تحریر: محمد راشد سروری قادری
اس مضمون میں ہم اُمتِ محمدیہ کے اس اعلیٰ و افضل ترین طبقہ کے فضائل و
مناقب سے آگاہی حاصل کریں گے جو دینِ محمدی کے ستون، ہدایت کے امام اور نور
کے روشن منبروں کے مکین ہیں۔ جن کی محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کی محبت، جنت کی کنجی، بخشش کا پروانہ اور دونوں جہانوں میں نور
ہے اور ان سے بغض و عداوت اللہ تعالیٰ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم اور تمام انبیاء علیہم السلام سے بغض و عداوت اور اعلانِ جنگ ہے۔ یہ
پاکیزہ ہستیاں عالمِ دوجہان میں خوف و غم سے آزاد، صراطِ مستقیم کی روشن
دلیل ہیں اور ان کے وجودِ کامل ہی سے وجودِ کائنات اور ہدایت کا نظام قائم
ہے۔ یہ انبیاء ؑ تو نہیں لیکن انبیاء ؑ کی سی شان کے مالک ہیں۔ یہ اُمتِ
محمدیہ کے فقراءِ کاملین ہیں، ان سے ملاقات کا غم و فکر اور اشتیاق آقائے
دوجہان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ میں
دامن گیر رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے متعلق حضرت ابوذرغفاری
رضی اللہ عنہٗ سے فرماتے ہیں:
’’اے ابوذرؓ! کیا تجھے معلوم ہے کہ میں کس غم و فکر میں محو رہتا ہوں اور
کس چیز کا مشتاق ہوں؟‘‘ حضرت ابو ذرؓ نے عرض کی ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم! مجھے اپنے غم و فکر سے آگاہ فرمادیں۔‘‘ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’آہ! آہ! آہ! مجھے اپنے اُن بھائیوں سے
ملاقات کا شوق ہے جو میرے بعد آئیں گے۔ وہ انبیاء ؑ کی سی شان کے مالک ہیں
اور بارگاہِ الٰہی میں ان کا مرتبہ شہداء کا سا ہے۔‘‘ آقا علیہ الصلوٰۃو
السلام نے حضرت ابوذرغفاریؓ کو ان فقراءِ کاملین کے بے شمار فضائل و مناقب
سے آگاہ فرماتے ہوئے آخر میں فرمایا:
’’اے ابوذرؓ! اگر تم کہو تو میں ان کے بارے میں مزید بیان کروں؟ عرض کی!
ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مزید ارشاد فرمائیں۔ فرمایا
’’جس نے عقیدت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو اللہ کو ان کی یہ بات بیت
اللہ کو دیکھنے سے زیادہ پسندہو گی۔ جس نے عقیدت سے ان کی طرف دیکھا گویا
اس نے اللہ کو دیکھا، جس نے انہیں لباس پہنایا تو گویا اس نے اللہ کو لباس
پہنایا اور جس نے انہیں کھانا کھلایا تو گویا اس نے اللہ کو کھانا کھلایا۔
اے ابوذرؓ! اگر تم کہو تو ان کے بارے میں مزید بیان کروں؟ عرض کی! اے اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مزید ارشاد فرمائیں۔ فرمایا! ’’وہ
گنہگار جو گناہ کرنے پر بضد ہو اور بے حد گنہگار بھی ہو، اگر ان کی محفل
میں (محبت و عقیدت سے) آکر بیٹھے گا تو اٹھنے سے پہلے اس کے گناہ معاف کر
دئیے جائیں گے۔ پس تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اہلِ دل (فقراءِ کاملین) کبھی
کبھی سچے خوابوں کی صورت میں اسرارِ ملکوت کا مشاہدہ ومکاشفہ کرتے رہتے ہیں
اور کبھی کبھی بیداری کی حالت میں بھی ان پر مشاہدہ کی صورت میں معانی
منکشف ہوتے رہتے ہیں اور یہ حالات اعلیٰ درجات میں سے ہیں اور یہ درجاتِ
نبوت میں سے ہیں۔ بے شک سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں (46) حصہ ہیں۔ پس تم
ان کے معاملے میں ڈرنا، اگر تم ان کے معاملے میں غلطی کرو گے تو تمہارے
