گھمنڈ گناہوں کا سبب ہے
(Syed Mohd Iqbal Rizvi, )
انسان کی بات چیت اور اُس
کا کردار اسکے نظریات کو بیان کرتاہے حضرت محمد مصطفٰیٰ صلی اﷲ علیہ و آلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا :میں اس لیے رسول بنا کر بھجا گیا ہوں تا کہ اچھے
اخلاق کی کو مکمل کروں،، اسماجی زندگی گزارنے کے لئے اچھے اخلاق کو اپنانے
اور برے اخلاق سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔
بُرے اخلاق مثلاً جھوٹ،حسد،حرص،غصہ،گھمنڈ ناظرین جو شخص اپنے نفس کو پاک
کرنا چاہتا ہو اُسے بُرے اخلاق کو چھوڑنا پڑے گا وہ کامیاب ہوا جس نے خود
کو پاکیزہ بنایا اور برے اخلاق سے خود کو دور رکھا۔(سورہ شمس آ یت ۹)
اسلام نے اچھی عادتیں اپنانے کا حکم اس لیے دیا ہے تاکہ انسان اچھی عادتوں
کا مالک بن جائے اور اس میں نیکیاں انجام دینے کی قابلیت پیدا ہو جائے اور
پھر اس قابلیت کی بدولت انسان اچھے اور پسندیدہ کاموں کو انجام دینے لگے ۔
ناظرین میری اپنے قابل قدر جوانوں ،دینی طالب علموں اور کالج کے اسٹوڈینس
اور آپ لوگ جس شعبے میں بھی بڑی لگن سے کام کر رہے ہیں میں آپ کی توجہ ایک
اہم اور خطرناک فعل کی طرف دلانا چاہتا ہوں اگر آپ اس اہم اور خطرناک فعل
سے غافل رہے تو آپ کی تمام کاوشیں رائیگاں ہو جائیں گی اور وہ خطرناک فعل
جس سے تمام زحمات بے سود ہو جاتی ہیں وہ گھمنڈ میں مبتلا ہو جاناہے یوں تو
گھمنڈ ایسی خطرناک شئے ہے جس کی زد میں سماج کے سبھی طبقے کے لوگ آ سکتے
ہیں ہیں لیکن اکثر اس خطرناک حملے کا شکار خود اہلِ علم ہو جایا کرتے ہیں
ناظریں یہ اخلاقی گفتگو جو ہم کر رہے ہیں ممکن ہے گھمنڈ کی وجہ سے ہماری
تباہی اور بربادی کا سبب بن جائے جیسا کہ ابلیس تباہ و برباد ہوا تھا
روایتیں بتلاتی ہیں کہ کائنات میں سب سے پہلا گناہ ابلیس نے کیا تھا اور وہ
گناہ گھمنڈ تھا اپنے اُپر گھمنڈ کی وجہ سے وہ رحمتِ الہیٰ سے دور ہوا اور
بارگاہِ الہیٰ سے ذلیل کرکے نکال دیا گیا گھمنڈایسا گناہ ہے جس کے لیے قرآن
مجید میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے سورۂ زمر میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۔:کیا
غرور کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے:، (سورۂ زمر:آیت:۶۰)
گھمنڈیہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو شان و شوکت اور بعض خاص صلاحیتوں کا مالک
سمجھ بیٹھے اور خود کو دوسروں سے بے نیاز سمجھنے لگے اور خود چند علمی
اصطلاحات اور مسائل کی وضاحت کو یاد کر لینے کے بعد اپنے آپ کو بڑا آدمی
خیال کرنے لگے یا مثال کے طور پر اگرکسی کو کسی طرح سے زیادہ مال و دولت
حاصل ہوگیا ہے تو دوسروں کو اپنا ملازم اور خود کو اُن کا آقا سمجھنے لگے
علم حاصل کرنے کے بعد انسان مقام اور منصب کی وجہ سے بھی اکثر غرور اور
گھمنڈ کا شکار ہو جاتا ہے جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے اور حکومت مل
جاتی ہے تو خود کو بڑا سمجھ لیتا ہے۔گھمنڈ کی وجہ سے گھمنڈی انسان دوہری
جہالت کا شکار ہو جاتا ہے جہالت کی وجہ سے خوداپنی حقیقت سے بے بہرا ہو کر
رہ جاتا ہے خدا کی عبادت سے انکار کر بیٹھتا ہے جہالت سے مراد یہ ہے کہ کسی
چیز کی حقیقت کو نہ سمجھا جا سکے بلکہ اپنے ذہنی خیالات ہی کو حقیقت سمجھ
