لائیوانسٹرومینٹل میوزک،
منظم طریقے سے فاصلے بدلتی ٹیم ۔۔
کوئی ماؤتھ آرگن بجا رہا ہےتو کوئی ڈرم۔۔
کوئی بانسری بجا رہا ہے کوئی شہنائی۔۔۔
اِک بارات سجی ہے اور وہ گھوڑی پہ چڑھا سہرے کی آڑ میں چھپا دولہا۔۔
شہزادہ یا راجکمار ۔۔اُس دن کا تمام منظر لُوٹ لیتا۔۔۔
بچپن میں بارات جاتے دیکھنا مجھے کافی دلچسپ کام لگا کرتاتھا۔۔ معصوم، الہڑ
پڑاؤ پر نظر پڑتی ہے تو من میں پھلجڑیاں چھوٹتی ہیں کہ ہم نے بھی کیا کیا
شوق پال رکھے تھے۔ جو نہ مہنگے تھے نہ سستے۔۔ بس عمر کے اس حصے کے دلکش
خواب تھے جن کی تعبیر وقت کی زرتار، اُمنگوں بھری پوٹلی میں پوشیدہ تھی۔۔
جب کانوں میں کسی بارات کے بینڈ باجے کی آوازپڑتی تو میں گھر کی دوسری
منزل کے ٹیرس کی طرف بھاگتی کیونکہ وہاں یہ منظر کھل کر دیکھنے لائق ہونا
تھا۔ اوپر پہنچ کر دیکھتی کہ صرف ہم ہی نہیں اور بھی دیوانے ہیں۔۔ جو ہم سے
پہلے پہنچ چکے ہیں۔۔ یہ ناظرین لڑکیاں اور عورتیں ہوتیں جو اپنے گھروں کی
چھتوں پر پہنچ چکی ہوتیں۔۔
جانے لڑکوں اور مردوں کو بارات دیکھنے کا کیوں شوق نہیں۔۔؟
کیا عجب وہ دولہا سے کچھ رشک آمیز حسد محسوس کرتے ہوں۔۔!
بارات کے ساتھ جاتے باراتی مرد بھی عورتوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے۔۔
جوکبھی تو نظریں جھکائے، شرمائے،ہ چکچاتے ہوئےدولہا کی سواری کے آگے پیچھے
چل رہے ہوتے۔ اگر باراتی شوخ و شنگ ہوتے تو اس نادر موقع کا فائدہ اٹھا کر
خوب طوفانِ بے تمیزی برپا کرتے، بھنگڑا ڈال کر آگے بڑھتے۔۔ بینڈ باجے کے
سُر کے ساتھ قدم تھرکاتے۔ رقص کے اناڑی زاویوں سے دیکھنے والوں کو خوب
محظوظ کرتے۔ اور وہ سہرا سجانے والا اپنا مکھڑاچھپائےمنزل کی اور رواں دواں
رہتا۔۔
سڑک کے اطراف کھڑے تماشائی دلچسپی سے اور بچے بغیر کسی تاثر کے بیوقوفوں،
بدھوؤں کی طرح بارات دیکھا کرتے۔ اس بات سے بے نیاز کہ ان کی باری کب آئے
گی۔۔؟
چھت پہ چڑھی عورتیں خوبصورت خواب کی طرح اس منظر کو دیکھتیں اور لڑکیوں کے
دل خوا مخواہ دھڑدھڑ بجنے لگتے۔ اَن دیکھےشہزادے کا تصورپوری شدت سے ان کے
من میں اُتر آتا جو عمر کے اک خاص موڑ اور وقت کے کسی پڑاؤ پہ ان کے دوار
آنے والاتھا۔۔ ان کی بارات بھی اسی آن بان شان کے ساتھ شہنائی کے میٹھے
سُرسجاتی ان کے در پہ آنے والی تھی۔۔
مکھڑے پہ سہرا ڈالے آ جاؤ آنے والے
ایسا دلفریب منظر دو تین ماہ بعد دیکھنے کو مل جاتا تھا۔۔ اس وقت ہماری
توجہ کا مرکز سب سے پہلے تو دولہا ہوتا۔ باراتیوں کی بھیڑ میں ہر نظر اسی
