وہ نہایت لاغر اور کمزور ہو چکاتھااٹھ کر چلنا بھی
محال تھا اپنی زندگی بچانے کی خاطر اپنی تمام تر توانائیاں مجتمع کرکے
رینگتا ہوا آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے پیچھے خونخوار اور خوفناک
درندے اور بھیڑیے لگے ہوئے تھے جو اس کی زندگی کا خاتمہ کرنے پر تلے ہوئے
تھے۔ ان کا جہاں تک بس چلتا تھا وہاں تک وہ اپنی بھرپور کرشش کرکے اس کے
جسم کو زخموں سے چور چور کر چکے تھے۔ اس کے ان زخموں سے خون رس رہا تھا ان
کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اسے پورا کا پورا بغیر ڈکار لئے ہڑپ کر جائیں۔ان
کے منہ سے رال ٹپک رہی تھی اور وہ اس پر جھپٹنے کیلئے تیار تھے۔ ان بھیڑیوں
کے پیچھے چالاک و مکار اور شاطر لومڑیاں دوڑتی چلی آرہی تھیں اور اپنے
پنجوں کو بار بار زمین رگڑ رہی تھیں اور بڑی بے چین دکھائی دیتی تھیں انہیں
یہ تو معلوم تھا کہ وہ اس کا شکار نہیں کرسکتے لیکن بھیڑیوں اور درندوں کے
شکار کرنے کے بعد جب وہ اس کے اچھے اچھے اور پسندیدہ حصوں کو چٹ کر جائیں
گے تو بقیہ جسم ہمارے رحم و کرم پر ہوگااور وہ بھی اپنے پیٹ کا دوزخ اس سے
بھریں گے اور خوب سیر ہو کر کھائیں گے۔ ان مکار لومڑیوں کے ساتھ دائیں
بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے لمبی اور نوکیلی چونچ والے مکروہ شکل گدھ اپنی
باری کے منتظر تھے۔ان کے سروں پر منڈلارہے تھے ان کی پرواز نہایت ہی نیچی
تھی اور کبھی کبھی اور ان کے جسم کو مس کرتے ہوئے گزرتے تھے جیسے کہہ رہے
ہوں جلدی کرواس کے بعد ہماری باری ہے۔انہیں بھی یہ معلوم تھا کہ لومڑیوں کے
کھانے کے باوجود ان کا حصہ بھی ضرور بچ جائے گا اور اتنابچ جائیگا کہ وہ
بھی اپنی ہوسناک بھوک مٹا سکیں گے۔ اس کے جسم اور ہڈیو ں سے چمٹا ہوا گوشت
ان کی مرغن غذا ہے اور بس لومڑیوں کے جانے کی دیر تھی کہ انہوں نے اس پر
ٹوٹ پڑنا تھااور اس کے جسم سے گوشت ، کھال ،گودا غرض جہاں تک ان کے لمبی
چونچ اور نوکیلے پنچے پہنچ سکیں گے وہ نوچ نوچ کر کھائیں گے ۔ قصہ یہیں پر
ختم نہیں ہوتا۔ گدھوں کے بعد ایک اور مخلوق اپنی باری کے انتظار میں بے چین
و بے کل تھی کہ کب گدھ یہاں سے ہٹیں اور ان سے بچ جانے والے ہڈیوں کے
ڈھانچے میں میں موجود بچے کچے مواد سے لازمی مستفید ہونا ہے اور یہ ہمارا
حق وراثتی ہے۔ یہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں تھیں جو
ہڈیوں کے اندر تک سے اپنا حصہ کھسوٹنے کی تیاری میں تھے ایک لمبی قطار تھی۔
ہر کوئی اپنی باری کا منتظر تھا ۔ سب سے طاقتوروں نے پہلے اپنے پنجے آزمائے
تھے ان کی ہوس مٹنے پر ان سے کم طاقتور نے اپنی باری کا کھانا تھااور اسی
طرح یہ سلسلہ طاقتور سے کم طاقتور تک آتا تھااو سب سے اپنی اپنی بھوک مٹانا
تھی اس ’’کارخیر‘‘میں حصہ ڈالنا تھا۔’’مفت کی مڈی‘‘باپ کا مال سمجھ کر ہڑپ
کر نا تھا اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس میں تھوڑاسا بھی ترس
