ہندوستانی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن گذرا،ایک اورملزم
تعصب کا شکار ہوا،خود سپردگی کرنے والے ایک نادان کو طویل قید بامشقت کے
بعد تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی جرم کو مذہبی،تعصبی
فریم میں رکھ کر دیکھا گیا تو ضرور وہ سنگین ٹھہری نتیجتاًکسی کو سولی
پرلٹکنا پڑا ۔یعقوب میمن کو دی جانے والی پھا نسی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی
ہے ۔یہ سزا محض جرم کی بنیادپر ہوتی تو کوئی کلام نہ تھا ،لیکن یہ ناحق
سزاشایدکسی جذبۂ باطن کی تسکین کے لئے تھی۔ آخر ایسا کیوں ہے……؟ جب بھی بات
اقلیات بالخصوص مسلمانوں کی ہوتی ہے اور ان کو کسی ناکردہ جرم کے تحت ملزم
قرار دیا جاتا ہے تو عدلیہ کا رخ فوراً غیر متوازن ہوتا ہے اور انصاف کے
مرکزمیں خود انصاف بیچارگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ بابری مسجد کے مجرمین اور
خاطیوں کی ایک لمبی فہرست ہے ……ممبئی ……، بھاگلپور……،مرادآباد……، ملیانہ……،
میرٹھ……، ہاشم پورہ…… اور گجرات سانحہ…… میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام
ہوا ،لیکن اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد آج بھی عدلیہ گواہوں اور ثبوت کے حصول
میں سرگرداں ہے۔ یعقوب میمن کو پھانسی پر لٹکایا جانا حیرت انگیز بات نہیں
ہے…… افضل گرو کو بھی جبراً ملزم ثابت کر کے تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی
تھی …… قتیل صدیقی……، عشرت جہاں ……اور کئی ایک کو تو ویسے ہی موت کے گھاٹ
اتارے گئے تھا…… یعقوب میمن کو بھی اسی فہرست شہیداں میں شامل کیا گیا
ہے۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ نفرت و تشدد،ظلم وستم کے اس ماحول میں ہماری ذمہ
داری کیاہے؟ہمیں ان حالات سے نمٹنے کیا کرناہوگا؟
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم ان مسائل کا حل تلاش کر نا چاہیں تورسول
اکرم ﷺ کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے : لقد کان لکم
فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ۔ ’’بے شک تمہارے لئے اﷲ کے رسول ﷺ کی زندگی بہترین
نمونہ ہے‘‘۔ جس طرح آپ ﷺکی سیرت زندگی کے ہر موڑ پرہمارے لئے رہنما ہے‘
بالکل یونہی ان ناگوار حالات میں بھی آپ ﷺکی سیرت طیبہ ہماری مکمل رہنمائی
کر تی ہے۔ نبی کریمﷺ کی زندگی کے عہدمکی پر ہم نظر کریں تو اندازہ ہوتا ہے
کہ مکی دو رکے حالات موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کے حالات یکساں نظر آتے
ہیں۔
اُس وقت مکہ میں بھی مسلمان اقلیت میں تھے ،آج ہندوستانی مسلمان بھی اقلیت
میں ہیں۔ اُس دور میں بھی مسلمان ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے، آج بھی
مسلمان طرح طرح ستائے جا رہے ہیں۔ مکی دورمیں ابو جہل ، عتبہ بن البیعہ
