بھاگلپور فساد کمیشن کی رپورٹ
مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑا فراڈ اور بھونڈہ مذاق
مدت ۹سال،خرچ ۱۱کروڑ،مسلمانوں کی ۱۵ہزارفریادوں کو دیکھا تک نہیں گیا،جج
این پی سنگھ کے بے ایمانی کی انتہا کرد ی
اسے حکومت کا دیوالیہ پن کہا جائے گا یاججوں کی بے ایمانی؟ ۲۶ سال بعد ایک
بار پھر بھاگلپور فرقہ وارانہ فساد کی رپورٹ ۷ اگست کو بہار قانون سازیہ کی
میز پر رکھی گئی۔کیا بیورو کریسی نتیش کمار کو گمراہ کر رہے ہیں یا افسر
شاہی حکومت کو کٹگھرے میں کھڑا کر دینے کی سازش کر رہی ہے؟بلا شبہہ جب نتیش
کمار بھگوا رنگ میں رنگے تھے اورلالو پرساد کو دیکھنا گوارا نہیں کر رہے تب
انہوں ایک بھونڈا مذاق کیا تھا۔بھاگلپور فرقہ وارانہ فساد کی جانچ رپورٹ
پہلے بھی ایوان میں پیش کی جا چکی تھی اور ایوان میں بحث بھی ہوئی تھی۔لالو
پرساد کی حکومت نے تین ججوں پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن جسٹس رام نندن پرساد
کی قیادت میں بنائی تھی۔جسٹس شمش الحسن اور جسٹس رام چندر پرسادکمیشن کے
دیگرممبران تھے ۔ اسوقت جناب جابر حسین قانون ساز کونسل کے چیر مین تھے اور
۱۹۹۵ میں لالو پرساد نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے فساد کی جانچ رپورٹ دونوں
ایوان میں پیش کی تھی۔۲۰۰۵ میں جب نتیش کمار وزیر اعلیٰ بنے تو ان پر لالو
مخالفت کا بھوت سوار تھا اوربھگوا رنگ کا اثر غالب تھا تو انہوں نے
بھاگلپور فساد کی از سر نو جانچ کرا کر لالو پرسادکو طشت از بام کرنے کا
منصوبہ بنایا تھا۔
غور طلب ہے کہ ۲۶ برس بعد اس رپورٹ کو پیش کر کون سا تیر مارنے کی کوشش کی
جا رہی ہے؟ در اصل نتیش کمارکو مخصوص لوگوں کے درمیان کھڑے رہنے کی عادت بن
چکی ہے،زمینی حقائق سے دور اپنی پیٹھ تھپتھپاتے رہنے کی فطرت نے انہیں عام
لوگوں اور زمینی ورکروں سے دور کر رکھا ہے۔اس میں شک نہیں کہ تین ججوں کی
رپورٹ میں جسٹس آر این پرساد اور دیگر دو ججوں کی فائنڈنگ میں بنیادی
اختلاف تھا۔ رام نندن پرساد بھاجپا اور اسکی ذیلی تنظیموں کی کرتوتوں پر
پردہ ڈالنا چاہتے تھے لیکن باقی دو جج صاحبان حقائق کو سامنے لانا چاہتے
تھے۔ یہی وجہہ ہے کہ دو رپورٹ پیش کی گئی تھیں۔جسٹس این پی سنگھ نے ۹ سال
بعدکون سا تیر مار لیا؟ مجرمان کی نشان دہی تو پہلے ہی کی جا چکی
تھی۔واقعات کی تفصیلات سے لوگوں کی جانکاری میں کون سو اضافہ ہو گیا؟
۹سال کی طویل مدت میں جسٹس این پی سنگھ صرف ۴ مرتبہ بھاگلپور گئے،۱۱ کروڑ
کمیشن ڈکار گئی،۱۵ ہزار سے زیادہ مظلومین درخواست دیکر کمیشن کے سامنے اپنا
درد رکھا لیکن کمیشن نے انہیں دیکھنے کی تکلیفتک گوارہ نہیں کی۔جس رپورٹ کو
۶ ماہ میں پیش کی جانی تھی اسے ۹ سال میں پیش کی ،نتیجہ صفر!جس طرح درندے
خون کا مزاملنے کے بعد مزید وحشی ہو جاتے ہیں اسی طرح کمیشنوں کو سرکاری
رقوم پر عیش کرنے کا چسکا لگ چکاہے۔
فساد ات کے بعد کیا ہوتاہے اسکا تلخ تجربہ نالندہ ضلع کے مسلمانون کو
