ابھی اور بھی امتحان باقی ہیں

حکومت کی کارکردگی کا اچھا یا برا ہونے کو پہچاننے کے لئے بہت آسان طریقہ ہے ،اگر ملک کے ادارے مضبوط بنیادوں پر کام کر رہے ہوں تو حکومت کی کارکردگی خودبخود اچھی ہوتی ہے اور اگر اداروں کی ناقص کارکردگی ہو تو بہترین منصوبے بھی صفر ہو جاتے ہیں ۔وفاقی حکومت نے اس بات کو محسوس کیا ہے یا نہیں، یہ تو عوام جانتی ہے ،مگر پنجاب حکومت نے اس بات کو باخوبی محسوسکرتے ہوئے اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں ،یہ عوام کے لئے ایک اچھی نوید ہے۔

ادارے خود اچھے ،برے نہیں ہوتے ،انہیں وہاں کام کرنے والے افراد کی کارکردگی ہی اچھا ،برا بنادیتی ہے ۔خاص طور پر کسی بھی ادارے کے سربراہ کا نیک نیت اور اپنے کام سے مخلص ہونا ،اس بات کی سند ہوتا ہے کہ ریل پٹری پر چل نکلی ہے۔ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف میں لاکھ برائیاں سہی، مگر ان کا اپنی عوام اور اپنے فرائض کو محنت اور لگن سے کرنے میں کوئی شک نہیں ،لیکن ایک انسان کتنا بھی کام سے مخلص ہو ،اس کو ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے،جو ان جیسی سوچ رکھتی ہو۔انہیں اپنی ٹیم میں چند لوگ ایسے ملے، جنہوں نے کام کر کے دیکھایا،جس سے ان کو عوام نے سراہا اور وزیر اعلیٰ نے انہیں پوری سپورٹ کیا۔اسی وجہ سے عوام الناس کے کچھ مسائل حل ہوئے ۔

اس کی ایک مثال فوڈ ڈیپارٹمنٹ ہے ،جہاں ڈائریکٹر عائشہ ممتاز نے بڑی بہادری ،محنت اور لگن سے قومی اور بین القوامی ریسٹورنٹس،بیکریز،سویٹ ہاؤسزاور ہوٹلوں میں لوگوں کو جو غلاظت کھلائی جاتی تھی ان کا انکشاف کیا۔یہ ان سے پہلے بھی اس ادارے کو پتہ تھا کہ یہاں کس قسم کی اشیاء کھانوں میں استعمال ہوتیں ہیں ،مگر وہ کان،آنکھیں بند کر کے بیٹھے تھے، کیونکہ انہوں نے تو صرف نوکری کرنا تھی اور اپنی جیبیں بھرنی تھی ۔ انسانیت کے دشمنوں کے ضمیر مر چکے،بے حسی عروج پر ہے،دل و دماغ کو پیسے کی ہوس نے غلام بنا کر رکھ دیا ہے ۔کیا اتنے عرصے سے نا آشنائی تھی ،کہ کیسا گھناؤنا کام ہو رہا ہے۔ میڈیا نے تو بار بار فوڈ ڈیپارٹمنٹ کو جھنجوڑا تھا ،کہ بڑے فوڈ پوائنٹس میں انسانیت سوز کام ہو رہا ہے،لیکن مجال ہے وہ ٹس سے مس ہو جائیں ۔یاد رہے یہ عائشہ ممتاز کا کارنامہ تو ہے کہ انہوں نے اپنی ڈیوٹی کو نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،مگر اس بات کا کریڈیٹ میاں شہباز شریف کو جاتا ہے، جنہوں نے اپنے بڑے سپورٹرز کو بھی کوئی رعائت نہیں دی ، سختی سے پروگرام پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور اور ہر طرح کی مدد مہیا کی ،لیکن ابھی اور بھی امتحان باقی ہیں ۔

