10 اپریل 1915 ء کو متے کوٹ
راولاکوٹ میں جنم لینے والے تحریک آزادی کشمیر کے سیاسی روح رواں‘ کشمیر
جنت نظیر کے ایک عظیم سپوت اور بطل جلیل سردار محمد ابراہیم خان نے ابتدائی
تعلیم مڈل سکول ہورنہ میرہ میٹرک پونچھ شہر کے سٹیٹ جوبلی ہائی سکول سے
حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور پھر بار ایٹ لاء
کرنے کے عزم سے عازم انگلستان ہوئے۔لنڈن یونیورسٹی کالج سے ایل ایل بی اور
لنکن ان سے بیرسٹری کی امتیازی ڈگریوں کے حصول کے بعد وطن واپس لوٹے اور
سری نگر میں وکالت کا آغاز کیا۔ 1936 ء میں آل جموں و کشمیر کے ٹکٹ پر
ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
برطانوی حکومت کے تقسیم برصغیر کے فارمولا کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ نے اپنی
رہائش گاہ واقع سری نگر میں جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے مشہور زمانہ قرارداد
الحاق پاکستان منظور کرا کر کشمیریوں کا مستقبل پاکستان سے وابستہ کیا اور
یوں پاکستان کی بقا کی ضمانت دی۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت کا دارو مدار
کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر ہے ڈوگرہ سرکار نے مذکورہ اقدام کا سخت نوٹس
لیتے ہوئے مذکورہ قائد کشمیر کے خلاف بغاوت کی پاداش میں عبرت ناک سزا کی
ٹھان لی۔ صورتحال کو بھانپتے ہوئے آپ اپنے اہل عیال کو وہیں بے یارو مددگار
چھوڑ کر کشمیر کے اس حصے میں تحریک کو منظم کرنے کے لئے تشریف لائے۔ یہ ہے
وہ ایثار جو غازی ملت نے آزادی ملت کے لئے پیش کیا۔ انہوں نے مری کو اپنا
مستقر بنا کر تحریک آزادی کو بڑھاوا دینے اور 15 اگست 1947 ء کو راولاکوٹ
کی ’’سیاسی ٹیکری‘‘ (جو تحریک آزادی کا لفظ آغاز ہے) سے اٹھنے والی تحریک
آزادی و بغاوت کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوششیں تیز کر دیں۔ ان
کاوشوں کے صدقے میں تحریک آزادی ہولے ہولے پورے اس خطہ میں پھیل گئی اور
تمام علاقوں کے لوگوں نے جان و مال کی قربانیوں دے کر اس میں اپنا اپنا حصہ
ڈالا۔ مذکورہ بغاوت و تحریک کو کچلنے کے لئے ڈوگرہ ریاستی حکومت نے اپنی
فوج کو جگہ جگہ تعینات کرکے حریت پسندوں کو مرعوب کرنے کی ناکام کوشش کی‘
متعدد مقامات پر ڈوگرہ افواج کی مجاہدین سے جنگ ہوئی۔ لیکن مسلمانوں کے
جذبہ حریت کے باعث وہ چوکڑی بھول گئے۔ بالآخر مسلمان ڈوگروں کو شکست دینے
میں کامیاب ہوئے چنانچہ 24 اکتوبر 1947 ء کو مظفرآباد میں سردار محمد
ابراہیم کی سرپرستی میں ایک انقلابی حکومت معرض وجود میں آئی غازی ملت چار
مرتبہ آزاد ریاست جموں و کشمیر کے صدر رہے۔ ان کی سربراہی میں ریاست کا
انتظام و انصرام احسن و خوبی چلتا رہا۔ وہ مالیاتی ڈسپلن کے زبردست حامی
تھے وہ ان گنے چنے صدور آزادکشمیر میں سے ہیں جن کا دامن غلاظتوں کے ماحول
میں اجلا اجلا اور نفیس نفیس نظر آتا ہے۔ آپ کو دو مرتبہ تنازع کشمیر کو
اقوام متحدہ کے سامنے پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہی ہے پہلی بار وہ 1947 یو
این او میں گئے جب وہ ایک خوبرو‘ جاذب نظر اور جوان رہنما تھے انہوں نے
مسئلہ کشمیر بڑی عمدگی سے پیش کرکے اس میں جان ڈال دی اور عالمی فورم کو
دلائل سے بے حد متاثر کیا۔ جبکہ دوسری مرتبہ وہ پیرانہ سالی کے دوران وہاں
گئے جب وہ صدر آزاد کشمیر تھے۔ موصوف نہایت دلبر و بے باک انسان تھے ان کو
اپنا مافی الضمیر ظاہر کرنے سے بھی کوئی طاقت نہ روک سکتی تھی۔ شاہوں کے
سامنے دوٹوک انداز میں بات کرتے اور کبھی اپنے الفاظ واپس نہ لیتے تھے۔ ان
میں اعلٰی قیادتی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں آزادکشمیر اور پاکستان میں
ان سے زیادہ وقت کی پابندی کوئی نہیں کر سکتا‘ وہ وقت کی پابندی کے سلسلے
میں جھگڑ پڑتے تھے اور اپنے پروگرام پر بھرپور انداز میں عمل کرتے تھے اور
ایک اور غیر معمولی وصف ان میں یہ تھا کہ وہ بسیار خوری سے کوسوں دور تھے
چند نوالے کھانے کے بعد ہاتھ کھینچ لینا ان کا خاصہ تھا۔ ان کی عالٰی ظرفی
کا یہ حال تھا کہ جدو جہد آزادی کے لئے قائدانہ کردار ادا کرنے کے باوصف
انہوں نے کبھی اس کا تذکرہ نہ کیا‘ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تڑپ ان کے رگ
و پے میں سمائی ہوئی تھی۔ پورے کشمیر کو آزاد کرا کر اس کا ملک خداداد
پاکستان کے ساتھ الحاق ان کا جزو ایمان تھا مگر حکومت ہائے پاکستان کی خود
غرضی اور غلط کشمیر پالیسی کے باعث وہ یہ حسرت لئے آسودہ خاک ہو گئے۔ اب یہ
پاکستان اور آزادکشمیر کی موجودہ آنے والی نسلوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آباؤ
اجداد کی طرح متحد ہو کر آزادی کشمیر کے لئے ایک جامع و قابل عمل لائحہ عمل
وضع کرکے اس پر عمل کریں۔ سردار ابراہیم کے موت کے اٹل ہونے پر پختہ و غیر
متزلزل یقین کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے زندگی
میں ہی اپنی اور اپنی اہلیہ کے مرقد برس ہا برس پہلے تیار کروا رکھے تھے آج
وہ دونوں ان ہی میں مدفون ہیں۔ بالآخر یہ درخشاں و رخشندہ کوکب 31 جولائی
کو راہی ملک عدم ہوا ان کے جنازے میں ہزاروں لوگوں جن کا تعلق زندگی کے ہر
شعبہ سے تھا نے شرکت کی ان کی وفات پر ہردل غمزدہ اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔
یہ ان کے لئے بہترین خراج عقیدت تھا جو کسی خوش نصیب اور صاف گو انسان کو
ہی نصیب ہوتا ہے ان کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے ان کی برسی کے موقع پر ہر
مکتبہ فکر کے لوگ جوق در جوق تقریبات میں شرکت کرنا اپنے لئے باعث سعادت
سمجھتے ہیں خدا بخشے عجب آزاد مرد تھا۔ |