کا دیدار چاہتی۔۔۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ وہ بارات میں نمایاں نہ ہو اور دلہن
کے گھر کی طرف منہ اٹھائے پیدل ہی چلا جا رہا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں
بڑی محنت کرنا پڑتی۔۔ باراتیوں پر سرسری نظر ڈال کر ہم اُس بے ایمان کو ہی
ڈھونڈا کرتے جو آج کے دن دلوں کو تڑپانے چلا تھا۔۔ اکثر بارات میں اور لوگ
بھی ہار کے زیرِ وزن ہوتے تب ہماری نظروں کو بڑی کھوج کرنی پڑتی۔ اکثر کسی
اور کو ہی وہ خاص الخاص سمجھ لیا جاتا۔ لیکن آخر کار وہ نگاہِ مرکز مل ہی
جاتا۔ نظریں وفورِ شوق سے اس کا دیدار کرنے لگتیں۔ اگر باقیوں نے ایک ایک
ہار پہنا ہوتا تو اس نے دو تین ہار تو ضرورپہنے ہوتے یا اس کا ہار دوسروں
سے نمایاں ہوتا۔۔(ونی، آخراسے بھی تو اپنی پہچان کی فکر ہوتی ہو گی نا کہ
محفل کوئی اور لُوٹ کر نہ لے جائے، نی)پھر اچھی طرح چھان پھٹک کر ہم اس کا
جائزہ لیتے۔۔ اکثر دولہا کےسر پہ سہرا بندھا ہوتا اور اس کےگلے میں پہنا
طلائی ہاراتنا لمبا چوڑا ہوتا کہ ہم اس کے گلے سے شروع ہو کر پاؤں تک پہنچ
جاتے لیکن ہار کا ڈیزائن ختم ہونے میں نہ آتا۔۔
یہ ہارتِلے کی زرتار سنہری لڑیوں سے بنا ہوتا۔ چھوٹے بڑے نوٹوں سے خوب سجا
ہوتا۔ دس، بیس، سو، پچاس کے نوٹوں کو بے دریغ ہار کا ڈیزائن بنانے میں
تروڑ، مروڑ کر لگا دیا جاتا۔۔ دولت کا ایسا استعمال دیکھنے والوں کو کچھ
تاسف میں مبتلا کر دیتا۔۔ پھر بھی جتنے زیادہ نوٹ ہار میں دکھائی پڑتے وہ
دولہا کے اسٹیٹس کا ثبوت بن جاتے۔۔ کم نوٹوں والے ہار کادولہا پھوکٹ لگتا۔۔
ہم نے بہت کم ہی ایسا دولہا دیکھاجو صرف ایک پھولوں کا ہار پہن کر دلہن کو
بیا ہ لایا ہو۔۔(بچتی کہیں کا) بلکہ وہ ہمیں دولہا کم قوال زیادہ لگتا جو
ابھی دایاں ہاتھ بلند کر کے تان اٹھائے گا،
آئے ہیں تیرے در پہ تو کچھ لے کے جائیں گے
ورنہ اس آستاں پہ یہ جاں دے کے جائیں گے
ویسے راز کی بات، ہمیں سہرے والا دولہا بڑا متاثر کرتا(دل میں کچھ اتھل
پتھل ہونے لگتی)اچھا لگتا کہ دلہن کے مقابلے میں اس نے بھی سجنے سنورنے پر
پورا زور لگایا ہے۔۔ مہتاب بیاہنے جا رہا ہے تو آفتاب بننے میں بھی کوشاں
ہے۔ دلہن اگرگھونگھٹ کی اوٹ میں ہے تو وہ بھی سہرے کی چلمن میں چھپا بیٹھا
ہے۔۔ صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں اور ہمارے تجسس کا پورا پورا
ساماں کیے ہوئے ہے۔ اسے دیکھ کر ہمارے ذہن میں لاتعداد سوال اٹھتے ،
اس حلیے میں وہ شادی کا کھانا کیسے کھائے گا۔۔؟
کیا کسی برقع پوش عورت کی طرح لقمے بنا بنا کر سہرے کے اندر لے جائے گا۔۔؟
