میں ناچیز اس لائق تو نہیں کہ غالب جیسی ہستی پہ ایک
نکتئہ اعتراضیہ بھی لکھنے کی جسارت کروں، لیکن میر معظّم علی کے پڑ پوتے
ہونے کے ناطے اپنا حق استعمال کررہا ہوں کہ وہ غالب کے اتالیق ( ٹیوٹر) تھے
جیسا کہ درج ذیل پیراگراف میں تفصیل دی ہے۔
مرزااسداللہ خاں غالب نے فرمایاتھا " عشق نے غالب نکما کر دیا ….ورنہ ہم
بھی آدمی تھے کام کے"
میرے خیال میں عشق کے باعث ہی غالب کو وہ درجہ ملا جو شاذ و نادر ہی کسی کو
ملتا ہے جیسا کہ ساحر لدھیانوی نے کہا ہے " خاک کو بُت اور بُت کو دیوتا
کرتا ہے عشق...انتہا یہ ہے کہ بندے کو خدا کرتا ہے عش “۔ اس لنک کو کلک
کریں اور قوّالی کا آخری بند خود ہی سن لیں۔
https://tune.pk/video/3956948/na-toh-karvan-ki-talash-hai-digital-sound-barsaat-ki-raat-qawwali-manna-dey-asha-rafi
مجھے مرزا غالب کے اس شعر پر اعتراض کے اسباب کچھ اس طرح سے ہیں:-
۱۔ اگرقارئین میں سے کسی نے "مرزا غالب" ڈرامہ (دور درشن پہ ۱۹۸۸ میں نشر
ہؤا ) دیکھا ہو جس میں نصیرالدین شاہ نے غالب کے بچپن کا کردار ادا کیا ہے
تویاد کریں فلم کے شروع میں ہی نصیرالدین شاہ کی اُچھلتے کودتے اینٹری ہوتی
ہے ، گلی میں چبوترے پر بیٹھک والوں میں سے ایک شخص دوسرے سے پوچھتا ہے کہ
بھائی یہ اسقدر شرارتی بچّہ کون ہے؟ جواب میں ایک صاحب بتاتے ہیں " یہ
اسداللہ ہیں اور ان کے اتالیق (ٹیوٹر) میر معظّم علی ہیں “۔پہلے والے صاحب
کہتے ہیں " تب ہی تو اسقدر چھیل چھبییلے ہیں اسد"۔ یاد رہے کہ یہ آگرہ کی
گلی میں سب کچھ دکھایا جا رہا ہے۔ میرے آباؤ اجداد بھی اسی محلّے میں رہتے
تھے اور میری پیدائش بھی آگرہ کی ہے ۱۹۴۶ کی۔ شاید میرے اندر کی شخصیّت نے
ہی مجھے پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز میں ۴۲ سال ایوی ایشن انجینئر سے
ریٹائرمنٹ کے بعد تدریسی کام کی جانب مائل کیا اور اپنے پر دادا کی روایت
کو دوبارہ جِلا دینے کیلئے اپنے بڑے بیٹے سیّد وجاہت علی کی مدد سے ایک سر
سیّدوں کے نام سے کوچنگ سینٹر کھول ڈالا:-
مگر افسوس یہ غالب کا دور نہیں کہ بقول ان ہی کے "قرض کی پیتے تھے مہ کہ
سمجھتے تھے ہاں، رنگ لائے گی اپنی فاقہ مستی ایک دن"۔ آج کا دور حد سے
زیادہ کمرشلائزیشن کا دور ہے اور جائز و ناجائز پیسہ کمانے کے چکّر میں
دوسرے کو خدمتِ خلق بھی نہیں کرنے دیتے مبادہ وہ ہمارا رزق نہ چھین لے۔ آٹھ
میں سے دو انگریزی سیکھنے والوں سے فیس لی جا رہی تھی پھر بھی بھتّہ خوروں
نے میرا سنٹر بند کرا دیا۔ تفصیل میں کیا جاؤں، اس سے پیشتر بیٹے نے زمزمہ
کلفٹن پر ایک کے-ایف-سی کے معیار کا ریسٹورنٹ کھولا وہ بھی گن پوائنٹ پر
بند کرا دیا اور ہر ہفتہ اسٹیک کھانے کے شوقین میرے دوست کور کمانڈر کراچی
جنرل طارق وسیم غازی بلند و بانگ دعووں کے باوجود میرا حق مجھے اور میرے
بیٹے کو نہ دلا سکے، البتّہ ان کا بڑا پن ہے کہ اپنی بے بسی کا اظہار ضرور
کر دیا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی لیکن "عشق نے مجھے نکمّا نہیں بنایا "اور آج تک
اس گہرے سمندر میں تیر رہا ہوں۔ مرزا غالب نے نہ جانے کس کیفیّت میں ایسا
کہا، میرا مطالعہ بھی تو صفر ہے، یہ تو خدا بھلا کرے مکڑی کے جالے (ڈبلیو
ڈبلیو ڈبلیو) کا کہ اس کی کوئی گِرہ ایسی نہیں جو کھل نہ سکے بس گِرہ
کھولنے والی انگلیاں ہونی چاہئیں۔ |