قصور کی حد تجاوز کر جائے گی اور تم ہلاکت میں پڑ جاؤ گے۔ اس عقل سے جہالت
بہترہے جو ان کے انکار کی طرف راغب کرے کیونکہ اولیاء اللہ کے امور سے جس
نے انکار کیا اس نے گویا انبیاء ؑ کا انکار کیا اور وہ دین سے مکمل طور پر
نکل گیا۔‘‘ (عین الفقر)
فقراء کی تعریف کا بیان
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنی تعلیمات میں
فقراء کے لیے فقیر، اولیاء اللہ، درویش، علماء عامل، اہلِ دل، عارفانِ
الٰہی اور مرشد کامل کی اصطلاحات استعمال فرماتے ہیں اور ان تمام اصطلاحات
سے آپؒ کی مراد اُمتِ محمدیہ کے فقراءِ کاملین ہیں۔
فقراء سے مراد اُمتِ محمدیہ کے وہ اہلِ دل اور اہلِ باطن اشخاص ہیں جن کو
اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کامل قرب و وصال اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری حاصل ہے اور وہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف
سے اُمتِ محمدیہ کو تلقین و ارشاد اور ان کے تزکیۂ نفس کے لیے مقرر ہیں۔
رسالہ قشیریہ میں فقراء کو یوں بیان کیا گیا ہے:
* فقراء وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے منتخب کر رکھا
ہے یہ لوگ مخلوق میں سے اللہ کے راز کے متحمل ہوتے ہیں انہی کی بدولت اللہ
تعالیٰ مخلوق کی حفاظت کرتا ہے اور انہی کی برکت سے انہیں رزق میں وسعت
دیتا ہے اور صابر فقیر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہم نشین ہوں گے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فقیر کی تعریف کرتے
ہوئے فرماتے ہیں:
* فقیر اولیاء کو کہتے ہیں اور اولیاء تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک صاحبِ
وصال، دوسرے مشاہدۂ نورِ جمالِ اللہ میں غرق صاحبِ کمال اور تیسرے اہلِ
سوال۔ بعض اولیاء صاحبِ وصال ہوتے ہیں، وہ نور جمالِ اللہ کے مشاہدہ میں
اِس قدر غرق ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی بھی خبر نہیں ہوتی کیونکہ وہ اپنے وجود
سے نکل کر معیتِ مولیٰ میں غرق ہوتے ہیں۔ اولیائے اللہ میں سرِفہرست سب سے
بلند مرتبہ انہی فقراء کا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
* جان لے کہ فقیر وہ ہے جو اگر کسی اہلِ دنیا خواہ وہ حضرت ابراہیم بن ادہم
جیسا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، کی طرف نظر کر دے تو وہ بادشاہی چھوڑ کر خاک
نشین و گدڑی پوش فقیر بن جائے، ظاہر باطن میں صاحبِ طاعت بن کر دن رات ذکرِ
f میں غرق رہے،گھر بار چھوڑ کر مخلوق سے جدا ہو جائے، صبح شام بلکہ ہر وقت
اشتغالِ اللہ (تصور اسمِ f ذات) میں غرق رہے، ہر دم معیتِ حق کو غنیمت
جانے، دنیا و اہلِ دنیا سے رغبت نہ رکھے، لباسِ شریعت پہنے اور لب بستہ
خاموشی کو عزیز جانے۔ (محک الفقر کلاں)
* جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت میں غرق ہو کر قربِ الٰہی میں پہنچ جاتا ہے
اور معرفتِ الٰہی سے مشرف ہو کر ہوشیار رہتا ہے اور باطن میں باشعور رہ کر
حضورعلیہ الصلوٰہ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتا ہے وہ عالم باعمل فقیر ہے،
کراماً کاتبین کی کیا مجال کہ اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھیں کہ جو شخص