اﷲ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں ایک نعمت دودھ ہے ۔ جو کہ ایک مکمل غذا ہے ۔کچھ عرصہ پہلے خالص دودھ ملتا تھا ،مگر اب خالص تو کیا ،دودھ ہی میسر نہیں ہے ۔ کیمیکل کی مدد سے بنایا گیا دودھ نما دودھ ملتا ہے،جسے بے خوف لوگوں کو پلایا جا رہا ہے ۔ ایک ہی دکان میں تین طرح کے دودھ ملتے ہیں،کریم نکال لی جاتی ہے ،جس سے رہی سہی دودھ کی افادیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ آگے دودھ میں پانی ملاوٹ کرتے تھے ،مگر اب پانی میں کیمیکل والا پورڈر استعمال کرتے ہیں ۔ یہی دودھ ہمارے بچے ،بڑے اور بزرگ استعمال کرتے ہیں ۔جس سے ایسی بیماریاں لگ جاتیں ہے، جس کا کوئی تصور نہیں ملتا ۔ ہسپتالوں میں جا کر دیکھیں ،بیمار لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ پہلے بھی یہی پاکستانی ہوتے تھے ،خالص غذا میسر تھی ،لوگ اس قدر بیمار نہیں ہوتے تھے۔انسانوں میں ضمیر نام کی چیز ہوتی تھی ،وہ سمجھتے تھے کہ یہ بھی کسی کا بچہ ہو گا ،جو میں بیچ رہا ہوں وہ اسے پیئے گا ،تو بیمار ہو جائے گا،اگر میرے بچے کو ایسی غذا ملے، تو پھر میں کیا کروں گا……؟ اس لئے وہ ایسا گھناؤنا کام کرتے ہوئے ہزار بار سوچتا تھا۔مجھے یاد ہے کئی سال پہلے ایک دوست نے بتایا کہ میں اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ فلم دیکھنے چلا گیا ،وہاں بچے کو بھوک لگ گئی، میں نے سینما کے کینٹین پر جا کر بچے کے لئے دودھ کا آڈر دیا، کنٹین والے نے مجھے معذرت کی اور کہا کہ جناب یہ دودھ بچوں کے پلانے کے لائق نہیں ہے۔اس نے دودھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔دوست نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا اور بچے کو گھر لے گیا ۔اب ایسے لوگ معلوم نہیں کہاں کھو گئے ہیں ۔آپ پورے شہر کا سروے کر لیں، دودھ کی کسی بھی دکان سے آپ کو اصل دودھ تو درکنار پانی کی ملاوٹ والا بھی دودھ نہیں ملے گا۔یہ زہر آلودہ دودھ جسے ہم استعمال کرتے ہیں،اس پر توجہ دی جانے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس سے معدے کے کینسر سے لے کر کئی بیماریاں لگنے کا اندیشہ موجود ہے۔ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کو نہ صرف بڑے فوڈ پوانٹس میں استعمال ہونے والے مضر صحت اشیاء کے ساتھ شہر میں بکنے والے دودھ مافیا کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ،ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جب عوام اس آہستہ آہستہ اثر کرنے والے دودھ نما زہر سے اپنی جانیں گنوا بیٹھے،تو فوڈ ڈیپارٹمنٹ ان کے لئے حرکت میں آئے ۔ابھی بھی لوگ اس دودھ سے ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہے ،جن کا نہ کبھی پہلے سنا نہ دیکھا ۔یہ کسی گڈ گورنس یا تعریف کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح کے لئے کارنامہ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ وقت آ گیا ہے کہ لوگوں کو شعور دیا جائے کہ صرف گولی سے مارنے والا ہی قاتل نہیں ہوتا، بلکہ یہ تمام لوگ جو اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں، انسانیت کے قاتل ہیں ۔ان کو اس جرم کے تحت سزا دینا ہو گی ،تاکہ یہ عبرت کا نشان بن جائیں اور آنے والی نسلوں تک کو خوف ہو کہ ہم ایسا کام نہ کریں ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109529 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.