میں نہیں کہتا یوم آزادی مبارک ہو

وطن تو آزاد ہو چکا ہے
دماغ و دل ہے غلام اب بھی
آزادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آزادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آزدی
ہر سال یہ دن آتا ہے اور وقتی خوشی دیکر چلا جاتا ہے۔ پرچم کشائی کی جاتی ہے بچے قومی ترانہ پڑھتے ہیں ، تقریریں کرتے ہیں، مکالمے پیش کرتے ہیں اور پھر شیریینی لیکر اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں ۔ اور پھر روز مرہ کی طرح ہماری زندگی کی گاڑی ایک ہی ٹریک پر دوڑنا شروع ہوجاتی ہے، اس آزادی کے موقع پر ہم ان شہیدوں کو یاد کرتے ہیں انہیں سلامی پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس ملک کو آزاد کرانے میں جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ لیکن یہ سلامی یہ دعائیں دیتے ہوئے کیا ہمارے ذہن نے کبھی یہ سوال کیا کہ کیا ہم حقیقت میں آزاد ہیں ، جس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا کیا وہ مقصد پورا ہوا کیا آج ہماری مائیں اور بہنیں اس آزاد ہندوستان میں محفوظ بھی ہیں یا نہیں۔
آیا کبھی آپ کے ذہن میں یہ سوال،؟یا نہیں،
اگر نہیں
تو آپ آج بھی آزاد نہیں ہیں ، آج بھی وہی سوچتے اور سمجھتے ہیں جو ہمارے ملک کے یہ غدار نیتا ہمیں دکھاتے ہیں آج بھی ہم لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کو سچ مان لیتے ہیں آج بھی ہمارا ذہن خود سے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، کہنے کو تو ہم آزاد ہیں لکھنے کیلئے ہم آزاد ہندوستان کے باشندے ہیں، ہمیں ہندوستانی ہونے پر فخر بھی ہے لیکن جب ہم اس آزاد ہندوستان کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو بے اختیار زبان پر یہی جملہ آتا ہے کہ "ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں" ہم ایک ایسے ملک کو آزاد کہہ رہے ہیں جہاں پر عدل انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو، جہاں پر بہنوں کی عزتیں بھائی لوٹتے ہیں، جہاں آج اپنی بیٹی پر ایک باپ نظر بد ڈالتا ہے، اگر آپ اخبارات پڑھتے ہیں اور نیوز چینلوں کی سیر کرتے ہیں تو آپ کو بخوبی معلوم ہوگا کہ آئے دن کچھ نہ کچھ ایسی خبریں آجاتی ہیں جو ہمارے دلوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں ۔ ہم تک تو وہی باتیں پہنچتی ہیں جو منظرِ عام پر آچکی ہوتی ہیں لیکن پردے کے پیچھے کیا کچھ ہورہا ہوگا اسکی تو ہمیں خبر تک نہیں۔

69/ سال پورے ہونے کے بعد بھی اس ملک میں لوگ بھوکے سو رہے ہیں ، پینے کیلئے صاف پانی میسر نہیں ہے جہاں پیٹ کی بھوک مٹانے کیلئے بیس بیس روپئے میں بہنیں اپنی عزتوں کو بیچ دیتی ہیں ۔ جہاں ایک حاملہ عورت اپنے بچے کو اسپتال کے باہر جنم دیتی ہے لیکن اسپتال کا یہ ظالم نظام اس کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایڈمٹ نہیں کرتا۔

جہاں ایک بیٹا اپنے باپ کے سامنے دم توڑ دیتا ہے اور وہ اس لئے کی اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں۔

جہاں بے قصور ہندوستانیوں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اس لئے ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مسلمان غلط نہیں ہے ہر قوم میں غلط لوگ ہوتے ہیں لیکن جو بے قصور ہیں انہیں ہی کیوں سزا دی جاتی ہے ۔

