بلوچستان میں امید کی کرن

گزشتہ کچھ عرصہ سے ایرانی بلوچستان میں قبائلی تنازعات کے حوالے سے سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، خاص کر سماجی کارکنان اور معاشرے میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات انتقامی سوچ اور رویہ، نیز بعض عناصر کی اس صورت حال سے غلط فائدہ اٹھانے پر غم وغصہ اور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

بلوچستان کے ماضی سے واقفیت رکھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے سابقہ نظام ہائے حکومت یہاں اپنے پنجے مستحکم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ چنانچہ بلوچ عوام اپنے عائلی، خاندانی اور قبائلی تنازعات کے تصفیے کے لیے ’شریعت‘ کو ثالثی دیتے چلے آرہے ہیں۔ نہ صرف ایرانی بلوچستان میں، بلکہ پورے خطے میں اب بھی لوگ اپنے مسائل کے تصفیے کے لیے سب سے زیادہ شرعی قاضیوں پر بھروسہ کرتے ہیں جنہیں عوام ہی کے مفادات عزیز ہیں اور وہ ہرگز اپنے لوگوں کو با ہم دست و گریباں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ روایتی انداز میں خدمت دین کرنے والے علمائے کرام پر بھروسہ پایا جاتاہے اور وہ بھی حقیقی امن و سکون کی خاطر سرگرم عمل نظر آرہے ہیں۔

ایرانی بلوچستان کے شمالی علاقے میں چند ہفتے پہلے ایک اچھی خبر سامنے آئی کہ دو بڑے قبائل پندرہ سالوں تک لڑائی کے بعد صلح پر رضامند ہوگئے اور صوبے کے ممتاز علمائے کرام اور بعض اعلی حکومتی عہدیداروں کی موجودی میں تنازعات کا تصفیہ ہوگیا۔ مگر چند دنوں کے بعد اچانک ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس میں تین افراد جاں بحق ہوئے اور الزام مخالف قبیلے پر لگایا گیا۔ جب عوام وخواص "براہوئی" و "شہلی‌بر" قبائل کے صلح پر خوشی منارہے تھے، ایسے میں تشویش کی لہر ہر سو دوڑ گئی اور خوف و پریشانے کے بادل پھر بلوچستان پر چھا گئے۔

اس سلسلے میں بعض اہل قلم نے اپنی تشویش کے اظہار میں قدرے مبالغہ آرائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’بیرونی ہاتھ‘ ہی کو موردِ الزام ٹھہرایا؛ اگرچہ اغیار کی مداخلت اور جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کی کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سب سے پہلے الزام ہم ہی پر عائد ہوتاہے۔ اگر انتقامی سوچ اور کلچر نہ ہوتا تو دوسروں کو کیوں کر مداخلت اور متنازع قبائل و شخصیات کو لڑانے کی سازشیں کر نے کا موقع ملتا؟ انہیں موقع ہمارے ہی لوگوں نے دیا ہے؛ یہ حقیقت ماننی پڑے گی۔
اس کے باوجود امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ سماجی و دینی کارکنان و شخصیات سب مل کر قبائلی لڑائیوں اور قتل و غارتگری کے خلاف بیک صدا آواز اٹھارہے ہیں۔ علمائے کرام خاص کر شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کافی سرگرم نظر آرہے ہیں اور قوی امید ہے یہ سلسلہ رک جائے گا۔ چنانچہ تازہ ترین اطلاع کے مطابق وسطی بلوچستان میں بیالیس سال کے بعد دو قبائل صلح پر رضامند ہوکر با ہم شیروشکر ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ معاشرے کی سوچ میں مثبت تبدیلی اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے نتائج ہیں۔ دینی و عصری تعلیم عام ہونے کا یہی فائدہ ہوتاہے کہ امن وسکون بھی بآسانی حاصل ہوجاتاہے۔
Abdulhakeem Ismaeel (Shahbakhsh)
About the Author: Abdulhakeem Ismaeel (Shahbakhsh) Read More Articles by Abdulhakeem Ismaeel (Shahbakhsh): 8 Articles with 6740 views I am a Graduate of Darululoom Karachi holding diploma in journalism and English language from Majlis-i-Ilmi Society Karachi.
Right now serving in Da
.. View More