اس دن بھی میں صبح 6 بجے اٹھا حسب معمول ورزش کی، بلڈ
پریشر، دل کی دھڑکن ، نبض کی رفتار سب معمول کے مطابق تھی۔دفتر جانے کی
تیاری کی ناشتے کے ٹیبل پربیٹھ کر اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک
سینے میں بائیں طرف درد ہوا جو شدت اختیار کر گیاایسے لگا جیسے سینے کو کسی
چیز نے زور سے جکڑ لیا ہو جب درد برداشت سے با ہر ہوا تو میں کرسی سے نیچے
گر گیا ، میرے بیٹے نے مجھے سہارا دیا بیوی پریشان ہوگئی، بیٹی نے جلدی سے
فیملی ڈاکٹر کو فون کیا ، ایمبولینس آئی اور کچھ ہی دیر میں ، میں ناشتے کے
ٹیبل سے ہسپتال کے بیڈ پر پہنچ گیا، ارد گرد سے آنے والی آوازو ں سے مجھے
اندازہ ہوا کہ مجھے دل کا دورہ پڑا ہو جو کافی شدید ہے اور میری حالت ابھی
خطرے سے باہر نہیں ہے، کچھ دیر بعد ارد گرد سے آنیوالی آوازوں کا سلسلہ بند
ہو گیا، کتنا وقت اس حالت میں گزرہ اس کا مجھے کچھ اندازہ نہیں۔
پھراچانک مجھے یہ احساس ہوا جیسے کسی نے بہت سی چھریاں میرے جسم میں پیوست
کر دی ہوں، یا میری کھال کو میرے جسم سے کھینچ کر اتارا جا رہا ہو، میں درد
کی شدت سے کراہ رہا تھا ، میری چیخ و پکا ر کے با وجود میرے بیوی بچے مجھے
اپنی مدد کیلئے نظر نہیں آرہے تھے، جب اس تکلیف دہ مرحلہ سے نجات ملی تو
وہاں موجود لوگوں کی آواز دوبارہ سنائی دینے لگی، میرے بیوی بچے رو رہے تھے
اور کچھ جانی انجانی آوازیں ان کو تسلی دلا رہی تھیں، ہو کیا رہا تھا سب
میری سمجھ سے باہر تھا ۔
پھر ہو ا یوں کہ میرے بیٹے کو کسی کا فون آیا اور اس نے روتے ہو بتایا کہ
پاپا اب اس دنیا میں نہیں رہے، یہ سن کر ایک لمحے کیلئے مجھ پرسکتہ طاری ہو
گیا میں نے چیخ چیخ کر اس کو پکارا مگر اس نے میری کسی بات کا جواب نہیں
دیا شائد وہ اب میری آواز سن نہیں پا رہا تھا ، مگر یہ سب کیسے ہو سکتا ہے
میں اس پر یقین کرنے کیلئے تیا ر نہیں تھا ، سب کچھ تو معمول کے مطابق تھا
پھر میں اتنی جلدی کیسے مر سکتا تھا ، میری تو آج کاروبار کے سلسلے میں بہت
اہم ملاقات تھی اگر میں نہ گیا تو بہت نقصان ہو جائے گا، اور اس سال تو میں
نے پکا ارادہ کیا تھا کہ میں حج پر جاؤں گا اور واپس آکر جتنے بھی غلط کام
ہیں سب چھوڑ دوں گا ، مگر، مگر یہ سب کیسے ہو سکتا ہے، نہیں نہیں یہ نہیں
ہو سکتا میں زو ر زور سے چلا رہا تھا مگر کوئی میری بات سننے کو تیا ر نہ
تھا ، پھر وہی ہوا جو اس دنیا کو چھوڑنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، رات ہونے
سے پہلے پہلے میں دو کنال سے دو گز کے گھر میں پہنچ چکا تھا۔ جہاں دو
غضبناک چہرے والے میرے پاس آئے او ر سوال وجواب کاسلسلہ شروع کر دیا ، دنیا
میں خو د کو میں بہت چالاک اور حاضر دماغ سمجھتا تھا ، یہاں پر بھی میں نے
بڑی چالاکی سے الٹا ان سے گلہ شروع کر دیا کہ تم نے آنے سے پہلے مجھے کون
سااطلاع دی تھی ورنہ میں تیاری کر کے آتا، انہوں نے کہا اطلا ع تو ہم نے
تمہیں کئی بار دی مگر تم نے کوئی توجہ نہ دی، کب ،کب اطلاع دی مجھے۔ ۔۔جب
تم نے اپنے فلا ں دوست کو ، رشتہ دار کو اپنے ماں باپ کو اپنے ہاتھوں سے
قبر میں اتارا تو یہ تمھا رے لئے اطلا ع ہی تو تھی کہ ایک دن تم نے بھی
یہاں آنا ہے، تم روز جنازے اٹھتے دیکھتے تھے ، تمھا رے سر کے سفید بال ،
جسم کا ناتواں ہوجانا یہ سب پیغام ہی تو تھے جو تمھیں بھجوائے گئے مگر تم
نے یہ سمجھا کہ یہ سب میرے ساتھ نہیں ہوگا، مگر یہ تو سب کے ساتھ ہو کر رہے
گا ، اب ان حیلے بہانوں کا کو فائدہ نہیں ۔۔۔کیا مجھے ایک موقع صرف ایک
موقع مل سکتا ہے کہ میں دوبارہ دنیا میں چلا جاؤں اور اپنے سارے غلط کام
چھوڑ کر اﷲ سے معافی مانگ لوں ، جن کے ساتھ زیادتی کی ان سے معذرت کر لوں ،
اپنی ساری مال و دولت اﷲ کے راہ میں خرچ کر دوں۔۔۔۔۔۔۔نہیں اب ایسا ممکن
نہیں ۔۔۔۔۔۔تو پھر میرا اتنا کام کر دیجیے کہ میرا یہ پیغام دنیا والوں تک
پہنچا دو کہ خدارا یہاں آنے کی جو اطلاعات آپکو مل رہی ہیں ان پر توجہ کریں
کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور آپ کے پا س بھی میری طرح پچھتاوے کے
علاوہ کچھ نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ممکن ہے کوئی اسے پڑھ کر سنبھل جائے اور میرے لئے
ذریعہ نجات بن جائے۔ (ع،م، مرحوم) |