ریاض ؔانصاری جیوری شاگرد ِ رشید نوح ؔ ناروی ۔ شخصیت و شاعری

ریاض ؔ انصاری جیوری ہندوستان کے ضلع’ بلند شہر‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔اس شاعر کا زمانہ 1898سے 1974کا ہے۔گویا بیسویں صدی عیسویں کے آغاز سے 1974تک۔ اس دور کے ممتاز سخنوروں میں احمد رضاؔ بریلوی، سید وحید الدین احمدبیخودؔ دہلوی، شادؔ عظیم آباد ، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال، مولانا محمد علی جوہر، حسرت ؔ موہانی،شیخ محمد ابراہیم آزاد ، مولانا غلام شہید ؔ، آسی ؔغازی پوری،حسنؔ بریلوی،علامہ ضیاء القادری ، محمد عبداﷲ بیدلؔ ، حافظ خلیل الدین حسن حافظؔ پھیلی بھیتی، محمد یوسف راسخؔ ، منشی عبدالشکور خاں برقؔ اجمیری ، محمد عبداﷲ المعروف بہ امیر دولھا صوفیؔ،جمیل نقوی مرحوم ، خلیلؔ صمدانی،ناصرؔ کاظمی اور دیگر شامل ہیں۔یہی شعراء جناب ریاض ؔ انصاری جیوری کے ہم عصر کہے جاسکتے ہیں۔ریاض ؔ انصاری جیوری کا شجرۂِ شاعری جنابِ داغؔ دہلوی سے جا ملتا ہے وہ اس طرح کہ انہوں نے نوح ؔناروی ،شاگرد رشید داغؔ دہلوی سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔انہوں نے 17برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا خیال ہے کہ انہوں نے پہلا شعر1915 میں کہا ہوگا۔ریاض ؔ انصاری جیوری کا ایک معروف شعر ؂
جنگ ظلمت سے رہے گی میرے نورِ فکر کی
میں چلا جاؤں گا لیکن روشنی رہ جائے گی

ریاض ؔ انصاری جیوری کے خاندان اور دیگر شعراء نے ریاض ؔ انصاری جیوری کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار نثر اور نظم میں کیا اور تقریظیں لکھیں ۔نثر میں خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں سلیم ؔکوثر، گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمر رئیسؔ، نداؔ فاضلی، وکیل انصاری، شکیلؔ گوالیاری، وقار صدیقی گوالیاری، ڈاکٹر اے ایم زتشی گلزار دہلوی، محفوظ الرؤف انصاری شامل ہیں جب کہ نظم میں خراج تحسین پیش کرنے والوں میں محمد خالدؔ کفایت، رئیس الدین رئیسؔ، یاض گوالیاری شامل ہیں۔ ریاض ؔ انصاری جیوری کے بارے میں گوپی چند نارنگ کا ایک خوبصورت جملہ دیکھئے لکھتے ہیں’ سترہ برس کی عمر سے زندگی کے آخری لمحات تک انھوں نے شاعری کی دیوی کی پوجا ارچنا میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی‘۔ ریاض ؔ انصاری جیوری کی شاعری کے بارے میں ان کا مزید کہنا ہے کہ’ ریاض ؔ انصاری جیوری کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے شاعری کو کبھی سود و زیاں کا کھیل نہیں سمجھا بلکہ زمینی سچائیوں کو اپنی سوچ سے جہاں تک ممکن ہوا پیش کیا۔ اُن کی شاعری میں جو رکھ رکھاؤ اور نظم و ضبط ہے اور محاسنِ کلام کا جو معیار نظر آتا ہے وہ اُن کی مشتاقی کی دلیل ہے‘۔ ریاض ؔ انصاری جیوری کی شخصیت اور شاعری پر ان کے خاندان کے متعدد احباب جو ذوقِ ادب و شاعری رکھتے ہیں نے اظہار ِ خیال کیا ہے۔ وکیل انصاری نے لکھا کہ’ ریاض ؔ انصاری جیوری کا تعلق قصبہ ضلع بلند شہر سے تھا لیکن وہ تمام زندگی گولیار کو آباد کیے رہے۔ وہ گوالیار کی علمی و ادبی محفلوں کی رونق تھے۔ وہ صرف ایک کہنا مشق شاعر ہی نہ تھے بلکہ اردو زبان سے محبت ، چاہت اور اس کے فروغ و ترقی کے لیے بھی سرگرم رہے‘۔ پیشہ کے اعتبار سے استاد تھے۔ اسکول میں ٹیچر ہونے کوفخر سمجھا اور ہمیشہ اسکول ہی میں پڑھاتے رہے۔ لفظ ماسٹر ان کے نام کا لازمی جذو بن چکا تھا،اکثر لوگ انہیں ماسٹرجی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ اسی حوالہ سے وقار صدیقی گوالیاری نے لکھا کہ’ ریاض ؔ انصاری جیوری نے صرف مدرس کی حیثیت سے اردو زبان کی خدمت ہی نہیں کی بلکہ پوری طرح اردو تحریک کا ساتھ بھی دیا۔ گوالیار میں جب بھی اردو کی تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی اس کے خلاف ہر احتجاج میں انہوں نے ہمارا ساتھ دیا ۔ 1915میں گوالیار میں بزم ادب‘ کی سرگرمیوں کے روح واں رہے۔ 1947-1972تک وہ ’بزم اردو‘ کے معتمد کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 1955میں انجمن ترقی اردو کی گوالیار شاخ کا قیام دوبارہ عمل میں آیا ریاض صاحب انجمن کے سرپرست کی حیثیت سے ابتداء سے آخر دم تک ہر کام اور موقع پر برابر عملی تعاون کرتے رہے۔ وہ جلسے میں بلاناغہ شرکت کرتے اور ہر منظور شدہ تجویز کو عملی صورت دینے میں انتہائی مستعدی کا ثبوت دیتے۔انہوں نے انجمن کے اَن گنت وفود کی سربراہی کی‘۔