یا وقتی طور پر سہرا اتار کر شادی کے منتظمین کو تھما دے گا۔۔ ؟
یا کسی یار دوست پہ اُسے لادنے کی کوشش کرے گا۔۔؟
یا کھانے کے لیے کوئی باپردہ انتظامی جگہ ڈھونڈے گا۔۔ ؟
دولہا سے زیادہ ہمیں اس کے شادی کے کھانے کی فکر ہوتی کہ مروت میں وہ بھوکا
ہی واپس نہ چلا جائے۔ خیر یہ عقدہ تو بعد میں کھل گیا جب خود کئی شادیوں
میں شرکت کی۔ بصورت دیگرشامیانے کی درزوں سے دولہا کا قریب سے مکمل جائزہ
لینے، اسکے رنگ ڈھنگ دیکھنےاور اس کی حرکات پہ نظر کرنے کا خوب موقع ملا۔۔
سجے سجائے سٹیج پر شاہانہ انداز کی کرسی پہ وہ بڑی آن بان کے ساتھ تفاخر
سے بیٹھا نظر آتا۔ تبھی یہ بات کھلی کہ اس کے لیے چہرہ چھپانا تب تک ملزوم
ہے جب تک قاضی صاحب نکاح کے دو بول نہ پڑھ دیں۔۔ گویا دلہن کی طرف سے ہاں
ہونے، قبول کرنے اور چھوارے بٹنےکے بعد اس کو سہرے کی اتنی پرواہ نہیں
رہتی۔۔ پھر تو وہ سہرے کی لڑیوں کو اپنے چہرے کے دائیں بائیں آدھا آدھا
تقسیم کر کے یوں اطراف کو سمیٹ لیتا جیسے کوئی خاتون سر میں سیدھی مانگ
نکال کر بالوں کی دو چٹیا بنا کر سامنے دائیں بائیں شانے پہ ڈال لے۔۔
جب تک وہ سہرے میں چھپا رہتا تو ہمیں لگتا کہ چلمن کے پیچھے کوئی چشمِ ماہ
روشن ہے۔ کبھی لگتا کوئی معمولی واجبِ شکل ،کالا کلوٹا بھی ہو سکتا ہے،
تبھی دنیا سے منہ چھپا کے بیٹھا ہے ورنہ،
دم خم ٹھوک کر سامنے آتا۔۔ اپنے روپ کا جلوہ دکھاتا اور با اعلان کہتا۔۔
لے جائیں گے لے جائیں گے
دل والے دُلہنیا لے جائیں گے
دولہا کی ایک قسم کے ہاتھ میں ہم نے باقاعدہ رومال دیکھا۔۔ آٹھ بار تہہ
شدہ رومال وہ اپنے منہ پہ رکھ لیتااورہم کچھ سمجھ نہ پاتے کہ،
اس ادا سے وہ شرما رہا ہے۔۔
اپنی مونچھیں چھپا رہا ہے۔۔
پان کھا رہا ہے۔۔
یا کسی جیت کی خوشی میں اپنی مسکان چھپا رہا ہے۔۔
لیکن یہ بات طے تھی کہ یہ رومال پسینہ پونچھنے کے لیے ہرگزنہ تھا۔۔
تھوڑی دیر کو وہ رومال ہٹاتا اپنے دائیں بائیں بیٹھے کسی دوست کی طرف جھک
کر کوئی بات کہتا اور رومال دوبارہ منہ پہ رکھ لیتا۔۔ یوں اپنے تاثرات چھپا
لیتا۔۔
شادی اگر روایتی انداز سے ہوتی تو دولہا گھوڑی پہ سواربارات لے کر شان سے
نکلتا۔۔ گھوڑی پر وہ اکیلا بیٹھا ہوتا توواللہ، کیا اس کی شان ہوتی ۔۔ دور
دور تک اسکا کوئی رقیب نظر نہ آتا۔ ورنہ کبھی کبھی اسے گھوڑی شیئر کرنی پڑ
جاتی۔ جی ہاں، شہ بالا۔۔، جو اس کی پشت سے ٹیگ کی طرح چپکا اسے باور کراتا
کہ دھیان سے، تمھاری اس خوشی میں ہم حصے دار ہیں۔ گھوڑی پر بھی اور سلامیوں
میں بھی۔۔!
