اہل پاکستان کی تین14اگست۔۔چوتھی کا انتظار ہے

 یوں تو ہم ہر سال 14اگست مناتے ہیں لیکن اہل پاکستان اب تک تین 14اگست دیکھ چکے ہیں اور اب چوتھی 14اگست کا انتطار ہے ۔پہلی 14اگست 1947ہے جب برصغیر کے مسلمانوں کی انتھک جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں یہ ملک وجود میں آیاتھا ۔دوسری 14اگست 25سال بعد 1972میں آئی تھی جب اپنوں کی غداریوں اور دشمنوں کی سازشوں کے نتیجے میں 14اگست 1947والا ملک آدھا رہ گیا اور تیسری 14اگست آج 2015کی ہے جب ہمارا ملک امید و یقین کی پر فضا چھاؤں میں داخلی استحکام اور مضبوط اقتصادیات کے ذریعے روشن مستقبل کے دور میں داخل ہورہا ہے ۔چوتھی14اگست جس کا انتظار ہے اس کا سال ابھی طے ہونا باقی ہے کہ جب اس ملک میں اسلامی انقلاب آئے گا جس کے لیے اصلاَ یہ خطہ حاصل کیا گیا تھا ۔اس وقت پوری دنیا میں دو مملکتیں ایسی ہیں جو نظریات کی بنیاد پر وجود میں آئیں،ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل ان دونوں نام سے کوئی ملک پہلے سے موجود نہیں تھے جب کے اور دوسرے ممالک اپنے نام سے صدیوں سے چلے آرہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی سرحدیں امتداد زمانہ کے تحت گھٹتی بڑھتی رہیں۔

1947میں پاکستان کا قیام ایک معجزے سے کم نہیں کہ ہندوؤں کی اکثریت اور انگریز اقتدار کے حلق سے اپنے حق کو چھیننا آسان کام نہیں تھا ،لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں یہ کام نسبتاَ سہل ہو گیا ۔پاکستان اور ہندوستان ایک دن کے فرق سے آزاد ہوئے مگر بہت سارے معاملات میں پاکستان صفر پہ تھا جبکہ ہندوستان بہت آگے تھا مثلاَہندوستان کے تمام ریاستی ادارے پہلے سے بنے ہوئے اور مستحکم تھے عدلیہ ،انتظامیہ ،مقننہ اور عوامی خدمات کے دیگر سرکاری ادارے اور دفاتر جب کہ پاکستان کو سب چیزیں نئے سرے سے بنانی تھیں ،ہندوستان میں آئین پہلے سے جاری و ساری تھا جب کہ ہم 25سال تک سرزمین بے آئین رہے اور 1972میں عارضی دستور جبکہ 1973میں متفقہ طور پر مستقل دستور نافذ کیا گیا ۔فوج ہندوستان میں پہلے سے تھی ہمیں فوج کا ادارہ اپنے نظریات کے مطابق تشکیل دینا پڑا،ہندوستان کے پاس بجٹ تھا اور اس کی مالیات بھی مستحکم تھی جبکہ پاکستان مالیاتی حوالے سے زیرو پوانٹ پر تھا بلکہ تقسیم کے وقت جو رقم طے ہوئی تھی کہ بھارت پاکستان کو اتنی رقم دے گا وہ بھی بھارت نے نہیں دیا ۔یہ تو مسلمان سرمایہ دار تھے جنھوں نے اس نوزائیدہ ملک کی مالیات کو سہارا دیا ،معروف صحافی ہارون رشیدایک صاحب کا نام بتارہے تھے کہ انھوں نے قائداعظم کو اپنی دستخط کرکے بلینک چیک دیا تھا کہ پاکستان کے لیے جتنی رقم کی ضرورت ہو آپ لے لیں ۔