فنا فی اللہ ہو کر ابتدا و انتہا (نورِ محمدی) میں غرق ہو جاتا ہے اس کے
گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’جو شخص
علم و علماء (علمائے عامل) سے محبت کرتا ہے اس کے گناہ نہیں لکھے جاتے۔‘‘
(کلید التوحید کلاں)
* فقیر وہ ہے جو عاملِ شریعت، شہسوارِ طریقت، ناظرِ حقیقت، جان سپار،
بردبار اورکم آزار ہو۔ (محک الفقر کلاں)
وہ لوگ جو فقراءِ کاملین کے زمرے میں نہیں آتے لیکن فقراء کا سا لباس و
انداز اختیار کر کے مالِ دنیا بناتے ہیں، ان کے بارے میں سلطان العارفین
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* یہ لوگ فقیرنہیں ہیں جو کتے کی طرح ہر دروازے سے لقمے مانگتے پھرتے ہیں۔
یہ تو بدمذہب و بدنظر و تارکِ نماز اہلِ بدعت خبیث و شرابی قسم کے شیطان
صفت لوگ ہیں جن کے نصیب میں معرفتِ الٰہی کی نعمت نہیں۔ جو لوگ اُن سے
دوستی رکھتے ہیں وہ گویا شیطا ن سے دوستی رکھتے ہیں، اُن سے دوستی دراصل
خدا اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دشمنی ہے۔ یہ اہلِ بدعت و
نفس پرست لوگ تو صرف ہوائے نفس کے غلام ہیں۔ (کلید التوحید کلاں)
فقراء سے عشق و محبت کا بیان
اِس عالمِ رنگ و بو میں انسان کے پاس اعمالِ صالح میں سے اگر کوئی سب سے
قیمتی چیز ہے تو فقراءِ کاملین سے عشق و محبت اور ان کی صحبت کانور ہے۔
حضور علیہ الصلوٰہ والسلام فقراء اور ان سے محبت کو اپنی احادیث میں یوں
بیان فرماتے ہیں:
* فقراء کی محبت دونوں جہانوں کا نور ہے۔
* ہر چیز کی کنجی ہے اور جنت کی کنجی فقراء کی محبت ہے۔
* فقراء کی محبت اخلاقِ انبیاء ؑ میں سے ہے اور فقراء سے بغض اخلاقِ فرعون
میں سے ہے۔
* فقراء کی محبت رحمان کی محبت ہے۔
* حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا: ’’بے شک میری اُمت کے فقراء، امراء سے پانچ سو سال پہلے
جنت میں داخل کئے جائیں گے۔
* میری اُمت کے دوگروہ علمائے عامل اور فقراءِ کامل دین کے ستون ہیں، جو
کوئی اِن کی صحبت میں بیٹھ کر ان سے تعلیم و تلقین حاصل کرے گا وہ قیامت کے
دن ہرگز پریشان نہیں ہو گا۔
* جس نے کسی فقیر کی زیارت کی اور اس کا کلام سنا تو اللہ تعالیٰ اس کا حشر
انبیاء و مرسلین کے ساتھ کرے گا۔
* حدیث شریف میں ہے قیامت کے دن اعلان کرنے والا اعلان کر ے گا کہاں ہیں وہ
لوگ جنہوں نے فقراء اور مساکین کا احترام کیا؟ آج تم جنت میں اس طرح داخل
ہو جاؤ کہ نہ تم پر کسی کاخوف ہے اور نہ تم غمگین ہو۔ (کنز العمال)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فقراء سے محبت کے
بارے میں اپنی تصنیفِ لطیف عین الفقر میں فرماتے ہیں:
* شیخ واجد کرمانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن درویشوں کو
بارگاہِ الٰہی سے حکم ہو گا کہ میزان اور پُل صراط پر جا کر اُن لوگوں کو
تلاش کرو جنہوں نے دنیا میں تمہاری کوئی خدمت کی ہے یا تم سے دوستی کی ہے،
تمہیں یہ اختیار ہے کہ انہیں میزان و پُل صراط سے گزار کر اپنے ساتھ جنت
میں لے جاؤ۔ قیامت کے دن ایک شخص کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا
جائے گا جس نے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور ہر قسم کی دیگر عبادات بھی کی ہوں
گی۔ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اِسے عذاب کے لیے دوزخ میں لے جاؤ۔ وہ عرض کرے