شادی میں شامل لوگوں کوعلیحدہ ٹیکس کی طرح شہ بالا کو سلامی کا چوتھا،
پانچواں حصہ نذر کرنا پڑتا۔۔ ویسے کردارتو یہ بھی بڑا دم دار ہوتا۔ منٹوں،
سیکنٹوں میں امیر ہونے والا۔۔ جس کا انتخاب بڑامشکل مرحلہ ہوتا۔۔ خاندان
میں کسی ایک کوراضی رکھ کربہت سوں کو ناراض کرنا پڑ جاتا۔ یوں شہ بالا کی
لاٹری لگتی ۔ اس کے بھی لباس پر توجہ دینی پڑتی۔ ایک چھوٹا طلائی ہار اس کے
بھی گلے کی زینت بنتا۔۔
ان دونوں کرداروں سے نپٹنے کے بعد توجہ کا مرکز بنتی گھوڑی ۔۔!
گھوڑی سفید ہے یا براؤن ۔۔؟
اسے کتنا سجا کر شادی کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔۔؟
دیکھنے والی نظریں فورا تاڑلتیں۔ اگر وہ اچھی خاصی سجی ہوتی تو اس پر
بیٹھنے والے کا درجہ بڑھ جاتا۔ ورنہ لگتا کسی تانگے والےسے چند گھڑیوں کے
لیے ادھارمانگ تانگ لائےہیں۔۔ ہماری ان گنہگار نظروں نے کئی بار وہ منظر
بھی دیکھا جب باراتیوں کے پٹاخے پھوڑنے پہ گھوڑی دولہا سمیت بدک کر اُچھلی
اور کئی بار تو سرکس کے گھوڑے کی مانند اپنی اگلی دو ٹانگوں کو اوپر اٹھا
کر پچھلی دو ٹانگوں پہ منحصر ہو گئی۔ ایسے میں دولہا کا جو حال ہوتا، وہ
کسی سے چھپا نہ رہتا، گھبراہٹ میں وہ گھوڑی کے گلے کو جپھا ڈال کر اسکے گلے
کا ہاربن جاتا۔۔ باراتیوں میں علیحدہ ہپٹر دھپڑ مچ جاتی۔ وہ لپک کر دولہا
کی طرف ایسے ہاتھ پھیلائے بڑھتے کہ اگر وہ گرے بھی توپکے آم کی طرح ان کی
جھولیوں میں گرے۔۔ ورنہ آج کے دن ان کی بدنامی کا پکا سامان ہو جانا ہے ۔
دراصل باراتیوں کو اپنی عزت کی فکر پڑ جاتی کہ اگر اتنے خاص موقعے پر دولہا
گھوڑی سےگر کر زمین بوس ہو گیا تو وہ آس پاس اپناکام دھندا روکے کھڑی دنیا
کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ۔؟
بارات کے ساتھ چلتے فوٹوگرافر کیمرے میں ان لمحات کو صدیوں تک کے لیے مقید
کر لیں گے۔ یوں کہیں نہ کہیں ان کا نام بھی ٹیگ کی طرح اس بارات سے جڑا رہے
گا۔۔ اور یہ واردات نسل در نسل دہرائی جائے گی۔۔
ویسے گھوڑی کی حقیقت تو کھلتی ہی ایسے لمحات میں تھی کہ وہ پروفیشنل ہے یا
نان پروفیشنل ؟
آیا روز تانگے کے آگے جتی تھا تھا تھیا تھیا کرتی ہے یا بینڈ باجے کے
میوزک کے ساتھ سُر ملا کر سر ہلانا اورسہرے والے کو پشت پہ بٹھا کر نخرے
سےٹھمک ٹھمک کر چلنا بھی جانتی ہے۔ اورپٹاخوں کی آواز تو اس کے لیے ایسی
معمولی سی بات ہے۔۔ جیسے صبح کا ریاض۔۔!
