ڈاکٹر عبدا لحق خان حسرت کا س گنجوی: فصیلِ دِل کے کلس پر ستارہ جُو تیرا غم

 حیدر آباد (سندھ )میں مقیم اُردو زبان و ادب کے باکمال تخلیق کار ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا سگنجوی نے داعیء اجل کو لبیک کہا ۔ اس روز حیدر آباد کا شہر کا شہر سوگوار تھا اور لوگ فرطِ غم سے نڈھال تھے ۔ تقدیر کے ستم سے یہ حقیقت عیاں تھی کہ حیدرآباد کی زمین نے اردو ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں نہاں کر دیا جو گزشتہ چھے عشروں سے اپنے افکار کی ضیاپاشیوں سے اذہان کی تطہیر و تنویر کو یقینی بنا رہا تھا ۔وہ لافانی تخلیق کار جس کی اسلام پسندی،حب الوطنی،روشن خیالی اور حریت ِ فکر و عمل نے اردو زبان و ادب کو پُوری دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا ،ہماری بزمِ وفا کو سوگوار چھوڑ کر اس قدر دور چلا گیا ہے کہ اب یادِ رفتگان پر بھی کلیجہ منہہ کو آتا ہے۔ مجلسی شائستگی،علم دوستی ،ادب پروری ،بے لوث محبت اور بے باک صداقت کی درخشاں روایت اپنے اختتام کو پہنچی۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے سدا بے نیاز رہتے ہوئے حق گوئی و بے باکی کو شعار بنانے والے اس فطین، فلسفی، جری ،فعال اور مستعد ادیب کی رحلت سے اُردو زبان و ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔اس ہفت اختر دانش ور کے بزم ادب سے اُٹھ جانے کے بعد ہر طرف ہجوم ِ غم کے باعث یاس کی فضا ہے اور دِلِ حزیں کو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔اب کوئی اور ادیب ایسا دکھائی نہیں جسے ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی جیسا کہا جا سکے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کی وفات کے سانحہ نے اُردو زبان وادب کو مفلس و قلاش کر دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی اورفکری تہی دامنی کا احساس اہلِ درد کے لیے سوہانِ روح بن کر جان لیوا مصائب کا سبب بن جائے گا۔اس سانحہ سے پاکستانی ادبیات کے فروغ کی مساعی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ان کی وفات سے ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔ اُردودو زبان و ادب کا وہ خورشید صفت ادیب جو بارہ نومبر ۱۹۳۶کو کاس گنج ضلع ایٹہ ،یو پی (بھارت) سے علی شیر خان کے گھر سے طلوع ہوا ۔ وہ ۳۰ ۔جولائی ۲۰۱۵کی شام حیدرآباد سندھ میں غروب ہو گیا ۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے شوگر کے عارضے میں مبتلا تھے لیکن مناسب علاج اور پر ہیز کی وجہ سے وہ رو بہ صحت تھے۔دور روز قبل ان کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی اور شدید کھانسی کی تکلیف ہوئی ۔ ان کے دو ڈاکٹر بیٹے انھیں شہر کے ممتاز معالجین کے پاس لے گئے ۔سب کی متفقہ رائے تھی کہ سانس کی نالی میں پانی چلا گیا ہے۔معالجین کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور دوا نے کچھ کام نہ کیا اور چشم کے مُرجھا جانے کا سانحہ ہو کے رہا ۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔اردو ادب کا ہنستا بولتا چمن جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔فرشتہ ء اجل نے اس ادیب سے قلم چھین لیا جس نے اپنی زندگی پرورشِ لوح و قلم کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ ،چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادبی دائرۃالمعار ف تھے۔ان کا وجود پروردگارِعالم کی رحمت تھا جو تشنگانِ علم کو سیراب کرنے کا موثر ترین وسیلہ ثابت ہوا۔آہ!یہ خورشید جمال تخلیق کار آلامِ روزگار کے مسموم بگولوں کی زد میں آکر نظروں سے اوجھل ہو گیا :
اس حادثے کو سُن کے کرے گا کوئی یقیں
سُورج کو ایک جھونکا ہوا کا بُجھا گیا

علم و ادب ،فنون لطیفہ،علم بشریات،نفسیات،عمرانیات،لسانیات ، سماجیات ،ادیان ِعالم،عالمی کلاسیک اور تنقید و تحقیق کا نباض اور رمز آشنا ہمیں دائمی مفارقت دے گیا ۔اپنی پچاس کے قریب وقیع تصایف اور پانچ سو سے زائد مقالات سے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کر کے ابد آشنا اسلوب کے حامل اس عظیم ادیب نے لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیا اور شہرت ِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام پر فائز ہوئے ۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسر ت کا س گنجوی کی وفات کی خبر سن کرہر آنکھ اشک بارہے اور اب دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔

ایک محنتی ،ذہین اور جذبہء مسابقت سے سرشار طالب علم کے طو پر ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی نے تمام تعلیمی امتحانات میں امتیازی حیثیت سے کام یابی حاصل کی۔ان کے سب اساتذہ اور ہم جماعت طالب علم ان کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے معتر ف تھے۔ زمانہ طالب علمی میں انھوں نے کل پاکستان بین الکلیاتی مقابلوں میں شرکت کی اور تقریری مقابلوں میں کئی بار انعام حاصل کیا۔انھوں نے گورنمنٹ کالج دادو سے بی۔اے کیا۔سندھ یونیورسٹی جام شورو سے انھوں نے ایم۔اے (اردو)،ایم۔اے(انگریزی)اور پی ایچ۔ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ایل ایل بی کی تعلیم انھوں نے حیدر آباد کالج (حیدر آباد ۔سندھ )سے حاصل کی۔ انھوں نے ملازمت کاآغاز محکمہ ٹیلی فون سے کیا،جہاں اُنھوں نے سترہ برس (۱۹۵۴ تا ۱۹۷۱) خدمات انجام دیں ۔اس کے بعد انھوں نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہر مضمون اردو کی حیثیت سے ۱۹۷۱تا۱۹۹۶ خدمات انجام دیں۔جب وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے و ہ سینئیر ماہر ِ مضمون کے منصب پر فائز تھے۔انھوں نے متعدد ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کی۔پاکستان میں نصاب سازی کے حوالے سے پالیسی ساز اداروں میں ان کی شرکت کوبہت اہم سمجھا جاتا تھا ۔ان کا شمار پاکستان کے صفِ اول کے قانون دانوں اور ماہرینِ آئین میں ہوتا تھا۔انھوں نے با ضابطہ وکالت تو نہ کی لیکن شعبہ قانون سے وابستہ ماہرین ان سے اکثر قانونی امور کے بارے میں مشاورت کرتے رہتے تھے۔ تدریس اور تخلیقِ ادب ہی ان کی پہچان تھی۔

ڈاکٹر عبد الحق خان حسرت کاس گنجوی عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ماہر تعلیم اور دانشورتھے ۔ رسمی اور فاصلاتی تعلیم کے عظیم ماہر کی حیثیت سے انھوں نے دنیا بھر میں اردو زبان کے فروغ کے لیے جو بے مثال جد و جہد کی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ پُوری دنیا میں جہاں جہاں اُردو زبان بولی ،پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں ان کے کروڑوں مداح موجود ہیں جنھوں نے اس عظیم ماہرِ تعلیم سے اکتسابِ فیض کیا ۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں انھوں نے اردو کے ماہرِ مضمون کی حیثیت سے طویل خدمات انجام دیں۔ تدریس ِ اُردو کے لیے ان کے مرتب کیے ہوئے نصابی یونٹ اس وقت دنیا کے کئی ممالک کے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جا رہے ہیں۔ درس و تدریس اور نصاب سازی میں ان کی اختصاصی مہارت کا ایک عالم معترف تھا ۔پاکستان کی ابتدائی ، وسطانی ، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں کے لیے انھوں نے جو نصاب مرتب کیا اس سے فروغ ِ علم وادب کی راہ ہموار ہو گئی ۔ جامعات میں اردوتحقیق ،تنقید،لسانیات ،کلاسیکی ادب،ناول اور افسانہ کے موضوع پر ان کے مقالات کی افادیت کابر ملا اعتر اف کیاگیا۔اردو میں ایم۔اے ،ایم ۔فل اور پی ایچ ۔ڈی سطح تک کے طلبا و طالبات کے لیے ان کی تحریریں ہمیشہ خضرِ راہ ثابت ہوتی تھیں ۔ انھوں نے فلسفہ ،عمرانیات ،جدید لسانیات ،ساختیات ،پس ِ ساختیات ،جدید یت اور ما بعد جدیدت جیسے اہم موضوعات پر اقتضائے وقت کے مطابق اہم مقالات تحریر کیے جن کے مطالعہ سے اردو ادب کے طلبا میں عصری آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملی ۔انھوں نے تاریخِ زبان و ادب،لسانیات ،فکشن ،کلاسیکی ادب اور دیگر تحقیقی اور تنقیدی موضوعات پر اپنی جامع اور وقیع تصانیف پیش کرکے ارد و ادب کے طلبا کو امدادی کتابوں کی بیساکھیوں سے بے نیاز کر دیا۔ جدید لسانیات کے حوالے سے انھوں نے سوسئیر ،رولاں بارتھ ،دریدا،مشل فوکو،ژاک لاکاں کے لسانی تصورات کی جس طرح توضیح کی وہ ان کی بصیرت کا ثبوت ہے ۔ علامت ،نشان اور نشان نما کے بارے میں جب وہ بات کرتے تو ان کے منہہ سے پھول جھڑتے۔اپنی تخلیقی تنقید کے اعجاز سے انھوں نے اردو تنقید کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ اُن کی اس عظیم خدمت کی بنا پر تاریخ ہر دور میں ان کے نام اور فقید المثال کام کی تعظیم کرے گی ۔ ایک باکمال مترجم کی حیثیت سے اُنھوں نے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی عطا کی اور ترجمہ نگاری میں اپنی مہارت کے اعجاز سے تراجم کی تاثیر کو چار چاند لگا دئیے ۔وہ پا کستان کی تمام علاقائی زبانوں کے علاوہ عربی ،فارسی، انگریزی ،چینی ، ترکی، جرمن اور جاپانی زبانوں پر خلاقانہ دسترس رکھتے تھے۔ان کی ترجمہ نگاری کو بہت پسندکیا گیااور اس کاوش کے ذریعے وہ دنیا کی مختلف زبانوں کے ادب اور تہذیبی، ثقافتی،سماجی اور معاشرتی اقدار کوقریب تر لانے میں کام یاب ہو گئے۔۱۹۹۷میں جب ان کی سندھی افسانوں کے اُردوتراجم پر مشتمل کتاب ’’ہم لوگ‘‘شائع ہوئی تو پاکستانی ادبیات سے دلچسپی رکھنے والے باذوق قارئین نے اس کی بہت پذیرائی کی۔ وہ ترجمے کے معجز نما اثر سے دو مختلف تہذیبوں کوقریب تر لانے کی مقدور بھر کوشش کرتے تھے۔ اس معرکہ آرا کتاب کے اسلوب سے متاثر ہو کر پروفیسر گدا حسین افضل نے اس کتاب کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔محترمہ پروفیسر ذکیہ بدر نے ’’ہم لوگ‘‘کا پشتو زبان میں ترجمہ کرنے کا قصد کیاجب کہ پروفیسرعاشق حسین فائق کہا کرتے تھے کہ ’’ہم لوگ‘‘میں ترجمہ نگاری کا کرشمہ واقعی دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ’’ہم لوگ‘‘ کی اہم تخلیقات کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اور اس اہم کتاب کو انٹر نیٹ کے ذریعے دیار مغرب کے مکینوں سے متعار ف کرایا ۔

ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کی زندگی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی درخشاں مثال ہے۔۱۹۳۶میں جب یہ گلاب کھلا تو تو تقدیر نے پہلے ہی برس اس کی پتیوں میں کانٹے چبھو دئیے اور ہر سُو دُکھوں کے جال بچھا دئیے۔ ان کی کتاب زیست کے ابتدائی ابواب کو ابتلا اور آزمائش کی تیز و تند ہواؤں نے ورق ورق کرنے کی کوشش کی مگر ان کی والدہ نے اپنے جگرِ لخت لخت کو تھام کر سمے کے سم کے ثمر اپنے لیے الگ کر لیے اور اپنے ہو نہار فرزند کے سکون ،مُسرت اور روشن مستقبل کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔کہتے ہیں تقدیر کے چاک سوزنِ تدبیر سے کبھی رفو نہیں ہو سکتے لیکن عزم و استقلال کے پیکر اپنی تقدیر خود بناتے ہیں۔ایک سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیاتو چرخِ کج رفتار نے ان کی والدہ کوعالمِ شباب میں بیوگی کی چادر اوڑھنے پر مجبور کر دیا۔ اس صابر ،باہمت اور پُرعزم خاتون نے اس نو نہال کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کی کی مقدور بھر کوشش کی۔ قلزمِ ہستی کی ہر موج میں حلقہء صد کام نہنگ کی سی کیفیت ہے اس میں قطرے کو گہر ہونے کے لیے بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے ۔ان کی والدہ نے خونِ دِل دے کے اپنے لختِ جگر کی تعلیم و تربیت کی اور اس گلاب کو اس طرح نکھارا کہ اس کی عطر بیزی سے قریہء جاں معطر ہو گیا۔ طویل مسافت طے کرنے کے بعد اپنی حسرتوں کے چیتھڑے سنبھالے جب اس صابر و شاکر خاتون نے نشیبِ زینہء ایام پر عصا رکھے نگاہ کی تو ان کا نورِ نظر عملی زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا تھا ۔اب ماں کا دل باغ باغ ہو گیا اور اس ثمر ِ نورس کو رحمت ِ خداوندی سمجھ کر سدا اس کے لیے دِل کی گہرائیوں سے دعا کی ۔اپنی زندگی کی کامرانیوں کو وہ اپنی والدہ محترمہ کی دعائے نیم شب کا اعجاز قرار دیتے اور ماں کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے۔

پنجابی زبان و ادب سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔انھوں نے پنجابی کلاسیکی ادب کا نہایت دلچسپی سے مطالعہ کیا،خاص طور پر وہ سلطان باہو، شاہ حسین ۔بلھے شاہ ،میاں محمد بخش اوروارث شاہ کی شاعری کے مداح تھے۔قیام پاکستان کے بعد پنجابی ادب کے ارتقا پر ان کی گہری نظر تھی۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جدید پنجابی افسانے کے فکری سوتے پنجابی لوک داستانوں ہی سے پُھوٹتے ہیں۔ وہ ۱۹۵۲تک پنجاب کے مشہور شہر راول پنڈی میں مقیم رہے اور اسی قدیم شہر کے تاریخی مسلم ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔اس دوران وہ شباب کی حدود میں قدم رکھ چُکے تھے۔اس عرصے میں انھوں نے جن پنجابی لوک داستانوں کے بارے میں آگہی حاصل کی ان میں راول اور جُگنی،سوہنی اور مہینوال،سسی اور پُنوں،ہیر اور ر انجھا،مرزا اورصاحباں اور سیف الملوک قابلِ ذکر ہیں۔اپنی اہم سرکاری یا نجی مصروفیات کے سلسلے میں جب بھی وہ راول پنڈی آتے تو اپنی مادر علمی میں ضرور حاضری دیتے اور اپنے کمرہء جماعت کو دیکھ کر اپنے ہم جماعت طالب علموں کو یاد کرتے تو ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے کرتے ان کی ٓآنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔شدت جذبات سے مغلوب ہو کر وہ یہ شعر ضرور پڑھتے :
اے وادیء جمیل میرے دل کی دھڑکنیں
آداب کہہ رہی ہیں تیری بارگاہ میں

راول پنڈی میں اپنے قیام کے دوران وہ ادبی محفلوں میں بھی شرکت کرتے ۔اس عرصے میں وہ راول پنڈی کے کئی ممتاز ادیبوں سے متعارف ہوئے جن سے معتبر ربط کا سلسلہ زندگی بھر بر قرار ہا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد ،راول پنڈی اور شمالی علاقوں کے جن نابغہ ء روزگار ادیبوں کے ساتھ باہمی خلوص اور اعتماد کی اساس پر ان کے قریبی تعلقات استوار ہو گئے ،ان میں نذیر احمد شیخ ، شفیق الر حمن ، سید ضمیر جعفری ، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، نور زماں ناوک ،محمد محموداحمد،صابر کلوروی، صاحب زادہ رفعت سلطان ،کرنل محمد خان، صابر آفاقی ،خاطر غزنوی ،عطا شاد،غفار بابر ،محمد فیروز شاہ ،محمد منشایاد ،بشیر سیفی ،رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر محمد ریاض اورمنصور قیصر کے نام قابل ذکر ہیں۔ جن دنو ں ’’ہفت کشور‘‘ کے مصنف اور اردو شاعری میں صنف ’’کینٹوز‘‘ کو متعارف کرانے والے ممتاز شاعر کیپٹن (ر)سید جعفر طاہر ریڈیو پاکستان راول پنڈی سے وابستہ تھے اورر یڈیو پاکستان پر ’’فوجی بھائیوں کا پروگرام‘‘ پیش کرتے تھے انھی دنوں میں ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کا رابطہ ان سے ہوا ۔ انھوں نے اس ہونہا ر ادیب کی صلاحیتوں کو سراہا۔ ان کی نظم’’ ایک سو سپاہی‘‘ کو حسرت کاس گنجوی نے بہت پسند کیا۔اُسی زمانے میں صاحب زادہ رفعت سلطان بہ حیثیت ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر راول پنڈی میں خدمات پر مامور تھے ۔وہ راول پنڈی کی ادبی محفلوں کی روحِ رواں تھے۔ وہ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا سگنجوی کی تخلیقی فعالیت کے مداح تھے۔

ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی ایک کثیر التصانیف ادیب تھے ان کی تصانیف کی مجموعی تعداد پچاس کے قریب ہے ۔ان کی تصانیف کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے جو ان کی مقبولیت کی دلیل ہے ۔ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
راجندر سنگھ بیدی اور ایک چادر میلی سی ،خدیجہ مستور بہ حیثیت ناول نگار،عصمت چغتائی اور نفسیاتی ناول،فیض احمد فیض اپنی شاعری کے آئینے میں ۔یہ چاروں وقیع تنقیدی کتب دہلی (بھارت )سے شائع ہوئیں۔ان کی تنقیدی تصنیف ’’کھرے سکے‘‘کے عنوان سے اردو اکیڈمی سندھ (کراچی)کے زیرِ اہتمام سال ۲۰۰۹میں شائع ہوئی۔اس تنقیدی کتاب میں انھوں نے مطالعہء احوال کا بلند معیار پیشِ نظر ر کھا ہے اور پینسٹھ (۶۵)کے قریب اردو زبان کے نامور ادیبوں کی بلند پایہ تخلیقات کا اسلوبیاتی مطالعہ پیش کیاہے۔ان کے تنقیدی و تحقیقی مقالات پر مشتمل پانچ کتب قارئینِ ادب میں بہت مقبول ہوئیں۔ان میں پرکھ،بیسویں صدی میں اُردو ادب،ادب:علمی اور فکری زاویے،مطالعہ اقبال:بانگِ درا کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ،ادبی ورثہ شامل ہیں۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی اہم تصنیف ’’مطالعہ اقبال :بانگ ِ درا کا تحقیقی اور تنقید ی جائزہ ‘‘ کو فکر ِ اقبال کی تفہیم میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔اس کتاب کو این میری شمل اور رالف رسل نے منفرد سوچ سے تعبیر کیا اور اسے اقبالیاتی ادب کے اثاثہ کا نام دیا۔پاکستان کے طول و عرض سے انھیں روزانہ بڑی تعداد میں خط موصول ہوتے ۔وہ ان تمام مکاتیب کا باقاعدگی سے جواب لکھتے ۔ممتاز ادیبوں کے مکاتیب کو انھوں نے ’’مکتوبات معاصرین ‘‘کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع کیا ۔ان مکاتیب میں ان یگانہء روزگار ادیبوں کی شخصیت متکلم دکھائی دیتی ہے۔ان مکایتب کی تاریخی اہمیت بھی مسلمہ ہے جن کے مطالعہ سے ان ادیبوں کے روزو شب اور مہ و سال کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
عالمی ادبیات بالخصوص فکشن سے ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی کو گہری دلچسپی تھی ۔ عالمی ادب کے نمائندہ افسانہ نگاروں کی اہم تخلیقات کا انھوں نے بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا اور ان سے گہرا اثر قبول کیا۔انھوں نے عالمی ادب کے جن ممتاز افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا تنقیدی اور تجزیاتی انداز میں مطالعہ کیا ان میں ایڈگر ایلن پو،او ہنری،مارک ٹوئن،چیخوف،آسکر وائلڈ،موپساں،کافکا،ارنسٹ ہیمنگوے،رڈ یارڈ کپلنگ،ٹالسٹائے،اگاتھا کرسٹی اور جیمز جوائس کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی نے اپنے افسانوں میں حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ان کے افسانوی مجموعے آدھا سورج آدھا سایہ،زخم بنے پھول،محوِ تماشا ہوں ،زہر جیسی کڑوی،کو قارئینِ ادب نے بہت پسند کیا۔ان کے افسانے استحصالی عناصر کے لیے عبرت کے تازیانے سمجھے جاتے ہیں۔ان کے افسانے ان کی حوصلہ مندی،خلوص ،بے باکی،بصیرت،قوت، مشاہدہ اور باریک بینی کے مظہر ہیں۔وہ پوشیدہ ہاتھ جنھوں نے دُکھی انسانیت کی زندگی کی تمام رتوں کو بے ثمر کر کے مظلوم طبقے کی آہوں کو بے اثر کر دیا ہے اس کے جبر اور مکر کا پردہ فاش کر کے اس کے کریہہ چہرے سے نقاب اٹھایا گیا ہے۔وحدت تاثر کے حامل ان افسانوں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان تما م سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کی گئی ہے جن کو جاننے کے لیے قاری بے چین رہتا ہے۔ان کے مقبول افسانوی مجموعوں میں یہی خوبی موجود ہے۔ وہ جس محفل میں جاتے ان کی گل افشانیء گفتار سے وہ محفل کِشتِ زعفران میں بدل جاتی۔ان کی شگفتہ بیانی کا اظہار ان کی انشائی تحریروں میں ہوتا ہے۔ان کے انشائیوں پر مشتمل کتاب ’’شگوفے‘‘جو ۱۹۹۵میں شائع ہوئی ،انشائیہ نگاری کا حسین و دل کش معیار پیش کرتی ہے۔ترتیب و تدوین میں بھی انھوں نے اپنی خدادا د صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔صبیح رحمانی کے بارے میں ان کی مرتبہ کتاب ’’جادہء رحمت کا مسافر ‘‘ترتیب و تدوین کا ارفع معیار پیش کرتی ہے۔

