کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

پاکستانی قوم آج اپنا 69واں یوم آزادی منا رہی ہے۔ اس موقع پر ہم رسمی خوشی تو منا سکتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم آزاد نہیں ہیں کیونکہ ہم کئی غلط قسم کے قوانین مسلط کئے جا چکے ہیں اور ہمارا تشخص دھندلا گیا ہے۔ پاکستان حاصل کرتے وقت جو قربانیاں ہمارے اسلاف نے دی تھیں وہ ہمارے آج کے ماحول کے لئے نہیں دی تھیں بلکہ وطن عزیز کے حصول کا واحد اور اولین مقصد اس سرزمین میں اسلام کا نفاذ کرنا اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنا تھا۔ ایسی سرزمین جس میں ہر پاکستانی کو برابر کے حقوق حاصل ہوتے اور ملک میں امن و امان کا دور دورہ ہوتا۔ لیکن آج کے پاکستان کی جو تصویر ہمارے سامنے ہے وہ ہمارے اسلاف کا ہرگز مقصد اور مقصود نہ تھی آج پاکستان میں وہ قوم ،وہ جذبے،وہ ولولے اور وہ ایمان موجود نہیں آج ہم کہنے کو تو آزاد قوم ہیں مگر ہم آزاد نہیں ہم اس ملک میں رہ رہے ہیں کہ جس کو قائداعظم محمد علی جناح نے بڑی انتھک محنت سے حاصل کیا تھا جس کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے آباؤاجداد نے قربانیاں دیں جس کے لئے کتنے ہی بچے یتیم ہوئے کتنی ہی ماؤں نے اپنے بیٹوں کو کھویا کتنی ہی بہنوں نے اپنے بھائیوں کو قربان ہوتے ہوئے دیکھا کتنی ہی عورتوں نے اپنے سہاگ اس ملک پر لٹادیے یہ ملک وہ ملک ہے کہ جس کو حاصل کرتے وقت لَااِلَہَ اِلااللہ کا نعرہ لگایا گیا اعلان کیا گیا کہ اللہ ایک ہی ہے اسی اللہ کے دین کی خاطر ہم اس کو آزاد کرنا چاہتے ہیں کہ جس میں مسلمان آسانی سے اس اللہ کی عبادت کر سکیں یہ وطن وہ وطن ہے کہ جب ١٩٦٥ء میں پاکستان کی غیرت مندقوم اور افواج نے اس پاک سر زمیں کی طرف اٹھنے والے گندے قدموں کو کاٹ دیا تھا جس ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستانی قوم کو ایٹم بم اور غوری میزائل کا تحفہ دیا ۔

بہرحال اب ہم نظریاتی اور ذہنی لحاظ سے اغیار کے غلام بنے ہوئے ہیں ہماری تقدیر کے فیصلے اغیار(یہود ونصاریٰ)اپنے ملکوں میں بیٹھ کر کرتے ہیں ہمارے فیصلے آئی ایم ایف اور امریکہ و برطانیہ کرتے ہیں ہم اپنے اوپر اغیار کے نظریات لاگو کررہے ہیں ہمارے ذہن اغیار (ہنود ویہود و نصاریٰ)کے غلام بن چکے ہیں ذہن ہمارے ہیں مگر ان میں سوچ ہماری نہیں سوچ اغیار کی ہے ہم نے اپنے اسلامی رسم و رواج کو بھلا کر اغیار کے رسم ورواج اپنا لیا ہے چاہے وہ اپریل فول ڈے ہو ،چاہے وہ بسنت ہو،چاہے وہ ویلنٹائن ڈے ہو یا آتش بازی ہو۔

ہمارا اور ہمارے حکمرانوں کا اللہ پر بھروسہ و توکل نہیں رھاہم اور ہمارے حکمران اغیار پر بھروسہ کرتے ہیں انہیں ( آئی ایم ایف اور امریکہ)کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں حالانکہ انہیں مسلمان ہونے کے ناظے سے اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانے چاہئیںلیکن ادھر ہاتھ پھیلاتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے اور اللہ کی بجائے امریکہ اور غیر مسلم اقوام کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے ہمیں شرم نہیں آتی۔

