امریکی جریدہ صدر زرداری اور کشمیر ایشو.؟

صدر زرداری کشمیر ایشو سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ......
زرداری کی کشمیر ایشو کو مؤخر کرنے کی تجویز امریکیوں کی سازش ہے....

اِس سے انکار ممکن نہیں کہ آج امریکہ ہمارے حکمرانوں کی کمزوری کو اچھی طرح سے پَرکھ چکا ہے اور اِن کی ہر طرح کی کمزوریوں اور مجبوریوں کو بھانپ لینے کے بعد اَب اِس نے اِن کا سر سہلانا اور بھیجہ کھانا بھی شروع کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اَب وقتاً فوقتاً امریکی حکمران اور امریکی میڈیا پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو باتوں ہی باتوں میں شکوک کے ایسے تازیانے مارتے اور کچوکے گھونپتے ہیں کہ ہمارے حکمران اور عوام اِن کے درد کی شدت سے تلملا اُٹھتے ہیں اور اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی امریکیوں کے سامنے اپنا منہ کھول کر اُف تک بھی نہیں کہہ پاتے ہیں۔آخر ایسا کیوں ہے....؟اِس کی تفصیل کے لئے بس اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ امریکا ہمارے حکمرانوں کو اپنی انگلی پر نچا رہا ہے اور وہ ناچ رہے ہیں۔

اور اَب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے !کہ ایک امریکی جریدے”نیوز ویک“نے صدر زرداری سے متعلق ایک نئی سازش تیار کرتے ہوئے اپنے یہاں چھپنے والے ایک مضمون میں یہ لکھا ہے کہ ”پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کو عموماً کرپشن اور اِن کے انتہائی خراب طرزِ حکمرانی کے الزامات لگا کر اِنہیں بطور صدر رد کر دیا جاتا ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِس امریکی جریدے نے اپنے اِسی مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ ” اور پاکستانی صدر زرداری سے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی صُورت میں صدارت کے اہل نہیں ہیں “مگر اِسی امریکی جریدے نیوز ویک نے اپنے اِسی مضمون میں مزید لکھتے ہوئے اِس بات کا انکشاف کیا ہے کہ” اِن ہی پاکستانی صدر جنہیں دنیا آصف علی زرداری کے نام سے جانتی ہے اُنہوں نے کشمیر ایشو کی اہمیت کو گھٹا کر بھارت سے معاشی تعاون کے آغاز کے لئے حیرت انگیز طور پراپنی بڑی جراتمندی اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا ہے جو پاکستان کے استحکام کے لئے نہایت ہی اہم ہے ُ“اور اُدھر ہی اِسی مضمون میں امریکی جریدہ یہ بھی کھل کر تحریر کرتا ہے کہ” دفاعی بجٹ نے پاکستان کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور اِس لحاظ سے پاکستان کی معیشت جمود کا شکار ہوکررہ گئی ہے۔“اور اِس کے ساتھ ہی یہ ہی امریکی جریدہ اِس دوسری اور سب سے زیادہ اہم بات کا انکشاف کرتے ہوئے یہ بھی لکھتا ہے کہ”کشمیر ایشو پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے تجویز دی کہ اِس معاملے کو ابھی مؤخر کردیا جائے جب تک کہ معاشی تعاون سیاسی تناؤ کو بتدریج کم نہیں کردیتا“ اِس امریکی جریدے نیوز ویک میں چھپنے والے اِس مضمون کے حوالے سے مجھ ناچیز کا خیال یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی شخصیت اور اِن کی کشمیر سے متعلق مثبت اور تعمیری سوچ کو سپوتاژ کرنے کے لئے امریکی جریدے نیوز ویک نے یہ من گھڑت مضمون شائع کیا ہے تاکہ اِس سے صدر آصف علی زرداری کی صدرات اور اِن کے کشمیر کاذ سے متعلق منصوبوں پر پاکستان سمیت ساری دنیا میں منفی اثرات مرتب ہوسکیں تو وہیں پر پاکستانی عوام سمیت کشمیریوں پر بھی یہ بات اچھی طرح سے عیاں ہوجائے کہ زرداری کی کشمیر سے متعلق کیا سوچ ہے اور کشمیر کا مسئلہ اِس حکومت میں حل ہونے سے رہ جائے اور اِس کے ساتھ ہی میرا خیال یہ بھی ہے کہ اگر واقعی اِس امریکی جریدے نیوز ویک میں جو مضمون شائع ہوا ہے کیا یہ واقعی من و عن صحیح ہے تو اِس سے صدر زرداری کی شخصیت اور کشمیر سے متعلق اِن کی سیاسی سوچ سے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ صدر زرداری کون سی سیاست کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے کشمیر کی آزادی کے مقصد کو بھی پسِ پست ڈال دیا ہے اور اِنہیں کم از کم کشمیر کے مؤقف پر تو کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اور اگر ایسا کچھ نہیں ہے کہ جیسا امریکی جریدے نیوز ویک نے اپنے مضمون میں تحریر کیا ہے تو صدر آصف علی زرداری کو پھر بھی اِس سے متعلق اپنا مؤقف ضرور عوام میں کھل کر بیان کرنا چاہئے تاکہ عوام کشمیر سمیت اور دیگر دوسرے ملکی اور عالمی معاملات میں اِن پر اعتبار کرسکے۔