گا کہ میں تو دینِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی میں اعمالِ صالحہ
کرتا رہا، مجھے کس جرم کی سزا میں جہنم رسید کیا جا رہا ہے؟ فرمان ہوگا کہ
تُو دنیا میں میرے درویشوں سے روگردانی کرتا تھا، اب میں تجھ سے روگردانی
کرتا ہوں اور تیری طاعت و عبادت تیرے منہ پر مارتا ہوں۔ پھر ایک اور شخص کو
بارگاہِ خداوندی میں پیش کیا جائے گا جو خطاؤں اور گناہوں سے پُر ہو گا۔
فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اِسے جنت میں لے جاؤ۔ وہ حیران اورمتعجب ہوگا کہ
مجھے کس نیکی کے بدلے میں جنت میں بھیجا جا رہا ہے؟ فرمان ہو گا کہ اے
فلاں! دنیا میں تُو جو کچھ کماتا تھا درویشوں کی محبت میں ان پر خرچ کر
دیتا تھا اور رات دن ان کی محبت میں مشغول رہتا تھا، یہ اُن کی دعا و برکت
ہے کہ میں تجھے جنت میں بھیج رہا ہوں۔ کوئی نعمت اور رحمت بھی درویشوں اور
فقیروں کی صحبت کی نعمت سے بڑھ کرنہیں۔ (عین الفقر)
* تجھے اللہ کے نام (اسمِ اللہ ذات) کی قدر، تلاوتِ کلامِ اللہ کی قدر،
عارف باللہ فقراء کی قدر اور حضورئ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
کی قدر حق سبحانہٗ تعالیٰ کی کرم نوازی سے مرنے کے بعد معلوم ہوگی۔ (محک
الفقر کلاں)
فقراء سے بغض و عداوت کا بیان
فقراءِ کاملین اہلِ ہدایت ہیں اور ان سے ہدایت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے
گا۔ یہ اُمت کا وہ پاکیزہ گروہ ہے جو شیطان کے مکرو حیلہ سے محفوظ ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے
فرمایا:
* جب فقراء سے لوگ دشمنی رکھیں، (ان کے سامنے) دنیاوی شان و شوکت کا اظہار
کریں اور مال و زر کے جمع کرنے میں حریص ہو جائیں تو اللہ ان پر چار
مصیبتیں نازل کر دیتا ہے:
(1)قحط سالی، (2)ظالم حکمران یا بادشاہ، (3)بددیانت حاکم اور(4) دشمنوں کا
غلبہ۔ (رسالہ قشیریہ)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ ان فقراءِ باخدا کی شانِ ہدایت،
شیطان کے مکر و حیلہ سے امان اور اِن سے بغض و عداوت رکھنے والوں کے متعلق
فرماتے ہیں:
* فقراء قیامت تک ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ یہ خود
کو فنا کر کے معرفتِ لقا حاصل کر چکے ہیں۔ جو شخص اس حقیقت کو نہ مانے وہ
بے حیا و مردہ دل و احمق ہے۔ فقراء کے جسم قبر کی مثل ہوتے ہیں۔ ان کے دل
لحد کی مثل ہوتے ہیں ان کی ارواح ربّ العالمین کی یکتا ذات سے واصل ہوتی
ہیں اور ان کا مرتبہ حدو حساب سے باہر ہوتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
* دو گروہ یعنی علمائے عامل اور فقراءِ کامل شیطان کے علم و مکر و حیلہ سے
محفوظ رہتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بااخلاص ہوتے ہیں۔ (کلید
التوحید کلاں)
* جو شخص کسی عاملِ شریعت صاحبِ باطن فقیر کو خالی و بے برکت و بے حکمت
سمجھتا ہے، وہ احمق و نادان ہے کہ مشرق سے مغرب تک تمام زمین اللہ تعالیٰ
کے حکم اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے ان صاف دل و باطن آباد
درویشوں کے حوالے ہوتی ہے۔ فقراء کے منہ سے جو بات بھی نکلتی ہے وہ حکمتِ
الٰہی سے خالی نہیں ہوتی کہ فقیر بذاتِ خود حکمتِ الٰہی ہوتا ہے۔ فرمایا
