تحریکِ آزادی1857سے پہلے
(محمدشارب ضیاء رحمانی, NEW DELHI)
اورنگ زیبؒ کی وفات کے بعدیورپ
کی وہی سفیدفام طاقتیں جن پرعالمگیرکے دادانے شاہانہ عنایات کی بارش کی
تھیں،جن کوشاہ جہاں نے شکنجہ تادیب میں کساتھااورخودعالمگیرنے جنہیں پہلے
ملک بدرکیا،پھرمعاف کرکے تجارت کی اجازت دی تھی ،ابھی چندبرس ہی گذرے تھے
کہ اورنگ زیب کی راجدھانی پران غیرملکی طاقتوں کاتسلط ہوگیا،صوبوں کے
گورنرخودمختارہوگئے اورمغل شہنشاہ ایک ’’دعاء گومرشد‘‘بن کررہ گیا۔ایسے
ناگفتہ بہ حالات میں جنہوں نے سب سے پہلے ’’آزادی‘‘ کاخواب دیکھا،غلط نظام
کوتوڑنے کی بات کہی اورعوام وخواص کی سب سے پہلے ذہن سازی کی وہ حضر ت شاہ
ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒ ہیں۔بعدمیں آپ کے تلامذہ ،شاگردوں اورمریدوں نے
اپنے راہنماکے اصولوں کی روشنی میں آزادی کی اہم تحریکیں چلائیں۔
شاہ صاحبؒ کے قلب حساس میں ایک طرف بربادی وطن کادردتھا،تودوسری طرف آپ
کامغزبیدار،اسباب کی تلاش اورفکرعلاج میں مشغول تھا۔اس اضطراب میں آپ نے
اصلاحی جدوجہدشروع کی اورذہنی آزادی کابگل بجایا۔17,28میں آپ نے حجازمقدس
کاسفرکیااورروحانی مشاغل کے ساتھ ساتھ یورپ اورایشیاء کے لوگوں سے ان ممالک
سے متعلق پوری تفصیلات حاصل کیں۔اس سفرمیں ضمیرکی آوازنے یہ فیصلہ بھی
سنادیاکہ ان تباہیوں کاواحدعلاج’’فک کل نظام‘‘ہے۔چنانچہ آپ نے اصلاحی
نظریات مرتب کئے اوراپنے عملی واصلاحی پروگرام میں’’جہاد‘‘کالفظ استعمال
کیا۔ممکن تھاکہ اس زمانہ کے جنگجوسرداروں کی طرح آپ بھی تلوارہاتھ میں لے
لیتے ،مگراس طرح وہ ہمہ گیرانقلاب جوآپ کانصب العین تھا،پوانہ ہوتا۔اس
مقصدکی تکمیل اسی وقت ہوسکتی تھی کہ رائے عامہ آپ کے اصلاحی نظریات
کواپنالیتی۔اس کے لئے پہلے تعلیم وتربیت کی ضرورت تھی۔چنانچہ تعلیم وتربیت
کاانتظام جہادآزادی کامقدمہ اورپہلاپروگرام طے پایا(علماء
ہندکاشاندارماضی:۲ص۲۶)۔
سلاطین مغلیہ میں عالمگیرسے لے کرگیارہویں تاجدارشاہ عالم کازمانہ شاہ صاحب
کی نظروں کے سامنے گذراہے ،کم وبیش ہندوستان پر ابدالی کے سات حملے آپ کی
زندگی میں ہوئے۔بلکہ یہ کہاجاسکتاہے کہ احمدشاہ ابدالی کاہندوستان
آنااورنجیب الدولہ کاامیرالامراء ہوجانایہ سب کچھ حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ
کی سیاسی بصیرت کاہی نتیجہ تھا۔
اس کے علاوہ پانی پت کامیدان کارزارحقیقت میں شاہ صاحب کاہی
سجاسجایاتھا۔اگرسلطنت مغلیہ میں تھوڑی بھی جان ہوتی توپانی پت کے نتائج سے
فائدہ اٹھاکراپنے اقتدارکوقائم کرنے کی کوشش کرتی ۔اس کے ساتھ ہی بہارسے
شاہ عالم ثانی کوآپ نے دہلی اسی لئے بلایا تھاکہ وہ انگریزوں کے اثرسے نکل
آئیں اوردہلی آکراپنی طاقت کااستحکام کرلیں(دیباچہ مکتوبات شیخ الاسلام)