لیا جائے ۔
گھمنڈایسی حالت کا نام ہے جو انسان کے نفس میں پیدا ہو جاتی ہے انسان یہ
بھل جاتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج ہے اُس کا بدن خاک کے علاوہ اور کچھ بھی تو
نہیں اس کا جسم اسی مٹی سے بنا ہے اور بعد میں پھر مٹی ہی تو ہو جائے گا
تمام مخلوقات عالم کی عظمت و بزرگی اُس کی اپنی ذاتی نہیں اور نہ ہی وہ خود
اپنے وجود کو باقی رکھ سکتا ہے صحت و سلامتی ہو یا بیماری ،مال و دولت ہو
یا غربت کچھ بھی تو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں جب تک خُدا توفیق نہ دے
انسان اپنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ہے نہج البلاغہ میں حضرت علیؑ
کا ارشاد گرامی ہے :؛ تم لوگ اﷲ کے خلق کردہ ایسے بندے ہو کہ جنہیں خُدا نے
اپنی طاقت وقدرت سے خلق فرمایا ہے تم لوگ ایسے بندے ہو جن کی تربیت اور
دیکھ بھال خُدا ہی نے قوت اور غلبہ کے ساتھ کی ہے اور تم لوگ ایسے بندے ہو
جنہیں خُدا جب چاہے گا موت دے کر اپنی بارگاہ میں واپس بلا لے گا۔
اس کے بعد بھی انسان بہت سے گناہ کرتا ہے جس میں گھمنڈجیسی بُری عادت ہو
جائے اور اس کی اصلاح نہ ہو تو وہ کسی حق بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر
دیتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ حق تسلیم نہیں کرتا بلکہ خود اپنے وآپ ہی کو حق
سمجھنے لگتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں بس وہی صحیح اور
درست ہے کسی اور کو کچھ کہنے کا حق نہیں ایسا آدمی کبھی بھی انبیاء کرامؑ
اور ائمہ معصومین ؑ کا اطاعت گزار نہیں ہو سکتا ہے ناظرین انسان میں گھمنڈ
ہونے کا سبب دولت بھی ہے کیونکی جب مال و دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے تو
زیادہ تر انسان کو غرور و گھمنڈ کا شکار ہو جاتا ہے جیسا کہ میں نے بتایا
کہ گھمنڈ جہالت کی پیداوار ہے ورنہ اگر آدمی صحیح سوجھ بوجھ کا مالک ہو اور
عقل سے کام لے تو وہ اس حقیقت کو باآسانی سمجھ لے کہ مال انسان میں کسی چیز
کا کوئی اضافہ نہیں کرتا ہے لیکن جب مال و دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے تو
آدمی خود کو دوسرے غریب لوگوں سے بڑا سمجھنے لگتا ہے اور اسی طرح وہ
گھمنڈمیں مبتلا ہو جاتا ہے اپنے غریب رشتے داروں کو پہچانتا نہیں اُن سے
ملنے میں اپنی بے عزتی سمجھتا ہے اپنے گھمنڈ میں چور رہتا ہے اُس کو یہ فکر
نہیں کہ اُن کے پاس کھانے پینے کا بندوبست ہے یا نہیں ایسے گھمنڈی لوگوں کے
لیے قرآنِ مجید کے سورۂ زمر کی آیت ۷۲ میں ارشاد ہوا ہے ،، کہا جائے گا کہ
جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اور ہمیشہ اُسی میں رہو پس گھمنڈ کرنے
والوں کا جہنم کیا ٹھکانہ ہے،۔
بہت سے لوگ اپنے علم اور قابلیت پر گھمنڈ کرتے ہیں جو کہ مال و دولت پر
گھمنڈ سے ذیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ علم حاصل کرنے کے بعد انسان اپنے آپ
کو سب سے زیادہ قابل سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کو حقیر نگاہوں سے دیکھنے
لگے تو عمل سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے اگر کوئی دینی علوم مثلاً فقہ و
اصول کی باتیں سیکھ لے اور وہ اپنے آپ کو بڑا دانشور یا عالمِ دین اور