اردو ناول کے فروغ میں ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی نے بڑی دلچسپی لی۔ان کے جو ناول قارئین میں بہت مقبول ہوئے ان میں نغمہء محبت ،پیار کی راہیں ،بے شرم،دل کے داغ جلے،مفت ہوئے بد نام،بہاریں اُداس ہیں،خار زاروں میں ،شامل ہیں۔ان کے نا ول اور افسا نے اس قدرمقبول ہو ئے کہ قا رئین ادب ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان کے مطالعہ میں مصروف ہو جا تے تھے۔ان کے اسلوب کے مداح ان کی تحریروں کے بارے میں اپنے تاثرات اخبارات کو ارسال کر تے تھے۔ قارئین ادب کی رائے پڑھ کر وہ اس کا مدلل جواب دیتے تھے ۔کسی بھی ادیب کے اسلوب کے بارے میں اگر قارئین چپ سادھ لیں تو یہ با ت اس ادیب کے اسلو ب کے ارتقا کے لیے ایک برا شگون سمجھا جاتا ہے ۔ڈاکٹر عبد الحق خان حسرت کاسگنجوی کے ناول پڑھ کر یہ تاثر قو ی ہو جاتا ہے کہ انھوں نے عام آدمی کی زند گی کے معمولی واقعات کو بھی اس باریک بینی اوردلکشی سے اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے کہ قا ری کے لیے وہ غیر معمولی اہمیت کے حامل ثابت ہوتے ہیں اور وہ ان میں گہری دلچسپی لینے لگتا ہے۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انھوں نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ۔وہ تیشہء حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کے آرزو مند تھے۔انسانیت کی توہین،تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندوں سے انھیں شدید نفرت تھی۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا ان کا شیوہ تھا۔ان کے ہاں جو بھی آتا وہ اس کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دیتے اور ایک بردبار اوروضع دار میزبان کی حیثیت سے اس کی خاطر مدارت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ پُر تکلف ضیافتوں کی صورت میں ان کی مہمان نوازی ہر ملاقاتی کا دل موہ لیتی تھی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کچھ بِن بلائے اجنبی مہمان بھی ان کے ہاں کسی دیرینہ آشنا کے حوالے سے وارد ہوتے لیکن یہ ان کے لیے بھی نہ صرف اپنے مہمان خانے کے بل کہ اپنے دِل کے دروازے بھی ہمیشہ کھلے رکھتے۔ ایسے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا بڑے دِ ل گُردے کا کام ہے مگر ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے اہلِ خانہ ہمیشہ دل پر ہاتھ رکھ کر او رطبیعت پر جبر کر کے ایثار پر مبنی مہمان نوازی کی اِس روایت کو بر قرار رکھتے اورمہمان کی خدمت کو اپنا فرض اولین قرار دیتے تھے۔ میزبانی کرتے وقت ان کی دریا دلی گھر کے میزانیے کو ذرا سی آب جُو میں بدل دیتی مگر وہ اپنی وضع ہر گز نہ چھوڑتے اور خیالِ خاطر ِ احباب کو اس لیے مقدم سمجھتے کہ کہیں کسی آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ جب اس قسم کا کوئی مہمان رخصت ہونے لگتا تو ان بیتے ہوئے حسین لمحات اور خوان نعمت کے ذائقوں کو یاد کر کے اس کا دل بھر آتا لیکن اسے کیا معلوم کہ پُر نم آنکھوں سے اسے خیرباد کہنے والے فرشتہ صفت اور درویش منش میزبان کے ساتھ وہ ایسا ہاتھ کر کے جا رہا ہے کہ اس کے چند روزہ قیام کے بعدمیزبان کی جیب کی تہی دامنی کے چاک رفو کرنے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کی زندگی میں اس قسم کے واقعات معمول کا حصہ تھے اور وہ ان سے کبھی دِل بُرا نہ کرتے۔

ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کا شباب بے داغ رہا لیکن آخر یہ شاہین زیرِ دام آ ہی گیا ۔ایک نیک سیرت ،خوش اطوار اور باکردار تعلیم یافتہ نوجوان لڑکی ان کے دل میں بس گئی ۔دونوں ایک دوسرے کو ٹُوٹ کر چاہتے تھے اور ایک دوسرے کے کردار کی عظمت کے دل سے معترف تھے۔ اﷲ کریم نے اس لڑکی کو مشرقی تہذیب و شائستگی ،حسن سیرت اور حسن صورت کی فراواں دولت سے متمتع کیا تھا ۔ دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچ گئے اور پھر نو عمر بچوں کے والدین بھی ان سے آگاہ ہو گئے ،یہ لڑکی ان کے چچا کی بیٹی تھی ۔ والدین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہ نہ صرف باہمی احترام اور خلوص سے معمور دو عزیزیک جان دو قالب ہو گئے بل کہ دو حقیقی بھائیوں کی اولاد اور قریب آ گئی ۔سال ۱۹۶۰میں ان کی شادی اپنے چچا کی اسی بیٹی سے ہوئی۔ ان کے والدین نے باہمی افہام و تفہیم اور بچوں کی رضامندی سے یہ شادی ترتیب دی جو بہت کامیاب رہی۔ اس سلیقہ شعار اور وفادار خاتون نے اپنے سسرال میں آنے کے بعد صبر و استغنا اور ایثار و مروت کے اعجاز سے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیا ۔ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں،جن کی تربیت پر والداور والدہ نے بہت توجہ دی۔ان کے دو بیٹے میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور بیٹیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے عملی زندگی میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔سال ۱۹۹۸میں ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مل کر فریضہء حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ارض مقدس روانہ ہوئے۔حج سے واپسی کے بعد ان کے فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ توحیداور رسالت سے والہانہ محبت اورروحانیت ان کے ریشے ریشے میں سما گئی۔ انھوں نے اردو ادب میں حمد نگاری ،نعت گوئی، سیرت نگاری اور حج کے سفرناموں پر تحقیقی کام کیا۔ وہ اپنے حج کے سفر کی یادداشتوں کو کتابی صورت میں لانے کے آرزو مند تھے لیکن فرشتہء اجل نے مہلت نہ دی۔ حیف صد حیف یہ مسودہ تشنہء تکمیل رہ گیااور قارئینِ ادب ایک عظیم اور مبار ک سفر نامے سے محروم رہ گئے۔