بھارت کے ساتھ ایک خوش قسمتی یہ بھی رہی کہ کانگریس کی جس قیادت نے آزادی کی جنگ لڑی تھی تقسیم کے بعد وہی قیادت بھارت کی شروع کے پانچ برسوں تک برسراقتدار رہی اس لیے اس قیادت کو یکسوئی کے ساتھ اصلاحات نافذ کرنے کا موقع ملا ،جبکہ ہمارے ساتھ یہ بدقسمتی رہی کہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد قائد اعظم وفات پاگئے ان کے تین سال بعد قائد ملت لیاقت علی خان شہید کر دیے گئے ان دو اعلیٰ ترین قیادت کے ہٹ جانے سے جو خلاء پیدا ہوا وہ دیگر رہنمایان کرام پورا نہ کر سکے ،جس کے نتیجے میں ملک میں ایک عجیب قسم کی سیاسی افرا تفرپیداہو گئی۔آئے روز ملک میں قیادتیں تبدیل ہوتی رہیں جس کے نتیجے ملک کو سیاسی استحکام نصیب نہ ہو سکا ۔آئین سازی کے عمل میں بھی اسی وجہ سے جان لیوا تاخیر ہوتی چلی گئی۔بھارت نے ابتدائی دنوں میں ہی اپنے یہاں زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیر داری سسٹم کا خاتمہ کردیا ۔ہمارے یہاں مسلم لیگ کے اندر چونکہ زمینداروں اور جاگیرداروں کی شروع سے قبضہ رہا ہے اس لیے ہم جاگیرداری سسٹم ختم نہ کر سکے ۔

قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد اقتدار کی راہ داریوں میں جاگیرداروں مفاد پرست سیاست دانوں اور کرپٹ بیورودکریسی کی مثلث نے اپنا قبضہ جما لیا لیکن دوسری کچھ اور محب وطن قوتیں تھیں جن میں بے لوث سیاست دان اسلامی قوتیں اور دیانتدار سرکاری ملازم تھے جن کی کوششوں سے 1956میں دستور تشکیل پاگیا اس دستور کے تحت ملک میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے تھے اور عام انتخابات ہونے والے تھے ۔جب مفاد پرست سیاست دانوں ،جاگیرداروں اور کرپٹ بیوروکریسی کی تثلیث نے یہ دیکھا کہ اب یہ ملک جمہوریت کی راہ پر گامزن ہونے والا ہے تو ان عناصر نے فوج کو اپنے ساتھ ملالیا جنرل ایوب خان نے جو پہلے ہی سے اقتدار پر نظریں جمائے بیٹھے تھے مارشل لاء نافذ کر دیا اور1956کا دستور منسوخ کردیا اس طرح محب وطن قوتوں کی 9سال کی آئینی اور دستوری جدوجہد ایک طرح سے ضائع ہو گئی ۔پاکستان کو جمہوریت سے دور رکھنے میں داخلی

اسباب کے علاوہ بین الاقوامی سازشیں بھی شامل تھیں ۔مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا نے بھارت میں جمہوری عمل کی اس لیے تائید کی کہ یہ ہندوؤں کی اکثریت والا علاقہ ہے اس لیے ہندو اکثریت سے ہونے والے فیصلے ان کی پالیسیوں کے عین مطابق ہو سکتے ہیں ۔جبکہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان میں 95%سے زیادہ مسلمان ہیں اس لیے اگر یہاں جمہوریت جاری ساری ہو گئی تو یہاں اسلامی انقلاب آسکتا ہے کہ جس نعرے اور وعدے پر اس ملک وجود عمل میں آیا تھا ۔

جنرل ایوب نے آتے ہی کچھ ایسے اقدامات کیے جس سے پبلک میں خوف کے ساتھ کچھ اچھے تاثرات بھی پیدا ہوئے لیکن یہ عارضی تھے انھوں نے ملک کا دالالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ملکی سا لمیت پر بڑے دوررس اثرات مرتب ہوئے ،کراچی میں ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں نے اسے اپنے خلاف سازش سمجھا مشرقی پاکستان کے لوگوں نے اس فیصلے کو ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جس کی وجہ سے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیاں ذہنی فاصلے بڑھ گئے ۔ملک پوری طرح آمریت کے پنجوں میں جکڑ گیا ۔1962میں ایوب خان نے اپنا دستور نافذ کیا جس کو ملک کے وسیع طبقے میں مسترد کردیا گیا یہ صدر ایوب کی آئینی آمریت کی ایک شکل تھی ۔ایسے دستو ر کو ایسے منشور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا ،جیسی نظمیں مقبول ہوئیں ۔