گیا ہے ’’فقر اء کی زبان اللہ کی تلوار ہوتی ہے۔‘‘ اللہ کی تلوار وہ فقیر
ہوتا ہے جو ہر دم ذکر وفکر و تلاوتِ قرآن میں مشغول رہتا ہے۔ (کلید التوحید
کلاں)
* فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اے شیطان! بے شک میرے بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے
گا اور تیرا ربّ کافی ہے کام بنانے کو۔‘‘ علمائے عامل اور فقراءِ کامل کے
علاوہ تمام طالبِ دنیا شیطان کے شمار میں اس طرح رہتے ہیں جس طرح چرواہے کے
شمار میں بھیڑ بکریاں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’اے اولادِ آدم! شیطان کی
پیروی مت کرو کہ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (کلید التوحید کلاں)
جو شخص بھی ان فقراءِ کاملین سے عشق و محبت اور ان کی صحبت و ملاقات سے
روکتا اور ان کی مخالفت کرتا ہے وہ انسانی شکل میں شیطان ہے کہ جس کے بارے
میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
* ’’جن شیطان سے انسانی شیطان زیادہ خطرناک ہے۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ایسے لوگوں کے بارے
میں فرماتے ہیں:
* تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ قیامت کے دن جب روحانی قبروں سے باہر نکلیں گے
تو اہلِ دنیا روحانی قبلہ رو ہونے کی بجائے قبلہ کی طرف پشت کئے ہوئے ہوں
گے کیونکہ وہ دنیا میں بخل کی بدولت اللہ تعالیٰ کے فقیروں سے روگردانی کر
کے ان کی طرف پیٹھ پھیر کر بیٹھا کرتے تھے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
* سن اے عزیز ہوشمند! جب کوئی آدمی اہلِ اسلام عارف باللہ کے دل کو ٹھیس
پہنچاتا ہے تو اٹھارہ ہزار عالم کی جملہ مخلوق میں تہلکہ مچ جاتا ہے اور
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حاملانِ عرش وکرسی! تم اس طرح جنبش میں کیوں
ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ایک مومن کا دل کسی نے دکھایا ہے اور وہ جلالیت میں
آکر جنبش کر رہا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب دکھ دینے والے پر نازل
ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (محک الفقر
کلاں)
* فقیر باطن صفاو عالمِ تصوف ہوتا ہے۔ جو شخص کسی اہلِ تصوف فقیر کے سامنے
دم مارتا ہے وہ ہر جہان میں خراب ہوتا ہے کیونکہ فقیر درگاہِ راستی کا
برگزیدہ اور ہر حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے۔ جو شخص کسی فقیر کے سامنے دم مارتا
ہے وہ بیماری و رجعت کا شکار ہو جاتا ہے۔ فقیر کے سامنے وہ شخص دم مارتا ہے
جو بے پیر و سنگدل ہو یا بے مرشد و بے شرم و فقراء کا دشمن اور شفاعتِ
محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محروم و بے نصیب ہو۔ فقیر نہ تو خدا
ہوتا ہے اور نہ ہی خدا سے جدا ہوتا ہے۔ اے طالب! اپنی ہر طلب فقیر سے پوری
کر لے کہ فقیر ہر مطلب کی چابی ہوتا ہے۔ فقیر کا دشمن دنیا دار کتے کے
علاوہ اور کوئی نہیں ہوتا۔ (کلید التوحید کلاں)
* جو آدمی خدا پرستوں (فقراء) کی خدمت کرتا ہے وہ مخدوم بن جاتا ہے اور جو
اولیاء اللہ کا انکار کرتا ہے وہ فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے
محروم رہ جاتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
فقراء سے قلبی دوستی کا بیان