ولیدبن مغیرہ ،امیہ بن خلف ،عقبہ بن ابی معیط جیسے ظالم اسلام اور مسلمانوں
کے خلاف زہر افشانی کر رہے تھے، آج بھی انکے تابعین اہل اسلام کے خلاف
طوفان ِ بدتمیزی بر پا کر رہے ہیں۔ اس دور میں بھی معصب بن عمیر ،بلال ،
عمار بن یاسر ، خباب، عامر بن فہیرہ جیسے نوجوان مشق ستم بنے ہوئے تھے۔،آج
بھی مسلم نوجوانوں کو بغیر کسی خطاکے جیلوں میں سزابھگت رہے ہیں،پولیس کی
حراست میں ہو تے ہوئے بھی انہیں انکاؤنٹر کے نام پر بے رحمی سے ماردیا جا
تا ہے، فسادات کی آڑ میں مال و دولت صنعت وحرفت تباہ و برباد کیا جا تا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات سے کیسے نمٹا جائے وہ کونسی تدبیر اختیار کی جائے
جس سے مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت ہو؟۔عموماً اسلامی
تعلیمات کی روشنی میں ہمیں صبرو تحمل کا درس دیا جا تا ہے۔ جبکہ سیرت نبوی
ﷺکی روشنی میں ہمیں صرف ’’صبر‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’حکمت عملی‘‘ کا بھی سبق
ملتا ہے۔پورے مکی دورکا جائزہ لیں تو دو پہلو واضح طور پر نمایاں ہو تے
ہیں:
(۱)انتہائی نا گفتہ بہ حالات میں بھی صبر (۲) ہر محاذ پر حکمت عملی ۔ان کے
ساتھ ساتھ کچھ اور عوامل بھی تھے جن کے سبب اس قدر صبر آزما دور بھی
کامیابی سے گزر گیا۔ ایمان باﷲ،ایمان بالآخرت ،حضور ﷺ کی بے داغ قیادت،
اخروی نعمتیں ، کامیابی کی بشارتیں جوبزبان قرآن دی گئیں……وغیرہ‘یہ وہ
بنیادی عوامل ہیں جن کے سبب صحابہ کرام ؓنے مکی عہد کا انتہائی نازک دو رکا
کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ۔
آج ہم جن حالات سے نبر د آزما ہیں بالعموم انکا تعلق تین محاذ سے ہے:(۱)
مکالماتی جنگ (۲) بے جاظلم و تشدد (۳) حقوق کی حصول یابی۔
(۱) مکالمتی جنگ: عام طور پر یہ دیکھا گیا کہ کچھ شر پسند عناصر اسلام یا
شعائر اسلام یا مسلمانوں سے متعلق امور اسلامیہ میں سے کسی کی تضحیک
یاتوہین یا انکار کر تے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بالکل یہی صورت حال مکی دور میں
بھی در پیش تھی۔ حضور ﷺ کو کفارو مشرکین مکہ نے مجنوں (پاگل) کہکر طعنہ
دینے لگے(معاذاﷲ)۔وَقَالُواْ یَا أَیُّہَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ
الذِّکْرُ إِنَّکَ لَمَجْنُونٌ(سورہ حجر:۶) ترجمہ: ان کفار نے کہا کہ اے وہ
شخص جس پر قرآن نازل ہوا تو یقینا پاگل ہی ہے‘‘۔
کبھی آپ ﷺپر جادو گر اور جھوٹے ہو نے کا بد ترین الزام لگاتے(معاذاﷲ):
وَعَجِبُوا أَن جَاء ہُم مُّنذِرٌ مِّنْہُمْ وَقَالَ الْکَافِرُونَ ہَذَا
سَاحِرٌ کَذَّابٌ (سورہ ص:۴) ترجمہ:انہیں حیرت ہے کہ خود انہی میں سے ایک
ڈرانے والا آیا اور کافر کہتے ہیں کہ یہ جادو گر ہے جھوٹا ہے‘‘۔
کبھی شعائر اسلام کی توہین کر تے’’ قرآن مجید ‘‘کے متعلق کہا: ۔وَقَالُوا
أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَی عَلَیْہِ بُکْرَۃً