جنرل ایوب کے دور میں ملک میں نمایاں اقتصادی ترقی ہوئی روزگار کے مواقع بلند ہوئے 1965کی جنگ میں ایوب خان قوم کے ہیرو بن گئے لیکن 1966کے معاہدہ تاشقند کے بعد وہ زیرو ہو گئے ان کے خلاف بڑی زبردست تحریک چلی ایک مرحلے پر ایوب خان سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس میں اقتدار سیاست دانوں کے حوالے کرنے پر تیار ہو گئے تھے لیکن کچھ سیاستدانوں نے فوج کے اشارے پر اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ،بالآخر ایوب خان کو جنرل یحییٰ کو اقتدار منتقل کرنا پڑاقیام پاکستان کے بعد سے مشرقی پاکستان کے ساتھ ہمارا رویہ کوئی بہت زیادہ اچھا نہیں تھا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو کچھ شکایات پیدا ہوئیں بنگالی لیڈروں کے ساتھ ہم نے کیا کچھ نہیں کیا خواجہ ناظم الدین جیسے شریف النفس کو مرغی چور کہہ کر پکارا گیاسہر وردی کو ملک بدر کیا گیا اسی لیے مشرقی پاکستان کے بھائیوں کی شکایات بڑھ کر اختلافات میں بدل گئیں1956کے دستور میں جو نافذ نہ ہو سکا آبادی کی اکثریت کے باوجود مشرقی پاکستان کے رہنماؤں نے برابری کا اصول تسلیم کرلیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کا احساس محرومی بڑھتا گیا اور پھر یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے نفرت میں تبدیل ہوگئے نفرت کی اس فضا کو عوامی لیگ نے 1970کے انتخابات میں کیش کرایا اور نفرت تعصب و تشدد کے ماحول میں انتخابات میں ڈاکا ڈال کر نتیجہ اپنے حق میں کیا گیا ویسے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عوامی لیگ کی پوزیشن جیتنے والی نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد یہ تھا مشرقی پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص جو جماعتیں مغربی پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں ان کا بالکل صفایا کردیا جائے ۔انتخابات کے بعد اکثریتی اصول کے مطابق عوامی لیگ کو اقتدار منتقل ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس نے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگایا کس نے کہا کہ جو مشرقی پاکستان اجلاس میں گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی ۔بہر حال 25مارچ 1971کو مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن ہوا مجیب الرحمن گرفتار ہوئے فوج نے مشرقی پاکستان میں بہت حد تک کنٹرول کرلیا تھا مکتی باہنی کی کچھ شروع میں تو موثر کاروائیاں ہوئیں لیکن بعد میں اس کی قوت عمل بھی سست پڑ گئی جب بھارت نے یہ دیکھا کہ پاکستانی فوج نے صورتحال پر قابو پا لیا ہے تو اس نے بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 22نومبر1971کو بین الاقوامی سرحد عبور کر کے مشرقی پاکستان پر چاروں طرف سے حملہ کر دیا پاکستانی فوج کو بڑے مشکل حالات میں یہ جنگ لڑنا پڑی یہ جنگ اور لمبی چلتی لیکن مغربی پاکستان سے کہا گیا کہ ہتھیار ڈال دیے جائیں اور اس طرح 16دسمبر 1971امت مسلمہ کی تاریخ میں ایک بدنما داغ کا اضافہ ہو گیا اگر مغربی پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کی ہدایت نہ کی جاتی تو آج مشرقی پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی اس لیے کہ فوج نے البدر اور الشمس کے مجاہدین کے ساتھ مل کرحالات پر قابو حاصل کرلیا تھا ۔اس طرح آزادی کے 25سال بعد یعنی 1972جو یوم آزادی منائی گئی اس میں قائد اعظم کا پاکستان آدھا رہ گیا تھا ۔

