پاکستان

آج سے 68برس قبل یہ ارض پاک انتہائی جدوجہد اور لاکھوں شہداٗ کے خون کے بہنے کے بعد حاصل ہوئی۔اس ارض پاک کے حصول کے لئے چلنے والی تحریک میں ہر قدم پر مسلمانان ہند کو ایک ہی خواب ہی دکھایا گیاکہ اارض پاک میں ان کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوگا۔ کسی اکثریت کے جبر کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنے رسوم و رواج اور احکام مذہب سے دستبردار نہ ہونا پڑے گا۔ مسلمان اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کریں گے۔اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیئے مسلمانان ہند نے منظم ہو کر ایک جمہوری تحریک کے ذریعے بالآخر 14اگست1947میں اپنی منزل کو پالیا۔یوں دنیا کے نقشہ پر ایک ایسا ملک ظہور پذیر ہوا کہ جس کی بنیاد مذہب تھا۔ نہ کہ کوئی لسانی،علاقائی یا قبائلی شناخت ۔ کئی زبانوں ،رنگارنگ علاقائی ثقافتوں اور کئی قبائل (اقوام) کا گلدستہـ ـ’’پاکستان‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔

قیام پاکستان کے ساتھ ہی بانی پاکستان نے پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقوام کو یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ اس ارض پاک میں ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہو گی مطلب ریاست کی نظر میں سب پاکستانی ہو ں گے۔ نہ کوئی ہندو ہوگانہ کوئی سکھ،نہ کوئی مسلم اور نہ کوئی عیسائی۔ کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح جیسا ذہین و فطین دوراندیش سیاستدان حصول مملکت کے بعد اس کی ترقی اور استحکام اتحاد و یک جہتی اور امن وامان میں ہی پوشیدہ دیکھ رہا تھا۔

شومئی قسمت کہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح زیادہ وقت زندہ نہ رہے اور مشکوک حالات میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔یوں قائد اعظم جیسے نابغہ روزگار قائد کی قیادت سے محروم ہوگئے۔راقم کے خیال میں نہ صرف ہم ایک بااصول دیانتدار قیادت سے محروم ہوئے بلکہ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اقتدار کا ’’ھماــ‘‘ ابن الوقت لوگوں کے سروں پر جا بیٹھا۔قائد اعظم کی سیاست و بصیرت کے ورثاء کھڈے لائن لگادیئے گئے۔ عنان اقتدار سول بیوروکریسی کے ہاتھ میں چلا گیا۔پھر سول بیوروکریسی سے یہ اقتدار کی ’’رضیا‘‘ ملٹر ی ڈکٹیٹرشپ کے آنگن میں جا ٹھہری ۔یوں قائداعظم کے دار فانی سے کوچ کے بعد ہم نے زینہ بہ زینہ معاشرتی اعتبار سے گراوٹ کو گلے لگانا شروع کیا۔قوم کی تعمیر و تشکیل کے بجائے ظاہری چکاچوندی کی طرف تمام تر توجہ مبذول کر لی۔ اپنے ہی مسلم بھائیوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دیا۔اس دوسرے درجہ کی شہریت نے جہاں بھائیوں میں تفاوت ڈالی وہاں دشمن کو بھی ایک ضرب کاری موقع مل گیا۔اس طرح سول و ملٹری بیوروکریسی کی مہربانی سے 1971میں یہ اسلامی نظریاتی مملکت اپنوں کی کارستانی سے دولخت ہوئی۔

یہ گراوٹ وہی رک جاتی تو خیر تھی مگر چند سالوں کے وقفہ کے بعد پھر یہ سلسلہ گراوٹ شروع ہو گیااور ایسا شروع ہوا کہ آج بھی اس ارض پاک کا موجود ہونا ایک معجزہ ہے۔ہم پرائی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے دیا،ہم نے مسلمان بھائیوں کی خلوص دل سے مدد کے بجائے عالمی استکبار و استعمار کا کھلونا بننے کا فیصلہ کیا۔ظاہر ہے جو مدد مظلوم کی مظلومیت کے بجائے اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھارہی ہوتو پھر اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو ہم آج بھگت رہے ہیں۔جب ہم نے دو عالمی طاقتوں کی جنگ کو اسلام کی جنگ بنایا،جب ہم نے سرمایہ کی جنگ کو مذہب کا متبرک لبادہ پہنایا،جب ہم نے مسلمان بھائی کی مظلومیت کے بجائے اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا تو پھر ہمارے کارہائے نمایاں کی سزا ہمیں ملنا شروع ہوئی۔جس ملک میں غیرمسلموں کے مذہبی عقائد کی آزادی کا وعدہ کیا گیا تھاوہاں مسلمان مسلمان کی جان کے درپہ ہوا۔خون کی وہ ہولی کھیلی گئی کہ چنگیز و ہلاکوبھی ان درندوں کے سامنے ہیچ نظر آئے۔اسلام کے نام پر ابلیسیت کا رقص رچایا گیا۔مسلمان کی جان،مال اور عزت مسلمان کے حلال قرار دی گئی۔آئے دن درجنوں بے گناہ مسلمانوں کو مارا جانے لگا۔اسلام کے نام پر مسلمانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلی جانے لگی۔مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا جانے لگا۔قتل مسلمان پر جنت کے پروانے تقسیم کیئے جانے لگے۔لیکن جب یہ ہاتھ اصل کارپردازوں کے بچوں کے گلوں تک پہنچے اور اتفاق سے سپہ سالار اعظم بھی پہلے والوں سے ہٹ کے تھا تو پھر ارض پاک میں ’’ضرب عضب‘‘ شروع ہوئی۔شکوک و شبہات کے باوجود دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ہے ناصرف دہشت گردوں کی گوشمالی جاری ہے بلکہ اب کے ان کی نظریاتی تربیت کرنے والوں پر بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ راحیل شریف اپنوں کے پھیلائے گند کو صاف کر رہے ہیں لیکن اس گندگی کی صفائی کا فائدہ نہ صرف پاکستان کی عوام ہورہا ہے بلکہ پورے عالم کو اس کا فائدہ ہوگا۔جنرل راحیل شریف نے یہ بھل صفائی مہم اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچائی تو پھر وہ لوگ منظم ہو جائیں گے کہ جن کا اب بھی یہ ایمان ہے کہ پاک فوج ’’مرتد فوج‘‘ ہے۔ ایسے لوگوں کو پاتا ل سے ڈھونڈ کر کیفرکردار تک پہنچانے تک یہ ضرب عضب جاری رہنا چاہیئے۔تاکہ احمد ندیم قاسمی کا یہ خواب بھی پورا ہو
خدا کرے کہ میری ارض پاک پراترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
Raja Qanbar
About the Author: Raja Qanbar Read More Articles by Raja Qanbar: 23 Articles with 18572 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.