وَأَصِیْلاً (سورہ فرقان:۵)ترجمہ: یہ پہلوں کے افسانے ہیں جنہیں آپ نے
لکھوا لیا ہے……‘‘۔
اس طرح کی دشنام طرا زیاں چلتی رہیں مگر حضور ﷺ نے ان احمقانہ اعتراضات کا
کوئی انتقامی جواب نہ دیا بلکہ عملی طور پر انہیں باطل ثابت کیا‘ بلکہ اس
طرح کی طوفان بد تمیزی کے موقع پرحکم باری تعالیٰ ہے:وَإِذَا رَأَیْتَ
الَّذِیْنَ یَخُوضُونَ فِیْ آیَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتَّی
یَخُوضُواْ فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہ(سورہ انعام:۶۸)ترجمہ:’’ جب تم ان لوگوں
کو ہماری آیات کی برائیاں کر تے دیکھو تو ان سے دور ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ
دوسرے کام میں مشغو ل ہو جائیں‘‘ ۔
اس حکم کی حکمت یہ ہے کہ ہم ان بد اخلاقیوں کاانتقامی جواب دینے لگیں تو
معاملات اور بڑھ کر کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مزید اسلام یا شعائر اسلام کی
گستاخی کر بیٹھے۔ لہٰذا کسی بھی بے جا بد کلامی کے جواب پر آمادہ ہو نے کی
بجائے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، اور قولی جواب سے مثبت فوائد
سے زیادہ منفی نتائج ہی بر آمد ہوتے ہیں۔
(۲)ظلم و تشدد :۔ مکی دور میں ظلم و ستم کی انتہائی سنگین تاریخ دہرائی گئی
اور تو اور خود نبی رحمتﷺ پر بھی ظلم و ستم کو روا رکھا گیا۔ شعب ابی طالب
میں آپ پر خوردونوش کی تمام اشیاء بند کر ا دیا گیا۔ طائف کے میدان میں نہ
صرف آپﷺ کے پیچھے اوباش قسم کے لڑکوں کو لگا یا گیا بلکہ آپ پر اس قدر پتھر
برسائے گئے کہ جسم لہو لہان ہو گیا، نعلین خون سے بھر گئیں۔ عین حالت نماز
میں گلے میں پھندا ڈال دیا جا تا، کبھی اوجھڑی ڈالدی جا تی ،پھر بھی نبی
کریم ﷺکے اخلاق کریمانہ کا کیا کہنا کہ آپ نے کسی جوابی کا رروائی کو مناسب
نہ سمجھا ۔ رہا صحابہ کرامؓ کا معاملہ تو حضرت بلالؓ ،حضرت مصعب بن عمیر
ؓ،حضرت عمار بن یا سرؓ ، حضرت عامر بن فہیرہؓ ، حضرت سمیہؓ…… جیسے کئی
صحابہؓ اور صحابیاتؓ پر ظلم و بر بریت کے پہاڑ توڑے گئے مگر جواباً آپ ﷺنے
کوئی انتقامی کار روائی نہیں کی بلکہ صبر کی تلقین کی اور ساتھ ہی ساتھ
حکمت عملی سے کام لیا۔ ان حالات میں مسلمان اگر انتقامی کا رروائی کے لئے
قدم اٹھاتے تو سوائے جانی، مالی نقصان کے کچھ ہاتھ نہ آتا ۔ لہٰذا حکمت یہی
تھی کہ صبر کا دامن تھامے رکھیں،اور حالات کے تئیں مناسب اور ممکنہ حل
نکالیںَ لہٰذا صحابہ کرامؓ پر ہونے والے ظلم و تشدد سے بچانے کی خاطر حضور
ﷺ کے حکم پر کچھ اصحاب ثروت صحابہؓ نے ان مسلمانوں کو آزاد کر وایا جو
غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوے تھے۔ یہ ظلم کی بڑی وجہ تھی کہ مالک اپنے غلام
کو ربانی دین چھوڑنے پر مجبور کر تا ،وہ اگر انکار کرے تو ظلم و تشدد کو
روا رکھتا تھا۔ دوسری حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ کچھ نا دار صحابہؓ جن