وطن ،اہلِ وطن ،ملتِ اسلامیہ اور پُوری انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اورقلبی وابستگی ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کی شخصیت کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ان کا خلوص اوردردمندی دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ سارے جہاں کا درد ان کے دل و جگر میں سما گیا ہے۔ مہینے میں ایک باروہ مقامی سول ہسپتال کے او پی ڈی میں چلے جاتے اور نادار مریضوں کی بیمار پُرسی کر تے اور ان کو پھول، پھل اور کچھ رقم دیتے۔دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والی فلاحی تنظیموں کی وہ دل کھول کر مد د کرتے تھے۔مفلس و نادار فاقہ کش انسانوں کے ساتھ انھوں نے جو درد کا رشتہ قائم کیا ،اسے ہمیشہ پروان چڑھایا۔ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے قسمت سے محروم پس ماندہ طبقوں سے انھوں نے جو عہد ِوفا استوار کیا اسے علاج ِ گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے سدا حرزِ جاں بنایا ۔ وہ تعلیم نسواں کے پر جوش حامی تھے اس مقصد کے لیے انھوں نے چائلڈ لیبر کی بھینٹ چڑھنے والی کم سن بچیوں کو زیور ِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے انتھک جد و جہد کی اور ان کو تعلیم حاصل کرنے پر مائل کیا ۔ان غریب بچیوں کے تمام تعلیمی اخراجات وہ خود ادا کرتے تھے۔ان کے لیے کتب اور سکول یونیفارم کی فراہمی بھی انھوں نے ازخود اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ یتیم ،مسکین اور مفلس و قلاش بچیوں کی شادی کے لیے انھوں نے کئی بار جہیز کے لیے درکار قیمتی اشیا فراہم کیں مگر اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔وہ چاہتے تھے کہ ان کی امداد سے مفلوک الحال بچیوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔عملی زندگی میں ہر قسم کی عصبیت اور منافرت سے وہ دور رہے ۔وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور محب ِ وطن پاکستانی تھے اور ان کے لبوں پر ایک ہی دعا رہتی کہ اے نگارِ وطن تو سلامت رہے۔وہ چاہتے تھے کہ ارضِ وطن پر ایسی فصل ِ گُل اُترے جسے اندیشہء زوال نہ ہو۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنی دنیا میں مگن اس گوشہ نشین ادیب نے معاشرتی زندگی میں جو گراں قدر تعلیمی ،اصلاحی ،فلاحی اور قومی خدمات انجام دیں ان کا عدم اعتراف نہ صرف احسان فراموشی ہے بل کہ اسے ناشکری پر محمول کیا جائے گا۔ان کی یہ گراں قدرخدما ت تاریخ کے اوراق میں آب ِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ان کے بارِ احسان سے ان کے حضور ہر پاکستانی کی گردن خم رہے گی۔

تخلیق ادب در اصل تعمیر ِ سیرت و کردار ا کا ایک موقر و معتبر حوالہ ہے۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی نے مختلف اصناف ادب میں پنے اشہب ِ قلم کی خوب جو لانیاں دکھائیں اور اپنی خداد ادعلمی و ادبی صلاحیتوں اور تخلیقی بصیرت کا لوہا منوایا ۔انھوں نے ہر جگہ جہانِ دیگر کا سماں سامنے لانے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کام یاب رہے۔ان کے اسلوب میں رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اس طرح سمٹ آئے ہیں کہ اس منفرد اسلوب میں ایک دھنک رنگ کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔ان کی تحریروں کی روانی اور رعنائی قاری کو مسحور کر دیتی ہے ۔ان کے اسلوب میں کیف و مستی کا ایک سیلِ رواں ہے جو پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لو ہا منوا لیتا ہے۔انھوں نے جس صِنفِ ادب میں بھی طبع آزمائی کی متعدد رنگینیاں اور سحر آفرینیاں بہار و کیف کے فراواں مناظر کے ساتھ وہاں موجود ہیں لیکن ان کی مکتوب نگاری کی بات ہی نرالی ہے۔وہ اپنے مکاتیب کو قلب و روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین کرنے کا فن جانتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی مکتوب نگاری کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ان کے مداح ان کے مکاتیب کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔انھوں نے اپنے احباب کی شخصیت کے ورقِ نا خواندہ پر جس انداز سے نگاہ ڈالی ہے، و ہ اپنی مثال آپ ہے۔ان مکاتیب کے مطالعہ سے مکتوب نگار کے تخلیقی عمل کے داخلی اور خارجی محرکات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی ملتی ہے۔ان کے خطوط کے مطالعہ سے وجدان کی لہر قوی تر ہوتی چلی جاتی ہے اورقاری ان کی مسحور کن مرقع نگاری کی گرفت میں آ جاتا ہے۔یہ خطوط مسرت کا ایک ایسا سر چشمہ ہیں جس کے وسیلے سے تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں حقیقی شعور کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے عزیز اور مداح پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی جوممتاز پنجابی صوفی شاعر بلھے شاہ کی دھرتی اور پنجاب کے شہر قصور میں مقیم ہیں،ان مکاتیب کے شیدائی ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی نے انھیں جو خطو ط ارسال کیے وہ انھوں نے سکین کر کے انٹر نیٹ پر پہنچا دئیے ہیں ۔اب جس کا بھی جی چاہے و ہ ان مکاتیب کا درج ذیل لنک پر مطالعہ کر سکتا ہے:
