سنگھڑ بٹھارہ کے مسائل اور قاری الطاف خان کا معصومانہ اظہار خیال
(Syed Muzzamil Hussain, ChamanKot)
’’میں اپنے والد کی انگلی پکڑ کر
چمن کوٹ آیا تھا، زندگی بھر اپنے علاقے کے مسائل کے لیے پتھروں سے سر
ٹکراتا رہا اور اب خود لاٹھی کا سہارا لینے پر مجبور ہوں ‘‘ ان خیالات کا
اظہار گزشتہ دنوں چمن کوٹ آزاد کشمیر کے مقام پر سنگھڑ بٹھارہ کے مسائل کے
موضوع پر ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علاقے کے ممتاز سماجی کارکن
قاری محمد الطاف خان نے کیا۔
سنگھڑ بٹھارہ ، تحصیل دھیر کوٹ ، ضلع باغ ، آزاد کشمیر میں چمن کوٹ کے
بالکل سامنے واقع ہے ۔ اس کے ذیلی علاقوں میں دھار ، بھاٹیاں وغیر ہ شامل
ہیں۔ چمن کوٹ سے ان علاقوں کو ملانے والی سڑک پدر کے مقام پر خونی نالے
ایرن سے مڈھ بھیڑ پر مجبور ہوتی ہے جبکہ ہل سرنگ سے جانے والی سڑک دریکالی
کے مقام پر علاقے میں داخل ہوتی ہے ۔ دونوں مقامات پر نالہ ایرن آج تک
سینکڑوں لوگوں کی جانیں لے چکا ہے ۔ قاری محمد الطاف نے اپنے خطاب میں
آبدیدہ انداز میں بتایا کہ ان کے کندھے لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔
قاری الطاف کا موقف تھا کہ دریکالی کے مقام پر پل کے لیے ایک کروڑ اکہتر
لاکھ روپے کی خطیر رقم برباد کر دی گئی لیکن پل نہیں بن سکا۔ اسی طرح کا
معاملہ دوسرے مقام کا بھی ہے ۔ جب بھی بارشیں ہوتی ہیں علاقے پر موت سایہ
کناں ہو جاتی ہے ۔ 1947 میں یہ خطہ آزاد ہوا تو کسی حد تک علاقے میں تبدیلی
آئی ۔ لیکن سنگھڑ بٹھارہ کی تقدیر نہ بدل سکی۔ نہ معلوم کتنے قاری الطاف
حسرتیں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے؟
حکمرانوں کے لیے یہ تحریر محض تفنن طبع کا باعث بنے گی۔ اس لیے کہ انہیں
کیا پڑی کہ وہ اس علاقے پر توجہ دیں۔ علاقہ کے عوامی نمائندے اس علاقے کو
اپنی جیب میں سمجھتے ہیں اس لیے وہ بھی توجہ نہیں دے رہے ۔ ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ قاری محمد الطاف اور اس علاقے کے لوگوں کو اپنے مسائل کے لیے
اس حد تک نہ جانا پڑتا ، ان کی ساری توانائیاں مسلسل احتجاجوں کی نذر ہو
رہی ہیں۔
قاری محمد الطاف ! آپ اپنے والد کی انگلی پکڑ کر چمن کوٹ تشریف لائے تھے ،
اس لحاظ سے آپ اپنے والد مرحوم کے مشن پر کارفرما ہیں ، مقتدر طبقات آپ کو
والد کے مشن سے دور نہیں کرنا چاہتے اسی لیے وہ آپ کے مسائل بھی حل نہیں کر
رہے ۔ بہرحال آپ حکمرانوں کے ساتھ تقریری مقابلہ جاری رکھیں ، کچھ ہو نہ
ہوآپ آخر کار علاقے کے ایک ممتاز مقرر ضرور بن جائیں گے اور لوگ آپ کو یاد
کیا کریں گے۔ ویسے بھی آپ کا یہ کہنا ہے کہ آپ مقتدر طبقات کی نفسیات سے
آگاہ ہیں ، تبھی تو وہ آپ سے دل لگی کر رہے ہیں ۔ آپ نے کہا کہ وہ تیر آزما
رہے ہیں ، جبکہ آپ خود جگر آزمانے پر تلے ہوئے ہیں، آپ کے یہ اقدامات اور
تقریریں لوگوں میں ادبی ذوق پیدا کر رہی ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کے
احتجاج کے دوران کی گئی دوسری تقاریر بھی آپ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ۔ آپ ایک اکیڈمی بنتے جا رہے ہیں جس
کا ماٹو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے ۔ آپ کے جلسے کے دیگر شرکاء
مثلاً کفیل احمد خان، مسرت خان ،ماجد ریاض، حاجی فضل داد خان، صابر عباسی ،
امجد گردیزی سب کے سب آپ کے انداز تقریر سے اپنی راہیں متعین کرتے دکھائی
دیتے ہیں ۔
|
|