حقیقت میلاد النبی - تیرپنواں حصہ

قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے جشنِ میلاد کیوں نہیں منایا؟ :-

محبوبِ ربّ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت باسعادت پر اِظہارِ مسرت کرنا، محافلِ میلاد منعقد کرنا اور جشنِ عید منانا ایک مومن کے لیے سب سے بڑی سعادت ہے، مگر شومئی قسمت کہ بعض لوگ اس عظیم سعادت کو خلافِ شریعت عمل قرار دیتے ہیں۔ وہ لوگ اس کے عدمِ جواز پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جشنِ میلاد قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں کے عمل سے ثابت نہیں، اس کا آغاز بعد کے اَدوار میں ہوا ہے۔ نیز یہ کہ حضور ختمی مرتبت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وِصال مبارک کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جشنِ میلاد کیوں نہ منایا؟

صحابہ رضی اللہ عنھم کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سانحۂ اِرتحال اِنتہائی غم اَنگیز تھا:-

حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت مسلمانانِ عالم کے لیے دنیا کی تمام خوشیوں اور مسرتوں سے بڑھ کر ہے۔ قرنِ اَوّل کے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لیے بالخصوص اِس دنیائے آب و گل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے بڑی اہم خبر اور کیا ہو سکتی تھی! صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق اور جاں نثار تھے ان سے بڑھ کر اس نعمتِ عظمیٰ کا قدردان اور کون ہو سکتا تھا! اس پر اِظہارِ فرحت و مسرت جس طرح وہ کر سکتے تھے آج کے دور کے مسلمان اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اگر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تزک و اِحتشام سے نہیں منایا تو اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کا دن بھی تھا، سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر غم و آلام کا ایک کوہِ گراں ٹوٹ گیا، اس لیے جب ان کی زندگی میں بارہ ربیع الاول کا دن آتا تو وصال کے صدمے تلے ولادت کی خوشی دب جاتی اور جدائی کا غم اَز سرِ نو تازہ ہو جاتا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی یادوں کے جَلَو میں بارہ ربیع الاول کا دن آتا تو خوشی و غم کی کیفیتیں مل جاتیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم وصالِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد کر کے صدمہ زدہ دلوں کے ساتھ خوشی کا اظہار نہ کر سکتے تھے۔ سو وہ ولادت کی خوشی میں جشن مناتے نہ وصال کے غم میں اَفسردہ ہوتے-

اِنسانی فطرت لمحاتِ غم میں خوشی کا کھلا اِظہار نہیں کرنے دیتی:-

روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ جب کسی گھر میں کسی عزیز کی وفات ہو جائے جب کہ چند دنوں کے بعد اسی گھر میں شادی کی تقریب بھی منعقد ہونے والی ہو تو عام دستور یہی ہے کہ اُس غم کے باعث شادی ملتوی کردی جاتی ہے۔ اگر شادی کی تقریب ملتوی نہ بھی کی جائے تو نہایت سوگوار ماحول میں سادگی کے ساتھ منعقد ہوتی ہے۔ لیکن اسی گھر میں اگر اس سوگوار واقعہ کے پانچ، دس سال بعد شادی ہو تو بالعموم یہی دیکھا گیا ہے کہ شادی کا اہتمام رسم و رواج کے مطابق دھوم دھام سے کیا جاتا ہے اور اس موقع پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ چند سال پہلے ان کا والد فوت ہوا تھا اب وہ دھوم دھام سے شادی کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت کے مطابق ایک عرصہ تک غم و اندوہ کا پہلو صبر و ضبط پر غالب رہتا ہے اور جوں جوں زمانہ بیت جاتا ہے صدمے کا اثر زائل ہو جاتا ہے جس کے باعث حالات معمول پر آتے ہی زندگی پرانی ڈگر پر رواں دواں ہو جاتی ہے۔

کیفیاتِ غم کی شدت قرونِ اُولیٰ میں جشن منانے میں مانع تھی:-

بشری تقاضوں کے مطابق قرنِ اَوّل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کے غم کا پہلو زیادہ اثر آفریں تھا۔ ولادت اور وفات کا دن ایک ہونے کے باعث جب یومِ میلاد آتا تو ان پر غم کی کیفیات خوشی کی نسبت بڑھ جاتی تھیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایثار و قربانی کی ایک زندہ و تابندہ مثال تھے۔ وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنبشِ اَبرو پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔ معیارِ ایمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے غایت درجہ محبت تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ وصال ان کے لیے سب سے عظیم سانحہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کی اَلم ناک خبر کس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر قیامت بن کر ٹوٹی ہوگی، لمحاتِ غم کی شدت میں غلاموں نے کس طرح اپنے آپ کو سنبھالا ہوگا۔ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ وہ تو ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے آقا کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن کے جذباتی اور عشقی تعلق کی کیفیت یہ تھی کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ظاہری حیاتِ مبارکہ سے پردہ فرما گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جری اور قوی دل صحابی یہ صدمہ برداشت نہ کر سکنے کے باعث خود پر قابو نہ رکھ سکے۔

صحابہ کرام اور اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنھم کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کی خبر اندوہ ناک اور ہوش رُبا تھی کیوں کہ ان کا محبوب ان سے جدا ہو گیا تھا۔ اپنی محبوب ترین ہستی کے بچھڑ جانے پر جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ ردِ عمل ایک فطری اَمر تھا، اس لیے کہ انہوں نے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اپنا وطن، عزیز و اَقارب، مال و دولت، بیوی بچے، الغرض سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جب وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے درمیان ظاہری طور پر نہ دیکھتے تھے تو ان کی کیفیت دگرگوں ہو جاتی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا کاری زخم بھی لگ سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جن جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ان کی ایک جھلک ذیل میں دیکھی جا سکتی ہے

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات کا سبب فراقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا:-

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد اِمامِ عشاقانِ مصطفیٰ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہر وقت اپنے محبوب کے ہجر میں تڑپتے تھے، اور آپ کی وفات کا سبب بھی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کا غم تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :

کان سبب موت أبي بکر موت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما زال جسمه يجري حتٰي مات.

’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت کا سبب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال (کا غم) تھا، یہی وجہ ہے کہ فراق میں آپ کا جسم نہایت ہی کمزور ہو گیا تھا حتیٰ کہ آپ کا اِنتقال ہو گیا۔‘‘

1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 63، 64، رقم : 4410
2. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 263
3. سيوطي، مسند أبي بکر الصديق : 198، رقم : 631

حضرت زیاد بن حنظلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

کان سبب موت أبي بکر الکمد علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت کا سبب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال پر ہونے والا حزن و اَلم تھا۔‘‘

سيوطي، مسند أبي بکر الصديق : 198، رقم : 632

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ردِ عمل:-

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کی خبر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسی مضبوط قوتِ اِرادی کی حامل جری و بہادر شخصیت کے خرمنِ ہوش پر بجلی کی طرح گری۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور شدتِ غم سے کہنے لگے : ’’اگر کسی نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے ہیں تو میں اُس کا سر قلم کر دوں گا۔‘‘(1) اِس موقع پر اُنہوں نے جن جذبات کا اِظہار کیا کتبِ سیر و تاریخ میں اس کے اَلفاظ یوں وارِد ہوتے ہیں :

طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 233

إن رجالاً من المنافقين يزعمون : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قد توفي، وإن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما مات، ولکنه ذهب إلي ربه کما ذهب موسي بن عمران، فقد غاب عن قومه أربعين ليلة، ثم رجع إليهم بعد أن قيل : مات، وواﷲ! ليرجعَنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کما رجع موسي، فليقطعن أيدي رجال و أرجلهم زعموا : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مات.

’’منافق گمان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے ہیں، حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات نہیں پائی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسی طرح اپنے رب کی طرف چلے گئے ہیں جس طرح حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام گئے تھے۔ وہ اپنی قوم سے چالیس راتیں غائب رہے، پھر وہ ان کی طرف اس حال میں لوٹے کہ ان کے وصال کی خبر پھیلا دی گئی تھی۔ خدا کی قسم! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طرح لوٹ آئیں گے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام لوٹ آئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور اُن لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے جنہوں نے یہ گمان کیا ہوگا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت واقع ہوگئی ہے۔‘‘

1. ابن اسحاق، السيرة النبوية : 713
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 196، رقم : 13051
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 588، رقم : 6620
4. ابن هشام، السيرة النبوية : 1134
5. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 270
6. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 2 : 187
7. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 4 : 443
8. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 2 : 377

