امن کا روڈ میپ
(MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan, Lahore)
پاکستان کواسلامی ریاست
اورایٹمی طاقت ہونے کی سزادی جارہی ہے۔پاکستان کادوسرانام حق ہے لہٰذاء
بھارت ،امریکہ اوراسرائیل سمیت اس کے کئی دشمن ہیں۔بھارت سمیت پاکستان کے
سبھی دشمن فطری اتحادی ہیں،نہ جانے ہماری حکمران اشرافیہ کیوں بھارت سے
دوستی اورتجارت کی امیدلگائے بیٹھی ہے۔بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کی
بجائے اس کے ساتھ ایک دشمن کی طرح ڈیل کرنااوراسے ہرگز ڈھیل نہ دیناپاکستان
کے قومی مفاد میں ہے ۔ہمارے ملک میں وسائل کی کمی نہیں مگرمخلص ومدبرقیادت
کے قحط سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے ملک میں جس کے پاس ویژن ہے اسے
اقتدارنہیں ملتا اوربدقسمتی سے جن کے پاس اقتدارواختیارہے وہ بصیرت اورفہم
وفراست سے عاری ہیں ۔پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں سے زیادہ ترسرمایہ
دارہیں اوران کے نزدیک ان کی تجارت ریاست اورسیاست سے زیادہ ا ہم ہے ،وہ
تجارت کیلئے ریاست کے ساتھ بھی سیاست کرنے سے بازنہیں آتے۔ ہماراحکمران
طبقہ سیاست کی بجائے یورپی ملکوں میں تجارت کررہا ہے جبکہ ہمارے ملک میں
حکمرانوں کی ناک کے نیچے بیسیوں خفیہ ایجنسیوں کی مجرمانہ سرگرمیاں جاری
ہیں۔اس ملک میں اپنے ملک کیخلاف استعمال ہونیوالے گمراہ عناصر کی کمی
نہیں۔جہاں حدسے زیادہ ناخواندگی اورپسماندگی ہووہاں ضمیرکی کوئی خاص
قدروقیمت اوراہمیت نہیں ہوتی ۔میرجعفر اورمیرصادق توموت کی آغوش میں چلے
گئے مگر ان کی سوچ ان کے پیروکاروں کی صورت میں آج بھی زندہ ہے ۔جہاں بھوک
کاراج ہووہاں بدامنی کو رواج ملتاہے،بھوک کے مارے لوگ سبھی آداب بھول جاتے
ہیں۔بارود کی آگ سے بھوک کی آگ زیادہ خطرناک ہے۔سرمایہ داروں نے زراورزورپر
ا پنا حق جما لیا ہے جبکہ دونوں ہاتھوں سے ناداروں میں بھوک تقسیم کررہے
ہیں۔جس کے بچے بھوک یابیماری سے بلک رہے ہوں وہ انسانیت اورامن کی سرحدوں
سے باہرنکل جاتا ہے۔پاکستان میں امن بحال ہوسکتا ہے مگر یہ کام صرف نیک نیت
اورسرفروش قیادت کے ہاتھوں ہوگا۔سرمایہ داربزدل ہیں اوران کی جان ان کے
اثاثوں میں ہے جبکہ ان کے اثاثوں پربیرونی قوتوں کاکنٹرول ہے اوریوں ہمارے
سرمایہ داربیرونی قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔جس کسی کے اثاثے ایک
مقررہ حدسے زیادہ بیرون ملک ہوں اس کی شہریت منسوخ کردی جائے ۔
تنظیم اتحادامت کے روح رواں برادرم ضیاء الحق نقشبندی نے بڑی دردمندی
اورجرأتمندی کے ساتھ شہرلاہورمیں اہل قلم امن کانفرنس کااہتمام کیا