پر زیادہ ظلم ہو رہا تھا‘ انہیں ہجرت حبشہ کا حکم دیا گیاتاکہ وہ ظلم سے
محفوظ رہیں۔ اس طرح انتقامی کارروائی کے بجائے حکمت عملی سے حالات کا
مقابلہ کیا گیا۔
آج ہمارے ملک میں بے جا مسلمانوں پر ظلم تشدد کا بر تاؤ برتا جا رہا ہے،بے
قصور نوجوانوں کو حراست میں لیا جا رہاہے،مسلم نوجوان بے جا الزامات کے زد
میں قید و بند کی زندگیاں گزاررہے ہیں، فسادات کے نام پر ہزاروں جانوں کی
بھینٹ چڑھائی جا رہی ہے۔ان انتہائی نبرد آزما حالات میں کھوکھلے نعرے
،جذباتی تقریر وں کے ذریعے عوام کو ورغلانے کے بجائے عوام میں صبر و تحمل
پیدا کریں۔ چند نفوس کی ہمدردی میں جذبات بھڑکائے جائیں تو مزید ہزاروں کی
جانیں جاسکتی ہیں۔ دوسری حکمت یہ اپنائی جائے کہ قانون کی باز یابی کی کوشش
کی جائے، حقائق کو ٹھوس دلائل کی بنیاد پر بے نقاب کیا جائے ،نیز ملک کی
عوام میں مسلم مظلومیت کو آشکارا کیا جائے……غرضیکہ ’’جذباتی انتقامی کا
روائی‘‘ کے بجائے حکمت و سنجید گی سے بھرا ہر طریقہ اپنایا جائے۔
(۳)حقوق کی حصولیابی :۔ یہ ہمارا وہ محاذ ہے کہ جہاں ہمیں اپنے ہی حقوق
پانے کے لئے جدو جہد کر نی پڑتی ہے۔ دفاتر اور قانونی کار روائی کے دوران
امتیازی سلوک برتا جا تا ہے۔ کئی مقامات پر اپنا جائز حق پانے کے لئے بھی
ہزار پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ آج بھی ملک کی عدلیہ
سے انصاف کی امید باقی ہے ۔مثبت انداز سے حقوق کی حصولیابی کی کوشش کی جائے
اور ہمارا رویہ صحیح ہو تو دشمن کے بھی دل میں رحم آہی جا تا ہے۔مسلمانوں
کو اگر کوئی مذہبی یا سماجی صدمہ سے دوچار ہونا پڑے تو وہ صبر واستقلال اور
دوراندیشی سے کام لیں، عجلت اور جذباتیت سے ممکن حد تک گریز کریں۔
آخری بات :ایک اورانتہائی اہم بات یہ ہے کہ غیر مسلموں میں ہمارے تئیں
موجود ڈر، خوف کو دور کرنا ہوگا،آپسی نفرت کی دیواروں کو منہدم کرنا
ہوگا،مثبت انداز میں اسلامی تعلیمات کو گھر گھر پہنچانا ہوگا۔دین کی دعوت،
حکمت ومعقولیت اور مدلل طریقہ سے اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کریں ۔اور
ہمیشہ طاقت کا مقابلہ حکمت سے کرنے کی سعی کریں۔ اقلیت کے لیے یہ
ہتھیارزیادہ کارگر ہے۔ہر وہ مناسب طریق کار جس سے ہمارے غیر مسلم بھا ئیوں
میں مسلمانوں کے حوالے سے نفرت اور دوریاں ختم ہو‘ اپنائیں۔
لہٰذا وطن کے مسلمانوں کو حد درجہ احتیاط سے قدم اٹھا نا ہو گا۔ فردی طورپر
کوئی جذباتی انتقامی کارروائی کے لئے ہر گز پہل نہ کی جائے ورنہ بجاے فائدے
کے نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔عوام کو بر انگیختہ کرنے والی جذباتی تقریروں
کے بجائے حالات سے نمٹنے کا سنجیدہ حل تلاش کرنا ہوگا۔یاد رہے کہ جماعتی
سطح پر متحدہ جد و جہد ہی ہمیں موجودہ حالات سے مقابلے کا حوصلہ دے سکتا
ہے۔(الامان والحفیظ) |