رحم و اخلاص کا مادہ ہو۔
محترم قارئین! یہ کہانی ہمارے وطن عزیز ہماری دھرتی ماں ہماری ارض پاک
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہے جسے انہوں نے اس بے دردی سے بھنبھوڑا ہے کہ
اب اس سے اٹھنا محال ہو چکا ہے۔ اتنے زخم لگائے ہیں کہ خون کی کمی سے نقاہت
و کمزوری اس کے انگ انگ سے ہویدا ہے ۔ ملک پاکستان کے اشرافیہ نے اس کی
حالت ایسے کردی ہے کہ خاکم بدہن اب گرا کہ تب گرا۔ اشرافیہ نے اپنے دوزخ
بھرلئے ہیں اور بھرتے جارہے ہیں اور جہا ں تک ہو سکے گاوہ اسے کمزور کرتے
رہیں گے اس کے بعد اشرافیہ کے مالشئے اور پالشئے باری کے منتظر ہیں اور بیچ
درمیان میں کبھی کبھی منہ مار کر جتنا ہو سکے حصہ نکال کھاتے ہیں اور بالکل
اسی طرح ایک لمبی قطار ہے جو کہ باری کی منتظر ہے اور جس کا داؤ لگتا ہے
کسر نہیں چھوڑتا
ہمارے آباؤ اجدادجنہوں نے اپنے خون و پسینے سے جس کی آبیاری کی تھی راتوں
کی نیند اور دن کا سکون برباد کیا میں ہجرت کے وقت کی کچھ نایاب تصاویر
دیکھ رہا تھا جوتقسیم کے وقت کی ایک پوری کہانی بیان کرتی ہیں کہ کس طرح
ہمارے آباؤ اجداد مملکت خداداد کیلئے کس کس آزمائش میں مبتلا ہوئے کیسے
انہوں نے صعوبتیں برداشت کیں کون کون سی تکالیف کو سہا غم و الم کی کون کون
سی راہ گزر سے سفر کیا کیسے پیاروں کو قربان کیا عصمتیں لٹوائیں کیسے اپنے
لخت جگروں کو تہہ و تیغ کروایایہ تصاویر بہت کچھ بیان کررہی تھیں لیکن یہ
سب سوچنے والوں محسوس کرنے والوں کیلئے تھیں جنہوں نے سوچا تھا کہ
خون جگر دے کر نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
یقینا انہوں نے قسم کھائی تھی اور اس قسم کا حق بھی ادا کیااس کے تحفظ و
سلامتی کیلئے خون جگر بھی نچھاور کیااور اب جنرل راحیل شریف اس حق کی
ادائیگی کیلئے میدان عمل میں نکل آئے ہیں انہوں نے ملکی خوشحالی ترقی امن
وامان کیلئے علم جہاد بلند کردیا ہے پوری قوم کی نگاہیں ان پر مرتکز ہیں
امید خواہشیں پروان چڑھ رہی ہیں بہتری اور امید کی کرنیں پھوٹنا شروع ہوگئی
ہیں ۔ لیکن کیا کیجئے اس قوم کے میرجعفر و میر صادق کا کہ جنہوں نے اپنی
تجوریاں بھرنے کی خاطر اپنے ہی ملک کو اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے
خود ان کی آگوش میں جا گرے۔ عیش ومستی میں اپنی اقدار گنوا بیٹھے۔ یہ
بیوقوف، نااہل ،ناکارہ اور ہوس کے پرستار لوگ یہ نہیں سمجھنے کی کوشش کرتے
کہ جس ملک کا تم سودا کررہے ہوجس کی وجہ سے تمہیں سر آنکھوں پر اغیار بٹھا
رہے ہیں اگر خدانخواستہ، خدا نہ کرے یہی نا رہا تو تمہاری حیثیت، تمہاری
اوقات کیا ہوگی۔ تمہاری اوقات ان کتوں کی طرح ہوگی جو نہ گھر کے ہوتے ہیں
اور نہ گھاٹ کے۔اس لئے اپنی روش تبدیل کیجئے ۔ جنرل راحیل شریف افواج
پاکستان کا ساتھ دیجئے اور قائد اعظم و اقبال کی روح کو یہ کہنے کا موقع نہ
دیجئے کہ
کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے |