بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے یہ دنیا

 جوہری ہتھیاروں کے منڈلاتے مہیب سائے

انسان کی کج فکری:
کائنات کا ذرہ ذرہ ہمہ وقت انسان کی خدمت گزاری پر آمادہ رہتا ہے۔ یہ انسان کی بداندیشی ہے کہ جسے وہ فیض نشاں شئے کو بھی غلط استعمال کرکے ضرر رساں بنادیتا ہے اس نے اپنی کج فکری اورغلط روی سے شربتِ قند کو زہرِ ہلاہل اور آبِ حیات کو جامِ مرگ بناڈالا۔ یہ ایک ایسا فکری المیہ ہے کہ جسے فرانس کے ایک معروف فلسفی اور مفکرژاں ژاک روسو(Rusu)نے پیشگی ہی اس وقت بھانپ لیا تھا کہ جب سائنسی پیش رفت ابھی ابتدائی مراحل سے ہی گزر رہی تھی ۔انہوں نے کہا تھا کہ سائنسی اور تکنیکی پیش رفت عالم ِ انسانیت کے لئے سود مند کم اور نقصان دہ زیادہ ثابت ہوگی اس عظیم مفکر کی یہ پیش گوئی موجودہ دور میں کریہہ حقیقت کا روپ دھارن کر کے عالمِ انسا نیت کا منہ چڑھا رہی ہے۔ فی المثل جوہر(ATOM) کو ہی لیجئے۔قدرت نے ایک طرف اس چھوٹے سے ذرے میں توانائی کا عظیم خزانہ چھپا رکھا ہے اور دوسری جانب انسان کے ناخنِ ادراک کو اس قدر تند و تیز کردیا کہ بآسانیِ جوہر(ATOM) کادل چیر کر بوقتِ ضرورت توانائی کا بہت بڑا قدرتی ذخیرہ برآمد کرسکے۔ جب انسان کو یہ فکرمندی لاحق ہوئی کہ توانائی کی بڑھتی ضرورتوں کا مستقبل میں کیا حل ہوگا؟ تو قدرت کی فیاضی جوش میں آکر کہہ اٹھی کہ اس کے دیئے کے ہزاروں ہاتھ ہیں۔ اور یوں جوہری توانائی منکشف ہوئی ساتھ ہی ساتھ اشرف المخلوقات کے نام حقِ تصرف کی سند بھی اجرا ہوئی۔ اب انسان کی سوچ پر منحصر ہے وہ چاہے تو جوہری توانائی کا مثبت استعمال کرکے چھوٹے بڑے شہروں کو روشن کرسکتا ہے اور چاہے تو غلط استعمال سے زندہ بستیوں کو دھویں اور دھول میں تبدیل کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ عظیم قوت بھی امن دشمن عناصر کی منفی دستبرد سے محفوظ نہ رہ پائی۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت کی نگاہ میں موردِ عنایات بشر موردِالزام ٹھہرا
من از خاک پولا دِناب آفریدم تو شمشیر و تیرو تفنگ آفریدی
تبرآفریدی نہال ِ چمن را قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را (اقبال ؒ)
ترجمہ:خدا انسان سے مخاطب ہو کرفرماتاہے۔کہ میں نے خاک سے خالص فولاد پیدا کیا لیکن تو نے اس سے تیرو تلوار اور توپ بنا ڈالے ۔
تو نے اسے چمن کے پودوں کو کاٹنے کے واسطے کلہاڑی بنا لی اور نغمہ سرا پرندوں کو قید کرنے کے لئے پنجرہ بنا لیا

کج فکری کا وحشتناک نتیجہ:
غالباًدنیا میں سب سے پہلے ایٹمی قوت تخریبی ذہن کے مالک سابق امریکی صدر فرینکلن ڈیلانو روز و یلٹ( Franklin Delano Roosevelt)کے ہاتھ لگ گئی اور مین ہاٹن منصوبے کے تحت پہلا ایٹم بم بنایا گیا۔ ۶ اگست ۱۹۴۵ء اور ۹ اگست ۱۹۴۵ء کوجاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بالترتیب ایٹم بم گرائے گئے ۔اس وقت کے امریکی صدر ایس ہنری ٹرومین کی درندگی نے ان دو شہروں کو بربادی کا مرقع بنادیا۔بربادی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایٹمی حملے سے صرف چار پانچ سال قبل یعنی ۱۹۴۰ء میں ہیرو شما کی آبادی تین لاکھ چوالیس ہزار تھی اور اس حملے کے صرف آٹھ سال بعد اس کی گھٹ کر آبادی محض تین سو کے قریب رہ گئی۔ تین لاکھ کے قریب انسانی جانیں دیکھتے ہی دیکھتے تلف ہوئیں۔