اور جہاں تک ہماری سرحدوں کی بات ہے تو آئے روز وہ ہماری سرحوں پر حملہ کرتے ہیں اور آئے روز ان کے ڈرون طیارے ہماری سرحدیں پار کر کے ہمارے ملک میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اگر ہماری ملک کی ایک غیور بیٹی کو مکار انگریز گرفتار کرتا ہے تو اسے ٨٣ سال کی قید کی سزا سنا دیتا ہے اور اگر ان کا ریمینڈ ڈیوس پاکستا ن آکرسرعام ہمارے مسلمان بھائیوں کا خون کرتا ہے تو اسے اعزاز و اکرام سے رکھا جاتا ہے اور اسے بعد میں اعزاز و اکرام کے ساتھ بری کردیا جاتا ہے آخر کیوں ؟ اس لئے کہ اب بھی ہم ذہنی طور پر ان کے غلام ہیں۔

کیا ہم حقیقتا آزاد قوم ہیں؟ہمارے تعلیمی نصاب اغیا ر مرتب کرتے ہیں تعلیمی پالیسیاں اغیار کے کہنے پر مرتب ہوتی ہیں ابھی بھی وقت ہے ہمارا اور ہمارے حکمرانوں کے جاگنے کا اللہ نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس قوم کو اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ یہ ملک سنورنے والا نہیں، نہ ہی کوئی اسے سنوارنا چاہتا ہے، چاہے کوئی آمر ہو، یا کوئی بھاری مینڈیٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والا… الیکشن میں جیتنے کے لیے جہاں پیسہ اور طاقت سب سے اہم ہوں، جہاں پڑھے لکھے لوگ اس لیے الیکشن میں نہ جیت سکیں کہ ان کے پاس اپنی الیکشن مہم چلانے کے لیے رقم نہ ہو، جہاں سفارش چلتی ہو اور قابل لوگوں کو ملازمتیں بھی نہ ملیں… جہاں گھر سے باہر نکلیں تو یہ بھی یقین نہ ہو کہ لوٹ کر زندہ گھر بھی جانا ہے، جہاں دہشت گردی عادت کی طرح اپنا لی جائے…

جہاں بیرونی قوتیں ہمارے نظام کی تخلیق کرتی ہوں ، جہاں عام آدمی کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گیا ہو… جہاں حکمرانوں کے اللے تللے کم کرنے کی بجائے ٹیکسوں کا مزید بوجھ عوام پر ہی ڈالا جائے… اس ملک میں کیا رہنا اور ہم اس ملک کا کیا سنوار سکتے ہیں؟

ہم ایک بے حس قوم ہو چکے ہیں، جنھوں نے غلط کو غلط سمجھنا بھی چھوڑ دیا ہے… زندگی تو ایک ہی بار ملنی ہے تو اسے اس ملک میں رہ کر کسمپرسی سے کیوں گزارا جائے، کیوں نہ ایک بار رقم خرچ کر کے اس ملک سے نکلا جائے، باہر… جہاں کہیں بھی جائیں گے، کم از کم وہاں کوئی قانون ہو گا، عزت اور جان و مال کے تحفظ کی ضمانت تو ہو گی، موت تو مقررہ وقت پر ہی آنی ہے مگر ہر وقت موت کے خوف میں مبتلا رہ کر ذہنی امراض کا شکار تو نہ ہوں گے…جس ملک میں کھانے پینے کے نام پر حرام بک رہا ہو، دودھ ، گوشت ناقص ہو… اور تو اور پینے کا پانی … زندگی بچانے والی دوائیں…

کس طرح اس ملک میں سکون سے رہا جا سکتا ہے، ہر روز ٹیلی وژن پر کسی نہ موضوع پر پروگرام چلتا ہے اور ہمیں علم ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے، کیا حکومتی عہدے داران یہ سب نہیں دیکھتے، پھر بھی یہ سب ہوئے جا رہا ہے،اس ملک میں کیا رہیں جہاں حکمرانوں کو ہم سے سوائے ووٹ کے اور کچھ نہیں چاہیے، اس کے بعد وہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے ہم سے کیا کیا وعدے کیے تھے…

