مولانا سعید احمد جلال پوری کے
قتل اور اسلام آباد میں طالب علم پر تشدد کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد
پیدا شدہ دباﺅ غالب آ گیا، حکومتی ذرائع کی بھی جزوی تصدیق
جھوٹے مدعی نبوت یوسف کذاب کے خلیفہ زید حامد ملک سے فرار ہو گئے ہیں، آزاد
ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے، سرکاری ذرائع بھی اس کی مشروط تصدیق کرتے
ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح کی اطلاعات موجو دہیں تاہم کسی ہوائی یا زمینی
راستی سے زید حامد کے بیرون ملک جانے کی باقاعدہ تصدیق وقت طلب بات ہے جس
کے لئے متعلقہ اداروں کو مہلت درکار ہو گی۔ واضح رہے کہ مولانا سعید احمد
جلال پوری کی شہادت کے اگلے روز کاٹے جانے والی ایف آئی آر میں زید حامد کو
ملزم نامزد کیا گیا تھا، قبل ازیں اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ہونے والے
پروگرام کے دوران ایک طالب علم کی جانب سے یوسف کذاب سے تعلق کے متعلق
پوچھے گئے سوال کا جواب دینے کے بجائے اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے
الزام میں وہاں کے پولیس اسٹیشن میں بھی زید حامد کے خلاف ایف آئی آر درج
کی جا چکی ہے۔ذرائع کے مطابق ان دونوں واقعات کے بعد میڈیا رپورٹس اور ملک
بھر میں پیدا ہونے والے شدید ردعمل نے زید حامد کو مجبور کیا ہے کہ وہ
پڑوسی ملک فرار ہو جائے جس کی تمام تر تیاری مکمل کر لی گئی تھی اور تازہ
ترین اطلاعات کے مطابق وہ پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فرار کی اطلاع کے ساتھ ساتھ اس بات کے شواہد بھی موجود
ہیں کہ مولانا سعید احمد جلال پوری کے قتل میں زید حامد کی سیکورٹی پر
مامور کالعدم تنظیموں کے کارکنان ملوث تھے۔ جن میں سے کچھ کو سیکورٹی
اداروں نے گرفتار بھی کر لیا ہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر انہیں منظر
عام پر نہیں لیا جا رہا۔ کالعدم تنظیموں سے وابستہ مذکورہ کارکنان کے متعلق
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ قبل ازیں زید حامد کی سیکورٹی پر مامور ہونے کے
ساتھ ساتھ اس کے مخالفین کے خلاف مسلح کارروائیوں کے ذمہ دار بھی تھے،
مولانا سعید احمد جلال پوری کا قتل بھی اسی گروہ کا کارنامہ تھا۔ لیکن اس
موقع پر کی گئی منصوبہ بندی کے تحت واقعہ کو مکمل فرقہ وارانہ رنگ دینے کی
کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی جس کے بعد دو مختلف کالعدم تنظیموں سے تعلق
رکھنے والے افراد کے مابین ہونے والے جھگڑے نے اصل سازش کو سامنے لانے میں
اہم کردار ادا کیا تھا۔
مولانا سعید احمد جلال پوری کے قتل کی سازش اور اس میں ملوث کرداروں کے
سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں پیدا ہونے والے شدید ردعمل نے زید حامد کو اس
بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ پڑوسی ملک فرار ہو جائے۔ زید حامد کی جانب سے
معروف سوشل ویب سائٹ پر موجود اپنے صفحہ پر اگرچہ ملک سے فرار کی خبروں کی
تردید کرتے ہوئے اسے چند اخبارات کی اختراع قرار دیا گیا ہے۔اور اس صفحہ پر
جواب دینے کو اس کی ملک میں موجودگی کی دلیل کہا گیا ہے لیکن انٹرنیٹ
ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی کسی بھی ویب سائٹ یا سماجی ویب سائٹ کے
صفحہ کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے متعلقہ فرد کی ملک میں موجودگی ضروری نہیں
اسلئے یہ ممکن ہے کہ زید حامد ملک سے فرارہو چکا ہو لیکن اپنے خلاف پیدا
ہونے والے ردعمل کو کم کرنے اور اس کا رخ تبدیل کرنے کے لئے واقعے کی تردید
کر رہا ہو یا پھر زید حامد کے نام پر موجود صفحے کو وہ نہیں بلکہ کوئی اور
اپ ڈیٹ کر رہا ہو۔
اس پورے معاملے میں سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مبینہ طور پر
عالمی سطح کے پروفائل کے حامل القاعدہ اور طالبان رہنماﺅں کو گرفتار کرنے
والی کراچی اور سندھ پولیس نامزد ملزمان کو گرفتار کرنے میں اب تک ناکام
ثابت ہوئی ہے۔ جب کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے انہیں سامنے نہیں لایا
جانا بھی معنی خیز قرار دیا جا رہاہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زید حامد اور اس
کی سیکورٹی پر مامور کالعدم جماعتوں کے کارکنان کو اعلیٰ سطحی سرپرستی حاصل
ہے۔ یہ دباﺅ پولیس کو اس بات سے روکے ہوئے ہے کہ وہ گرفتار افراد کو سامنے