شاہ صاحبؒ کے بعداس تحریک کی ذمہ داری آپ کے خلف اکبرحضرت شاہ
عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کے سرآئی۔شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کے زمانہ میں دہلی
کے حالات مزیدابترہوگئے،انگریزوں کااقتداراوران کاظلم وستم
مزیدبڑھتاگیا۔ایسے نازک حالات میں حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ نے
جوخدمات انجام دی ہیں وہ یقیناتاریخ جدوجہدآزادی کا گرانقدرحصہ ہیں۔فک کل
نظام اورہمہ گیرانقلاب کاتصورجوحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی وفات تک
چندذہنوں میں مخصوص امانت کی حیثیت سے موجودتھا،اب ملک کاعام جذبہ بن
گیاتھااوراس تحریک کی آوازہندوستان سے گذرکرایشیاء کے دورددرازعلاقوں تک
پہونچ چکی تھی۔چنانچہ آپ کی فکری اورتعلیمی تربیت کااثرسیداحمدشہیدؒ اورشاہ
اسماعیل شہیدؒ کی تحریک جدوجہدآزادی کی شکل میں ظاہرہوا۔
شاہ صاحبؒ نے ہندوستان کو’’دارالحرب‘‘ قراردے کرانگریزوں کے خلاف
جہادکافتویٰ دیا۔آپ کایہ فتوی ٰ فتاویٰ عزیزی ج۱،ص۱۰۵پرموجودہے ۔فتوی کی
زبان گوکہ مذہبی ہے،مگر روح سیاسی ہے ۔اس کامفہوم یہ ہے کہ چونکہ قانون
سازی کے سارے اختیارات عیسائیوں کے ہاتھوں میں ہیں،مذہب کااحترام ختم ہے
اورشہری آزادی سلب کرلی گئی ہے لہٰذاہرمحب وطن کافرض ہے کہ وہ اس اجنبی
طاقت کے خلاف اعلان جنگ کرے اورجب تک اس کوملک بدرنہ کردے ،اس وقت تک زندہ
رہناحرام جانے۔اس فتوی سے صاف ظاہرہے کہ شاہ صاحب ،انگریزوں کے مظالم سے
بلاتفریق مذہب وملت ہرایک کوآزادی دلاناچاہتے تھے ۔لہٰذا شاہ صاحبؒ نے اپنے
لوگوں کوسیداحمدکے ساتھ نواب امیرعلی خاں کی فوج میں بھرتی کراکے اپنے فتوی
کی عملی شکل بھی پیش کردی ( علماء ہندکاشاندارماضی ص۹۳/نقش حیات ج۲،ص۱۱)۔
شاہ صاحب نے دوجماعتیں تشکیل کیں۔ایک کے میرکارواں سیداحمدشہیدؒ ہوئے جن کے
مشیراوراہم رکن مولاناعبدالحیؒ اورشاہ اسماعیل شہیدؒ قرارپائے۔اس جماعت
کودیگرممالک سے رابطہ کرنے اورعسکری تربیت کی ذمہ داری دی گئی ۔دوسری جماعت
شاہ اسحاق دہلویؒ ،شاہ محمدیعقوب دہلویؒ ،مفتی رشیدالدینؒ ،مفتی صدرالدینؒ
،مولاناحسن علی لکھنویؒ ،مولاناحسین احمدملیح آبادیؒ اورشاہ عبدالغنیؒ جیسے
اصحاب علم وفن پرمشتمل تھی جنہیں تعلیمی میدان میں خدمات انجام دینے کے لئے
منتخب کیاگیا۔آزادی کے متوالوں کایہ قافلہ1818میں دہلی سے روانہ ہوااورپورے
ملک میں ان رہنماؤں کے ذریعہ اصلاحی خدمات کے سات ساتھ سپاہیانہ ورزشیں بھی
کرائی جانے لگیں۔
اس لئے یہ کہاجاسکتاہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کی تحریک کی جڑیں
نظریاتی ،مذہبی اورعلمی اعتبارسے مضبوط بنیادوں پرقائم ہیں جن کوہندوستان