ہم نئی نسل کو جتنا گھامڑ سمجھتے ہیں، اتنے وہ ہیں نہیں… انھیں شاید ملک کے بارے میں ابتدائی معلومات نہیں ہیں مگر حالات حاضرہ سے ہرگز نا واقف نہیں… ہمارے بچے سمجھتے ہیں کہ کیا غلط ہو رہا ہے اور اس غلط ہونے کی جڑیں کہاں ہیں۔ ہم نے آزادی کس لیے حاصل کی تھی؟ کیا اس ملک میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جوہمار ے دو قومی نظرئیے کی بنیاد تھا، کس لیے ہم سوچتے تھے کہ ہمیں ایک علیحدہ ملک چاہیے؟

چھیاسٹھ برس بیت چکے… ہم تب سے آزاد ہیں، کیا ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لیتے ہیں، کیا ہمیں اپنے مذہبی اور معاشرتی عقائد اور رسومات پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے… کیا ہماری معیشت آزاد ہے… ہمارے ہاں قانون آزاد ہے ، لوگ آزاد ہیں، اظہار رائے کی آزادی ہے؟ ایک آزاد ملک ہونے کا عمومی مقصد تو یہی ہوتا ہے نا… تو کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
لفظ آزادی کے اندر چھپی ہوئی خوشی وہی محسوس کر سکتا ہے جو واقعی آزاد ہو پوری دنیا کے لیے ہم آزاد ہیں ،آزاد مملکت کے رہنے والے ہیں پر در اصل ہم آزاد نہیں،ہزار دشواریوں میں پھنسے ہوئے عوام آزاد ہونے کو محض ایک لفظ تصور کر تے ہیں اسکے معنی کتنے وسیع ہیں اسکا شاید انہیں اندازہ بھی نہیں ،دوسری جانب آزادی ملنے کے باوجود آزاد نہ ہونا بڑے ظالمانہ حکومتی رویہ کی جانب اشارہ کرتا ہے،آئین کے مطابق عوام کو بہت آزادی حا صل ہے جس میں سر فہرست اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا ہے،خواتین کی تعلیم حاصل کرنے میں آزادی جو کئی علاقوں، دیہاتوں حتی کہ کئی شہروں میں نا ممکن ہے، آزادی اظہار رائے کی آزادی اور بہت کچھ ۔۔۔۔کس قدر قربانیوں کے بعد ہمیں یہ وطن عزیز ملا،زمین ملی جہاں ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں،ترقی کی راہیں ہموار کر سکیں لیکن موجودہ صورتحال میں ہم یہ سب کرنے سے قاصر ہیں اور نہ ہم اب تک آزاد ہونے کا اصل مقصد سمجھ پائے ہیں،یہ کہنا غلط نہیں کہ ہم صرف کہنے کی حد تک آزاد ہیں ،سوال یہ ہے کہ آزادی کا شعور کیسے بیدار کیا جائے؟ ہمارے نصاب میں سب کچھ عیاں ہے کہ کس کس طرح آزادی ملی،محض یہ کہنا کہ ہم آزاد ہیں کافی نہیں،آزادی کا شعور یا کسی بھی مثبت عمل کا شعور صرف تعلیم ہی کے ذریعے آسکتا ہے،علم کی روشنی بلا شبہ ہمیں تاریکی سے نکال سکتی ہے، انہی باتوں کا اندازہ اور ماضی کے بارے میں آگہی مل جائے تو آزادی کا اصل مطلب سمجھیں،آزادی کا جشن صرف ایک دن منانا ،خوب ملی نغمے سننا کافی نہیں ،اسی طرح تبدیلی کا نعرہ لگانا بھی کافی نہیں ،بلکہ عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا ،اور واقعی آزادی کو سمجھنا ہوگا
AB king
About the Author: AB king Read More Articles by AB king: 3 Articles with 7242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.