شکیل گوالیاری نے ان کی شخصیت کا جو نقشدہ کھینچا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے۔’گورارنگ، میانہ قد چہرے پر سنجیدگی و متانت رحم و انصاف شفقت و محبت کی جھلک، خود ستائی، تکبر اور غیبت جیسے اخلاقی و روحانی امراض سے پاک صاف، تصنع اور تکلف سے کوسوں دور صبر و تحمل کے خوگر، مدح وزم سے بے نیاز، دوست نوازی اور احباء پروری کی زندہ تصویر، شاعری زندگی دونوں میں سادگی پسند، ہر اصلاحی اور علمی و ادبی کام میں پیش پیش ، قوم و ملت کی خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبے سے شرشار، زبان اردو کے حقیقی سرپرست، اتحاد ویکجہتی کے حامی، ہندو اور مسلمانوں میں یکساں طور پر مقبول صاف دل صاف گو لیکن کسی کی دل آزاری سے محترز، صوم و صلوٰۃ کے پابند ہر محفل میں زینت صدارت، ہر تقریب میں مرکز ِتوجہ عمر کے آخری ایام تک مذکورہ اوصاف سے متصف، ضعیفی میں بھی خوش الحان، ایسے تھے قاضی ریاض الدین انصاری جیوری‘۔وقار صدیقی گوالیاری نے لکھا کہ ’ ریاض صاحب فطری طور پر بڑے خوش طبع ، زندہ دل، ملنسار، خلیق، بچوں میں بچے، بوڑھوں میں بوڑھے واقع ہوئے تھے۔ ہر قسم کے تعصب سے قطعاً پاک، نفرت اور برہمی سے مبر، گفتگو میں طوالت پسند تھے لیکن انداز گفتگو کی دلچسپی اس طوالت کی عیب پوشی تھی اور یہ طوالت پسندی طلباء کو ایک بات کئی کئی طور سمجھا نے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔طبعاً انتہائی پر سادگی پسند تھے ہمیشہ کرتا پاجامہ، شیروانی یا کوٹ اور ٹوپی بس یہ ان کا لباس تھا۔ خواہش نام و نمودے عمر بھر متنفر رہے ‘۔

ریاض ؔ انصاری جیوری کیونکہ داغؔ اسکول سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ ان کی شاعری میں داغؔ کی آن بان اور شان ہونا ہی تھی، ساتھ ہی میرؔ سے بھی متاثر تھے۔ اور نوح ؔ ناروی کے تووہ باقاعدہ شاگرد تھے ۔اسی لیے گوپی چند نارنگ نے کہا کہ ’ریاضؔ کے ابتدئی غزلوں میں نوحؔ ناروی کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں‘۔ ریاضؔ انصاری کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے جس میں انہوں نے اپنے آپ کو داغؔ اور میرؔ کے خوشہ چینوں میں ہونے کا اعتراف کیا ہے ؂
زبانِ داغؔ کہاں درد اور سوزِ میرؔ کہاں
ریاضؔ ہم ہیں فقط ان کے خوشہ چینوں میں