ہماری عدالت کا نظام اتنا بگڑ چکا ہے کہ حکومت وقت کے اشارے پر اپنے فیصلے سناتی ہے ۔ ایک ہی دن دو فیصلے کرتی ہے اور ایک کو سزائے موت اور دوسرے کو عمر قید ،جرم ایک، جیل میں گذارے گئے وقت ایک۔ ہاں فرق تھا تو وہ مذہب کا اور اسے پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔

اگر یہی ہے عدالت کا انصاف تو ہم ایسی فیصلے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں نہیں مانتے ایسے فیصلے کو جہاں پر ایک مذہب کے ساتھ ناانصافی کی جائے۔ میں پوچھتا ہوں اس ملک کی عدالتی سسٹم سے کہ آج تک اس ملک میں صرف مسلم اور دلت کو ہی سب سے زیادہ پھانسی کیوں دی گئی۔

اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہندو مسلم فساد ہوجانا جیسے ایک عام سی بات ہوگئی ہے، اور ملک کے حکمراں اس فساد پر انصاف کے بجائے اپنی سیاست کی روٹیا ںسیکتے دیکھے جاتے ہیں ۔ پولس لوٹ مار اور معصوموں کو جیل کے اندر ٹھونسنے میں لگ جاتی ہے اور میڈیا والوں کو برکنگ نیوز مل جاتی ہے کیا کبھی آپ نے دیکھا اس ملک کا کوئی بھی نیتا اس لئے اپنے عہدے سے دست بردار ہوتا ہو کہ فلاں کو انصاف نہیں ملا شاذ و نادر ایسا ہوا ہوگا لیکن میں نے تو نہیں سنا نہ کسی ایسے لیڈر کو دیکھا۔

کیا اس ملک کی عدالت انصاف کر رہی ہے ؟کیا یہاں کا پولس سسٹم جس کے اوپر ملک میں امن وامان قائم رکھنے کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ اپنے کام میں مخلص ہے ؟ کیا یہاں کا عام آدمی ایک سچا ہندوستانی ہونے کا فرض نبھا رہا ہے ؟ نہیں بالکل نہیں
اگر آپ خود کو آزاد کہتے ہیں تو کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے لیں۔

لیکن میں اسے آزادی نہیں کہتا ، نہیں مانتا میں ایسی آزادی کو ، اسلئے میں آپ کو یوم آزادی مبارک ہو نہیں کہوں گا ، ہاں جس دن اس ملک میں انصاف ملنے لگا جس دن میری بہنیں بھوک کیلئے اپنی عزتوں کو نہ بیچے ،جس دن ایک حاملہ اپنے بچوں کو اسپتال کے اندر جنم دینے لگے ، جس دن بوڑھے باپ کی گود میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اسکے جگر کا ٹکڑا دم نہ توڑئے، جس دن یہاں پر گھس خوری ختم ہوجائے ۔جس دن ہر ہندوستانی کو ایک جیسی سہولیت میسر ہو، جس دن یہاں کے لیڈر اس ملک کو لوٹنا چھوڈ دیں ، جس دن یہاں کے ججز خود کو بیچنا چھوڑ دیں ، جس نے عدالتوں کے فیصلے مذہب پر نہیں انصاف پر مبنی ہوں۔ جس دن رات میں دو بجے روڈ پر چلتی ہوئی لڑکی کو اپنی عزت و آبرو محفوظ لگے اس دن مجھے بتا دینا اس دن مجھے جگا دینا میں آپ کو کہہ دوں گا کی آزادی مبارک ہو، لیکن اس سے پہلے کوئی امید نہ رکھنا کی میں آزادی مبارک کہوں گا ۔
محمد زاہد الاعظمی
About the Author: محمد زاہد الاعظمی Read More Articles by محمد زاہد الاعظمی: 4 Articles with 3368 views I am the founder and CEO of Azmi Group born in India but currently in Saudi Arabia. To Know more visit my Blog... View More