسدوك ان رأوك فضلك الله ، بمـا فضلت به النجبـــاء
لوگوں نے یہ دیکهہ کرتجهہ سے حسد کیا کہ الله تعالی نے تجهہ کو فضیلت
ومرتبہ دیا جو کہ شرفاء کو دیا جاتا ہے ،
اسی طرح مسائل شرعیہ میں امام الأعظم کی تحقیق اوراجتہاد بهی بعض معاصرین
کی فہم سے بالا ترثابت ہوا تو فہم کی نارسائ اختلاف کا باعث ہوئ اورپهراس
اختلاف نے جرح کا رنگ اختیار کردیا ، اورپهر اختلاف اجتہاد کی بنیاد پرجرح
ائمہ جرح وتعدیل کے یہاں نامقبول ہے ، اسی طرح حسد ومذهبی تعصب وغیره
امورمیں بهی جرح نامقبول ہوتی ہے ، اور امام الأعظم کے خلاف جرحیں بهی
تقریبا سب اسی قبیل سے ہیں۔ اورسب سے بڑهہ کر یہ کہ امام محمد رحمہ الله سے
لے کر علامہ ابن عابدین شامی رحمہ الله تک ہزاروں کبارحنفی علماء کی بےشمار
کتب وتصانیف فروع وعقائد میں موجود ہیں ، ان کتب کی بنیاد پر دیکها جائے کہ
جو غلط عقائد ومسائل امام الأعظم کی طرف منسوب کیئے گئے وه کہاں ہیں؟
آج بهی بے شمار احناف اہل اسلام پوری دنیا میں موجود ہیں ان میں سے کوئ بهی
خلق قرآن ، ارجاء ، وغیره غلط عقائد ومسائل کا قائل نہیں ہے ، اس سے صاف
ظاہر ہے کہ امام الأعظم پر جرح وطعن کی بنیاد یا تو غلط فہمی ہے ، یا حسد
وتعصب ، اورظاہر ہے ان دونوں بنیادوں پر جوعمارت قائم ہوگی تو وه کبهی
دیرپا نہیں ہوسکتی ، چنانچہ یہی ہوا سُوء فہم اورحسد وتعصب کے غُبار چهَٹ
جانے کے بعد أصـول حديث اور عـلم رجال وعلم جرح وتعـديل کے أئمہ نے امام
الأعظم کے خلاف کی گئ جرحَوں کو بالاتفاق بے اصل وغیرمقبول وباطل قراردیا۔
أعد ذكر نعمان لنا إن ذكره * هو المسك ما كررته يتضوع
أعد ذكر نعمان لنا إن ذكره * هو المسك ما كررته يتضوع
نحن قوم ذنوبنا للأعادي *** أخذوها بغيبة وانتقاد
وأخذنا طاعاتهم بازدراء *** وعتو في حقنا وعناد
كيف لا نرتقي عليهم ونعلو *** ونُرى كل ساعة في ازدياد
وهم العاملون خيرا لنا إن *** عملوا، لانتهاك حق العباد
وهم الغاسلون للذنب عنا *** مثل بالوعة لنفي فساد
ولهم كل ساعةٍ حربً شركٍ *** واعتراض على عطاء الجواد
ولنا صبرُ ذي الكمال عليهم *** ولنا بالدعاء ثواب جهاد
خلهم يا أخا المودة فينا *** يطعنوا إن الله بالمرصاد |
|