کیا ہندوستان کی آزادی کا جشن صرف برادرانِ وطن کے لیے ہے؟
ہمیشہ کی طرح یوم ِ آزادی اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ آیااور
گزرگیا۔پورے ملک میں تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاترمیں پرچم کشائی کی
گئی۔بچوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور کئی مقامات پرثقافتی پروگراموں کا
انعقاد ہوا۔مگر کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش کی کہ اس دن کی کیا اہمیت
ہے ؟ تاریخ میں اس دن کا کیا مقام ہے ؟ اس دن کے لیے کتنے لوگوں کو سولیوں
پر چڑھایاگیا؟کتنے مجاہدین کو انڈمان کی قید ِ تنہائی دی گئی؟کتنے لوگوں کی
جائیداد ضبط اورنیلام کی گئی؟کتنے بچوں کو یتیم اورکتنی سہاگنوں کو بیوہ
بنایاگیا؟افسوس تو اس بات پر ہے کہ یوم آزادی آیا اور چلا بھی گیا مگر مسلم
اکثریتی علاقوں میں اس کی گونج تک نہیں سنی گئی۔اسکولوں اور کالجوں میں
روایتی طور پر پرچم لہرایاگیا،راشٹر گیت پڑھا گیا،کہیں کہیں شیرینی تقسیم
کی گئی اور بس ختم۔کیا یوم آزادی کاسورج بس اسی آدھے گھنٹے کے لیے طلوع
ہوتا ہے ؟وطن کی آزادی کی خاطر جن بائیس ہزار علما اور پانچ لاکھ مسلمانوں
کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا ان کی یاد بس دس منٹ کے لیے منانی چاہئے؟ کیا
ہماری قوم اب اتنی بے حس ہوگئی کہ بے لوث مجاہدین کی قربانیوں کو یونہی دبا
دیا جائے؟ممکن ہے کوئی کہے کہ ہمارے یہاں پروگراموں کاا نعقاد ہوا،تقریریں
ہوئیں اور مجاہدین کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا۔یہی تو ہماری کج روی اور
کج فہمی ہے کہ بس چند جوشیلی تقریروں اور چھوٹے موٹے پروگراموں کو ہی ہم نے
سب کچھ سمجھ لیا ہے ۔کیا شہدائے آزادی کے خون کی قیمت صرف اتنی ہے کہ ان کے
نام سے دو چار رَٹی رَٹائی تقریر کرلی جائے؟بلکہ طرفہ کی بات تو یہ ہے کہ
یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ذاتی اور تعصب کی بنیاد پر ان ہزاروں شہیدوں
کے خون کو پلید کرنے کی بھی ناکام کوشش کرتے ہیں جنہوں نے وطن کی آزادی کی
آبیاری کے لیے اپنا خون پیش کیا تھا۔اپنی تقریروں میں وہ اگر کسی مجاہد ِآزادی
کا نام بھی لینے کی زحمت کرتے ہے توان کی سوئی مولاناابوالکلام آزاد،مولانا
محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی جوہر اور اشفاق اﷲ خاں کے اردگرد ہی تھم
جاتی ہے۔حالانکہ ان کے علاوہ سیکڑوں مسلمانوں نے وطن عزیز کے گیسوئے برہم
کواپنے خون جگر سے سنوارا ہے ؟مگر افسوس کہ آج ہماری اکثریت ان کے نام سے
بھی ناواقف ہے۔بائیس ہزار علمائے کرام کے خون سے یہ سرزمین لالہ زار بنی تب
کہی جاکریہ ملک آزاد ہوا۔ہمارے بچوں کے سامنے فریڈم فائٹرس کے طور پر
حیدرعلی،ٹیپوسلطان،علامہ فضل حق خیرآبادی، مفتی صدرالدین آزردہ،مولانافیض
احمد بدایونی،احمد اﷲ شاہ مدراسی،مفتی عنایت احمد کاکوروی،مولانا کفایت علی
کافی ،مولانا رحمت اﷲ کیرانوی ،ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی،مولانا امام بخش
صہبائیؔ دہلوی ،مولانا وہاج الدین مرادآبادی ، مولانا رضا علی خاں
بریلوی،منشی رسول بخش کاکوروی،غلام امام شہید، امیر مینائی،مفتی مظہر کریم
دریابادی،منیر شکوہ آبادی، شہزادہ فیروز شاہ ،نواب مجو خان ،نواب شائستہ
خاں،نواب سراج الدولہ اور جنرل بخت خاں وغیرہ اور بالخصوص مالیگاؤں کے
شہداء عبداﷲ خلیفہ خدابخش اور محمدحسین ولد مدوسیٹھ(مدوسیٹھ کی مسجد والے)،
منشی محمد شعبان،سلیمان شاہ،بدھوفریدن،محمد اسرائیل اﷲ رکھااور عبدالغفور
پہلوان وغیرہ کا نام لیاجاتا ہے تو وہ حیرت سے ایسا منہ تکتے ہیں جیسے کسی
محیرالعقول شئے کا نام لے لیا ہو،اس لیے کہ انہوں نے نصابی کتابوں،تعلیمی
اداروں یا فلموں میں تو صرف جھانسی کی رانی،تاتیاٹوپے،منگل پانڈے ،بھگت
سنگھ ،جواہر لال نہرو اور گاندھی جی کا نام ہی سنا،پڑھا اور دیکھا ہیں۔
یہ لکھتے ہوئے راقم کو ذرہ برابربھی خوف نہیں کہ علمائے اسلام اور مجاہدین
آزادی کے ساتھ تاریخ نویسوں نے جتنا ظلم کیاہے اتنا ہی ہم نے بھی کیا ہے
۔باطل تو کسی طرح ہمارے نام ونشان کو مٹانے کے درپے ہے ہی، اس پر ہمارے بے
حسی سونے پر سہاگہ۔ہماری تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے،نصابی
کتابوں سے مسلم شخصیات اور مجاہدین کے باب کو خارج کیا جارہا ہے اس پر
افتاد یہ کہ ہمیں ہی اپنے سرفروشوں کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کی فرصت
نہیں۔ہمارا شہر میناروں اور مدرسوں کا شہر کہلاتا ہے،مجھے بتاؤہمارے شہر کے
کتنے مدرسوں میں جشن یوم آزادی منایاگیا؟کتنے مدرسوں میں مدرسین اور اہل
علم نے مسجدومحراب سے اسلاف کی درد بھری قربانیوں کوبیان کیا؟ہمارا حال تو
یہ ہے کہ مسجد کے امام صاحب اور مدرسے کے مدرس صاحب سے اگر کوئی پوچھ لے کہ
پچاس مسلم مجاہدین آزادی کے نام بتاؤ تو شاید ہی کوئی بتا پائے۔(الا
ماشااﷲ)جن مقامات سے آزادی کی لہر نے جنم لیا تھا،مساجد کے ائمہ اور مدارس
کے فارغین نے اپنی ہتھیلیوں پر اپنے سروں کا نذرانہ لے کرجس انقلاب ۱۸۵۷ء
کی چنگاری جلائی تھی ،آج ان ہی مقدس مقامات کے علمبردار اپنی تاریخ سے
ناآشنااور نابلد ہیں۔جب اہل علم طبقہ ہی اپنی تاریخ سے ناآشنائی کا شکار ہے
تو پوری امت کا خدا خیر کرے۔جبکہ یہ ایک مسلم الثبوت اور ناقابل تردید
حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی علمائے کرام ہی کے دم قدم سے متصور ہے۔آج ہم
آزادی کی جس خوشگوار فضا میں زندگی کے لمحات بسر کررہے ہیں،یہ علمائے حق ہی
کے سرفروشانہ جذبات اور مجاہدانہ کردار کا ثمرہ ہے۔انھیں کے مقدس لہو سے
شجر آزادی کی آبیاری وآبپاشی ہوئی ہے۔۱۵؍اگست کی صبح راقم خود چار اسکولوں
کے پاس موجود اسٹیشنریوں میں پرچم لینے کے لیے گیا مگر انہوں نے کہا کہ
ہمارے یہاں نہیں ہے۔پھر ہم نے لوک مانیہ تلک مراٹھا اسکول سے پرچم،فلیگ اور
اسٹینڈ پرچم خریدا۔افسوس!ہم نے اپنی دکانوں کو محض بزنس گاہ بنا لیاہے۔ہم
اپنی دکانوں سے وطن پرستی کا پیغام بھی دینے کے قابل نہ رہے۔ہم اپنی
موجودگی کا احساس تک نہیں دلا سکتے ۔جبکہ ہم برادران وطن کے علاقوں میں گئے
تو ہر ہر دکان پر پَرچم بلند تھاحتی کہ ٹھیلاگاڑیوں پر جو لوگ فروٹ اور
پھلی بیچ رہے تھے انہوں نے بھی اپنی گاڑیوں پر ترنگا لہرارکھاتھا۔کیا
ہندوستان کی آزادی صرف برادرانِ وطن کے لیے ہے؟کیا ہم اس میں شامل نہیں
ہوسکتے؟اور کیوں نہیں ہوسکتے جبکہ آزادی کی اساس اوربنیاد ہی ہم ہے ؟اس ملک
کی آزادی کے لیے غیروں نے جتنا پسینہ نہیں بہایا اس سے زیادہ ہم نے خون
بہایا ہے۔ہمارا کیا کہناہم تو ابھی تک اسی میں الجھے ہے کہ راشٹر گیت پڑھنا
چاہئے یا نہیں؟جئے ہند بولنا چاہئے یا نہیں؟آج بھی مالیگاؤں میں تعمیر’’
شہیدوں کی یادگار‘‘ اہل سیاست کو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ مجھ پر ان
سرفروشوں کے نام کب کندہ کروائے جائینگے جو آزادی کے لیے پونہ کی یروڈہ جیل
میں تختۂ دار پر چڑھ گئے؟اگر یہ جان دینے والے غیر مسلم ہوتے تو کیا اب بھی
ان کی سمادھی بغیر نام کے کھڑی رہتی؟؟پونہ قبرستان میں دفن شہیدوں کے جسم
الیکشن میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا اب بھی بے صبری سے انتظار کررہے
ہیں۔الیکشن پریڈ میں اہل سیاست ہر چوک،ہر چوہراہے،ہر کلب غرضیکہ جہاں جہاں
ممکن ہوہر جگہ پارٹی کا پرچم نصب کیا جاتا ہے مگر افسوس!یوم آزادی پر ترنگے
کو فراموش کردیا گیا۔ کیا یہ حب الوطنی اسی کانام ہے؟جبکہ ہمارا مذہب تو
ہمیں اپنے ملک سے محبت کا پیغام دیتا ہے۔خداراخدارا!اپنے اختلافات کو
بالائے طاق رکھ کر اپنی تاریخ کو نسلوں تک پہنچانے کی کوشش کرو،ورنہ جو قوم
اپنی تاریخ کو بھلا دیتی ہے ،وہ قوم صفحۂ دہر سے مٹادی جاتی ہے۔
کیا اسی لیے تقدیر نے چُنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے
٭٭٭ |