ایٹم بم کے اثرات اس قدر شدید تھے کہ انسانی جسم موم کی طرح یکایک پگلنے لگے ۔انسانوں اور جانوروں کی کھال جسموں سے اپنے آپ ہی اترنے لگی۔جاندار تو جاندار بے جان اشیا ء کا حلیہ بھی بگڑگیا۔زمین بانجھ ہوگئی ۔ حیاتیائی نظام پر بھی اس قدرگہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ کہ قریباً ستر۷۰ سال گزرنے کے بعد بھی یہ اثرات کاملاً زائل نہیں ہو پائے۔آج یعنی ۷۰ سال بعدبھی ہیرو شما اور ناگا ساکی میں پید ا ہونے والے بیشتر بچے کسی نہ کسی پیدائشی نقص کا شکار ہوتے ہیں ۔فلک بوس عمارتیں یکبارگی زمین بوس ہوگئیں۔اندازہ لگا لیجئے جہاں ایٹمی تابکاری سے سٹیل پگل کر پانی کی طرح بہہ نکلے وہاں ننھے منے گل پیکر بچوں کی نازک اندامی کیونکر اس تابکاری کی تاب لاسکتی تھی۔ اور ان کے نرم و نازک پیکر وں کا کیا حشیر ہوا ہو گا ، سوچ کر منہ کلیجے کو آتا ہے ۔ غرض وسیع پیمانے پر جو تباہی ان دو دنوں یعنی ۶ اگست ۱۹۴۵ء اور ۹ اگست ۱۹۴۵ء میں وقوع پزیر ہوئی اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ دو دن انسانی تاریخ کے دو سیاہ ترین باب ہیں کہ جنہیں پڑھ آج بھی ایک صاحب ِ دل انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا ہے ۔ یہ واقعہ آج بھی بہر ِ ہمدردی میں تموج پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے ۔لیکن اس عظیم سانحہ کے اصل مجرم کی دریدہ دہنی دیکھئے کہ بہیمانہ قتل عام پر نادم ہونے کے بجائے ٹرومین نے اسے ایک مقدس فریضہ گردانا چنانچہ ۹ اگست ۱۹۴۵ء کو اس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ"I realize the tragic significance of the atomic bomb ... It is an awful responsibility which has come to us ... We thank God that it has come to us, instead of to our enemies. and we pray that He may guide us to use it in His ways and for His purposes."
-President Harry S. Truman, August 9, 1945
’’میں ایٹم بم کی المناک اہمیت کو محسوس کرتا ہوں یہ ایک ہولناک ذمہ داری ہے کہ جو ہم پر عائد ہوئی ہے ۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ دشمن کے بجائے یہ ہمارے حصہ میں آئی ہے ہم دعا گو ہیں کہ خدا ہمیں اپنی ہدایت سے یوں ہی نوازے تاکہ ہم اسے (ایٹم بم ) کو اس کی راہ (راہ ِخدا) میں اسی(خدا) کے اہداف و مقاصد کے لئے استعمال کریں‘‘
(صدر ہنری ایس ٹرومن۹ اگست ۱۹۴۵ء)

یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ اس بہیمانہ قتل عام کو ٹرومن نے عیاری کے ساتھ تقدس کی ملمع کاری کی تھی ۔ کج فکری کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان لاکھوں افراد کا اجتماعی قتل کا فرمان جاری کرے اور پھر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس قتل عام کو اس خدا سے منسوب کرنے کی ناکام کوشش کرے کہ جو اپنی مخلوق کے تئیں سب سے زیادہ رحیم و کریم ہے۔عالمی سطح پر اس واقعے کی مذمت کے پیش نظر جب اس شخص کو لگا کہ اس طرح یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی توہنری ایس ٹرومن نے ایک عجیب و غریب منطق پیش کر کے اپنے تئیں حق بجانب ہونے کا ڈھونگ رچایا ۔ چنانچہ ایک اور بیان میں یہ ظالم کہتا ہے کہ’’ میں نے یہ تاریخی حکم لاکھوں امریکی فوجیوں کے بچاو کی خاطر دیا تھا ۔ بالفرض ان بموں کا استعمال نہیں کیا جاتا تو جاپان کے ساحلوں پر امریکی فوج کو حملہ آوار ہونا پڑتا جہاں مضبوط دفاعی نظام کے سبب خطرناک جنگ چھڑ جاتی اس طرح جاپانیوں کا بھی بہت جانی نقصان ہو جا تا۔‘‘اس بیان کا لب لباب یہ ہے کہ ایک بڑے جانی نقصان سے بچنے کے لئے مجبوراً یہ ایٹمی حملہ کرنا پڑا۔سابق امریکی صدر کے محولہ بالا بیانات کی روشنی میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہیرو شما اور ناگا ساکی کی بربادی کے پیچھے بھی ایک انسان نما درندے کی پست سوچ کارفرما تھی ۔اس ایک شخص کی کج فکری کا ہی نتیجہ ہے کہ لاکھوں افرادآن واحد میں لقمہ اجل ہو گئے ۔اور دو بسے بسائے خوبصورت شہر منٹوں میں اجڑ گئے۔نیز پست سوچ کے بارودسے پر ذہن گئی گنا زیادہ نقصان دہ ہے ان گوداموں سے جن میں بارود سٹور کیا جاتا ہو۔
سرزور کے بجائے کمزور کو دبانا:
امریکہ نے جاپان پر قہر کیا ڈھایا کہ دنیا بھر میں بیشتر ممالک کو اپنی سا لمیت خطرے میں دکھائی دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی کشاکش شروع ہوئی۔ ترقی یافتہ ممالک یکے بعد دیگر ے ایٹمی طاقت بننے کی سعی میں لگ گئے۔ گوکہ اب تک گنے چنے ممالک ہی جوہری طاقت بن پائے ہیں مگر ان کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا جو ذخیرہ موجود ہے وہ پورے عالم میں قیامتِ صغریٰ برپا کرنے کیلئے کافی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت روس ، امریکہ، فرانس ،چین ، اور برطانیہ کے پاس بالترتیب7500، ،,7200 ,300 260 225 , بم ہیں۔ ہند و پاک جیسے تاریخی حریف بھی اس دوڑ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں پاکستان کے پاس120ایٹمی ہتھیار ہیں اور بھارت نے بھی اب تک110بنا لئے ہیں۔ جبکہ ماہرین کی رائے کے مطابق پورے برِ صغیر کو نیست و نابود کرنے کی خاظر محض دس بارہ بم کافی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کا واحد حامل اسرائیل ہے جس کے پاس ڈیڑھ سو سے دو سو کے قریب ایٹم بم موجود ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ عرب ممالک سمیت پورے مشرق وسطی ٰ کی تباہی کا سامان انسانیت کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔ اور شمالی کوریا کے پاس کم از کم 10بم موجود ہیں اس بلا خیز ذخیرے کے ہوتے ہوئے مختلف و متضاد اقوام و ممالک کی رسہ کشی خطرناک رخ اختیار کرچکی ہے۔جوہری ہتھیاروں کے مہیب سائے فضائے عالم پر ہر وقت منڈلا رہے ہیں۔ہر ایک فرد کی یہ فکر مند ی وہم پر نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت پر مبنی ہے کہ مبادا اس کی بستی یا شہر کا وہی حشر نہ ہو کہ جو ستر سال قبل ہیرو شما اور ناگا ساکی کا ہوا تھا۔ ایسے میں عالمی برادری خصوصاً عسکری لحاظ سے کمزور ممالک کی تشویش بجاہے۔کیونکہ اول تو اس وقت دنیا میں وسیع تباہی پھیلانے والے قسم بہ قسم ہتھیار موجود ہیں ۔دوم ان ہتھیاروں کے حامل افراد کی ذہنیت و طینت جوہری ہتھیار استعمال کرنے والے واحد مجرم ٹرومین سے مختلف نہیں ہے ۔اس لحاظ سے دنیائے انسانیت کے سامنے ایک بڑا چلینج یہ بھی ہے کہ کس طرح دنیا کو اس بلائے قیامت خیز سے نجات دلائی جائے؟ دو صورتوں میں وسیع تباہی والے ہتھیاروں سے پیدا شدہ تشویش اور خوف میں قدرے کمی واقع ہوسکتی ہے۔