کیا ہم آزاد ہیں……؟؟؟

پوری قوم پر ایک جنون طاری ہے ،اور وہ جنون ہے پاکستان کا 68 واں یوم آزادی دھوم دھام سے منانے کا…… غریب لوگ تو دل سے جشن آزادی مناتے ہیں لیکن امراء اور بزنس مین اسے کاروباری نکتہ نظر سے دیکھتے اور لیتے ہیں…… کیونکہ اس وقت بازاروں اور مارکیٹوں میں کروڑوں کی تعداد میں پڑے پاکستانی جھنڈے ،جھنڈیاں ، بیجز اور دیگر سامان کی فروخت سے ان امراء اور بزنس مینوں کی تجوریوں میں راتوں رات اربوں نہیں کھربوں روپے جمع ہو رہے ہیں…… مگر ہم اپنے ارد گرد بھوک افلاس کا شکار ہونے کے باوجود اپنے گھروں کی چھتوں پر قومی پرچم لہرانے کا دل میں جذبہ رکھتے ہیں لیکن ہم انہیں ایک قومی پرچم خرید کر دینے کو تیار نہیں ہوتے یہ ہے ہماری وطن سے محبت ……!!!!!

کیا ہم آزاد ہیں؟
لاکھوں نہیں کروڑوں غریب عوام ایسے ہیں جو اس جشن آزادی کے پر مسرت لمحات سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنے ننھے منے بچوں کو نئے لباس زیب تن نہیں کر سکتے……اپنے مکان کی چھت پر لہرانے کے لیے قومی پرچم خریدنے کی قوت سے محروم ہیں…… ہم کس قدر خود غرض ہوگئے ہیں کہ اپنی ذات سے باہر نکل کر کچھ سوچتے ہی نہیں …… اپنا پیٹ بھرنے سے فرصت ہی نہیں اگر پیٹ بھر جائے تو اپنی تجوریاں اور بینکس بھرنے چل پڑتے ہیں…… کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر پاکستانی صدق دل سے اپنی زکاۃ ہی نکال دیں تو پاکستان میں کوئی غریب نہ رہے

کیا ہم آزاد ہیں……؟؟؟
آج ہم پاکستان کا 68 واں یوم آزادی دھوم دھام سے منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ ان آزاد ی کے68 سالوں میں ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے اور پاکستان نے ہمیں کیا عطا کیا ہے؟ یہی سوال میں نے بہت سارے سیاستدانوں ،بیوروکریٹس، سرکاری ملازمت کے ذریعہ بڑی بڑی گاڑیوں پرسفر کرنے والوں سے بھی پوچھا ہے ،لیکن بہت سے ناشکرے قسم کے لوگوں (سیاستدانوں ،بیوروکریٹس اور چھوٹے سرکاری ملازمین )کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے ،آج جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے یہ ہم نے اپنی محنت سے کمایا اور بنایاہے۔

ہاں چند ایک بزرگوں کا کہنا تھا کہ آج جو ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں، اپنے اپنے عقیدوں کے حوالے سے مذہبی تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں ،گائے کی قربانی سرعام کرتے ہیں ……بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہوکر قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں وصول کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں ،رشوت اور بدعنوانی کا بازار گرم کر رکھا ہے، یہ سب پاکستان کے وجود کا مرہون منت ہی تو ہے…… جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہم کو کچھ نہیں دیاکوئی ان ناشکروں سے پوچھے کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو تم تو کہیں نائب قاصد بھی بھرتی نہ ہو پاتے……یہ پاکستان کی عنایت ہے رہا سوال کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟ اسکا جواب مجھے یہی ملا کہ ہم نے پاکستان کو سوائے بدنامی ،رسوائی اور لوٹ مار کے کچھ نہیں دیا ……ایک سرکاری افسر جس نے اپنا نام لکھنے سے منع نہیں کیا بلکہ میں خود اپنی مرضی سے اسکا نام نہیں لکھ رہا کا کہنا تھا کہ آج میں جس عہدے یا کرسی پر موجود ہوں اور میری گردن میں سریا آیا ہوا ہے……یہ میرے ٹھاٹھ باٹھ رہن سہن اسے میرے پیارے پاکستان کی بدولت ہے اور اگر پاکستان نہ ہوتا تو شائد میں ہندستان میں کہیں چپراسی بھی نہ ہوتا

میرے اس سوال ’’ کیا ہم آزاد ہیں؟‘‘ کے جواب میں اس نے کہا کہ چند سال پہلے تک ہم واقعی آزاد تھے بلکہ حقیقی معنوں میں آزاد تھے ،اپنی مرضی سے سانس لیتے تھے،اپنی مرضی سے سوتے اور جاگتے تھے ،لیکن اب نہیں اب تو چند مٹھی بھر دہشت گردوں نے ہمیں اپنے اپنے گھروں میں محصور کر کے رکھ دیا ہے ……ہاں لوٹ مارکرنے ، لوگوں اور سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے، منشیات فروخت کرنے، رشوت ستانی،بدعنوانی کے ذریعہ راتوں رات امیر کبیر بننے میں ہم آزاد ہی نہیں بلکہ مادر پدر حد تک آزاد ہیں……دو نمبر مال بنانے اور فروخت کرنے میں جس قدر ہم آزاد ہیں اس سے قبل کبھی نہ تھے، جعلی ادویات ، اشیاء میں ملاوٹ کرنے، میں ہم دنیا بھر میں اپنا ثانی رکھتے……

دنیا میں اگر کوئی ہماری ساکھ باقی تھی تو وہ قصور کے جنسی سکنڈل یعنی کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور انکی وڈیوز بناکر انہیں بلیک میل کرنے کے وقوعہ کے منظر عام پر آنے سے پوری ہو گئی ہے، پوری دنیا میں سبز پاسپورٹ کو ھقارت کی بگاہوں سے دیکھا جاتا ہے……سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی ہوائی اڈوں پر تعینات عملہ ہمیں جاور تصور کرنے لگتا ہے،ہماری پتلونیں اور جوتے اتروا کر ہماری تلاشی لی جاتی ہے…… مگر ہمیں پھر بھی شرم و حیا نہیں آتی…… اﷲ کے حضور معافی کے طلبگار نہیں ہوتے ،اپنی آنے والی نسلے کے تحفظ کے لیے اپنے کالے کرتوت چھوڑنے پر تیار نہیں
’’کیا ہم آزاد ہیں‘‘ یہی سوال میں نے ایک زیر تعمیر سرکاری عمارت پر کام کرنے والے مزدور سے پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ ’’کیا پوچھا ہے آپ نے‘‘ میں نے اپنا سوال یہ سوچ کر دہرایا کہ شائد یہ اونچا سنتا ہے تو اسنے کہا کہ کون کہتا ہے کہ ہم پاکستانی آزاد ہیں؟ پہلے ہم پر براہ راست انگریز حکومت کتا تھا اور ہم کالے لوگ اس کے غلامی میں تھے…… دیکھنے اور سسنے میں تو ہم آزاد ہیں لیکن آج بھی ہم انگریزوں کے ہی غلام ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے وہ براہ راست ہم پر حکمران تھے اب اپنے اداروں کا غلام بنا رکھا ہے،میری مراد آئی ایم اف اور ورلڈ بنک سے ہے…… جو ہمیں قرض اور امداد کے نام پر اپنی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں…… ہم تو اپنا بجٹ بھی ان کی ہدایات کے مطابق بنانے پر مجبور ہیں، اصلاحات کے نام پر سرکاری محکمے فروخت کرنے چلے ہوئے ہیں…… ہاں ہم آزاد ہیں کہ ہم نے آزادی کے تیرہ ماہ بعد ہی اپنے قائد محمد علی جناح کو کراچی کی سڑکوں پر رلا رلا کے مار دیا……ابتدائی نو دس سال تک اس پاک وطن کو بے آئین رکھا……چند سال بعد خود غرضوں نے قائد ملت کو چٹے دن لیاقت باغ میں گولیوں سے بون ڈالا…… اپنی انا کی بھینٹ مشرقی پاکستان کو چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کیا…… اگر چودہری محمد علی سمیت درد دل رکھنے والوں نے محنت سے آئین مرتب کر ہی لیا تو اسے دو سال بعد ہی منسوخ کردیا…… پھر ایک آمر نے آئین قوم کو دیا جو اسکے رخصت ہوتے ہی خود بھی رخصت ہو گیا …… ہم نے آزادی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے مشرقی پاکستان والوں کو اچھوت بنایا ،انہیں حقوق دینے سے انکار کیا، تو انہوں نے ہم سے آزادی ھاصل کرلی اور آج وہ ہم سے بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں

ہم نے بلوچستان کے محب وطن عوام کو بھی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں پر فوج کشی کی آج وہاں شورش ہی شورش ہے…… ہاں ہم آزاد ہیں مگر ملک کی تعمیر وترقی میں نہیں بلکہ اس پاک دھرتی کو بے آئین رکھنے، اور آئین کو بار بار منسوخ اور معطل کرنے میں ……شائد آئین سے بار بار کھیلنے والے سمجھتے ہیں آئین کیا چیز ہے…… لیکن یہ خود غرض لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بے آئین سرزمین دنیا میں عزت و احترام کا مقام نہیں رکھتی……عزت احترام مہذب لوگوں کے حصے میں آتا ہے…… میں نے زیر تعمیر عمارت میں کام کرنے والیاس مزدور کا نام اور تعلیم بارے پوچھا تو اسکا کہنا تھا کہ ٹرپل ایم اے ہے، مگر سرکاری ملازمت اس لیے نہیں حاصل کرپایا کہ اسکے پاس پانچ چھ لاکھ روپیہ نہیں ہے جو میں دیکر ملازمت حاصل کرپاتا…… اعلی تعلیم یافتی اس مزدور کی باتیں سن کر یقین آ گیا کہ واقعی ہم آزاد ہیں،لوٹ مار کرنے ،رشوت خوری ،دو نمبری، سرکاری و غیر سرکاری زمینوں پر قبضے کرنے ،منشیات فروخت کرنے ،جعلی ادویات بنانے میں بالکل آزاد ہیں۔

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144563 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.