پاسباں مل گئے کعبہ سے صنم خانے کو
(nazish huma qasmi , mumbai)
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی
کے حالیہ عرب امارات کے دورے سے جو چیزیں منظر عام پر آئی ہیں وہ کسی بھی
طرح مسلم قوم کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ ایک طرف تو عربوں کی مہمان نوازی
تھی تو دوسری طرف مودی نوازی۔ مہمان نوازی یقینا قابل تحسین عمل ہے اور
اسلام اس بات کا حکم بھی دیتا ہے کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو،
مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک ایک اسلامی امر ہے جس سے کسی کو انکار نہیں، لیکن
مہمان کی دلجوئی کے لیے ایسا قدم اٹھانا جو خلاف شریعت ہو اسلام اس بات کی
ہر گز اجازت نہیں دیتا ہے۔ بطور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی حیثیت
توہے لیکن ان کے ماضی وحال کے کارنامے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ انہیں
باوقار شخصیت قراردیاجائے۔ گجرات کے مسلم کش فسادات جو مکمل طور پر ان کی
سرپرستی میں کرائے گئے ، ہندوستانی جمہوریت پربدنما داغ ہیں جن فسادات میں
معصو م وبے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی گئی، مائوں اور بہنوں کی
عصمتیںتار تار کی گئیں، معصوم بچوں کو زندہ نذر آتش کیاگیا، غرضیکہ گجرات
میں انسانی شکل میں بھیڑوں کے کالے کرتوت دیکھ کر روح انسانی کانپ گئی۔
پوری دنیا میں ایک شور برپا ہوگیا لیکن ہمارے موجودہ وزیراعظم نے ان تمام
بھیڑیوں کی پشت پناہی کے فرض کو بخوبی پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیا اور
آج تک فسادات کے مجرمین کو عدالتوں سے چھٹیاں دلوانے میں اہم رول ادا
کررہے ہیں اور جو ان کے خلاف گئے انہیں زنداں میں ڈھکیل دیا سنجیو بھٹ
وغیرہ کی مثال سامنے ہے۔ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم کے ہمنو
ا فرقہ پرست ملک مخالف عناصر بے لگام گھوڑے کے مانند دندنانے پھر رہے ہیں۔
کہیں گھر واپسی کے نام پر ماحول کو خراب کیاجارہا ہے تو کہیں عیسائیوں کی
عبادت گاہوں کومسمارکیاجارہا ہے، سم کارڈ کمپنیوں کی طرح ہندوبنانے کے لیے
آفر پیش کیاجاتا ہے ، کبھی رام زاد اور حرام زاد کا راگ الاپا جاتا ہے تو
کبھی مسلمانوں کوپاکستان جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے، کوئی 2020تک ہندوستان
کے تمام مسلمان او ر عیسائی کو ہندو بنانے کے عزم کو دہرا رہا ہے تو کوئی
دہلی کی جامع مسجدمیں پوجا کرنے کی یوجنا کرتا ہے، اور یہ تمام چیزیں ہمارے
موجودہ وزیر اعظم کے کابینہ کے معزز ترین افراد انجام دے رہے ہیں، اور
ہمارے وزیراعظم سائلنٹ موڈ سے ہٹنے کو تیار نہیں۔
مودی کو مندر ہدیہ میں دینا یہ سراسر اسلامی امر کے مخالف ہے اس سے اسلامی
شعائر پر گزند پہنچنے کا اندیشہ ہے اور سنجیدہ دل مسلمان اس فیصلے سے ناخوش
ہیں ان کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ایک قاتل کو مقدس
مقام پر بلا کر اس کے مذہب کی تائید کرنا یہ ہمارے اصول کے منافی ہے۔ ہم یہ
نہیں کہتے کہ عرب امارات کو سفارتی تعلقات ختم کرلینے چاہئے بلکہ اس تعلقات
کا فائدہ اٹھانا چاہئے، جس طرح امریکی صدر بارک حسین اوبامہ نے ہندوستان
میں آکر ہندوستانیوں کو اخوت ومحبت کا درس دیا تھا اور مودی حکومت پر طنز
بھی کیا تھا۔ ’’کہ یہاں اقلیتوں کے ساتھ موجودہ حکومت صحیح رخ نہیں اپنارہی
ہے‘‘۔ ہمارے یہ مسلم حکمراں اس کام کے قابل نہیں تھے ۔ کیا وہ ہندوستانی
مسلمانوں کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال نہیں کرسکتے تھے؟ ۔لیکن افسوس
کہ بابری مسجد شہید کرنے والوں کا استقبال بھی مسجد میں کیاگیا۔ ’’چوں کفر
از کعبہ بر خیز د کجا مانند مسلمانی‘‘۔
مودی کا استقبال مسجد میں : اس سلسلہ میں دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ دشمنوں
کے ساتھ بھی حسن سلوک کیاجائے اور دلیل میں واقعہ طائف اور بوجہل کے کرتوت
پیش کرتے ہیں، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی ذات تک محدود تھا ورنہ تو بیعت رضوان کا پس منظر کچھ اور ہی پیش کرتا ہے
