ِاسلام اور انسانی زندگی

صبح ہوتی ہے لوگ اٹھتے ہیں اور ضروریات سے فارغ ہو کر اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہین۔ شام کو واپس آتے ہیں اور کھانا کھاکر سوجاتے ہیں پھر صبح ہو جاتی ہے اور دوبارہ یہی کام پھر شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زندگی کے دن گزرتے رہتے ہیں بقول شاعر.....
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے۔۔عمر یونہی تمام ہوتی ہے

انسان جب ہوش سنبھالتا ہے تو وہ اپنے مستقبل کے بارہ میں پلاننگ شروع کر دیتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا؟آیا وہ ڈاکٹر بنے گا، انجینئر بنے گا، فوج میں کسی اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوگا یا ایک کامیاب بزنس مین بنے گا وغیرہ۔اس کے سارے خیالات اور صلا حیتیں اسی نقطہ پر مرکوز ہو جاتی ہیں اور بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ کیسے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جائے تا کہ زندگی عیش و آرام سے گزرے؟ اس گردش ایام اور معمولات زندگی نے انسان کو ایسا مصروف بنا دیاہے کہ وہ یہ سوچتا ہی نہیں کہ وہ اس دنیا میں کیوں آیا تھا اور اسکا اصل مقصد حیات کیا تھا؟

کچھ عرصہ قبل اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ یورپ کے ایک ملک میں سینکڑوں لوگوں نے اجتماعی طور پر خود کشی کر لی انھوں نے مرنے سے قبل ایک تحریر چھوڑی کہ ہم نے زندگی کی تمام بہاریں دیکھ لی ہیں اور ہمارے پاس عیش و آرام کی کسی چیز کی کوئی کمی نہ تھی مگر ہم یہ سمجھ نہیں پائے کہ ہم اس دینا میں کیوں آئے تھے؟

اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانی زندگی اور موت کی پیدائش اس لئے ہے کہ اسے آزمایا جائے کہ کون اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتا ہے اور سیدھی راہ پر چلتا ہے اور کون اسکے خلاف چلتا ہے؟ فرمان الٰہی ہے’’ نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون تم میں سے اچھے عمل کرتا ہے‘‘(الملک: پارہ ۲۹) سوال یہ ہے کہ از روئے قرآن اچھے اعمال کونسے ہیں؟ تو یہ وہ اعمال ہیں جو دین اسلام کے مطابق کئے جائیں۔ آنحضرتﷺ جو تمام انسانوں کی طرف نبی اور رسولﷺ بنا کر بھیجے گئے انھوں نے اپنے قول و عمل سے زندگی گذارنے کی ایک نہایت اچھی مثال قائم کی ہے جسے اسوۂ حسنہ کہا جاتا ہے فرمان الٰہی ہے’’بیشک تم میں نبی اکرمﷺ کی ذات بہترین نمونہ ہے‘‘( القرآن) اب جو عمل بھی اسوۂ حسنہ کے مطابق کیا جائے گا وہ اچھے اعمال میں شمار ہو گا، اس لحاظ سے رزق حلال کمانا،کھانا کھانا ،پانی پینا،سونا حتی کہ بیت الخلاء میں جانا تک عبادت ہے اور اچھے اعمال ہیں اگر وہ آپکے اسوہ حسنہ کے مطابق کئے جائیں۔
اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق زندگی دو طرح کی ہے ایک عارضی زندگی جو کہ اس دنیا کی زندگی ہے ۔ اور دوسری آخرت کی زندگی جو کہ اصل اور دائمی زندگی ہے ۔دنیاوی زندگی ایک آزمائش گاہ ہے جہاں انسان کو ہر طرح سے آزمایا جاتا ہے اور یہ زندگی دارالعمل اور کھیتی کی مثال ہے کہ یہاں انسان جو کچھ بوتا ہے آخرت میں وہی کاٹتا ہے۔

اور اصلی زندگی آخرت کی زندگی ہے جوکہ حقیقی زندگی ہے۔ اور وہاں زندگی کی دو صورتیں ہیں جنت کی زندگی اور دوزخ کی زندگی۔ جنت کی زندگی دائمی رضا اور عیش و عشرت کی زندگی ے اور اس کا حاصل ہونا بہت بڑی کامیابی قرار دیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’جو شخص دوزخ کی آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیاوہ شخص کامیاب ہو گیا‘‘(القرآن)۔ اور جنت کی نعمتیں ایسی ہیں کہ جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے ان کے بارے میں سنا اور نہ ہی اسکے بارہ میں کوئی تصور قائم کیا جا سکتا ہے۔یعنی اصل کامیابی یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے۔
دنیا میں ہر شخص کی یہ کو شش ہوتی ہے کہ وہ ایک کامیاب و کامران زندگی بسر کرے مگر ایسا کرنے کیلئے اسے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے ایک مسلسل اور زبردست جدوجہد!!