جوبلاشبہ ایک پروقاراورپراثرتقریب تھی ۔تقریب میں قلم قبیلے کے ممتازکالم
نگار اور دانشورشریک ہوئے ۔مجیب الرحمن شامی،عطاء الحق قاسمی،سہیل وڑائچ ،حافظ
شفیق الرحمن ،میاں حبیب،ناصف اعوان ،رؤف طاہر ،قیوم نظامی،سجادمیر ،خواجہ
جمشیدامام ،ممتازطاہر،افتخارمجاز،قاضی مصطفی کامل ،عبدالستاراعوان،اظہرسعید،حافظ
یوسف سراج، عمرانہ مشتاق،مولاناراغب حسین نعیمی اورنوازکھرل نے موضوع
پراپنے مخصوص اندازمیں اظہارخیال کیااورتجاویزدیں مگرتقریب میں ریاست ،حکومت
اورسیاست کی کوئی نمائندگی نہیں تھی،اگرسٹیک ہولڈرز کی طرف سے نمائندے
تقریب میں شریک ہوتے تویقیناڈائیلاگ کے فوائد مزیدبڑھ جاتے۔تقریب کے
آغازپرایک باصفااورباحیا خاتون مریم منیر نے انتہائی سلجھے ہوئے اندازمیں
بارگاہ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم میں ہدیہ نعت پیش کیا جس پرانہیں خوب
سراہاگیا۔ضیاء الحق نقشبندی ایک نظریاتی اورمتحرک شخصیت ہیں جومختلف
موضوعات پر مختلف طبقات کے درمیان مکالمے کااہتمام کرتے ہیں۔اس معاشرے
کیلئے جہاں صداؤں کاقحط ہووہاں ضیاء الحق نقشبندی کادم غنیمت ہے۔پاکستان
میں ایک دوسرے کاسرپھوڑنے والے تعدادمیں بہت جبکہ برادرم ضیاء الحق نقشبندی
کی طرح سرجوڑنے والے نایاب ہیں۔ مقررین نے باری باری بدامنی کے محرکات
پرروشنی ڈالی ۔مقررین نے آپریشن ضرب عضب کی کامیاب پیشرف پراطمینان
اوراعتمادکااظہار کیا ۔راقم کے خیال میں آپریشن ضرب عضب کوکامیابی سے پایہ
تکمیل تک پہنچانے کیلئے جنرل راحیل شریف کوان کے انکار کے باوجودایکسٹینشن
ضرور دی جائے ۔باوفااورباصفا جنرل راحیل شریف نے جس طرح افواج کامورال
بلندکیا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔جنگ فوجی نہیں جرنیل لڑتے ہیں ،دہشت
گردوں کی سرکوبی اوردشمن ملک کے جارحانہ عزائم کوملیامیٹ کرنے کیلئے
پروفیشنل جنرل راحیل شریف کی خدادادصلاحیتوں سے مزیدفائدہ اٹھایا جاسکتا ہے
۔میں سمجھتاہوں جوریاست حالت جنگ میں ہو وہ نازک مرحلے میں جرنیل کو تبدیل
کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ جنرل راحیل شریف نے عوام اورفوج میں پسندیدگی
اورپذیرائی کے معاملے میں اپنے پیشروفوجی سربراہوں کوبہت پیچھے چھوڑدیا
ہے۔جنرل راحیل شریف کانام اورمقام بجاطورپر ان کے کام کامرہون منت ہے۔جنرل
راحیل شریف کی کمٹمنٹ سے فوج کاوقاراوراس پرعوام کابھرپوراعتمادبھی بحال
ہوا ۔کراچی آپریشن جبکہ ورکنگ باؤنڈری بھارتی جارحیت کے سلسلہ میں رینجرز
جبکہ شہروں کے اندرپولیس فورس کاکرداربھی قابل قدر ہے ۔
ایک بادشاہ نے اپنے چند جانثاروں کے ساتھ شکار کے سلسلہ میں جنگل کارخ کیا
