ریلوے کے دہشت گرد افسران

گذشتہ دن گجرانوالہ کے قریب نہر کا بوسیدہ ریلوے پل گرنے سے پاکستان کے عظیم اور جان نثار فوجیوں کو کھاریاں شفت کرنے والی ٹرین کو ایک شدید اور الم ناک حادثہ پیش آیا اور پل گرنے سےچار بوگیاں بمعہ انجن نہر میں گر گئے جس سی بیس سے زاید فوجی جوان و افسران ہلاک ہوئے اور ایک سو سے زیادہ فوجی جوان شدید زخمی ہوئے ۔یہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کراچی تا پشاور جانے والی ١٦٩٧ کلو میٹر لمبی اہم ترین ریلوے لائن ہے جس کی جنگ کے دوران فوجیوں کی سپلائی بحال رکھنے اور پاکستان کی سرزمین کی حفاظت اور دفاع کرنے کے لیے ایک خاس اہمیت رکھتی ہے مگر ریلوے کے دہشت گرد اور اور بد عنوان افسران نے اس اہم ریلوے لائن اور اس پر قائم شدہ تمام پلوں کی مرمت ، حفاظت اور روزانہ چیکنگ کروانے میں ہمیشہ غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے اور ری لوے کے ذمہ وار افسران کافی عرصہ سے بد عنوانی اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں اور ہماری حکومت نے آج تک ریلوے کے افسران کے خلاف سخت ترین کارروائی کبھی نہیں کی ہے جس کی وجہ سے دہشر گردی کے اس قسم کے واقعات پیش آرہے ہیں-

میں نے ریلوے کے تمام افسران (چیرمین تا ڈویزنل سپرنٹنڈنٹس ) کو دہشت گرد اس لیے کہا ہے کہ ریلوے کے تمام افسران گذشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی سرگرمیوں مین مصروف ہیں مثلا اس کے تمام کنٹریکٹر اور وینڈرز عرصہ دراز سے بیوریج کی نقلی اور مضر صحت بوتلیں فرو خت کرتے ہین کیونکہ وہ چیرمیں ریلوے تا ڈویزنل سپرنٹنڈنٹس کو ہر سال پانچ کروڑ روپے کا کمیشن دیتے ہین اور اسی طرح ریلوے کے تمام کنٹریکٹر اور وینڈرز عرصہ دراز سےریلوے کے مسافرون کو غیر معیاری، باسی، بدبو دار اور زہریلا کھانا فروخت کرتے ہیں یعنی وہ کھانا جس کو کتے اور دوسرے جانور بھی کھانا پسند نہین کرتے ہیں ریلوے کے غنڈہ ٹائپ اور بد معاش کنٹریکٹر بیوریج کی بوتلین فروخت کروانے کے لیے تمام پنکھے اور ایر کنڈیشند ریلوے کے بد عنوان اسٹاف کی ملی بھگت سے بند کروا دیتے ہیں اورریلوے پلیٹ فارم پر نصب شدہ ٹھنڈے پانی کے پلانٹ تک بند کروا دیتے ہین اور جب چیرمیں ریلوے اور ڈویزنل سپرنڈنٹس کو شکایت ارسال کی جائے تو ریلوے کے تکبر پسند اور ظالم افسران ریلوے مسافروں کی شکایات پر کسی قسم کی کارووائی نہیں کرتے ہیں کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے -؟ ، اور کیا ریلوے کے تکبر پسند اور ظالم افسران دہشت گرد نہیں ہین ۔؟، اگر ریلوے کے ملک دشمن افسران کے دلون مین خدا کا اور اپنی اپنی قبروں مین نازل ہونے والے عذاب کا خوف ہو تو شاید وہ اس قسم کی گھٹیا ترین اور ظالمانہ حرکات نہ کر سکیں-