پہلی صورت یہ ہے کہ پوری دنیا کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنا ہوگا۔ عالمی پیمانے پر اس سلسلے میں CCCP کے ساتھم معاہدے کے تحت نیوکلیر ہتھیاروں کو ضایع کرنے کی مہم چلائی گئی تھی۔ لیکن سابق امریکی صدر سینیر بش نے اس مہم کو ناکام بنانے میں کلیدی رول نبھایا۔ کیونکہ بش جانتا تھا کہ نیوکلیر ہتھیاروں کی تطہیر سے سامراج کے رعب و دعب میں بہت حد تک کمی ہوسکتی ہے۔ فی الوقت جوہری طاقتیں نہ صرف وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو ضائع کرنے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ اس کی ماہیت میں مزیدپیش رفت اور اس کی کمیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ لہذا جوہری ہتھیاروں کی تطہیری عمل کامنصوبہ فی الحال دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ لے دے کے دوسری صورت یہ ر ہ جاتی ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور جوہری قوت کے عدم توازن کو ختم کیا جائے۔ طاقت کا توازن جب ہی ممکن ہے کہ جو ممالک نیوکلیر ہتھیاروں سے تہی دامن ہیں ان کو بھی جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کا موقع فراہم کیا جائے۔ تاکہ کوئی ملک اپنے حریف ممالک کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی حماقت نہ کرے۔ یا کم از کم ان ہتھیاروں کو ڈرانے دھمکانے کا مہیب ذریعہ نہ بنائے۔ مثال کے طور پر اگر دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا کے حریف جاپان کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہوتے تو صدر ٹرومین ایک تاریخی حماقت سے قبل ہزار بار سوچتاکہ ان ایٹمی بموں کا استعمال کیا جائے یا نہیں؟ کیونکہ اس کی انسان کش حرکت کا رد عمل بھی اسی پیمانے پر متوقع ہوتا ۔ جس پیمانے پر اس نے کاوائی کی تھی ۔رہی بات I.A.E.Aکے معاہدے N.P.T کی۔ یہ معاہدہ جوہری ہتھیاروں کی تطہیر کے سلسلے میں ایک مو ہوم سا نظریہ رکھتا ہے لیکن اس موہوم سے نظریہ کوعملانے کے لئے کوئی بھی قوت و اختیار اس ادارے کے پاس نہیں ہے ۔اب یہ صرف اور صرف وسیع پیمانے پر تباہی کے موجب ہتھیاروں کے عدم پھیلا ؤکا راگ الاپتا ہے۔اور یہ راگ بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اس وقت جوہری ہتھیاروں کی کھیپ دنیا کی نابودی کے لئے کیا کم ہے کہ عدم ِ پھیلاؤ کے عمل سے یہ مستقل خطرہ فرو ہو جائے گا؟اس معاہدہ پر ایک مختلف زاویہ نگاہ سے غور کیا جائے تو یہ جوہری مسئلے حل کرنے کے بجائے مزید حساس بناتا ہے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر جتنے بھی احمقانہ فیصلے اقوام متحدہ میں کئے گئے ہیں ان میں معاہدۂ این، پی ، ٹی سر فہرست ہے باالفاظ دیگر اس معاہدے کا مدعا یہ ہے کہ جو قوتیں دنیا میں اب تک ان خطرناک ہتھیاروں سے لیس ہوئی ہیں ان سے صرفِ نظر کرکے دفاعی اور عسکری لحاظ سے کمزور ممالک پر ہی پابندی لگائی جائے کہ وہ ان ہتھیاروں سے دامن کش رہیں۔ گویا طاقت ور کو مکمل آزادی نصیب ہواور کمزور کے ہی ہاتھ پاوں باندھ دیئے جائیں بقولِ شیخ سعدی
سنگ مقید ،سگ آزاد
Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 54727 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.