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ ردِ عمل اگرچہ جذباتی تھا لیکن اسے ہرگز غیر فطری نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ اپنی جان سے زیادہ محبوب ہستی کی جدائی کے صدمہ میں وقتی طور پر کسی انسان کا جذبات سے مغلوب ہو جانا ایک فطری اَمر ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے عہدِ خلافت میں رعایا کی خبر گیری کے لئے راتوں کو گشت کیا کرتے تھے۔ اس طرح آپ آخرت میں جواب دہی کا احساس اپنے اندر ہر وقت زندہ رکھتے تھے۔ حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ایک رات آپ عوام کی خدمت کے لیے رات کو نکلے تو آپ نے دیکھا کہ ایک گھر میں چراغ جل رہا ہے اور ایک بوڑھی خاتون اُون کاتتے ہوئے ہجر و فراق میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہی ہے :

علي محمد صلاةُ الأبرار
صلي عليک المصطفون الأخيار
قد کنتَ قَواماً بکي الأسحار
يا ليتَ شِعري والمنايا أطوار
هل تَجمَعني وحَبِيبِي الدَّار

1. ابن مبارک، الزهد : 362، 363، رقم : 1024
2. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 569
3. ملا علي قاري، شرح الشفا، 2 : 42، 43

(محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صالحین کا درود ہو۔ منتخب اور بہترین لوگوں نے اُن پر درود بھیجا (اور بھیج رہے ہیں)۔ آپ راتوں کو اللہ کی یاد میں کثیر قیام کرنے والے اور آخرِ شب (یادِ اِلٰہی میں) آنسو بہانے والے تھے۔ ہائے افسوس! اَسبابِ موت متعدد ہیں، کاش! مجھے یقین ہوجائے کہ روزِ قیامت مجھے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب نصیب ہوسکے گا۔)

یہ اَشعار سن کر حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جیسے بہادر انسان کی آنکھیں بھی اَشک بار ہوگئیں۔ یادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تڑپانے لگی۔ اِمامِ اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ) کے شاگرد، اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کے اُستاد اور امیر المؤمنین فی الحدیث ’’اِمام عبد اﷲ بن مبارک (118۔ 181ھ)‘‘ لکھتے ہیں :

فجلس عمر يبکي فما زال يبکي حتي قرع الباب عليها، فقالت : من هذا؟ قال : عمر بن الخطاب. فقالت : ما لي ولعمر؟ وما يأتي بعمر هذه الساعة؟ فقال : افتحي، رحمکِ اﷲ، ولا بأس عليک، ففتحت له، فدخل. وقال : ردّي علي الکلمات التي قلت آنفا، فردّته عليه، فلما بلغت آخره، قال : أسألکِ أن تدخلني معکما. قالت : وعمر، فاغفرله يا غفار. فرضي عمر ورجع.

’’پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ کر رونے لگے، اور روتے رہے یہاں تک کہ اُنہوں نے دروازہ پر دستک دی۔ خاتون نے پوچھا : کون ہے؟ آپ نے کہا : عمر بن خطاب۔ خاتون نے کہا : میرا عمر کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ رات کے اِن اَوقات میں عمر کو یہاں کیا کام؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تجھ پر رحم فرمائے، تو دروازہ کھول، تجھے کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ تو اس نے آپ کے لیے دروازہ کھولا، آپ اندر داخل ہوگئے اور کہا : جو اَشعار تو ابھی پڑھ رہی تھی انہیں دوبارہ پڑھ۔ پس اس نے دوبارہ وہ اَشعار پڑھے اور جب آخر پر پہنچی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ ان دونوں کے ساتھ مجھے بھی شامل کرلے۔ اُس نے کہا : اے غفار! تو عمر کی بھی مغفرت فرما۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ اِس پر راضی ہوگئے اور واپس لوٹ آئے۔‘‘

1. ابن مبارک، الزهد : 362، 363، رقم : 1024
2. خفاجي، نسيم الرياض في شرح شفاء القاضي عياض، 4 : 428، 429

بقول قاضی سلیمان منصور پوری سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس کے بعد چند دن تک صاحبِ فراش رہے(1) اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی عیادت کے لئے آتے رہے۔

منصور پوري، رحمة للعالمين صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 343

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103345 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.