اگر اس ملک میں فیلڈ مارشل محمد ایوب جیسا سخت ترین مارشل لائ کی حکومت موجود ہوتی تو ریلوے کے ظالم اور تکبر پسند افسران کو ملک دشمن اور دہشت گردی کی کارووائیوں میں ملوث تمام ریلوے افسران کولاہور کے پلیٹ فارم پر ریلوے مسافرون کے سامنے ان کی ننگی پیٹھون پر پچاس پچاس سخت ترین کوڑے لگ جائین تو ریلوے کے تمام افسران کے دماغ درست ہو سکتے ہیں کیونکہ جب تک اس اسلامی ملک پاکستان کے بد عنوان اور ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث سر کاری افسران کو سرکاری افسران کی کوتاہیوں پر سخت سے سخت ترین سزائیں دینے کی روایت پیدا نہین ہو گی اور ان کی ننگی پیٹھون پر سخت ترین کوڑے لگانے کا عمل نہین ہو گا تو اس وقت تک اس ملک کے تمام سرکاری دفاترز کا دفتری نظام کبھی بھی درست نہیں ہو سکتا ہے۔

مگر جب اس ملک کا ایک محب وطن شہری راجہ غضنفر علی خان آدووالیہ اس ملک کی سماجی برائیون کی جانب حکومت کے متعلقہ وزرائ کی توجہ دلوانے کے لیے اور ان کی اصلح ھالکے لیے مفید تجاویزات سے بذریعہ قومی اکبارات سے آغاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس ملک کے اردو اخبارات ان کی جائز آواز کو حکومت تک نہیں پہنچنے دیتے ہیں-

ریلوے کا پل ریلوے افسران کی کوتاہیون سے ٹوٹا ہے مگر ریلوے کے افسران اپنی کوتاہیوں کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں لہذا اندیشہ یہ ہے کہ اگر اس دفعہ ہماری حکومت نے ریلوے کے افسران کے خلاف سخت ترین عبرت ناک کارروائی نہ کی اور اس واقعے کو ایک معمولی سا ّ معاملہ قرار دیا تو پھر ریلوے کے بد عنوان اور دہشت گرد افسران کے غلط قسم کے کام کرنے کے حوصلے بڑھ سکتے ہیں اور وہ اس ملک کی اہم ترین ریلوے لائن کی مکمل تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

پل ٹوٹنے کا جو واقعہ پیش آیا ہے اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں

(١)- ریلوے کے تمام پل اور ریلوے ٹریک ١٨٦١ کے تیار شدہ ہیں ان کی معیاد ستر سال تا نوے سال تک کی تھی مگر ان کو تعمیر کیے ہوئے ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے ان کی جگہ نے پل اور نئے ریلوے ٹریک بنانے کی جانب توجہ بالکل نہیں کی گئی ہے حتٰی کہ پاکستان ریلوے کے بد عنوان افسران نے ان کی ہر سال مرمت کروانے پر بھی توجہ نہین دی ہے اور ھکومت پاکستان کا کئی ارب روپے کا سالانہ بجٹ کا فند سرکاری کاغذات میں بوگس پروگریس ظاہر کر کے فنڈ ہڑپ کرتے رہے ہیں-

(٢)- تمام ریلوے برج پر سیکورٹی گارڈز تعینات نہین کیے گئے ہیں

(٣)- ریلوے ٹریک کی روزانہ پٹرولنک بالکل نہیں کی جارہی ہے اور اس کی بروقت فالٹ دور کرنے اور مرمت کرنے کی جانب توجہ نہیں کی جارہی ہے

(٤)- ریلوے کے اسٹاف میں جو ملازمین بھرتی کیے گئے ہین ان کی پولیس ٹھانے سے تصدیق اور جانچ پڑتال نہیں کروائی گئی ہے جس کی وجہ سے ریلوے میں کچھ تقریب کار اور دپشت گرد بھی بھرتی ہو گئے ہین

(٥)- ریلوے کے قلی اور کنٹریکٹر کے اسٹاف کے مکمل کوائف کا ریکارڈ ریلوے کے پاس موجود نہیں ہے کیونکہ یہ بھی دہشت گردی کروانے مین ملوث ہو سکتے ہیں

(٦)- اگر ریلوے کو ہر سال اربوں روپے بجٹ فنڈ کے خرچ کرنے کی باقاعدہ آڈٹ کسی نیپ کے ادارے کی معرفت کروائی جائے تو فنڈ کے غبن کرنے اور ہرُ کرنے کے کافی ثبوت مل سکتے ہیں مختصرا یہ کہ ریلوے کے بد عنوان افسران نے ریلوے ٹریک اور پلون کی بروقت مرمت اور تعمیر نہ کروا کر تمام فند ہڑپ کیا ہے اور ریلوے کے نطام کو تباہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے آئے دن ریلوے کے حادثات ہو رہے ہین اور ریلوے کی تنصیب کو نقصان پہنچ رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منجرجہ بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ریلوے کا نظام درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری مسلم لیگ حکومت مندرجہ ذیل تجاویزات پر غور کرے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے تا کہ ریلوے کا دفتری نظام درست ہو سکے اور دہشت گردی کے تمام امکانات ختم ہو سکیں