کاسیاسی انقلاب اپنی جگہ سے ہلانہ سکا۔جولوگ یہ کہتے ہیں کہ شاہ صاحبؒ
یاسیداحمدشہیدؒ کی تحریک سیاسی حیثیت سے ناکام رہی ،میں سمجھتاہوں کہ انہوں
نے یہ بات نیندمیں کہہ دی ہے۔ناکامی کی وجہ، اصول کی خرابی ہوتی ہے ۔جب
اصول صحیح ہیں توپھرناکامی اورشکست کے کیامعنیٰ؟۔صحیح اصولوں کونہ توتاریخ
میں کبھی شکست ہوئی ہے اورنہ ہوگی کیونکہ جوانقلاب صحیح علم کے
بعدلایاجاتاہے ،وہ بہت پائیداراورناقابل تسخیرہوتاہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ
تاریخی حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ حضرت سیداحمدشہیدؒ
کامقصدجہاد،ملک کے ہندواورمسلمانوں کوکمپنی بہادرکے اقتدارسے نجات
دلاناتھامگریہ ہندوستان کی بدقسمتی تھی کہ پنجاب کے مسلمانوں کی زبوں حالی
سے رنجیت سنگھ سے مقابلہ کرناپڑااوربالاکورٹ میں ہی مجاہدین کوحیات جاودانی
نصیب ہوگئی ،مگراس نے ملک کے اندرایک انقلابی روح پھونک دی اورایک ایسی
بنیادقائم کردی جس پرتحریک آزادی کی عمارت کھڑی کی جاسکی۔سیدصاحب کے
مقصدکونہ سمجھنے کی بناء پربعض مدعیان اصلاح وتجدیدکو دھوکہ ہوگیا اوراس
تحریک کوجہادآزادی سے الگ سمجھاجانے لگا۔سیدصاحب کااصل مقصدچونکہ صرف
اورصرف ہندوستان سے انگریزی تسلط کاقلع قمع تھا،اس بناء پرآپ نے اپنے ساتھ
ہندؤں کوبھی شرکت کی دعوت دی اورصاف صاف یہ بتادیاکہ آزادی کے بعدحکومت کس
کی ہوگی،اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے چنانچہ اس حوالہ سے گوالیارکے مہاراج
دولت رائے اورراجہ بندورائے کوآپ نے جوخط تحریرفرمایاہے ،اسے غورسے
پڑھناچاہئے۔
ادھرصادق پورپٹنہ میں سیداحمدشہیدؒ کی تحریک سے متاثرہوکرمولاناولایت علیؒ
،مولاناعنایت علیؒ ،مولانافرحت علیؒ ،مولانااحمداللہؒ اورمولانایحیٰ علیؒ
علماء صادق پورنے پورے انہماک کے ساتھ اس تحریک کوآگے بڑھایاجس کے نتیجہ
میں ان حضرات پرسازش کامقدمہ چلایاگیا۔تاریخ آزادی کے صفحات میں ان علماء
صادق پورکی قربانیاں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔1857 سے پہلے کی جدوجہدآزادی میں
تحریک شاہ ولی اللہی کے جانبازوں کے علاوہ ایک اہم نام حافظ الملک رحمت خاں
کاہے۔حافظ الملک رحمت خاں نے نواب سعداللہ خاں کے انتقال اورروہیل کھنڈکے
حاکم بننے کے بعدملک دشمن طاقتوں کے خلاف خوب لوہالیااورانگریزوں کے ناکوں
چنے چبوائے ۔آپ کی فوج میں علماء ومشائخ کی بڑی تعدادتھی جن میں سب سے
مشہورمولاناسیداحمدکی ذات گرامی تھی ،ان کاعرفی نام ’’شاہ جی بابا‘‘تھا۔
1749میں حافظ الملک نے آپ کونوا ب قائم خاں کے پاس سفیربناکربھیجاتھا،اسی
طرح حافظ الملک کی فوج کے حافظ جمال اللہ کانام1774کی جنگ کے سپاہیوں میں
