بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کی بہادر
مسلح ا فواج کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ دہشت گردوں کی بیشتر قیام گاہیں، ان
کے اسلحہ خانے، کنٹرول اینڈ کمانڈسسٹم تباہ کر دیا گیا ہے، جاری آپریشن ضرب
عضب میں اب تک پاک فوج کے جرنیلوں سمیت 6 ہزار سپوت اپنی جانوں کے نذرانے
پیش کر چکے ہیں۔ 50 ہزار سے زائد سویلنز بھی دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں
شہید ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کا ضرب عضب میں خاتمہ ہو رہا ہے۔ مستقبل میں
پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے اب تک تین ہزار کے قریب دہشت گرد
وں کو ہلاک کردیا گیا ہے، جبکہ کچھ افغانستان فرار ہو گئے ہیں اور کئی
پاکستان میں ہی روپوش ہیں ، ان کا تعاقب ہو رہا ہے۔ ان کو جب کہیں موقع
ملتا ہے وہ قومی مفادات کو نقصان پہنچانے اور اہم شخصیات کی جان لینے سے
دریغ نہیں کرتے۔ گزشتہ روز جب پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع
خانزادہ اٹک میں اپنے گاؤں شادی خان میں اپنے گھر سے متصل ڈیرے پر ایک جرگے
میں علاقہ مکینوں کے مسائل سن رہے تھے کہ خود کش حملہ آور نے خود کواڑا دیا
جس کے نتیجے میں پوری عمارت زمیں بوس ہو گئی، اور شجاع خانزادہ سمیت 15
افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ صوبے بھر میں کالعدم اور شدت پسند
تنظیموں کے خلاف جاری آپریشن کو تیز کرنے کے بعد صوبائی وزیر داخلہ کرنل
ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی تھیں اور 29 جولائی کو
انسداد دہشتگردی کے محکمے نے جنوبی پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ میں کالعدم
تنظیم کے رہنما ملک اسحاق اور دیگر تیرہ افراد کی مبینہ پولیس مقابلے میں
ہلاکت کے بعد صوبائی وزیر داخلہ کو مزید محتاط رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ کو
ملک اسحق اور اسکے ساتھیوں کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد شجاع خانزادہ
کو کالعدم تنظیموں کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ اور تیز ہو گیا تھا۔ صوبائی
وزیر داخلہ نے اپنے آبائی علاقے میں کالعدم تنظیموں کے متحرک ہونے کے بارے
میں بھی انسداد دہشت گردی کے محکمے کوآگاہ کیا تھا جس کے بعد محکمے کے ذمہ
داران افراد نے اس علاقے میں کارروائی کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا
شروع کردیا تھا اور اس ضمن میں صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس سے بھی ان
تنظیموں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ کرنل شجاع خانزادہ فوج
سے ریٹائرمنٹ کے بعد اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔ ان کے والد تاج خانزادہ
تحریک آزادی کے کارکن رہے ان کا مقامی سیاست میں ایک بڑا نام تھا۔ تاج
خانزادہ کی وفات کے بعد شجاع خانرادہ سیاست میں آئے، ان کا شمار پاکستان
تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ شجاع خانزادہ کو 2013ء کے
انتخابات کے بعد پنجاب کابینہ میں ماحولیات کا قلمدان سونپا گیا بعد میں
وزارت داخلہ کا منصب بھی ان کے حوالے کر دیا گیا۔ وزارت داخلہ کی ذمہ داری
ملنے پر انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کو اپنا مشن بنا لیا۔ وہ اپنے نام کی
طرح کردار کے حوالے سے بھی شجاع تھے۔
کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کی شہادت پر سکیورٹی کے حوالے سے بہت سے سوالات
پیدا ہوتے ہیں۔ خودکش بمبار ڈیرے کے گیٹ سے گزر کر اس کمرے تک کیسے پہنچا
جہاں خانزادہ اور دوسرے لوگ موجود تھے۔ حملہ آور تلاشی سے کیسے بچ گیا۔ کیا
دہشت گردوں کے ہاٹ ٹارگٹ کی حفاظت اور سکیورٹی کے لئے واک تھرو گیٹ نہیں
لگایا گیا تھا۔ اگر نہیں لگایا گیا تھا تو کیوں نہیں۔ متعلقہ اہلکاروں نے
سیکورٹی میں کوتاہی کیوں برتی کیا وہ دہشت گردوں سے ملے ہوئے تھے۔ پنجاب کی
سکیورٹی کے سب سے بڑے عہدے دار اور ذمہ دار کا دہشت گردی کا نشانہ بن جانا
متعلقہ اداروں کی اہلیت پر سب سے پہلا اور بڑا سوالیہ نشان ہے۔ میڈیا
رپورٹس کے مطابق خودکش دھماکہ سکیورٹی لیپس کو ظاہر کرتا ہے ، تاہم سکیورٹی
ادارے ایسے شخص کی حفاظت سے کیوں غافل رہے جو دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں
کی ہٹ لسٹ میں دوسرے تیسرے نمبر پر تھے۔یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت
عوام پاکستان اور ملک کی اعلیٰ مقتدر شخصیات کے تحفظ کی خاطر ہر قسم کی
مصلحتوں اور سیاسی مفاد سے بالاتر ہو کر محکمہ پولیس میں رشوت اور بدعنوانی
کے ساتھ ساتھ سکیورٹی سسٹم کو مذید بہترکرے۔ابھی دہشت گردوں کے خلاف جاری
آپریشن ختم نہیں ہوا، ابھی ملک دہشت گردوں سے مکمل پاک نہیں ہوا، ابھی خواب
غفلت میں کھونے کا وقت نہیں آیا۔ دہشت گردی کے ناسورکوجڑ سے اکھاڑنے کے لیے
نا صرف سکیورٹی اداروں بلکہ عوام پاکستان کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا
ہوگا، تب ہی ہم مستقل طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہوسکیں گے۔ |