جبکہ اِس منظر اور پس منظر میں کوئی کچھ بھی کہے مگر اصل حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں اپنوں سے زیادہ اغیار کی مرضی کا عمل دخل اِس قدر زیادہ ہے کہ کبھی کبھی تویہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ہم پوری طرح سے آزاد بھی ہیں کہ نہیں...... ؟یا ابھی تک غلامی کی زنجیر میں ہی جکڑے ہوئے ہیں ...... ؟جس کا جو جی چاہتاہے ہم پر اپنی مرضی کا حکم ملسط کر کے چلا جاتا ہے اور ہم اِس کے حکم کی تکمیل میں یوں لگ جاتے ہیں کہ شائد ہم نے اگر اِس کا یہ حکم نہ مانا یہ اِس کی دانستہ حکم عدولی کی تو عین ممکن ہے کہ یہ ہمارے لئے ایسے مسائل پیدا کردے کہ ہم اِن میں ہی الجھ کر رہ جائیں اور اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اِس کی نافرمانی کے صلے میں یہ ہماراعرصہ حیات بھی کم کردے اور ہم اپنی ایک اتنی سے غلطی کی پاداش میں اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں اور ایسا ہی یا اِس سے بھی بُرا گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے یہاں ہونے بھی لگا ہے یعنی کہ میرا مطلب یہ ہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد تو کمبخت امریکا نے اپنے گھناؤنے عزائم کے تکمیل کے خاطر پاکستان پر ایسے ایسے حکم چلانے شروع کردیئے ہیں کہ پاکستان امریکی کالونی بن کر رہ گیا ہے جہاں صرف امریکی حکومت کا ہی حکم چلتا ہے اور ہمارے حکمران اِس کے نوکر ہیں کیونکہ امریکا کا جیسا بھی حکم آیا اِس کی تکمیل میں لگ گئے۔

ویسے آج بھی کہنے والے یہ کہتے نہیں تھک رہے ہیں کہ اگر امریکی سانحہ نائن الیون کے رونما ہونے کے بعد اُس وقت کے ہمارے آمر حکمران پرویز مشرف امریکی احکامات پر سر جھکا کر اور ہاتھ جوڑ کر عمل نہیں کرتے تو ممکن تھا کہ امریکا اپنا سارا غصہ پاکستان پر ہی اتار دیتا اور پاکستان اِس کے غیض و غضب کے سامنے ایک تر نوالہ ثابت ہوتا.....

بہرحال! کچھ بھی ہوتا مگر پرویز مشرف اُس وقت اپنے اندر ذرا برابر بھی ہمت پیدا کرلیتے اور امریکی حکم ماننے سے انکار کردیتے تو مجھ سمیت اُن لوگوں کو بھی جو اللہ رب العزت کی ذات پر ایک مسلمان ہونے کے ناطے کامل یقین رکھتے ہیں کہ میرا اللہ اُس وقت کفر کے آگے ڈٹ جانے والے مشرف کی مدد کرتا ہے اور اِسی ایسی فتح سے انہیں ہمکنار کرتا ہے کہ جس کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

بہر کیف! پرویز مشرف نے صرف ایک امریکی فون کال پر پورے پاکستان کو امریکیوں کے ہاتھوں گروی رکھ کر اچھا نہیں کیا جس کا خمیازہ آج پوری پاکستان قوم کو بھگتنا تو پڑ ہی رہا ہے اور شائد آئندہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی اِس امریکی غلامی کا طوق اپنے گلوں میں ڈالنا پڑے جو آج ہم ڈالے پھر رہے ہیں۔

یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر اُس وقت مسٹر پرویز مشرف امریکا کے آگے نہیں جھکتے اور اِس کے سامنے اپنا بہادر جنرلوں والا سینہ تان کر کھڑے رہتے تو مجھے اِس بات کا پورا یقین ہے کہ ہمارا حشر اتنا بُراتو قطعاً نہیں ہوتا جتنا بُراحشر آج امریکی حکم ماننے کے بعد امریکا نے ہمیں اپنا دوست بنا کر کر دیا ہے اور آج بھی ہمارے حکمران اِس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ امریکا کے ساتھ چلنے اور اِس کا دامن تھامے رہنے ہی میں ہم سب کی عافیت ہے.....ورنہ پستی ہمارامقدر ہوگی ۔

حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے جیسا ہمارے سابقہ حکمران سمجھتے رہے ہیں اور موجودہ حکمران سمجھ رہے ہیں ۔۔اور آج بھی ہمارے حکمران وہی کچھ کر رہے ہیں جو امریکا اِن سے کہہ رہا ہے اور یہ اُس سے بھی بڑھ کر اُس کے لئے کر رہے ہیں تاکہ یہ اِن سے خوش رہے اور اِن سے وہ ناراض نہ ہوجائے۔ اِس کو راضی کرنے کرنے ہی میں ہمارے حکمران ایسی ناقابلِ تلافی غلطیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں کہ اِن کی اِن غلطیوں میں پوری پاکستانی قوم کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 890066 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.