مگرکسی ہرن کاتعاقب کرتے ہوئے ان سے بچھڑگیا ،بادشاہ اپنے جانثاروں کوتلاش
کرتاکرتاجنگل سے باہر ایک کمہارکے پاس آپہنچا،بادشاہ نے کمہار کے گدھوں
کوایک قطار میں چلتے ہوئے دیکھا ۔بادشاہ نے کمہارسے پوچھا تمہارے گدھے کس
طرح ایک قطارمیں چلتے ہیں ۔کمہارنے جواب دیااگرکوئی گدھاقطار سے باہرنکلے
تو میں اسے سزادیتا ہوں۔بادشاہ اورکمہار کے درمیان حکمت ودانائی کی مختلف
باتیں ہورہی تھیں کہ بادشاہ کوان کے جانثارتلاش تلاش کرتے ہوئے وہاں آگئے ۔بادشاہ
نے کمہارکی دانائی سے متاثرہوکراس سے کہاکیاتم میرے ملک میں امن وامان
اورانصاف قائم کرسکتے ہو۔کمہارنے حامی بھرلی اوربادشاہ کے ساتھ چل
پڑا۔بادشاہ نے اپنے قصر پہنچتے ساتھ کمہارکوقاضی مقررکردیا ۔کمہارکی عدالت
میں ایک چورکوپیش کیا گیاجورنگے ہاتھوں گرفتارہواتھا ،مختصرسماعت کے
بعدکمہارنے فیصلہ سناتے ہوئے کہا''چورکے ہاتھ کاٹ دو'' ،پاس کھڑے جلاد نے
کمہار سے کہا اپنے فیصلے پرنظرثانی کریں چوروزیراعظم کاعزیز ہے ۔کمہارنے
ایک بارپھر کہا ''چورکے ہاتھ کاٹ دو''۔وزیراعظم بھی عدالت کی کاروائی دیکھ
رہا تھا،وہ سمجھا شایدجلاد کاپیغام کمہار کوسمجھ نہیں آیا اسلئے وہ خودآگے
گیا اورکمہار کے کان میں کہا جناب یہ میراعزیز ہے اسے چھوڑدیں ۔کمہار نے
جلاد کوحکم دیا چور کے ہاتھ اوروزیراعظم کی زبان کاٹ دو۔ کمہار کے ایک
فیصلے سے اس ملک میں امن وامان اورانصاف بحال ہوگیا۔ اگرجرم ختم کرناہے
تومجرم کے ساتھ ساتھ اس کی سرپرستی کرنیوالے بااثر افرادکابھی محاسبہ
کرناہوگا ۔کرپشن،وی آئی پی اورسفارشی کلچر نے ہمارے معاشرے کوکچرے
کاڈھیربنادیا ہے ۔ برائی ختم کرنے کیلئے برائی کی ماں کومارناہوگایعنی
بدامنی پیداکرنیوالے اسباب ومحرکات کاسدباب ازبس ضروری ہے۔طبقاتی قوانین کے
ہوتے ہوئے امن بحال نہیں ہوسکتا۔کوئی ملک یامعاشرہ قانون کی حکمرانی
اورانصاف کی فراوانی کے بغیر پرامن اورمہذب نہیں ہوسکتا۔مشاہدے میں آیا ہے
پولیس نے جودہشت گرد سردھڑکی بازی لگاکرگرفتارکئے تھے ان میں سے کچھ
عدالتوں سے ضمانت پرچھوٹ گئے اورکچھ بری ہوگئے جبکہ چندایک کوسزاملی ۔دہشت
گردی کاناسورمٹانے کیلئے سبھی اداروں کواپنے سوراخ بندکرناہوں گے۔اداروں کے
درمیان باہمی احترام اور مثالی رابطہ بھی ناگزیر ہے۔
امن کاروڈمیپ انصاف اورمساوات سے ہوکرجاتا ہے۔ریاست شہریوں کوان کے فرض کی
بجاآوری کاپابندبنانے کے ساتھ ساتھ انہیں بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی
بنائے۔اگرریاست اپنے فرض نہیں نبھائے گی توپھرشہری بھی ڈنڈی ماریں گے۔دہشت