انسان کے لیے لازم ہے کہ بحیثیت طالبِ مولیٰ، مرید و سالک‘ اپنی قلبی دوستی
کو عملِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مطابق فقراءِ کاملین سے
استوار کرے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قلبی دوستی اور لگاؤ فقرائے اصحابِ صفہ اور
اپنے بعد آنے والے اپنے اُن فقراء سے تھا جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم کو ملاقات کا غم و فکر اور اشتیاق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم کو ان فقراء کی طرف ہمہ وقت متوجہ رہنے کا حکم دیا کیونکہ
یہ فقراء ہر وقت ذکر و دیدارِ الٰہی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ فرمانِ حق
تعالیٰ ہے:
ز وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ
وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْج
تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا
قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاo
(الکہف۔ 28)
ترجمہ: ’’(اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) آپ ان لوگوں کے ساتھ رہا
کریں جو رات دن اپنے ربّ کی بارگاہ میں دیدارِ الٰہی کی خاطر التجا کرتے
رہتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھیں زینتِ دنیا
کی تلاش میں نہ پھرا کریں اور اس کا کہا ہرگز نہ مانیں جس کے دل کو ہم نے
اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے وہ تو خواہشاتِ نفس کا غلام ہے اور اس کا کام
ہی حدیں پھلانگنا ہے۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی فقراء سے قلبی دوستی اور ان کو اپنے ساتھ پابند رکھنے کو یوں
بیان فرماتے ہیں:
* جان لے کہ محبت و دوستی تین قسم کی ہوتی ہے، محبت و دوستی جسمانی، محبت و
دوستی قلبی اور محبت و دوستی روحانی۔ محبتِ جسمانی کا تعلق زبان سے ہے
چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام زبانی و جسمانی دوستی علم و علماء سے
رکھتے تھے کہ علماء آشنائے قیل و قال تھے ۔ اِسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام
کی زبانی و جسمانی دوستی و آشنائی زلیخا سے تھی۔ قلبی دوستی کا تعلق معرفتِ
الٰہی سے ہے۔ چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قلبی دوستی فقر اور
فقراء سے تھی کہ فقراء صاحبِ معرفت تھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو
اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ آپ فقراء کو عزت و عظمت سے نوازیں چنانچہ آپ
فقراء کی بہت زیادہ عزت افزائی فرمایا کرتے تھے جسے دیکھ کر لوگ کہا کرتے
تھے ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! یہ فقراء تو مجنون ہیں آپ ا ن
کی اس قدر دلداری کیوں فرماتے ہیں؟‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
فرماتے: ’’جب اللہ نے انہیں اس قدر عزت سے نوازا ہے تو میں ان کی اتنی عزت
کیوں نہ کروں؟‘‘ تیسری روحانی دوستی کا تعلق ذاتِ حق تعالیٰ سے ہے اور حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ دوستی اللہ تعالیٰ سے رکھتے تھے۔ جان لے کہ حضرت
یعقوب علیہ السلام کی قلبی دوستی حضرت یوسف علیہ السلام سے تھی جس کی وجہ