(١)-سب سے پہلے چیرمین ریلوے اور اس کے تمام ڈویزنل سپرنڈنڑنتوں کو ریلوے کی ملازمت سے بر طرف کر کے جیلون مین بند کر دیا جائے اور ان کے خلاف ریلوے میں دہشت گردی کروانے، ریلوے کا نظام تباہ کرنے اور سرکار فنڈز ہڑپ کرنے کے مقدمات کے تحت سخت ترین قانونی کارووائی کی جائے تا کہ ریلوے کے دوسرے افسران کو عبرت حاصل ہو سکے

(٢)، ریلوے کا مکمل کنٹرول آرمی کے افسران کے حوالے کیا جائے

(٣)- ریلوے کے تمام ڈیڑھ سو سالہ پرانے پلون اور ریلوے ٹریک کی مکمل چیکنگ کی جائے اور نئے پل اور ٹریک تعمیر کیے جائین۔

(٤)۔ تمام ریلوے پل اور ریلوے کراسنگ پر سیکورٹی گارڈز تعینات کیے جائیں

(٥)- ریلوے تریک کی روزانہ پٹرولنگ کروائی جائے

( ٦)۔ ریلوے کے تمام قلی ختم کر دیئے جائٰن ان کی جگہ پکی ملازمت کے طور پر قلی بھرتی کیے جائیں

(٧)۔ ریلوے کے تمام ملازمین کی پولیس تھانے سے اور انٹیلیجنٹ ادارون سے جانچ پّرال کروائی جائے تا کہ ریلوے میں بھرتی شدہ دہشت گرد کو گرفتا ر کیا جا سکے-

(٨)- کراچی تا پشاور ١٦٩٧ کلو میٹر لمبی ریلوے ٹریک کی مکمل حفاظت کے لیے ہر دو کلو میٹر کے فاصلے پر پچاس فت اونچے پول لگا کر ان پر فلش لائٹ اور کیمرے نصب کیے جائین اور اسی پول کے پاس سیکورٹی کے کمرے رعمر کیے جائین جس میں سیکورٹی گار دز ہر اس مشکوک شخص کو چیک کرے جو ریلوے ٹریک کے آس پاس گھوم پھر رہا ہو

(٩)- اس اہم رہلوے ٹریک کے دونون طرف باربرڈ وائر لگائی جائے

(١٠)- اب تمام مسافر ترینون کو بیٹری سسٹم کے تحت تین گروپ میں چلایا جائے جس کے تحت ہر گروپ میں آٹھ مسافر ٹرینیں پندرہ پنفرہ منٹ کے وقفے سے روانہ کی جائیں اور ہر بیٹری سسٹم سے پہلے ایک ایک پائلٹ انجن چلایا جائے یہ محفوظ ترین طریقہ کا ہے

(١١)- ریلوے کے تمام کنٹریکٹرز، کیٹررز، ٹی اسٹال ختم کر دیئے جائیں مسافروں کو اچھی بیکری کے لنچ بکس اور ٹھنڈے پانی کی بو ٹلین مہیا کی جائیں۔

(١٢)- ریلوے افسران کو پندرہ سالہ ملازمت مکمل کرنے کے بعد فورا ریٹائرڈ کر دیا جائے

مندرجہ بالا تجاویزات پر عمل کرنے سے ریلوے کا دفتری نظام آرمی کی سخت ترین ایڈمنسٹریشن کی وجہ سے خود بخود درست ہو جائے گا اور ریلوے تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے واقعات فورا کتم ہو جائین گے اور دہشت گتدی ختم ہو جائے گی

مجھے امید ہے کہ وزیراعظم پاکستان مندرجہ بالا رجاویز پر ضرور عمل کریں گے اور ریوے کا دفتری نظام یقینی طور پر درست کریں گے
RAJA GHAZANFAR ALI KHAN ADOWALIYA
About the Author: RAJA GHAZANFAR ALI KHAN ADOWALIYA Read More Articles by RAJA GHAZANFAR ALI KHAN ADOWALIYA: 7 Articles with 6568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.