سرفہرست ہے۔ ان کے علاوہ مولاناغلام جیلانی بہادرنے 1781میں انگریزو ں کے
خلاف جنگ میں فیض اللہ خاں کے سپاہیوں کی قیادت
فرمائی(اخبارالصنادیدج۱،ص۵۸۳)۔
ان کے علاوہ سینکڑوں علماء حافظ الملک رحمت خاں کے ساتھ محاذپررہتے۔1774کی
جنگ میں توبہت سار ے علماء کوگرفتارکرکے لے جایاگیاجن میں قاضی محمدسعیدخاں
بھی شامل تھے۔
جنگ دوجوڑہ ،تحریک آزادی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ جنگ 1857 سے بہت پہلے
24 اکتوبر1794کولڑی گئی جس میں ملاعبدالرحیم رامپوری اورمولاناغلام جیلانی
نے روہیلیوں کے ساتھ مل کرانگریزوں کے خلاف پیش قدمی کی تھی۔اس کے علاوہ
1844میں مولاناشریعت اللہ نے فرائضی تحریک چلائی ۔اس تحریک نے تقریباََساٹھ
برسوں تک اپنی جدوجہدکوجاری رکھایہاں تک کہ انگریزوں کامکمل بائیکاٹ کرکے
ایک نوع کی متوازی حکومت قائم کردی تھی(سرگذشت مجاہدین ص۲۱۶)۔
کیرالہ میں جوجنگیں انگریزوں کے خلاف لڑی گئیں وہ بھی تواٹھارہ سوستاون سے
پہلے کی ہی تاریخ کاحصہ ہیں۔1836سے1840تک علماء کیرالہ نے کئی معرکے
انگریزوں کے خلاف سرکئے(المسلمون فی کیرالہ۹۵)۔مجاہدین آزادی کی اس فہرست
میں ایک اہم نام مولانااحمداللہ شاہ ہے۔آپ جے پور،ٹونک ،دہلی،آگرہ
اورگوالیارکادورہ کرکے انگریزوں کے خلاف بغاو ت کاعمومی جذبہ پیداکرتے رہے
تاآنکہ اکتوبر1856میں لکھنوواردہوئے اورفقیرانہ لباس میں اپناکام کرتے
رہے،انگریزوں نے گرفتاری کے لئے مسلح دستہ روانہ کیا،یہ جنگ دس دنوں تک چلی
،پھر8جون1857کوفیض آبادمیں زبردست بغاوت ہوئی،انگریزافسروں
کوقیدکرلیاگیااورآپ جیل سے چھڑاکرانقلابیوں کے لیڈرمنتخب کئے گئے۔(محاربہ
عظیم ص۳۵۴)۔
ان سب کے علاوہ 1857سے ٹھیک سوبرس پہلے 1757میں سراج الدولہ اورانگریزوں کے
خلاف زبردست جنگ ہوئی ،پھر1763 میں بنگال کے نواب میرقاسم نے انگریزوں کے
خلاف جنگ کی ۔پھرایک سال بعدشجاع الدولہ کے ساتھ مل کرمیرقاسم نے بکسرکے
مقام پر تاریخی جنگ لڑی۔اس کے علاوہ 1799کی ٹیپو سلطان کی انگریزوں کے خلاف
اس جنگ کوکون بھول سکتاہے جس میں اس مردمجاہد کی شہادت ہوئی اورشہادت کے
بعدسینے پرپاؤں رکھ کرانگریزسپہ سالارنے کہاتھا’’آج ہندوستان ہماراہے‘‘۔ان
تمام تاریخی حقائق اور اتنی طویل تاریخ جہادآزادی کے بعداٹھارہ سوسنتاون کی
جنگ کوپہلی جنگ آزادی قراردینادرحقیقت مسلمانوں کی اس سے پہلے کی سوبرسوں
پرمحیط جدوجہدآزادی پرپردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے اور اس طرح تاریخی حقائق
کوغلط طورپرپیش کرنااورگمراہ کن معلومات کوعام ذہن کے سامنے لانا وطن کی
آزادی کی ہماری طویل تاریخ کوتدریجامٹادینے کی سازش کاحصہ ہیں ۔حالانکہ
’’کس کس جگہ بیاض وطن سے تم مٹاؤگے ہرہرورق پہ مہروفاکرچکے ہیں ہم‘‘۔ |
|