ہے۔گاؤں میں مسلمان زمین مالک ہوا کرتے تھے اور پسماندہ برادری کے غیر مسلم
براہل ہوتے تھے۔ ۱۹۴۶ کے فساد میں گاؤں کے گاؤں اجڑ گئے اور انکی زمینوں
پران کے ملازمین قابض ہو گئے۔ کہیں کہیں دستخط کرا کر لکھوا لیا،ورنہ آج
بھی مالک بنے بیٹھے ہیں۔ ہندستان کے معروف شاعر بلبلِ بہار مرحوم پروفرسر
کلیم عاجز زندگی کے آخری ایام تک اپنی آبائی بستی تلہاڑا کو فراموش نہیں
کرسکے جس گاؤں ۴۶ کے فساد میں قتل و غارتگری کے دوران کلیم عاجز تنہا بچ
گئے تھے۔ اینپیسنگھ کمیشن کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ اس بات نشاندہی
کرے کہ بھاگلپور فساد کے بعدtransfer of Landکتنی تعداد میں ہوا اور زمیں
کی خریداری میں مسلمانوں کو کون سی قیمت دی گئی؟چندیری،نونی، نغمی جیسے
دہاتوں سے مسلمانوں کا تقریباََ صفایا کر دیا گیا تھا،مسلمانوں کو کھیتوں
میں بغیر کفن کے گاڑ کر گوبی کے کھیت تیار کر لیے گئے تھے۔ایک اطلاع کے
مطابق بھاگلپور میں۳۰۰ ہزار ایکڑ زمین پر غیر مسلم آج تک قابض ہیں لیکن
کمیشن نے اپنی آنکھیں بند رکھی۔ کمیشن نے مسلمانوں کے بنیادی سوال کو بے
شرمی کے ساتھ نظر انداز کر دیا۔
اس رپورٹ کو پیش کیے جانے سے دو تین روز قبل نتیش کمار نے ستندر نرائن
سنگھ،سابق وزیر اعلیٰ کی قد آور مورتی کی نقاب کشائی کرتے ہوئے ستندر بابو
کے نقش قدم پر چلنے کا عہدکرنیکی تلقین کی تھی اور اور ٹھیک تیں روز بعد
ایوان میں این پی سنگھ کمیشن کی رپورٹ پیش کر اس وقت کی ستندر سرکار کو نا
اہل قرار دے دیا گیا؟
بھاگلپور فساد کے بعد پولس نے وہی کیا جسے مودی حکومت غیر مسلم دہشت گردوں
کے معاملے میں کرنے کے لیے دباؤ بنا رہی ہے۔پولس نے فسادیوں کے خلاف دائر
مقدموں کے شواہدوں کو کمزور کیا اور مجرمین کو بچانے کا کام کیا۔اس وقت کے
بھاگلپور کے کمشنر عاشق ابراہیمی کا ایک بیان اخباروں میں آیا ہے۔میں ان سے
اتفاق کرتا ہوں کہ اس وقت کے وزیر قانون شکیل احمد خاں مرحوم نے فرقہ
وارانہ ہم آہنگی برقراررہنے کے بہانے مسلمانوں کے قاتلوں کو بچانے کی کوشش
کی تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے عاشق ابراہیمی کی باتوں کو بھی نظر انداز کر
دیا تھا۔
ملک میں مسلمانوں کے قاتلوں کو بچانے کے لیے ایک نئیرجحان کو جنم دینے کی
کوشش لالو پرساد نے شکیل احمد خان کے ذریہ کی تھی،یعنی مسلمانوں کے تحفظ کے
نام پر اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا قائم رہے اس لیے فسادیوں کے خلاف
مقدمہ لڑنا بند کر دیا جائے۔یعنی قتل و غارتگری کے بعد جو زندہ بچ گیے ہیں
انکی زندگی کی ضمانت کے لیے وہ اپنے درد کو بھول جائیں اور زبان پر تالا
لگا لیں۔ اب ایک نیا پیغام دیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو قتل کرو،تباہ و
برباد کر دو اور دس سال بعد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نام معافی لے لو!