لا سکے۔
واضح رہے کہ زید حامد کو حاصل حکومتی و بیوروکریٹک سرپرستی کے متعلق ماضی
میں بھی کئی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں جن کے مطابق زید حامد کو اعلیٰ سطحی
حکومتی و سرکاری افسران کی سرپرستی حاصل رہی ہے جس کی وجہ سے وہ حساس
اداروں کے میسوں سمیت مختلف سرکاری ونجی جامعات میں جا کر لیکچر دیتا رہا
ہے۔اس سطح پر موجود تعلقات ہی کا شاخسانہ ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت یوسف کذاب
کے ”صحابی“اور ”خلیفہ“کے طور پر شہرت پانے کے بعد زید حامد نے تیزی سے
اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کیا تھا جو شوبز
اور فیشن کی دنیا سے وابستہ تھے۔ پاپ میوزک انڈسٹری کا بڑا نام علی عظمت
اور فیشن انڈسٹری کی ماریہ بی سمیت متعدد دیگر افراد کے نام اس دعوے کے
ثبوت میں پیش کئے جا سکتے ہیں۔
زید حامد کی جانب سے حالیہ دنوں میں بڑھتے ہوئے عوامی دباﺅ کو کم کرنے کے
لئے دیگر کہہ مکرنیوں کے ساتھ جواز کے طور پر یہ بھی کہا گیا تھا کہ جس
یوسف کذاب کو غلط کہا جاتا ہے وہ غلط نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو ملک کے
معروف عالم دین اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانا عبدالرحمن اشرفی ان
کے ساتھ حج نہ کرتے اور نہ ہی ان سے دوستی رکھتے، جب کہ یوسف علی کے خلاف
پروپیگنڈہ کرنے پر انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماﺅں کی سرزنش
بھی کی تھی۔ زید حامد کے اس بیان نے اگرچہ ابتداء میں عام افراد کے ساتھ اس
کی حقیقت سے واقف لوگوں کا بھی اپنے یقین پر اعتماد متزلزل کیا تھا لیکن
مولانا عبدالرحمن اشرفی نے اس کی وضاحت جاری کر کے فوراً ہی جھوٹ کا بھانڈا
پھوڑ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ”جہاں تک میرے بارے میں یوسف کذاب سے دوستی وغیرہ کا
حوالہ دیا جا رہا ہے تو میں مولانا عبدالرحمٰن اشرفی اس بات کی وضاحت کرتا
ہوں کہ حقیقت حال یہ ہے کہ یوسف علی میرے پاس ایک دو مرتبہ ملنے کے لئے آیا
اور اسی دوران میں، میں اور مولانا اجمل خان صاحب حج کو گئے تو منیٰ میں
جہاں مولانا اجمل مرحوم کا درس تھا وہیں یوسف علی بھی درس دے رہا تھا لہٰذا
یہ کہناغ لط ہے کہ میں نے یوسف علی کے ساتھ حج کیا اور میری اس سے دوستی
رہی اور میرا زید حامد سے کوئی تعلق ہے، نہ ہی میں اس سلسلہ میں یوسف علی
کے حق میں کوئی اخباری بیان جاری کیا اور نہ ہی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
کے متعلقین کو اس سلسلہ میں کوئی سرزنش کی، میرا مؤقف بھی یوسف علی کے بارے
میں وہی ہے جو دیگر علما، ارباب فتویٰ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت والوں
کا ہے، اور اس سلسلے میں، میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ مکمل تعاون
کا یقین دلاتا ہوں، لہٰذا یہ تمام باتیں جو مجھ سے منسوب کی گئی ہیں یہ
سراسر جھوٹ اور خلاف واقعہ ہیں۔ میں زید حامد صاحب پر یہ واضح کرنا چاہتا
ہوں کہ آئندہ ان باتوں کی نسبت میری جانب نہ کی جائے“۔
مولانا عبدالرحمٰن اشرفی کی جانب سے حالیہ وضاحتی بیان سامنے آنے کے بعد
زید حامد کے خلاف ملک بھر میں جاری غم و غصہ کے جذبات میں مزید شدت آئی ہے۔
جس کا بنیادی سبب اس کی جانب سے کی جانے والی غلط بیانی اور مولانا
عبدالرحمٰن اشرفی سے منسوب کئے جانے والے بیان کی آڑ لے کر اپنے آپ کو درست
ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ اسلام آباد اور کراچی کے پولیس اسٹیشن درج کی جانے
والی ایف آئی آر کے نتیجے میں اس میں نامزد زید حامد اپنے قریبی ساتھی سمیت
گرفتار ہوتا ہے یا اعلیٰ حکومتی و سرکاری ذرائع سے وابستگی اور ان کی
پسندیدگی اسے بچا لیتی ہے، مبینہ طور پر افغانستان اور وزیرستان سے آنے
والے القاعدہ اور طالبان رہنماﺅں کو آسانی سے گرفتار کر لینے والی کراچی
اور سندھ پولیس یہ کارنامہ سر انجام دیتی ہے یا مولانا سعید احمد جلال پوری
کے قتل میں ملوث کالعدم تنظیموں کے گرفتار شدگان کو چھپانے کی طرح اس
معاملے کو بھی یونہی نظر انداز کیا جاتا رہے گا؟ قانون کی پابندی اور
عملدراری غریبوں تک ہی محدود رہتی ہے یا بااثر افراد بھی اس کے شکنجے میں
آتے ہیں، یہ واضح ہونا باقی ہے۔ تاہم اس میں زیادہ دن نہیں لگنے۔ ہوتا کیا
ہے، ہم بھی دیکھتے ہیں، آپ بھی دیکھیں، لیکن تبدیلی حالات کے لئے کوشش شرط
ہے۔۔۔ |