حکومت پنجاب کے محکمہ ٹرانسپورٹ
کے موٹر سائیکل رکشہ کو ختم کرنے کے حکم سے سود خور صنعتکاروں کی
بالآخرمزدور دشمنی کھل کر سامنے آہی گئی ہے اس کی وجہ تسمیہ کے مطابق سڑکوں
پر حادثات کی بڑی وجہ موٹر سائیکل رکشہ ہیں اور ان کی وجہ سے ٹریفک کا نظام
بھی درہم برہم رہتا ہے ۔اب آر ٹی اے کے عملہ کی طرف سے رجسٹریشن بکس پر
قبضہ کر کے ساتھ ہی رکشہ ڈرائیوروں سے اسٹام پیپر پر بیان حلفی بھی لیے
جارہے ہیں کہ وہ رکشے کی باڈی اتار کر اسے دوبارہ موٹر سائیکل بنالیں
۔بصورت دیگر رکشہ کی باڈیوں پرقبضہ کرلیں گے ۔حالانکہ موٹر سائیکل رکشہ سے
شہریوں کو آمدورفت میں بہت سہولت اور آسانی تھی۔شہروں میں موٹر سائیکل رکشے
لاکھوں افراد کو آنے جا نے کی سہولت مہیا کر رہے تھے ۔محکمہ ٹرانسپورٹ کو
تو ان کی رجسٹریشن کر نا چاہیے تھی اور مختلف روٹوں پر محکمہ خود رکشے
چلواتا۔ان رکشوں کے خاتمے کا قطعی فیصلہ سخت تشویش ناک ہے اور یہ ایک ایسا
سفا کانہ عمل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی ہی کم ہے۔دراصل بڑی بڑی
کاروں پر سرمایہ داروں اور نو دولتیوں کے سفر میں آنے جا نے میں یہ غریب
مزدوروں کے رکشے رکاوٹ سمجھے جاتے تھے اورسود خور صنعتکاروں کے لااُبالی
بچوں کی عیا شیانہ نقل و حمل میں مُخل ہوتے تھے۔اس سے حکمران دراصل یہ ثابت
کر نا چاہتے ہیں کہ شہروں میں صرف انہی پیسے والوں کو ہی رہنے کا حق
ہے۔کوئی غریب مزدور ، ہاری یا کھیت کسان اگرکسی گاؤں گوٹھ یا چک سے بے
روزگاری کا شکار ہو کر ادھر آجائے تو وہ تو انھیں چلتا پھرتا بھی زہر لگتا
ہے ۔اور گاڑیوں پر اعلیٰ شہنشاہانہ لباس زیب تن کیے اکڑی گردنوں والے سود
خور سرمایہ داران پسے ہوئے طبقات کے لوگوں کوخونخوارآنکھوں سے دیکھتے ہیں
۔اور گاڑیوں کے اندر سے ہی زہریلے جملے کستے ہیں ۔اور صنعتکار حکمرانوں کو
تو جن کے بنی گالائی ،جاتی امرائی ، بلاول وزرداری ہاؤسز جیسے ایکڑوں پر
مشتمل محلات مو جود ہیں ۔ان کو ان رکشہ ڈرائیوروں سے سخت تکلیف محسوس ہوتی
تھی۔یہ تو وہی ہوا نہ کہ جاگیر داراپنی راج دھانیوں کے ارد گرداور دورو
نزدیک پرائمری سکول تک نہیں بننے دیتے تھے۔اس لیے کہ اگر غریب مزارعین ہاری
اور زمینوں پر محنت کرنے والوں کے بچے پڑھ لکھ گئے تو ان کی زمینوں پر محنت
کرنے والے کہاں سے آئیں گے؟ اوران کے حُقوں کی چلمیں کون بھرے گا؟ اس لیے
اگر موٹر سائیکل رکشہ چلتے رہے تو پھر ٹیکسی ڈرائیور وں کا کاروبار کیسے
چلے گا کہ و ہ ساراد ن خالی ٹیکسیاں گاہکوں اور مسافروں کی تلاش میں سڑکوں
پر گھماتے رہتے تھے۔ویسے بھی اگر موجودہ صنعتکار حکمرانوں نے پیلی ٹیکسیوں
و گاڑیوں کی خود سکیم نہ شروع کی ہوئی ہوتی تو سود خور صنعتکار حکمران ان