اس لحاظ سے زندگی ایک مسلسل جاری رہنے والی جدوجہد کا نام ہے دنیاوی زندگی میں انسان کو اپنے کاروباری حریفوں، نا موافق حالات اور مخالفین سے واسطہ پڑتا ہے اگر وہ انکے خلاف حکمت عملی اور ہمت سے کام نہ لے تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسی طرح اپنی آخرت کی دائمی زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے بھی اسے مسلسل محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے اور وہ ہے اس کے دو ازلی دشمنوں کے خلاف یعنی نفس امارہ اور شیطان ابلیس، جن کی ہر لمحہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسے سیدہی راہ سے بھٹکا دیا جائے اور اسکی متاع دین و دنیا کو برباد کردیا جائے۔

انسان دنیا میں اگر کوئی ایسا کام کرتاہے جو شریعت اور اخلاق کی نظروں میں صحیح نہ ہو تو وہ اسے غلط سمجھ کر نہیں کرتا بلکہ اسے جائز سمجھنے کیلئے اس کے پاس بہت سے طریقے ہیں مثلاً رشوت کو وہ ’’چائے پانی اور اللہ کا فضل‘‘ سمجھ کر وصول کرتا ہے، اور اگر وہ کسی جنس میں ملاوٹ کرتا ہے تو اسے ’’کاروباری ضرورت‘‘ سمجھ کر کرتا ہے، اسی طرح اگر راگ و رنگ، موسیقی و ناچ گانے کا موقعہ ہو تو وہ اس سے’’روح کی غذا اور ثقافت‘‘ سمجھ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔اور اگر مذہبی عقائد کی بات کی جائے تو اگر وہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب و ملت کا پیرو کار ہے تو اسے جائز قرار دینے کی سب سے بڑی جو دلیل جو اس کے پاس ہے وہ یہ ہے کہ اس کے باپ دادا چونکہ اس پر عمل کرتے آئے لہٰذا یہ مذہب صحیح ہے اگر یہ غلط ہوتا تو اس کے آباؤ اجداد اسے اختیار نہ کرتے۔

شیطان انسان کے سب غلط کاموں کو اس کی نظروں میں صحیح کرکے دکھا دیتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’آپ فرمادیجئے (اے نبی پاکﷺ)کہ ہم آپکو ان لوگوں کے بارے میں بتائیں کہ جن کے اعمال نہایت خسارے میں ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی ساری کوشش دنیاوی زندگی کیلئے ہی ضائع ہو گئی اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی نشانیوں اور اس سے ملاقات کا انکار کیا پس برباد گیا ان کا کیا ہوا اور ہم روز قیامت انکے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے‘‘۔(الکھف:۱۰۵)

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ زندگی دو طرح کی ہے جنت کی زندگی اور دوزخ کی زندگی ، جنت کی زندگی کا مل جانا بہت بڑی کامیابی ہے اور دوزخ کی زندگی ایک خوفناک اور دردناک زندگی ہے کہ جہاں انسان موت کی تمنا کرے گا مگر موت نہیں آئے گی۔ جہاں انسان بار بار مرے گا اور پھر جی اٹھے گا عذاب سہنے کیلئے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اسی لئے اس زندگی سے پناہ مانگی گئی ہے۔

لہذا اصل زندگی جسے صحیح معنوں میں زندگی کہا جاسکتا ہے وہ جنت کی زندگی ہے مگر اسے حاصل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نبی پاک ﷺ کے طریقوں پر چل کر اور آپکے اسوۂ حسنہ پر عمل کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے کے لئے انسان کو مسلسل محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ مسلسل اس طرح کہ اگر مقصد کے حصول میں وقتی طور پر ناکامی ہو تو ہمت ہار کر نہیں بیٹھ رہنا چاہیے بلکہ اٹھ کر نئے سرے سے جدوجہد کاآغاز کردینا چاہیئے صرف وہی لوگ منزل پر پہنچ پاتے ہیں جو وقتی ناکامیوں سے گھبرا کر بیٹھ نہیں جاتے اور جدوجہد ترک نہیں کردیتے مسلسل اور سیدھے چلنے والے بالآخر منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں رفتار چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو۔
Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 320733 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More