ریاض ؔ انصاری جیوری نے داغؔ اسکول سے اپنی وابستگی کو اپنے لیے اعزاز تصور کیا اس کا حق ہمیشہ ادا کرتے رہے ؂
آپ گھبرائیں نہ زلفوں کی پریشانی سے
یہ سنور جاتی ہیں کچھ اور پریشان ہوکر

ٍ ریاض ؔ انصاری جیوری نے ہمیشہ غزل کہی وہ غزل کے شاعر گردانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں محاورات کی خوبی، زبان میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار میں میرؔ کی سی تیزی کا احساس ہوتا ہے۔ زبان و بیان میں نرمی ، سادگی اور روانی بدرجہ اتم موجود ہے۔ریاض ؔ انصاری جیوری کی غزلوں کے چمن زار میں داخل ہوتے ہی اندازہ ہوجاتا کہ یہ کس قدر نفیس اور پختہ شاعر ہے۔ریاضؔ کی غزل شفاف ، اجلی اجلی ، جھومتی ہوئی ، سرور فراہم کرتی ہے۔ شکیل گوالیاری نے درست کہا کہ’ ہر شعرریاض صاحب کے دکھو سے جوجھتی ہوئی زندگی کا آئینہ دار ہے۔ ساتھ ہی ساتھ زندگی کی تلخیوں کو خوش گوار بنانے اور خود کو مذاقِ عالم کے سانچے میں ڈھالنے کی مسلسل کوشش شاعر کی حوصلہ مندی کا پتہ دیتی ہے‘۔
عشق کو دیکھئے منزل سے بھی آگے پہنچا
دل ابھی منزلِ اُلفت کے مقامات میں ہے

ریاض ؔ انصاری جیوری نے زندگی کو سلگتا ہوا جہنم قراردیا۔ ان کے یہ اشعار دیکھئے ؂
اک اضطراب مسلسل ہے شورِ پیہم ہے
یہ زندگی تو سلگتا ہوا جہنم ہے
لطف نہیں ، سکوں نہیں، چین نہیں، خوشی نہیں
یہ بھی ہے کوئی زندگی یہ کوئی زندگی نہیں

پروفیسر قمر رئیسؔ نے ریاض ؔ انصاری جیوری کو ’مجاہد اردو‘ کا خطاب دیا ۔ کیونکہ ریاض ؔ انصاری جیوری صرف استاداور شاعر ہی نہ تھے بلکہ وہ اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے بھی فکر مند رہے، عملی طور پر جددجہد کرتے رہے۔ ندا فاضلی نے اپنے مضمون میں ریاض ؔ انصاری جیوری کے ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم سے مراسم اور گوالیار میں ان کی آمد اور ریاض ؔ انصاری جیوری سے ملاقات کاایک واقعہ تحریر کیا ہے جس سے ریاض ؔ انصاری جیوری کی اردو زبان سے محبت اور عقیدت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ذاکر حسین صدر ہندوستان گوالیار آئے تھے ۔ ملاقات میں ریاض ؔ انصاری جیوری بھی شامل تھے۔ ذاکر حسین نے ان سے پوچھا ’’قاضی صاحب آپ اتنی ڈگریوں کے ساتھ ابھی تک اسکول کے ٹیچر ہیں، فرمائیے میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں‘۔ اب یہ امتحان کا وقت تھا، ریاض ؔ انصاری جیوری نے اپنے لیے کچھ نہ مانگا ۔ انہوں نے صدر جمہوریہ ہند سے کہا ’’ میرے لیے آپ اتنا کردیجئے کہ اردو جو آزادی کے بعد سے سیاست کے نرغے میں ہے اس کی حفاظت فرمائیں۔ میری خواہش ہے میری زندگی تک یہ خوب صورت زبان وراثت کے طور پر نئی نسل کو ملے‘‘۔ اگر ریاض ؔ انصاری جیوری چاہتے تو اپنی اعلیٰ تعلیم و تجربہ کی بنیاد پر کالج کیا جامعہ میں پروفیسری تو لے ہی سکتے تھے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنی ذات سے زیادہ اجتماعی مفاد کو عزیز رکھتے ہیں۔

ریاض ؔ انصاری جیوری نے تقسیم ہند کو عملی طور پر دیکھا، باوجوہ انہوں نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ۔ جب انہوں نے ہند کے مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ دیکھا تو انہوں نے اپنے اندر ایک کرب اوردرد محسوس کیا اور اس ستم گری پر اپنے جذبات کا کھلے بندو اپنے اشعار میں اظہار کیا ؂
جس کے ہاتھوں نے گلستان کو سنوارا برسوں
اب وہ گلشن میں رہے ننگِ گلستان ہو کر!