کو بھی شاید بند کروا ڈالتے۔عرصہ ہوانواز شریف بطور وزیر اعظم بہاولپور گئے
تو سائیکل رکشوں کو بند کرواڈالاحالانکہ مزدور اس پر بھی محنت کرکے اپنی
نان ِجویں تلاش کر ہی لیتا تھاا ور جیسے تیسے ہی غریب بچوں کا پیٹ پالتا
رہتا تھا۔سائیکل رکشے اس وعدے پر ضبط کیے گئے تھے کہ آپ کوسستی قسطوں پر
موٹر رکشہ لے کر دیا جائے گا۔حکم تو جاری ہواتھاپر اس پر عمل در آمد کون
کرتا؟ہڈ حرام کرپٹ بیورو کریسی نے فائلوں کے پیٹ بھر ڈالے۔مزدور کے پیٹ میں
کچھ نہ جاسکاجو رقوم خزانہ سے نکلوائی گئیں وہ ہڑپ ہوگئیں ۔ سائیکل رکشہ
ایک عرصہ تک کھلے آسمان تلے پڑے زنگ آلود ہوکر گلتے سڑتے رہے پھراونے پونے
داموں پر سکریپ لوہا اپنی لاہوری بھٹی کی نظر کرڈالااب بھی یہی محسوس ہورہا
ہے کہ موٹر سائیکل کی باڈیوں کالو ہا جو کہ اب کسی کام کا نہیں رہے گاوہ
بھی صنعتکار حکمرانوں کی بھٹیوں میں ہی جھونکا جائے گا۔اصل میں غریب کی نہ
تو اپنی سیاسی پارٹی ہوتی ہے جو اس پر آواز اٹھائے وہ تو تازہ دیہاڑی کمانے
والے ہوتے ہوئے کسی جلسے جلوس کی حصہ بھی نہیں بن سکتے۔نہ ہی احتجاج کرسکتے
ہیں کہ ان کے پاس وقت کہاں اسی طرح کھیت مزدوروں کے شب وروز بھی سخت مشکل
سے گزرتے ہیں۔ مگر وہ بھی کسی احتجاجی کٹھ میں شامل نہیں ہو سکتا۔ ایک دن
بھی کھیت سے غائب ہو جائے تو اس کے ڈھور ڈنگروں کی خوارک ایک وقت بھی نہ مل
سکی تو اس کی اصل پونجی یہی جانور بیمار ہو کر اﷲ کو پیارے ہوجائیں گے۔اس
لیے وہ جہاں بھی مو جود ہے وہاں سے اِدھر اُدھر جانے کے لیے وقت نکال ہی
نہیں سکتا۔جوبیروز گار مزدور طبقہ ہے وہ دن رات باہر کسی دوسرے ملک میں
جانے کے لیے سوچ بچار میں مصروف رہتا ہے۔ یہی طبقہ انتہا پسندوں کے جھانسے
میں آجاتا ہے۔کہ وہاں اس کا دماغ ماؤف ہو جاتاہے اسے جنتی سبز باغ بھی نظر
آنے لگتے ہیں حوریں و کنیزیں اُس کے علاوہ انتظار کرتی محسوس ہوتی ہیں
پھرتنخواہ کی مد میں معقول رقوم ملتی ہیں کہ چند ہی ماہ میں اس کا دماغ
مفتوح ہو کرہر وہ عمل کرنے کوتیار ہو جاتا ہے جو اس کے آقا کہتے ہیں ۔حتیٰ
کہ خود کش بمبار بھی بن جاتا ہے اب ان غریب محنت کش مزدوروں سے موٹر سائیکل
رکشے چھینے گئے تووہ معاشی بد حالیوں کا شکار ہوجائیں گے۔اس طرح حکمران اُ
نھیں خودکش بمبار بننے یا بین الاقوامی عسکری تنظیموں داعش و القائدہ یا
پھر طالبان بننے کے لیے تیار کر رہے ہوں گے الامان وا لحفیظ۔غریب
مزدوروکسان کے پاس آخری ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ اﷲ اکبر کے نعرے لگاتا
ہوا گھروں سے نکلے اوربیلٹ پیپرکو بُلٹ سمجھ کر مقتدر سرمایہ داروں
جاگیردراوں کی محافظ سیاسی پارٹیوں کے خلاف استعمال کرکے اﷲ اکبر کی ہی
تحریک کوکامیاب کر ڈالے تاکہ مستقلاً ان سیاسی پارٹیوں سے نجات مل جائے۔ |