معذرت کے ساتھ۔
(محمد اسامہ عارف, میرا موہڑہ)
ہم لوگ اور ہمارا ملک ایسے ہیں
جیسے کوئی سرکس یا نوٹنکی ہو۔ اور ہم کبھی اداکار کبھی مسخرے تو کبھی
تماشائی ہوتے ہیں۔
ہمارا ملک ایک بہت بڑا میدان ہے جہاں روز کوئی تماشہ ہوتا ہے کبھی ہم اس کا
حصہ ہوتے ہیں تو کبھی ہم وہ ہجوم جو تماشہ دیکھنے کے لیے جمع ہوتا ہے۔ کبھی
یہاں ہم سرکس کے مسخرے ہوتے ہیں اور حکمراں ہمارے تماشائی، ہم نہ چاہتے
ہوئے بھی وہ سب کرتے ہیں جو کرنا نہیں چاہتے صرف اس لیے ہم کرتے ہیں کہ وہ
سب کرنا اب ہماری مجبوری بن چکا ہے۔ جیسے کٹھپتلیاں کسی اور کے اشاروں پر
ناچتی ہیں۔ ایسے ہی ہم سب کٹھپتلیاں بن چکے ہیں جو ناچتے ہیں، ہنستے ہیں
اور روتے ہیں کسی دوسرے کی مرضی سے۔ اور نوٹنکی کرتے ہیں ہمارے حکمراں،
دانشور، اور مزہب کے ٹھیکے دار۔ یہ سب اپنا اپنا کردار ایسے نبھاتے ہیں کی
کسی کو شک تک نہیں ہوتا ان پر۔ ہمیں کبھی یہ جہنم سے ڈراتے ہیں، جس کا خوف
خود ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ یہ اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اس کے لیے مزہب تک
کو قربانی کا بکرا بنا دیتے ہیں۔ دانشور جن کے پاس دانش کی ہی کمی ہے باقی
تمام ور موجود ہیں ان کے پاس۔ جیسے پیشہ ور، طاقتور، [جان] ور۔ یہ سب سنہرے
باغ دیکھا کر عوام کو اندھے گڑھے کے پاس لے آئے ہیں۔ یہ کبھی جمہوریت کے
راگ آلاپتے ہیں تو کبھی آمریت کے قصیدہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔
رہ گئی بات حکمرانوں کی کوئی بھی ہوں وہ، سیاسی یا فوجی۔ جمہوریت ہو یا
آمریت ہر دور میں ہمیں اشاروں پہ نچاتے رہے ہمارے حکمران۔ ہم آزاد ہو کر
بھی غلام بن گئے ہیں۔ اس یوم آزادی پہ خدا ہم کو آزادی نصیب کرے۔ اب بہت ہو
چکا مزاق اس قوم سے اس ملک سے۔ اب بس کر دو سب۔ ہمیں بڑی لمبی سڑکیں نہیں
لینی ہمیں روٹی دے دو۔ ہمیں انقلاب کی نہیں انصاف کی ضرورت ہے۔ ہمیں فرقہ
نہیں چاہئے، ہم ایک بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ ہم سب کا پاکستان ہے، صرف
مسلمانوں کا نہیں۔ یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسبان اس کے۔ آئیں کے اس کچے
دھاگے کو توڑ دیں وہ جو ہمیں باندھے ہوئے ہے۔ وہ جو ہلاتا کوئی اور ہے اور
اس کا اثر ہم ہمارے ملک پہ ہوتا ہے۔ مگر پھربھی آج یوم آزادی ہے خدا ہماری
ذہنی غلامی کو ہم سے دور کر دے آمین!۔
میری بات : چلو یہ سوچیں ہم آج مل کے،
جو إس زمین سے کیا تھا ہم نے،
وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں؟ |
|