سیلاب کی پیش بندی یا انتظار

پاکستان میں متعدد بار سیلاب آئے نظاہر اُن کے درجے مختلف رہے مگر ہر بار اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی انمٹ داستانیں رقم کرتے گئے 70 کی دہائی سے آج تک کم و بیش ہر سال سیلاب آرہا ہے۔2010 میں آنے والا سیلاب اپنی نوعیت کا بد ترین سیلاب تھا جس کے نتیجے میں رو نما ہونے والے نقصانات کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہوا بہر حال اُس وقت تشکیل پانے والے فلڈ کمیشن کے تحت سپریم کورٹ نے اسباب اور نقصانات کا تفصیلی جائزہ لیا اور جو اعداد و شمار اکھٹے ہوئے اُس کے مطابق کم از کم 1600 انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ۔اپنی رپورٹ میں سپریم کورٹ نے سیلاب کی روک تھام کیلئے تجاویز دیں مگرحسب روایت عمل درآمدنہ ہوسکا جس کی وجہ سے تواتر سے سیلاب آتا رہا اور اس سال بھی آیا ۔گزشتہ دنوں لاہور ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ فلد کمیشن کی رپورٹ پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب آیا۔ اس موقع پر حکومتی وضاحت پیش کی گئی کہ موجودہ سیلاب پہلے کی نسبت کم درجے کا ہے حالانکہ اس میں کم بارشوں کا عمل دخل ہے نہ کہ حکومتی احتیاطی تدابیر کا نہیں ۔گرمی کی شدت کے بعد مون سون کی آمد کا ہر کسی کو بے تابی سے انتظار ہوتا ہے کہ موسم خوشگوار ہو جائے گا مگر لوڈشیڈنگ کی ستائی عوام جسکا کوئی پر سان حال نظر نہیں آتا کیلئے ً آسمان سے گرا زمین میں اٹکا ً کے مترادف ایک اور آفت سیلاب کی شکل میں نازل ہو جاتی ہے۔ گزشتہ چند سال تک سیلاب کی وجہ سے زیاہ تر پنجاب اور سندھ کے دیہات با الخصوص اور شہری آبادیاں با العموم متاثرہوتی رہیں مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کے نتیجے میں دائرہ کار بڑھتا ہی گیا ۔شمالی علاقہ جات میں کرہ ارض کے درجہ حرارت کی حدت کے زیر اثرگلیشیئرز پگھلنے کا عمل تیزی سے جاری ہے جس کی وجہ سے ندی نالوں مین طغیانی اور دریاؤں میں پانی کی سطح بتدریج بڑھ رہی ہے۔سائنس نے جہاں دیگر شعبوں میں بے بہا ترقی کی ہے وہاں ایسے آلات بھی دریافت کر لئے ہیں جن کی مدد سے ماحولیاتی تغیر و تبدل کا قبل از وقت پتہ چل جاتا ہے۔وزارت ماحولیات کا قیام بظاہر ایسے اقدامات کا جائزہ لینے اور بر وقت تدارک کیلئے عمل میں لایا گیا مگر حسب روائیت سفارشات، اور سمریوں کی حد تک محدود ہے۔یہاں یہ بات کہتے ہوئے قطعاً عار محسوس نہیں ہوتی کہ حکومتی ترجیحات میں عوام کی حقیقی بھلائی دور دور تک نظر نہیں آتی۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جب سیلابی ریلہ کھڑی فصلوں کو نیست و نابود کرنے کے ساتھ ساتھ دیہاتوں میں مکانات کو منہدم کرتے ہوئے انسانوں اور مویشیوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ کے آگے نکل جاتا ہے تو فوٹو سیشن کی آڑ میں حکومتی مشینری آٹے میں نمک کے برابر خیرات تقسیم کرتے نظر آتی ہے اور اس طرح وہ اپنی ذمہ واریوں سے سبکدوش ہو کر بین الاقوامی امداد کی منتظر ہوجاتی ہے۔ درد دل رکھنے والے ممالک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دل کھول کر امداد کرتے ہیں مگر مشاہدے کے مطابق ہر بار امداد اعلی افسران کے مابین تقسیم ہو جاتی ہے اور متاثرین اپنی قسمت کا رونا رو کے چپ ہو جاتے ہیں۔حکومتی سرپرستی میں جو نمائشی قافلے امداد لیکر روانہ ہوتے ہیں اُن کومیڈیا بھر پور انداز میں اجاگر کرتا ہے مگر منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی انتظامیہ کی ملی بھگت سے وہ لوٹ لئے جاتے ہیں۔چند مخیر حضرات جو اپنی نگرانی میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اُن کی ترسیلات متاثرین تک پہنچ پاتی ہیں۔ پاک فوج کے جوان اور افسران وطن اور اہل وطن سے محبت کے جذبے سے سرشاراپنی جانوں کی پرواہ کئے بنا متاثرین کی بھرپورامداد کرتے کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اُن کی اپیل پر لوگ عطیات دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے جبکہ فلاحی اداروں پر عدم اطمینان کا اظہارہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر سال سیلاب پاکستان کا مقدر کیوں بن گیا ہے جب کہ اس کے تدارک کیلئے قبل از وقت اقدامات وقت کی اشد ضرورت ہے ۔ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ اکثریت کے مفاد کو اقلیت پر ترجیح دی( واضح رہے کہ یہاں اقلیت سے مراد غیر مسلم نہیں)یعنی میٹرو اور دوسرے بڑے بڑے منصوبوں سے محدود پیمانے پر لوگ مستفیذ ہورہے ہیں جبکہ سیلاب کی روک تھام کیلئے مؤثر حکمت عملی اختیار کی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے بلکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہونے سے بچ جاتے۔ہر سال سیلابی پانی اپنے ساتھ قوم کی تباہی و بربادی سمندر میں دفن کرتا ہے۔ اس قوم کی بد قسمتی کہ ایک مرکزی وزیر بے تدبیر نے یہاں تک کہ دیا کہ عوام لوڈشیڈنگ سع نجات چاہتے ہیں تو بارش کی دعا کریں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ہائیڈل پاور کیلئے ملک میں کتنے ڈیم موجودہیں جن میں وزیر موصوف بارش کا پانی ذخیرہ کرلیں گے اور عوام لوڈشیڈنگ کے نہ ختم ہونیوالے عذاب سے محفوظ رہ سکیں گے۔ کالا باغ ڈیم جس کو مخصوص سیاسی قائدین نے اپنے ذاتی مفاد اور انا کا مسئلہ بناتے ہوئے بلا وجہ متنازعہ بنا دیا ہے جس کی بنیادی وجہ غیر ملکی آقاوٗں کی خوشنودی کے سوا کچھ نہیں ۔ایسے نا عاقبت اندیش سیاسی لوگ ہی عوام کواندھیروں میں ڈالنے کے مرتکب ہیں۔گزشتہ دنوں مسٹر یو ٹرن نے چترال کے سیلاب زدہ علاقوں کے نمائشی دورے کے بعد اپنے سیاسی بیان مخالفین کو کالا باغ ڈیم کے حوالے سے مورد الزام ٹھہرایا حالانکہ جس صوبے میں وہ اکثریت کے تحت حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں اُ س کا وزیر اعلی بھی کھل کر ڈیم کی مخالفت کرتا آرہا ہے جس سے ودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ثابت ہو جاتا ہے۔اگرچہ سیلاب قدرتی آفات میں سے ایک آفت ہے مگر اﷲ نے انسان کو دماغ دیا ہے کہ وہ جدید وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سیلابی پانی جو کہ پوری قوم کی بربادی کے بعد سمندر میں شامل ہو جاتاہے اُس کو ذخیرہ کرکے کارآمد بنایا جائے ۔ا قوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کے پاس سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کا واحد راستہ ڈیموں کی تعمیر میں مضمر ہے۔ اس موقع پر اقبال کا شعر یاد آگیا
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے ، رہرو منزل ہی نہیں

گزشتہ دنوں عدلیہ کی مخالفت کی وجہ سے پنجاب حکومت کو ایک دو منصوبوں کو ترک کرنا پڑا ۔ مفاد عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر عدلیہ حکومت کو اس بات کا سختی سے پا بندکردے کہ دیگر برق رفتار منصوبوں کی طرز پر سیلاب کی روک تھام کے منصوبوں کو بھی ترجیحی بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور غفلت کے مرتکب افراد کو بلا امتیاز تفریق انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے تو شاید پسماندہ عوام کو آئندہ مون سون تک اُمید کی کرن نظر آئے بصورت دیگر تمام ترقیاتی منصوبے بے سو د تصور ہوں گے -
Tariq Manzoor Ahmad
About the Author: Tariq Manzoor Ahmad Read More Articles by Tariq Manzoor Ahmad: 6 Articles with 5620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.