یہ گھوڑی والا رسک ذراکم ہی لیا جاتا۔ جی دار اور شوخ و شنگ دولھا ہی گھوڑی
چڑھتے۔ بہنوں کو باگ پکڑائی اور نیگ دیتے ورنہ پھولوں اور زرتار لڑیوں سے
سجی کار میں دولہا شان سے براجمان ہو کراپنی بارات لے کر نکلتے۔۔
پھرجو باراتیں دھوم مچا کر بینڈ باجے شہنائیوں کے ساتھ نکلتیں واہ، ان کی
تو کیا ہی بات ہوتی۔۔ بینڈ باجے والے بھی کیا کیا سُر نکالتے اور اپنا رنگ
جما دیتے۔۔
کیا شہنائی کی آوازہوا کرتی تھی(تیری شہنائی بولے سن کے دل میرا ڈولے)
اور ڈرام والے(کیا دغا دغا وئی وئی ہوتی تھی۔۔)
پھر بانسری کے سُر(او میرے سانوریا بانسری بجائے جا۔۔)
(اور بینڈ باجے والوں کا اپنا یہ پسندیدہ گیت ہم نے کئی باراتوں میں بجتے
دیکھا)
میری پیاری بہنیا بنے گی دُلہنیا، سج کے آئیں گے دولہے راجہ، بھیا راجہ
بجائے گا باجا"
ویسے ہمیں سب سے زیادہ وہ باجے والا متاثر کرتا جس نے سب سے زیادہ بھاری
بھرکم ساز اپنے دائیں یا بائیں کندھے میں ڈالا ہوتا جو گراموفون کی طرح
ایکسٹرا ۔۔بڑے سائز۔۔ کی طرح نظر آتا۔ پھرجب وہ اس کی ٹوٹنی منہ سے لگا کر
زور سے اس میں ہوا پھونکتا تو سب سے پہلے اسکے اپنے گال ایسے پھول جاتے
جیسے منہ میں پان کی کئی گلوریاں دبا رکھی ہوں اور پھرجو۔۔ پوں پوں پپاپاں
پاں پاں۔۔ کی زور دار آواز اس ساز سے برآمد ہوتی وہ سب کو پچھاڑ دیتی۔۔
کانوں کے پردے پھٹنے لگتے( لوگ اس کے قریب سے ہٹنے لگتے) رہی سہی کسر ڈرم
والے ڈگا لگا کر پوری کر دیتے۔۔ اصل گانا کہیں بیک گراؤنڈ میں چھپ جاتا۔
ایسے میں اگر باراتی پٹاخے پھوڑ دیتے تو رنگ اور بھی چوکھا آتا۔۔ دھوئیں
کی چادر ماحول کو دھندلا دیتی۔۔ منظر فلمی سین لگنے لگتا۔
بارات دلہن کے ہاں پہنچتی تو لوگ آگے بڑھ کر دولہا کو گھیر لیتے اور اور
اسے پکڑ کر شامیانے کی طرف لے جانے لگتے( تب ہم نے جانا کہ اچھا بھلا بینا
آدمی بھی نابینا کا کردار بخوبی ادا کر سکتا ہے۔۔)
پہلے باراتیں دن کے وقت نکلا کرتی تھیں۔ دن کے اجالے میں ہی سب کام نپٹ
جاتے تھے۔۔ رات کے وقت کم کم ہی نکلتی تھی اور وہ بھی صرف مقامی طور پر۔
لیکن رات کے وقت بیاہنے جاتی بارات دیکھنے کا نظارہ کچھ اور ہی ہوتا۔ بینڈ
باجے کے شور کے ساتھ جھِلمل جھِلمل کرتی روشنیاں اور پٹاخوں کاطوفان، کچھ
خاص لوگوں کے سروں پہ بڑے بڑے روشن شمع دان ہوتے۔۔ بینڈ باجے والوں کے سُر
دور دور تک سنائی پڑتے۔ اندھیرے اور سناٹے میں خوشی کے رنگ بھر جاتے۔ منظر
یادگار بن جاتا۔۔
جس طرح ایک دن کے بادشاہ کی بادشاہت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دولہا کا چارم