انبیاء کا وارث سمجھ بیٹھے اور غرور وگھمنڈ میں مبتلا ہو جائے اور لوگوں سے
کہے کہ میری اطاعت کرو تو ایسے دینی طالبِ علم کا گھمنڈ میں مبتلا ہو جانا
انتہائی خطرناک ہوتا ہے دوسرے لوگ چونکہ دنیاوی چیزوں کے متعلق گھمنڈ کرتے
ہیں لہذا ان کا راز لوگوں کے سامنے کھل جاتا ہے لیکن دینی طالبِ علم مقام و
مرتبے اور لوگوں کے دلوں میں حکومت کرنا چاہتا ہے اس لیے ایسا شخص جب گھمنڈ
میں مبتلا ہو جائے تو اس کا نقصان دوسرے لوگوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے
کیونکہ ایسا شخص تھوڑاعلم حاصل کرنے کے بعد ہی اپنے کو سب سے بڑا عالمِ دین
سمجھنے لگتا ہے اور وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ فلاں شخص نے مجھ سے کم پڑھا ہے
لہذا میری الگ حیثیت ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ
ایمان میں اضافہ نہیں ہوا ہے تو اس عالم میں اور ایک ان پڑھ آدمی میں کوئی
فرق نہیں ہے ناظرین انسان کا مقام و مرتبہ تو ایمان و عمل سے حاصل ہوتا ہے
اُس علم کو اہمیت دی گئی ہے جس سے اﷲ اور روزِ آخرت پر ایمان قوی ہو اور
قلب ایسا منور ہو جائے جس سے اُس میں انکساری پیدا ہو جائے کوئی شخص کتنا
بڑا عالم کیوں نہ ہو جائے اُس کا علم اماموںؑ کے مقا بلے میں کچھ بھی نہیں
امامؑ سجادؑجو تمام علم و حکمت کا خزانہ ہیں وہ خود اپنے بارے کیا فرماتے
ہیں آئے صحیفۂ سجادیہ کی دُعائے عرفہ میں امامؑ کیا فرماتے ہیں ناظرین اس
دُعا میں ایک مقام پر حضرت زین العا بدین علیہ السلام خدُا وند عالم کی
بارگاہ میں عرض کرتے ہیں ؛؛ میں تو سب سے چھوٹا ہوں بلکہ ایک ذرے سے بھی
چھوٹا ،، ہر عالم کو یہ جان لینا چاہئے کہ جس طرح پہلے وہ خُدا کی مخلوق
تھا آج بھی ہے وہ آج بھی اُسی خُدا کا محتاج ہے جس طرح پہلے تھا جب بھی
انسان کے پاس حقیقی علم آجاتاہے تو اُس کی سوچ کا انداز بدل جاتا ہے وہ
کبھی اپنے علم پر گھمنڈ نہیں کرتا بلکہ وہ یہ سوچتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ
میرا پیرو میرا مُرید جنت میں چلا جائے اور میں جہنم میں دھکیل دیا جاؤ ں
اسی لیئے ایسے عالم دین میں انکساری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ خود کو سب سے
معمولی سمجھنے لگتا ہے اسی لیے ضروری ہے کہ علم و دانش اگر تواضح اور
انکساری کے ساتھ ہو تو ٹھیک ہے ورنہ شیطان بھی بہت کچھ جانتا تھا لیکن
گھمنڈ کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہو گیا (کتاب :درسِ اخلاق:س:۱۵۲سے ۱۵۴)
اور اپنے اس عمل کی وجہ سے وہ مردود اور ملعون بنا اور ابدی عذاب میں مبتلا
ہو گیا چنانچہ خُدا وند عالم سورۂ بقرہ کی آیت ۳۴ میں فرماتا ہے (شیطان نے
آدم کو سجدے سے انکار کیا اُس نے گھمند کیا اور بے دینوں میں سے ہوگیا)حضرت
علیؑ ایک خطبے میں فرماتے ہیں ( اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ شیطان کے ساتھ کیا اس
سے عبرت حاصل کرو جب اس خُدا نے اُس کے طویل عمل اور بے انتہا کوشش کو ایک
لمحے کے گھمنڈ کی وجہ سے ختم کر دیا وسکتا کہ جس جرم کی وجہ سے خُدا
وندعالم نے ایک ملک (فرشتے) کو جنت سے نکال دیا ہو اس جرم پر بھلا کسی
انسان کو جنت میں جگہ دیدے خُدا وندعالم کا حکم اہلِ آسمان اور اہلِ زمین
کے لئے یکساں ہے امامؑ فرماتے ہیں اور اُس قابیل کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے
اپنے بھائی ہابیل کے مقابلے میں گھمنڈکیا اُس کے حاسدانہ عداوت کی وجہ سے
اس کے دل میں بڑائی کا خیال پیدا ہوگیا اور خودپسندی نے اس کے دل میں غیض و
غضب کی آگ بھڑکا دی اور شیطان نے اُس کے دماغ میں گھمنڈ اور غرور کی
ہواپھونک دی جس کی وجہ سے خُدا وند عالم نے ندامت اُس کے پیچھے لگا دی اور
قیامت تک کے قاتلوں کے گناہوں کا اُسے ذمہ دار قرار دیا قابیل اپنے بھائی
سے گھمنڈ و تکبر کی بنا پر سخت ترین عذاب میں مبتلا ہو گیا پس تم سے پہلے
گھمنڈ کرنے والے امتوں پر اﷲ تعا لیٰ کی جانب سے جو سختیاں اور عتاب و عذاب
نازل ہوئے ان سے عبرت لو اور ان کے رخساروں کے بل لیٹنے کی جگہ خاک اور
پہلووئں کے بل گرنے کے مقامات (قبروں) سے نصیحت حاصل کرو اور جس طرح زمانے
کی آنے والی مصیبتوں سے پناہ مانگتے ہو اسی طرح سرکش بنانے والی عادتوں سے
خُداوند عالم سے پناہ مانگو )(نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ ۱۹۱)( کتاب:گنا ہانِ
کبیرہ:حصہ:چہارم، پنجم، ششم، ہفتم:صفحہ: ۲۳۸،۲۳۹،۲۴۰)
ناظرین امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں ( دوزخ میں ایک ایسا درہ ہے جو گھمنڈیوں
کے لئے مخصوص ہے کہ جسے سقر کہتے ہیں اُس نے اپنی گرمی کی شدت کی خدا
وندعالم سے شکایت کی اور سانس لینے کی اجازت چاہی پس اس نے سانس لی اور
جہنم کو جلا دیا اسی لیے بلا شبہ گھمنڈ کرنے والے روزِ قیامت باریک
چیونٹیوں کی صورت میں محشور ہوں گے اور خُدا وند عالم کی مخلوق کے حساب سے
فارغ ہونے تک لوگ انہیں پاوئں تلے روندیں گے)(کافی جلد۲ صفحہ :۳۱۱)کتاب:گناہانِ
کبیرہ:ص:۲۴۳:۲۴۴)
گھمنڈی لوگ اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اُن پر بڑائی
ظاہر کرتا ہیاور اپنے آپ کو اُن سے برتر قرار دیتا ہے اور اُن کے برابر
ہونے کو بُرا سمجھتا ہے راستہ چلنے میں بھی اُن سے آگے چلنے میں اپنی بڑائی
سمجھتا ہے ایسا شخص اگر کسی مجالس یا محفل میں جاتا ہے تو وہاں بھی سب سے
آگے بیٹھنا چاہتا ہے اپنی شان و شوکت پر انسان گھمنڈ کرتا ہے اپنے چاہنے
والوں پر گھمنڈ کرتا ہے جو کہ بہت خطرناک ہوتا ہے ایسی صورت میں تباہی اور
بربادی کا امکان بڑجاتا ہے اگر کوئی شخص اقتدار یعنی شان و شوکت یا مرتبہ
یا حکومت حاصل کرنے کے مرض میں مبتلا ہو جائے تو پھر اس سے نجات حاصل کرنا
کافی دشوار ہو جاتا ہے اس میں ایسا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے جو روز بروز بڑتا
ہی چلا جاتا ہے حکومت پر گھمنڈ کرنے والا اور اس کی ہوس کرنے والا آخر کار
ہلاک ہو جاتا ہے رسول خُداؑکی ایک حدیث میں ارشاد ہوا ہے :اپنے پیچھے لوگوں
کو چلانے اور ان پر حاکم رہنے کے جذبہ سے بڑھ کر کوئی اور چیز آدمی کے دل
کو تباہ و برباد نہیں کرتی ہے:(اصولِ کافی)
اگر کچھ لوگ کسی شخص کی بات ماننے لگتے ہیں اور اس کے تابعدار ہو جاتے ہیں
تو بہت جلد غرور و گھمنڈ کا شکار ہو جاتا ہے اقتدار کی ہوس کرنے والا اس
منزل پرپہنچ جاتا ہے کہ بس وہ حق و باطل کا معیار اپنی ذات کو سمجھنے لگتا
ہے نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اُس کی چاہت کا دم بھرنے والے چاہے وہ
کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہو ں وہ اُن کو اہمیت دیتا ہے اور اُن کے عیبوں کو