1972سے آج2015تک کی داستان طویل بھی ہے دلچسپ بھی ہے اور دلخراش بھی ہے ۔ان43برسوں میں تقریباَ نصف مارشل لاء کے سائے میں گزرا ہم اس کی تفصیلات میں جائے بغیر آج 2015کے 14اگست کی بات کرتے ہیں۔10اگست کے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستانی معیشت امریکا اور کنیڈا سے بہتر کام کررہی ہے موجودہ دور میں کوئی کرپشن اسکینڈل نہیں بنا قیمتوں میں کمی کے باعث اسٹیٹ بینک شرح سود کم کرنے پر مجبو رہوا۔شفافیت کو یقینی بنایا گیا رواں سال ہر ماہ افراط زر گھٹتا جارہا ہے ۔چین کے ساتھ اقتصادی راہداری سمیت46ارب ڈالرز کے معاہدے ہوئے پاکستانی معیشت نے امریکا کو بھی اپنا جائزہ لینے پر مجبور کردیا ۔مغربی ذرائع ابلاغ نے دہشت گردی ،توانائی بحران، قدرتی آفات اور تحریک انصاف کے 126روزہ دھرنے جیسے سیاسی بحران کے باوجود حکومت پاکستان کی اقتصادی شعبے میں کامیابیوں کو سراہا ہے ۔ جن میں موقر جرائد بلوم برگ،فوربس،اور اکنامسٹ شامل ہیں ۔پچھلے چند ماہ سے پاکستانی عوام داخلی اور خارجی محاز پر بڑی اہم تبدیلیاں محسوس کررہے ہیں دہشت گردی کا اگر خاتمہ نہیں ہوا ہے تو 80%کمی ضرور ہوئی ہے کراچی شہر میں ٹارگٹ کلنگ بھتا خوری میں نمایاں کمی محسوس کی جارہی ہے 16دسمبر 2014میں بچوں کے اسکول میں جو دردناک سانحہ وقوع پذیر ہوا اس نے تاریخ کا رخ پلٹ دیا ۔ آج ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اسے موجودہ حکومت کے کارناموں میں شمار کریں اور انھیں کرنا بھی چاہیے کہ جو لوگ حکومت میں ہوتے ہیں وہ جب غلط کاموں کی وجہ سے تنقید کی زد میں آتے ہیں تو اچھے کاموں کا کریڈٹ بھی ان ہی کو جانا چاہیے ۔قران میں ہے کہ قصاص میں زندگی ہے یعنی مجرموں کو پکڑنااور انھیں سزا دینا ۔اسلام میں انصاف پر زور دیا گیا اسی لیے کہا گیا ہے کہ کفر کی حکومت باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت باقی نہیں رہ سکتی پاکستان میں سات ہزار سے زائد پھانسی کے مجرمان تھے جن کی سزاؤں پر کئی برسوں عملدرآمد نہیں ہورہاتھا اسی لیے ملک میں دہشت گردی اور قتل عام کی وارداتوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا ہماری حکومت مجرموں سے ہمدردی کا مظاہرہ کررہی تھی ۔کراچی میں جو ٹارگٹ کلنگ ہورہی تھی اسے تو سیاسی جماعتوں کی چھتری بھی حاصل تھی آج اگر لوگوں کو خوف اور دہشت کے سائے سے نجات مل رہی ہے اور معاشرے میں جو زندگی محسوس ہو رہی ہے اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے تھوڑا سا انصاف پر عمل کرنا شروع کیا ہے تو اس کے یہ خوشگوار مظاہر سامنے آرہے ہیں جب ہمارے ملک میں عدالتی نظام مضبوط ہوگا منصف حضرات بغیر کسی جان کے خوف سے فیصلے دینا شروع کریں گے پولیس چالان ٹھیک سے بنائے گی اور سرکار ی پراسٹیکیوٹر ہمت اور دلیری سے اپنا کام کریں گے اور فیصلے جلد سے جلد سنانے کی کوشش کی جائے گی تو معاشرے میں امن وامان قائم ہوگا ۔اور پھر فوجی عدالتوں کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی ۔

اسی لیے آج کے 14اگست سے ہم ایک روشن مستقبل کی طرف سفر کا آغاز کررہے ہیں جس میں امن ہوگا انصاف ہوگا معاشی و اقتصادی خوشحالی ہو گی ۔لیکن ابھی بہت سی منزلیں باقی ہیں پاکستان کے دشمن زیادہ مضبوط ہیں وہ اس صورتحال کو ہرگز برداشت نہیں کر سکیں گے اس لیے ہمیں اپنے دشمنوں سے بھی ہشیار رہنا پڑے گا ۔

آخر میں ہم اب اس 14اگست کے انتظار میں ہیں جب ہم قیام پاکستان کے مقاصد کو حاصل کرلیں گے اور وہ یہ کہ اس ملک میں حقیقی اسلامی انقلاب برپا ہو اس کے لیے ہمیں جان توڑ محنت اور جدوجہد کرنا ہو گا ۔اب یہ منزل زیادہ دور نہیں ہے اس ملک میں ایماندارانہ اور خوف و تشدد کے بغیر نتخابات کا مسلسل انعقاد ہی میں ایک وقت وہ آئے گا جس میں اسلامی نظام کے نفاز کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں کامیاب ہو ں گی اور یہ ملک پانی منزل کو پالے گا اب ہمیں ایک ایسے ہی 14اگست کا انتظار ہے ۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.