بھی اس وقت پس پردہ چلا جاتا جب رخصتی ہونے لگتی۔۔ تب سب کی نگاہ دلہن پر
مرکوز ہو جاتی۔۔ کیمرہ مین بھی دولہا کو چھوڑ کردلہن کے آگے پیچھے
بھاگتے۔۔ اس کا رونا دھونا، گلے ملنا قدم بہ قدم کیمرے میں مقید کرتے۔۔
ویڈیو فلم بنتی رہتی۔ بارات کے ساتھ گئے باراتی بھی دزدیدہ نظروں سے دلہن
کی جانب دیکھتے رہتے۔۔ اکثر باراتی۔۔ ،
بابل دا ویہڑہ چھڈ کے ہو کے مجبور چلی ۔۔
بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سکھی سنسار ملے۔۔
خوشی خوشی کر دو وداع تمہاری بیٹی راج کرے گی ۔۔
جیسےالوداعی گیت سن کر جذباتی ہو جاتے۔ ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔۔ وقتی
طورپر بھول جاتے کہ وہ لڑکے والوں کی طرف سے ہیں اور آگے بڑھ کر سسکتی
دلہن کے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگتے۔۔
گھوڑی پرجانے والے دولہا کی واپسی بھی دلہن کے ساتھ زرتار لڑیوں سے سجی
سجائی کار میں ہوتی۔ یوں گھوڑی شادی کا یک طرفہ کردار بن
کر رہ جاتی۔
بارات دیکھنے کے شائقین ۔۔ دھوم دھڑکے سے بارات جاتی دیکھ کر سارا دن
چونکنے رہتے کہ ان راہوں سے جانے والوں کی واپسی
بھی ہو گی۔
دُلہن بیاہ کرواپس جاتی بارات دیکھنا بھی کسی خوشگوار منظر سے کم نہ ہوتا۔۔
چھتیں ایک بار پھر سج جاتیں۔۔
لوگ ایک بار پھر کام کاج چھوڑ کر مشتاق بن جاتے۔۔
نظارے پھر رنگین ہو جاتے۔۔
ڈوبتی شام کی طرح باراتی اور ان کی رونقیں بیک گراؤنڈ میں چلی جائیں۔ صرف
دولہا سکندر کی طرح فتح یاب دکھائی پڑتا۔۔ باراتی تھکے تھکے بوجھل بوجھل
قدموںسے آگےبڑھتے۔۔ ہر طرف رات کی رانی دلہن کا دور دورہ ہوتا۔۔ سب نظریں
اُسی کا طواف چاہتیں۔۔۔ اُسی کو ڈھونڈتیں۔۔ دلہن کی سواری کسی لاٹری کی طرح
لگتی۔ دور پارکے شہروں کو جانے والی دلہن کو باراتیوں کے ساتھ ہی بس میں
بٹھا کر ایک سواری بنا دیا جاتا۔۔ ہماری نظروں نے زیادہ دلہنوں کو تو اپنے
پیا سنگ چمکتی دمکتی کار میں جاتے دیکھا۔ کچھ دلہنیں باقاعدہ ڈولی میں وداع
ہوئیں۔۔ اور چند ایک دلہنوں کو ہم نے ٹرین میں سوار ہو کر اس کا مسافر بنتے
بھی دیکھا( چھک چھک گڈی کردی جاندی آوندے جاندے شہر۔۔)
یوں ہم نے دو بندوں کے لیے زندگی کا ایک ہی دن بہت بہت خاص ہوتے دیکھا۔۔
اب ان کے ستارے ایک دوسرے سے کتنے مختلف تھے۔۔؟
ملتے رہے یا بھڑتے رہے۔۔؟
مزاجِ یارتھے یا مزاجِ برہم ۔۔؟
اُس پٹڑی پر سوار یہ ہستیاں زندگی کی ریل پر اپنے کتنے بڑے قبیل کے ساتھ
کہاں اور کتنی دور تک گئیں۔۔؟
واللہ اعلم،۔۔۔۔۔۔۔ |