www.tafrehmella.com/thread/kuch-ahbab-ke-khatoot.278237/
https://online.fliphtml5.com/luxu/hgeo/#p=1

انٹر نیٹ پریہ مکاتیب دیکھ کر دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اردو زبان کے کسی محنتی محقق کو یہ توفیق ہو کہ وہ اس کام کو مزید آگے بڑھائے اور ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے مشاہیر کے نام لکھے گئے تمام مکاتیب کو یک جا کر کے ان کی کتابی صورت اور برقی کتاب کی صورت میں اشاعت پر توجہ دے۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ کارواں کے دل سے احساس ِ زیاں عنقا ہو چکا ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ مشاہیر ِادب کے بے شمار خطوط ملخ و مُور کے جبڑوں میں چلے گئے مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ پس ماندہ علاقوں اور بڑے شہروں کے مضافات میں مقیم پبلک ریلیشننگ سے ناآشناکئی گم نام اور خاک نشیں تخلیق کاروں کی تخلیقات کے مسودے ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں اس طرح اوجھل ہوئے کہ اب ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ان یادگارِ زمانہ لوگوں کو سہل نہیں سمجھنا چاہیے،ایسے لوگ بلاشبہ نایاب ہوتے ہیں۔
نوآموز محقق جب اپنے تحقیقی کا م کا آغاز کر تے ہیں تو ان کی راہ میں متعدد سخت مقا م آتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے عظیم الشان ذاتی کتب خا نے میں،ادب ،فلسفہ ، مذہب ،نفسیات، تاریخ،سائنس اور عالمی کلا سیک کی دس ہزار سے زائد نا در اور نا یا ب کتب مو جود ہیں، جب کو ئی نو آموز محقق ان سے بنیا دی مآخذ کے حصول کے سلسلے میں رابطہ کرتا تو وہ اپنے ذا تی کتب خانے سے استفادہ کی اجازت دے دیتے ۔ملک کے دور دراز علاقوں میں مقیم طلبا و طالبات کووہ ان کے مطلوبہ مآخذ کی عکسی نقول کراکے بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک ارسال کرتے۔تحقیق و تنقید کی وادیء پُر خار کے آبلہ پا مسافروں کے لیے وہ ایسے خضر راہ ثا بت ہو تے جس نے کبھی صلے یا معاوضے کی تمنا نہ رکھی بل کہ صرف دعا کی استدعا کی ۔ ادبی گروہ بندی سے وہ ہمیشہ دور رہے وہ جانتے تھے کہ ذاتی اختلافات اور دھڑے بندی ایک منفی طرزِ عمل ہے جو تخلیقی فعالیت کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو جاتی ہے۔ وہ علی گڑھ تحریک سے بہت متاثر تھے،ان کا کہنا تھا کہ مغلوں کے زوال اور برطانوی استعمار کے بر صغیر میں قدم جمانے کے بعد یہاں کے مسلمانوں کی فلاح کے لیے علی گڑھ تحریک نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہیں ۔علی گڑھ تحریک نے جمود کا خاتمہ کیا اورمسلمانوں کے لیے جدید سائنسی تعلیم کے دروازے کھو ل دئیے ۔ انھوں نے رومانوی تحریک ، ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق سے وابستہ ادیبوں سے قریبی تعلقات برقرار رکھے مگر خود کسی ادبی تنظیم میں شامل نہ ہوئے ۔ وہ حریتِ فکر کے ایسے مجاہد تھے جنھوں نے حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے ہمیشہ اسوہء شبیرؓ ہی کوپیش نظر رکھا ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں زندگی کی برق رفتاریوں نے حالا ت کی کایا پلٹ دی ہے۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی مستحکم شخصیت کے مالک اور عصری آگہی سے متمتع زیرک اور معاملہ فہم تخلیق کار تھے۔ ہوا کا رُخ پہچانتے ہوئے اُنھوں نے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں اپنے لیے ایک واضح لائحہء عمل مرتب کیا۔انھوں نے طرز ِ کہن سے کوئی واسطہ نہ رکھا بل کہ آئینِ نو کا پر تپاک خیر مقدم کیا ۔ وہ افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھنے پر اصرار کرتے تھے ۔ان کے منفرد اسلوب میں ہر لحظہ نیاطُور نئی برقِ تجلی کی جو جاذبِ نظر کیفیت ہے اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا مرحلہء شوق ابھی طے نہیں ہوا۔ان کے اسلوب کا اہم وصف یہ ہے کہ وہ خون بن کے رگِ سنگ میں اُتر جانے کی صلاحیت سے متمتع تھے اور قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل دکھاکر وہ قارئین کو حیرت زدہ کر دیتے تھے۔ وہ نوجوان طلبا و طالبات کو اکثر یہ نصیحت کرتے تھے کہ ا گر وہ دل و نگاہ کی شدید تمنا،سعیء پیہم اور عزمِ صمیم کو رو بہ عمل لانے میں کام یاب ہو جائیں تو ہ نا ممکن کو بھی ممکن بنا سکتے ہیں۔