کے الیکٹرک کو لگام کون دے گا

ایوان بالا سینٹ میں کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی اموات پر دھواں دھار بحث ہوئی جس میں کے الیکٹرک کی کارکردگی اور انکی قائم کردہ سلطنت پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹرز نے دل کھول کر تنقید کی۔ سینیٹر رضا ربانی ایوان بالا کے چیئرمین ، سینیٹر سعید غنی ، سینیٹر تاج حیدر اور دیگر پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے ایوان بالا میں کے الیکٹرک کے بارے میں کہا کے الیکٹرک والوں کو گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ میٹنگ کے لیئے بلائیں تو وہ میٹنگ میں بھی نہیں آتے ۔ سپریم کورٹ بلائے یا پارلیمنٹ طلب کرے تو اسکے سامنے بھی پیش نہیں ہوتے ۔حکومت فوری طور پر کے الیکٹرک کا معاہدہ منسوخ کرے اور انتظام اپنے ہاتھوں میں لے اور کے الیکٹرک کا خودساختہ حکومت کا خاتمہ کرے۔ کے الیکٹرک اپنی حکومت قائم کی ہوئی ہے جہاں وہ اپنا راج چلا رہی ہے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بل ایک نہ دے اور بجلی پورے علاقے کی بند کردی جائے ۔ سینیٹرز نے کہا کہ کے الیکٹرک مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے انکی غفلت اور لاپروائی سے کراچی میں اموات ہوئی ہیں ۔یہی وہ باتیں ہیں جو عوام گذشتہ کئی سالوں سے جب سے کے الیکٹرک پرائیوٹائیز ہوئی ہے باتیں کہتے آرہے جہاں جہاں کے الیکٹرک بجلی کی سپلائی دے رہی ہے وہاں یہ عوام کے دل کی آواز ہے جو آج ایوان بالا میں سنائی دی ہے ۔ کے الیکٹرک جو اس وقت ایک بے لگام گھوڑا بنا ہوا ہے عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں اس کا مقصد صرف مختلف بہانوں سے عوام سے ریکوری کرنا ہے۔ ایوریج بلنگ کے نام پر عوام سے اربوں روپے بٹور رہی ہے لیکن اس کے بدلے میں صارفین کو بجلی فراہم نہیں کرتی ۔ ضلع لسبیلہ سے زمینداروں کو بجلی کی سبسڈی کے نام پر اربوں روپے حکومت سے وصول کرتی رہی ہے جبکہ کے زمینداروں سے ہونے والی وصولی الگ ہے لیکن اس کے بدلے میں پورے ماہ میں زمینداروں کو 30گھنٹے بجلی بھی فراہم نہیں کرتی اور ماہنامہ ان سے لاکھوں روپے بل کا تقاضہ کرتی ہے۔ ایک ادارہ جب نجی شعبے کے حوالے ہوتا ہے تو اس کا مقصد کارکردگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے اور بہتر کارکردگی سے منافع بخش ادارے کی شکل میں سامنے لانا ہوتا ہے لین یہاں معاملا اُلٹ ہے یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے ۔یہاں صارف کے فرائض پر تو کے الیکٹرک خوب چیختی ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو کبھی تسلیم نہیں کرتی جب تک کوئی کمپنی بہتر طور پر سروس معیا نہیں کرتی وہ کس اصول کے تحت بل کا تقاضا کرتی ہے ۔ لسبیلہ کی بجلی کے لیئے سبسڈی کی مد میں 2011سے 3ارب 32کروڑ روپے کے الیکٹرک دیمانڈ کررہی ہے جبکہ 2011سے لسبیلہ کوبجلی فراہم روزانہ ایوریج نکالی جائے تو 2گھنٹہ بھی نہیں رہی یہ کہاں کا انصاف ہے۔ جب بجلی کودرست کرنے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے تو مین ٹرانسمیشن لائین کی تبدیلی کے لیئے 5ارب روپے کاتقاضا کے الیکٹرک کرتی ہے ۔ علاقے میں تار گرجائیں تو تاروں کی ڈیمانڈ کرتی ہے ۔ ان سب باتوں کو دیکھا جائے تو پھر کے الیکٹرک فراہم کیا کررہی سب حکومت اور عوام کررہی ہے پھر کس چیزکا فائدہ کے الیکٹرک حاصل کررہی ہے۔ حکومت سے بجلی خرید کر اسے بہتر سروس کے ساتھ عوام تک پہنچانے کا فائدہ کے الیکٹرک حاصل کررہی ہے جس میں وہ مکمل طور پر ناکام ہے اس لیئے اب کے الیکٹرک کی پرائیوٹائیزیشن کا کوئی فائدہ نہیں اس لیئے فوری طورپر معاہدہ ختم کرکے حکومت خود انتظامات سنبھال کر کے الیکٹرک کا نظام بہتر بنائے اور عوام کو کے الیکٹرک کے ظلم سے نجات دلائے۔یہی ایک رستہ ہے کے الیکٹرک کو لگام دینے کا۔
Asim Kazim Roonjho
About the Author: Asim Kazim Roonjho Read More Articles by Asim Kazim Roonjho: 2 Articles with 1399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.