گردی سے نبردآزماریاست مصلحت پسندی کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ہمارے ملک میں
امن حکمرانوں کوطاقتوربنانے سے نہیں بلکہ آئین وقانون کی حکمرانی سے آئے
گاجبکہ پاکستان میں طاقتوراورکمزورکیلئے الگ الگ قانون ہے۔سانحہ آرمی پبلک
سکول ہویاسانحہ اٹک ،ہمارے ملک میں ہونیوالے حادثات اورسانحات ون مین
شواورشعبدہ بازی کاشاخسانہ ہیں۔امن کی بحالی قومی اداروں میں سیاسی مداخلت
کی بندش سے مشروط ہے۔قومی ادارے حکومت کی بجائے ریاست کے کنٹرول میں ہوں ۔عدالت
عظمیٰ کے چیف جسٹس جوادایس خواجہ کے مطابق عوام کے مسائل کی روٹ کاز پولیس
ہے ،مگرمیں اس سے قطعی متفق نہیں ہوں کیونکہ پولیس کاکنٹرول سیاسی حکمرانوں
کے پاس ہوتا ہے جو ناجائزدولت اوردھونس دھاندلی سے منتخب ہوتے ہیں اورپولیس
ترقی وتبادلوں کیلئے ان کے رحم وکرم پرہوتی ہے ۔ پاک فوج کی طرزپرپولیس
کوبھی خودمختاراوربااختیار ادارہ بنایا جائے ۔سیاستدانوں کے گناہوں کابوجھ
پولیس کواٹھاناپڑتا ہے اوراس آڑمیں پولیس کی بعض گندی مچھلیاں بھی اپناکام
کرجاتی ہیں۔پولیس سمیت کوئی ادارہ گندی مچھلیوں سے پاک نہیں ہے ۔
بسااوقات ایک انسان میں بیک وقت کئی امراض پیداہوجاتے ہیں۔مرض کی بروقت
اوردرست تشخیص سے بیماری پرقابوپاناآسان ہوجاتا ہے۔ان میں کسی مرض کوختم
کرنے کیلئے آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے ،کوئی بیمار ی محض ایک انجکشن لگانے سے
دورہوجاتی ہیں ۔مادروطن پاکستان کے کئی امراض کاایک ساتھ اورموثر علاج
کرناہوگا،جہاں سرجری ناگزیرہو وہاں ضرورکی جائے ۔ ڈپریشن صرف محرومیوں
کامداوااوراپنائیت کااظہارکرنے سے دورہوسکتا ہے ۔ جس طرح شوگر کے مریض کی
جان بچانے کیلئے ناگزیرصورت میں اس کاہاتھ یاپاؤں کاٹ دیا جاتا ہے اس طرح
ہمارے ملک میں جو بھارت کے بھگت اورمودی کے مہرے ہیں ان سے کسی قسم کی
مفاہمت کولعنت تصورکیا جائے ۔جوریاست کیخلاف ہمارے دشمن کے آشیربادسے
ہتھیاراٹھائے وہ کسی نرمی کامستحق نہیں ہے۔ پاکستان میں طویل مدت تک سزائے
موت پرعملدآمد معطل رہا ہے مگر سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد قتل کے مجرمان
کو تختہ دارپرلٹکا ناشروع کردیا گیاہے جس سے قتل وغارت گری کی شرح میں
نمایاں کمی آئی ہے ۔قتل کے مجرمان کوتختہ دارپرنہ لٹکانے کافیصلہ عاقبت
نااندیشانہ تھا جس کسی نے یہ سزامعطل کی تھی اس کامحاسبہ کیا جائے۔ سزاایک
دیوارکی مانندجرم کاراستہ روکتی ہے ۔ضمیر کی طرح ڈربھی انسان کادوست
ہے،جہاں ڈرہوگاوہاں امن ہوگا ۔بحالی امن کیلئے قانون کاڈربحال کرناہوگا ۔سکیورٹی
اداروں کوبدنام کرنے کی بجائے ان سے صرف آئینی کام لیا جائے ۔ |
|