ریاض ؔ انصاری جیوری نے ہندوستان کی مٹی کو اپنے لیے انتخاب ضرور کیا لیکن ان کے اپنے کہتے ہیں اور ریاضؔ کے بعض اشعار سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اپنوں کی جدائی اور تنہائی انہیں محسوس ہوتی تھی۔ وہ اپنوں کویاد کرتے تھے۔
ہزاروں گھر جہاں ویران ہوں اپنوں کی دوری
وہاں نظارۂ سیر چراغاں دیکھتے کیا ہو
گلوں میں دل کشی اب وہ غنچوں میں دلآویزی
گلستان میں ہے اب کیا، اب گلستان دیکھتے کیا ہو

پاکستا نی سیاست میں آجکل انقلاب اور تبدیلی کی بہت باتیں ہورہی ہیں۔ ریاض ؔ انصاری جیوری نے اس موضوع پر کیا خوب کہا ؂
زر پرستوں پر عتاب آجائے گا
زرد چہروں پر شباب آجائے گا
جب سمجھ لیں گے کہ دشمن کو ن ہے
بس اسی دن انقلاب آجائے گا

اپنے اس شعر میں ریاض ؔ انصاری جیوری نے کس قدر پیاری بات کہی ہے ؂
یہی ریاضؔ دعا ہے کہ جیتے جی نہ اٹھیں
کسی کے آگے میرے ہاتھ التجا کے لیے

ریاض ؔ انصاری جیوری کی غزلوں سے چند منتخب اشعار ؂
کسی کو عیش میسر ہوا ، کسی کو سکوں
مرے نصیب میں غم ہائے روزگار آئے
ہمارے بعد بھی آئی بہار گلشن میں
مگر سنا ہے کہ پھر پھول مسکرانہ سکے

ریاضؔ اس میں لاکھو ں نے غوطے لگائے، کچھ اس طرح ڈوبے اُبھر نے نہ پائے
محبت وہ بے تھاہ ہے اک سمندر، کہیں جس کا دنیا میں ساحل نہیں ہے
ہم چاہتے ہیں جتنا اُن کو ، وہ بھی ہمیں چا ہیں مشکل ہے
ہم اُن سے نبا ہیں لاکھ مگر، وہ ہم سے نبا ہیں مشکل ہے
نہیں تمہیں مجھ سے گر محبت تو پھر جتا نے سے فائدہ کیا؟
جو بات دل میں نہ ہو، زباں پر وہ بات لانے سے فائدہ کیا؟
خد ا کے لیے یوں شبِ ماہ میں تم ، نہ نکلا کرو گھر سے باہر اکیلے
کہیں ہو نہ جائیں تصدق ستارے، کہیں چاند رُخ کی بلائیں نہ لے لے
ہنس ہنس کے یوں خوب فریبِ محبت نہ دو مجھے
پہچانتا ہوں خوب تمہاری نظر کو میں
کرو ہلاک یوں بجلیاں گرا کے مجھے
خدا کے واسطے دیکھو نہ مسکرا کے مجھے
’’ہمارے نام نہ اب بھیجنا کبھی نامہ‘‘
یہ نامہ بر نے دیا ہے جواب لاکے مجھے
آئے ، بیٹھے اور اُٹھ کر چل دیے
یہ بھی ملنے کا کوئی انداز ہے؟

فیاضؔ گوالیاری نے ریاض ؔ انصاری جیوری کے سانحہ ارتحال پر منظوم خراج تحسین اس طرح پیش کیا ؂
غروب ہوگیا وہ آفتاب پچھلے دنوں
جو روشنی ہی نہیں، روشنی کا معدن تھا
وہ داغؔ و نوحؔ کی فنی روایتوں کا امیں
نگار خانۂ فطرت کا ا یک نقشِ مہیں
بس ایک شورشِ تحسین و داد باقی ہے
نہیں ہے وہ تو مگر اس کی یاد باقی ہے
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437397 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More