، جہاں صرف ایک مسلمان کی جان کے بدلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بدلہ لینے کے لیے بیعت کرلیا تھا،
مسلمانوں کودھوکہ دینے کی پاداش میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریضہ
کا قلع قمع کروایا۔ ہندوستان پر محمد بن قاسم کا حملہ کوئی سیاسی اور حکومت
کی توسیع کے لیے نہیں کیاگیا تھا بلکہ ایک مظلوم نوجوان عورت کے خط نے حجاج
بن یوسف کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاتھا، قوم کی ایک بیٹی کی پکار پر راجہ داہر
کی ظالم حکومت کا خاتمہ کیاگیا تھا، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کو جب عیسائی
بادشاہوں کے ذریعہ مسلمانوں کے قافلہ کو لوٹنے کی خبر دی گئی تو ایوبی نے
وہ تاریخی جملہ کہا تھا ’’وہ میری بیٹی ہے‘‘۔ہمارے اسلاف واکابرین نے اپنی
ذات پر حملہ کرنے والوں کو گلے سے لگایا ہے لیکن مسلم قوم کی مائوں بہنوں
او ربیٹیوں کی عزت سے کھلواڑ کرنے والوں کے لیے ہمیشہ ضرب موسوی ثابت ہوئے
ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس کسی نے بے گناہ شخص کی جان لی وہ ایسا
ہے گویا کہ اس نے ساری انسانیت کا خون کیا مگر یہاں تو ایک دو نہیں ہزاروں
کی تعداد میں بے گناہ مسلمانوں کی خون سے ہولی کھیلی گئی ہے۔ اور اسے
اعزازو اکرام سے نوازاجارہاہے۔
یہ بات ممکنات میں سے ہے کہ مسجد زائد اور دیگر اسلامی روایات نیز عرب کے
مسلمانوں کی وسعت ظرفی کو دیکھ کر ہمارے وزیراعظم کے دل کے نہاںخانوں میں
ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہوجائے اور جس طرح ابوظہبی
میں مندر بنانے کے لیے زمین الاٹ کی گئی ہے ہندوستان کی مساجدکودرپیش مسائل
کا تصفیہ ہوجائے۔ مگر یہ محض ممکنات میں ہے اس امر کا واقع ہونا قرین قیاس
نہیں ہے، فرقہ پرست عناصر کے نرغہ میں پھنسے مودی ان کے خلاف نہیں جاسکتے
اور یہ فرقہ پرست کبھی بھی ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقوام کو چین سے
نہیں رہنے دیں گے تا آنکہ ان فرقہ پرستوں کاصفایاہوجائے۔ اوریہ کسے معلوم
نہیں کہ تقریباََپچاس برسوں تک مسٹرمودی کی پرورش اسی زعفرانی ماحول میں
ہوئی تواتنی جلدی اس رنگ کے اترنے کی ہم امیدکیسے کرسکتے ہیں۔وزیراعظم اپنے
مزاج میں تبدیلی لائیں مسجدجانامسئلہ کاحل نہیں ہے،ممکن ہے کہ یہ دورہ
بہارالیکشن کے تناظرمیں کیاگیاہواوربی جے پی کی طرف سے اس کاایک نیارنگ بھی
دیاجارہاہے،کیونکہ بہارکی بڑی آ بادی متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے۔ساتھ
ہی گجرات فسادات کے وقت دوسوسے زائدمساجدجنہیں فرقہ پرستوں نے نقصان
پہونچایاوزیراعظم اس کی بازآبادکاری کرائیں،کیاوزیراعظم کے ذہن اورعمل میں
یہ تضادکاثبوت نہیں ہے کہ ایک طرف وہ یواے ای کی مسجدکادورہ کرتے ہیں ،اجمیردرگاہ
پرچادربھیجواتے ہیں لیکن دوسری طرف اجمیردرگاہ پرحملوں مکہ مسجدپردہشت گردی
کے مجرموں کوان کی مرکزی وزارت داخلہ بچارہی ہے۔؟کیااس سے یہ خدشہ درست
نہیں ہے کہ سوائے سیاسی فائدہ اٹھانے اورمتحدہ عرب امارات کوخوش کرکے
اپنااقتصادی مفادوابستہ کرنے کے لئے اورکچھ حا صل نہیں ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے مسلم حکمراں دوستانہ ماحول میں ہندوستانی
مسلمانوں کی زبوں حالی پر تبادلہ خیال کرتے، اور اس امر کو یقینی بنانے کی
کوشش کرتے کہ مستقبل میں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کوئی سیاسی اور سماجی
رکاوٹ پیدا نہ ہو اور آزادانہ طور پر ہر میدان میں مسلمانوں کے لیے مواقع
فراہم کیے جائیں، مسلمانوں کو درپیش مسائل کا صحیح اور قابل عمل حل تلاش
کیاجاتا ۔ لیکن یہ سب تو بس خواب کی باتیں ہیں جن حکمرانوں کی سرپرستی میں
باہمی رضا مندی سے ہوٹل کے بند کمرے میں زنا کرنے کی تو اجازت ہو لیکن
مساجد ومدارس اور علماء وطلباء کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اور اشاعت دین
کی خاطر قوم کے نونہالوں کی تربیت کے لیے حصول رقم جرم ہو تو ان سے مندروں
کے لیے ہی جگہ الاٹ کئے جانے کی توقع ہے۔
|
|