سے آپ حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق میں گریہ زاری فرماتے رہے اور حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی روحانی دوستی اللہ تعالیٰ سے تھی جس کی وجہ سے آگ
گلزار بنی۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’ہم نے کہا کہ اے آگ! ابراہیم ؑ پر ٹھنڈی
ہو جا سلامتی والی۔‘‘ (محک الفقر کلاں)
* بعض فقیروں کو حضور علیہ الصلوٰہ والسلام اپنے ساتھ پابند کر کے دونوں
جہان کو انکا غلام اور دنیا و اہلِ دنیا کو اُن کا پابوس (قدم بوسی
کرنیوالا) بنا دیتے ہیں اور انہیں ترک و توکل، توحید، صبر و شکر،معرفت اور
ذکر و فکرِ الٰہی بخش دیتے ہیں جس سے وہ مستغنی ہو کر ہر وقت معیتِ خدا میں
غرق رہتے ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
فقراء آئینہ ہیں‘ کا بیان
اُمتِ محمدیہ کے فقراء اپنے نفوس کے تزکیہ، قلوب کے تصفیہ اور تجلیۂ روح کے
باعث شفاف اور چمکدار آئینوں کی مثل ہیں۔ یہ فقراء وہ آئینہ باصفا ہیں کہ
حق تعالیٰ ان آئینوں میں اپنے جلا ل وجمال کے جلوؤں کا نظارہ کرتا ہے اور
راہِ باطن کے سالک‘ اہلِ دنیا اور اہلِ نفس ان آئینوں میں اپنی روح اور نفس
کی صورتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فقراء آئینہ
ہیں، کے متعلق فرماتے ہیں:
* تُو ایسے شخص (فقیرِ کامل) کو تلاش کر جو تیرے دین کے چہرے کے لیے آئینہ
ہو۔ تُو اس میں ویسے ہی دیکھے گا جیسا کہ آئینہ میں دیکھتا ہے اور اپنا
ظاہری چہرہ اور عمامہ اور بالوں کو درست کر لیتا ہے ان کو سنوارتا ہے تو
عقلمند بن، یہ ہوس کیسی ہے اور کیا ہے۔ تُو کہتا ہے مجھے کسی شخص (فقیرِ
کامل یا مرشد کامل) کی ضرورت نہیں جو مجھے تعلیم دے حالانکہ سرکارِ دو عالم
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے ’’مومن مومن کا آئینہ ہے۔‘‘ جب
مسلمان کا ایمان درست ہو جاتا ہے تو وہ تمام مخلوق کے لیے آئینہ بن جاتا ہے
کہ وہ اپنے دین کے چہروں کو اس کی گفتگو کے آئینہ میں اس کی ملاقات اور قرب
کے وقت دیکھتے ہیں۔ (الفتح الربانی ۔ مجلس 61)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ ان آئینوں میں ذاتِ حق تعالیٰ کے
جلوؤں کو یوں بیان فرماتے ہیں:
* ’’سبحان اللہ! از اجسامِ عناصر خاکی بہزار مظہر ظہور آثار جمال و جلالِ
قدرت ہائے کاملہ آئینہ باصفا ساختہ تماشائے روئے زیبامی فرماید۔‘‘ (رسالہ
روحی شریف)
ترجمہ:’’ سبحان اللہ! خاکی اجسام کے روپ میں اپنی قدرتِ کاملہ کے جمال و
جلال کی نشانیوں کے اظہار کے لیے ہزاروں جلوؤں کو آئینہ باصفا بنا کر اپنے
حسن کا نظارہ فرما رہا ہے۔‘‘
یہ کہ فقراء آئینہ ہیں اور ان میں اہلِ باطن اور اہلِ دنیا کو اپنے اعمال
کی بنیاد پر اپنے نفوس کی حالت نظر آتی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نقص ان
فقراء کاملین میں ہے جبکہ وہ اپنے ہی نفس کی صورت ان آئینوں میں دیکھ رہے
ہوتے ہیں۔ اس لیے ان فقراء اور ان کے اعمال پر اعتراض کرنے والوں کو اپنے
ہی عقائد، اعمال اور افکار کی اصلاح کرنی چاہیے۔ سلطان العارفین حضرت سخی
سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ’فقراء آئینہ ہیں‘ کے بارے میں روایت فرماتے
ہیں:
* ایک بادشاہ کسی مرشدِ کامل کا مرید تھا، اس نے کسی سے کہا کہ جا کر میرے