وہ کمپیوٹر سے خوب واقفیت رکھتے تھے اور اُنھیں انٹر نیٹ میں گہری دلچسپی تھی۔سائبر کتب خانوں ،برقی ڈاک،برقی کتب اور دیگر جدید مواصلات کو وہ اکیسویں صدی کے ایسے کرشمات سے تعبیر کرتے تھے جن کے اعجاز سے تقدیرِ جہاں کے عقدوں کی گرہ کشائی کے امکانات روشن تر ہو گئے ہیں۔دنیا بھر کی علمی و ادبی ویب سائٹس سے وہ مستفید ہوتے اور اپنے احباب کو بھی ان کے افادی پہلو سے آگاہ رکھتے۔ وہ نوجوانوں کو مشورہ دیتے کہ وہ علامہ اقبال سائبر کتب خانے کے علمی ذخائر کی خوشی چینی میں ہر گز تامل نہ کریں۔دنیا کے اس جدید اور عظیم سائبر کتب خانے نے تشنگانِ علم کو روایتی کتب خانوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔سائبر کتب خانوں اور برقی کتب کی اہمیت و افادیت کے وہ معترف تھے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کی تصانیف کی سکین شدہ نقول اگر پی ڈی ایف کی صورت میں برقی کتب کے طور پر انٹر نیٹ پر پیش کی جا سکیں تو ان سے دنیا بھر میں کروڑوں طلبا و طالبات مستفید ہو سکتے ہیں۔وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ سائنس کی ترقی نے فاصلوں کی طنابیں کھینچ دی ہیں۔فاصلے اس قدر سمٹ گئے ہیں کہ اقوامِ عالم ایک دوسرے کے قریب آ گئی ہیں اور پُوری دنیا نے ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر لی ہے۔ای میل اورایس ایم ایس نے تو ہتھیلی پر سرسوں جما دی ہے پلک جھپکنے سے بھی پہلے مکتوب نگار کا پیغام مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے۔وہ دن دور نہیں جب ڈاک کا قدیم نظام اور ڈاک کے ہرکاروں کی باتیں اسی طرح تاریخ کے طوماروں میں دب جائیں گی جس طرح تار بابو اورتار گھر اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں ۔ڈاکٹر عبد الحق خان حسرت کاس گنجوی کے ساتھ دنیا کے جن ممتاز ادیبوں نے جدید ذرائع مواصلات سے زندگی بھر معتبر ربط بر قرار رکھا ان میں رالف رسل،گبریل گارسیا مارکیز،ڈاکٹر این میری شمل،ژاک دریدا،گنٹر گراس،رشید حسن خان،مغنی تبسم،شہر یاراور ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے نام شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی معا صرادب کے نبا ض تھے وہ اردو کے تمام اہم ادبی مجلات و جرائد ان کے ہاں باقاعدگی سے آتے تھے ۔ وہ اردو زبان کے ان رجحان ساز ادبی مجلات میں شائع ہونے والی تخلیقا ت پر اپنی وقیع رائے مدیر کے نا م ارسال کرتے تھے ۔ان کی بے لاگ رائے پڑھ کر تخلیق کا رخوش اسلوبی سے روشنی کا سفر جاری رکھتے ۔پاکستان کے ممتاز ادبی مجلات کے مدیر ان کی تخلیقات اور تجزیاتی آراکو اپنے ادبی مجلات شامل اشاعت کرنا اپنے لیے لائق صد افتخار اور باعث اعزاز خیال کرتے تھے۔دنیا دائم آباد رہے گی،تخلیقِ ادب کی روایت بھی اسی طرح پروان چڑھتی رہے گی اور علمی و ادبی مجلات کی باقاعدہ اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رہے گالیکن اب قارئینِ ادب کی نگاہیں اُ ن زندہ الفاظ کے لیے تر س جائیں گی جو ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے ابد آشنا اسلوب کو زر نگار بنا دیتے تھے۔اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لمحہ اور ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑ ا دیتی ہے۔ہمارے رفتگاں تو اپنا عرصہء حیات پورا کرنے کے بعد زینہء ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جاتے ہیں لیکن جاتے وقت اپنی زندگی کی تمام یادیں اپنے احباب کے دلوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی اپنے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔فرشتہء اجل نے اس ساز کو توڑ دیا جو دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو کر قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر قارئینِ ادب کو مہر و وفا کی مدھرلے سے مسحور کرنے پر قادر تھا۔شاید موت کو اس بات کا ادراک نہیں کہ ساز توخاموش ہوجاتے ہیں لیکن ٹوٹنے سے پہلے ساز سے جو دُھن فضا میں بکھر جاتی ہے اور فضا جس آہنگ سے معمور ہو تی ہے وہ ہمیشہ کے لیے فضاؤں میں بکھر جاتی ہے۔یہ دُھن ابد تک کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے ۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کی یادیں لوحِ دِل پر ثبت رہیں گی اور ان کے خلوص اور بے لوث محبت سے دامنِ دِل معطر رہے گا۔انھوں نے اپنی زندگی کے ساز پر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی جو مسحور کُن دُھن چھیڑی وہ ابد تک فضاؤں میں گونجتی رہے گی۔ قلب و نظر کو مد ہو ش کرنے والی اس دُھن کی باز گشت لمحوں تک محدود نہیں ہوگی بل کہ کئی صدیوں تک چشمِ بینا اس کے لامحدود اثرات دیکھے گی اور یہ مدھر آواز کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی آواز تیری آئی ٓٓ

Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 680200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.