چھپاتا ہے اور اُن کی حمایت کرتا ہے اور اُن کو اچھا قرار دیتا ہے اس کے
مقابلے میں جو اس کے حامی نہیں ہوتے وہ اُن کو بُرا قرار دیتا ہے جب کہ وہ
بہترین سیرت و کردار کے مالک ہوں ان کی اچھائیاں اُسے نظر نہیں آتیں اقتدار
کی ہوس میں اندھا ہو جانے کی وجہ سے حق اُس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے
۔ بہت سے لوگ دوسروں پر حکم چلاتے ہیں جب آدمی حکم دینے لگتا ہے تو اس سے
بھی اُس حاکم شخص میں غرور پیدا ہو جاتا ہے کوئی بھی شخص جب اپنے شعبے میں
ماہر ہو جاتا ہے اور اُسے مقام اور منصب حاصل ہو جاتا ہے تو اُس میں اس
بیماری کے پیدا ہو جانے کا شک رہتا ہے اقتدار کی بیماری اگر پیدا ہو جائے
تو اس سے نجات کی فکر کرنی چاہیے عقلمند انسان مقام و منصب سے اوراپنے رتبہ
سے ہونے والے فائدے سے دوری رکھتا ہے اور جب تک مجبور نہ ہو وہ اُسے قبول
نہیں کرتا ( کتاب :درسِ اخلاق :ص:۱۵۷)
قرآنِ مجید کے سورۂ لقمان میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے؛؛ اور لوگوں کے سامنے
گھمنڈ سے اپنا منہ نہ پھلانا (یعنی ملاقات کے وقت لوگوں سے انکساری کے ساتھ
گفتگو و سلام کرو اور ان کی طرف سے منہ نہ پھرو جیسا کہ گھمنڈی لوگوں کے
ساتھ خصوصاً فقراء کو حقیر و پست سمجھتے ہوئے کرتے ہیں یاد رکھو امیر و
غریب سے ملتے ہوئے ایک رویہ ہونا چاہیے ) اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا
جاہلوں اور دنیا پرستوں کی طرح جو شدید خوشی اور گھمنڈ کی حالت میں زمین پر
اکڑ کر چلتے ہیں بلا شبہ خُدا کسی اکڑنے والے یعنی گھمنڈی انداز میں چلنے
والے اور اترانے والے جو اپنے مال ونعمت کی بنا پر لوگوں کے سامنے گھمنڈ
کرتے ہیں اُن کو دوست نہیں رکھتا ہے، ، (سورۂ لقمان:آیت:۱۸)کتاب:گناہانِ
کبیرہ:ص۲۶۴)
یہ دُنیا خدا کی قدرت و حکمت کا ایک نمونہ ہے ہر چیز اس کی نپی تلی اور
مناسب مقدار میں موجود ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے نفسوں کو پاک بنائے گناہانِ
کبیرہ سے پرہیز کریں اور ایسا عمل کریں جس سے دُنیا اور آخرت دونوں میں
فائدہ ملے خدا وندعالم نے جنت ایسے لوگوں کے لیے بنائی ہے جو گناہوں اور
بُرائیوں سے پرہیز کرتے رہے ہوں جو دنیاداری میں اور نفسانی خواہشات کی
بیجا لپیٹ میں نہ آئے ہوں قرآنِ مجید کے سورۂ شعر آء میں ارشاد ہوا ہے
ـــ․․( اور بہشت پرہیز گاروں کے قریب کر دی جائے گی) (سورۂ:شعرآء ۲۶:آیت:۹
)کتاب درسِ اخلاق :ص:۳۵)
اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ اپنی روح کو یعنی اپنے نفس کو برائیوں سے پاک
کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کی حقیقت ہے اور وہ
ایک دوسرے عالم کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس دنیا میں اسے بھیجا گیا ہے تا کہ
وہ دوسرے عالم میں ہمیشہ رہنے کے لئے تیاری کر لے (کتاب درسِ اخلاق
:ص:۴۱:۴۲)
ہر وہ بات کہ جس کا خدانے حکم دیا ہے اور جس کے انجام دینے میں ثواب اور
ترک کرنے میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اُسے اپنی زندگیوں میں واجبات میں
شامل کریں اور گناہ کرنے سے بچیں (کتاب گناہِ کبیرہ :ص :۴۹۰)
اس سے دنیا میں وقت بھی اچھا گزے گا اور سفرِآخرت کی تیاری بھی اچھے سے ہو
سکے گی ۔ |
|