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھاگلپور فساد کے مظلومین کو نتیش ھکومت نے کچھ بھی
نہیں دیا۔ ۲۰۱۱ میں فاربس گنج کے مظلومین کو بھی کچھ بھی نہیں ملا اور
عدالتی کمیشن ۶ برسوں سے تحقیق کرنے کا ڈرامہ کر رہی ہے۔یہ ایک تحقیق کا
موضوع ہے کی جسٹس این اپی سنگھ کمیشن پردس سال میں حکومت کا ۱۱ کروڑخرچ ہوا
،فابس گنج واقعہ کی تحقیقات پر کیا خرچ ہو چکا ہے اور کتنا خرچ ہوگا؟
ایک طرف دوستی اور دوسری طرف خنجر زنی یہ نئی سیاست کا وصف ہے۔ وفاداری اب
صرف کتابوں کی زینت بنتی جا رہی ہے۔نتیش اس معالے میں ماہر ہوتے جا رہے
ہیں۔ایک طرف ستندر نرائن سنگھ کی قصیدہ خوانی اور اسکے تیسرے روزانہیں نکمہ
ترین وزیر اعلیٰ قرار دے دیا گیا۔ مجھے یاد ہے بھاگلپور فساد کے دوران ایک
پریس کانفرنس میں ستندر بابو نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا……’کیا کروں
افسران بھاگلپور کچھ نہیں سن رہے ہیں‘ تو میں نے کہ دیا تھا کہ…… ’تو آپ
استعفیٰ کیوں نہیں دے دیتے؟‘ میری اس بات پر وہ کافی دنوں تک ناراض رہے
تھے۔
میں نے بھاگلپور فساد کی جو رپورٹ ۲۶ سال بعد آئی اسکا تفصیلی مطالعہ نہیں
کیا ہے لیکن اخباروں میں شائع رپورٹ سے اس بات کا اندازہ لگ چکا ہے کہ
کمیشں بنیادی سوال یعنی فساد کے بعدTransfer of Landکے سوال پر خاموش ہے
اور دس سال تک کروڑں ڈکارنے کے بعد ایک سطحیقسم کی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ جن
دہاتوں سے مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیا ان کے مکانوں پر کسکا قبضہ ہے؟جن
عبادت گاہوں کو کھٹال میں تبدیل کر دیا گیا کیا انہیں آزاد کرایا جا سکا؟
جن جن گاؤں سے مسلمانوں کو اجاڑ دیا گیا ان کے کھیتوں پر کون قابض ہے؟جن
پولس افسران نے فسادیوں کی قیادت کی اور مسلمانوں کے قتل عام میں مدد کی
انہیں حکومت نے کون سی سزا دی؟
سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر جگن ناستھ مشرا نے اپنے تحریری بیان میں این سنگھ
کمیشن رپورٹ کو مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا بھونڈہ مذاق بتایا ہے بنیادی سوال
فسادیوں کی نشاندہی کر انہیں سزا دلوانی تھی اور مسلمانوں کی زمینوں گھروں
اور عبادت گاہوں کو ناجائزقبضے سے آزاد کراکر مسلمانوں کے حوالے کرنے کی
کوئی کاروائی نہیں کی۔ہندستان کی تاریخ میں پہلا واقعہ جب ایک طرح کے جرم
کے لیے دو دو کمیشن بنائے گئے۔ڈاکٹر مشرا نے نتیش جی کے ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ کو
لوک سبھا میں دیے گئے بیان کا حوالہ دیا ہے ، جس مین نتیش جی نے کہا
تھا……’میں کہنا چاہتا ہوں بھاگلپور میں مسلم اپرادھیوں کے دو گٹ ہیں سلطان
اور انصاری اور بھاگلپور دنگا انہیں دوارا شروع کیے گئے،بھاگلپور کے ایس پی
پر بم پھیکا گیا اور کئی پولس والے زخمی بھی ہوئے۔رام شلا پوجن کے اوسر پر
بم پھیکے گئے اور ابھیئتک یہ دونوں اپرادھی گرفتار نہیں کیے گئے ہیں……‘یہ
بیان انہوں نے اپنے بھگوا دوستوں کو خوش کرنے کے لیے فساد کے دو ماہ دیا
تھا جو انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھا۔ڈاکٹر مشرا نے بیان میں کہا ہے کہ
تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ حکومت نے کوئی کاروائی نہیں کی،نہ ہی کوئی معاوضہ
ہی دیا۔ بہار کے معروف سماجی کارکن ابو قیصر نے عوام کو منظم کیا اوریو پی
اے حکومت پر دباؤ ڈالکر بھاگلپور فساد کے متاثرین کو وہی معاوضہ دلوایا جسے
مرکزی حکومت میں فساد متاثرین سکھوں کو دہلی میں دیا تھا۔ ڈاکٹر مشرا کا
کمیشن پر یہ بھی الزام ہے کہثبوتوں کی عدم فراہمی کے نام پر کئی مقدموں کو
بند کروا دیا۔
نتیش جی اگر انصاف کے ساتھ ترقی کی بات کرتے ہیں تو مسلمانوں کے تئیں مخلص
بنیں! ا فاربس گنج میں بھاجپائیوں کے اشارے پر مسلمانوں کو ظلم و ستم کا
نشانہ بنایا، نہ تو نتیش کمار اور نہ ہی انک کوئی مسلم وزیر اور نہ اقلیتی
کمیشن کے چیر مین مظلوموں کا حال جاننے گئے۔ معاملے کو تھنڈہ کرنے کے ایک
عدالتی کمیشن بنا دیا جو دیگر کمیشنوں کی طرح ۵ سالوں سے عیش کر رہا ہے۔
عزیر پور کے فساد زدگان آج بھی آپ کے انصاف کے منتظر ہیں۔
میری نظر میں بھاگلپور فساد کی موجودہ رپورٹ ایک مذاق اور مسلمانوں کے
جذبات سے کھیلنے اور اور انکی تباہی و بربادی کا مذاق اڑانے کی ایک مزموم
کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔خدا کے لیے مسلمانوں کی بے بسی کے سیاست نہ
کریں!کمیشن کے نام پر سرکاری خزانے کو برباد نہ ہونے دیں۔ |