مرشد کو دیکھ کر آؤ کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ وہ آدمی گیا اور دیکھا کہ مرشد
کے مصلّے پر کتا بیٹھا ہے، اس نے بادشاہ کو اپنے مشاہدے سے آگاہ کیا۔
بادشاہ نے کہا کہ کسی اور کو بھیج کر پتہ کرو۔ ایک دوسرے آدمی کو بھیجا
گیا، وہ گیا اور اس نے دیکھا کہ مرشد کے مصلّے پر خنزیر بیٹھا ہے، اُس نے
اپنا مشاہدہ بیان کیا تو بادشاہ خود چلا گیا اور دیکھا کہ مصلّے پر اُس کا
مرشد بیٹھا ہے۔ اس نے مرشد سے یہ حقیقت بیان کی تو مرشد نے کہا کہ اے
بادشاہ! جس نے میری بجائے مصلّے پر کتے کو دیکھا وہ ایک طالبِ دنیا تھا اور
جس نے میری بجائے خنزیر کو دیکھا وہ ایک دیوث (عورت کے جسم یا جسمانی نمائش
کی کمائی کھانے والا۔) تھا۔ مصنف (فقیر باھُو) کہتا ہے کہ فقراء آئینے کی
مثل ہوتے ہیں اس لیے دیکھنے والا انہیں جس صورت میں دیکھتا ہے وہ دیکھنے
والے کی اپنی ہی صورت ہوتی ہے۔ (محک الفقر کلاں)
* خندہ ہا برسینہ صافان می کنی ہشیار باش
ہر کہ بر آئینہ خند درویش خندی خود کند
ترجمہ:تُو باطن صفا فقیروں پر ہنستاہے۔ خبردار! وہ تو شفاف آئینے ہیں، جو
ان آئینوں پر ہنستا ہے وہ دراصل اپنی ہی ہنسی اڑاتا ہے۔ (کلید التوحید
کلاں)
فقراء آئینہ ہیں، کے حوالہ سے نقل ہے کہ ایک سادھو حضرت خواجہ معین الدین
چشتی اجمیری ؒ عرف حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کا چرچا سن کر ملاقات و زیارت کے
لیے آیا۔ جب اس کی نظر حضرت خواجہ غریب نوازؒ پر پڑی تو ششدر اور حیران رہ
گیا اور کہنے لگا:
’’بھل! بھل! بھل! اس قدر پیوتر ( پاکیزہ) اور شفاف آتما (روح) ہے آپؒ کی،
بالکل سفید دودھ اور سفید کپڑے کی مانند،لیکن یہ کیا کہ آپ کی آتما پر ایک
نہایت سیاہ دھبا ہے جو اس قدر پیوتر آتما پر چاند میں داغ جیسا ہے۔ یہ دھبا
اس قدر پیوتر آتما پر بھلا نہیں لگتا۔ کیا میری شکتیوں (روحانی قوتوں) سے
آپ کا یہ دھبا دُھل سکتا ہے؟
حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’ہاں! دُھل سکتا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت پر صدقِ دل سے ایمان لے آؤ۔‘‘
سادھو کو حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی بات کی حکمت تو سمجھ میں نہ آئی لیکن جب
وہ آپ ؒ کے دست مبارک پر بیعت ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا تو حضرت
خواجہ غریب نوازؒ نے اس کو کہا: ’’اے سادھو! اب نگاہ ڈال اور دیکھ۔‘‘
سادھو نے اب کی بار جو آپؒ کی طرف نگاہ کی تو حیران ہو گیا کہ اب وہ سیاہ
دھبا موجود نہیں ہے اور آپؒ کی روح پہلے سے بھی زیادہ روشن اور پُر نور ہے۔
سادھو کی بُدھی (عقل) میں یہ بات نہ سمائی تو دست بدستہ عرض گزار ہوا
’’گرو! بھگوان کا واسطہ اس راز سے تو آگاہ فرمائیں کہ وحدانیت اور رسالت پر
میرے ایمان لانے سے آپؒ کی آتما کا دھبا کیسے دُھل گیا؟‘‘
آپؒ نے فرمایا ’’اے سادھو! جو دھبا تم نے ہماری روح پر دیکھا تھا وہ اصل
میں تمہاری آتما پر تھا اور ہماری روح کے آئینہ میں تم نے اپنی آتما کا عکس
دیکھا۔ کثرتِ زہد و ریاضت، چلہ کشی اور خواہشاتِ نفس کے خلاف چل کر تم نے
اپنی آتما کو تو پیوتر کر لیا مگر تمہارا ایمان وحدانیتِ خدا اور رسالتِ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نہ ہونے کی وجہ سے تمہاری آتما پر
کفر و شرک کا سیاہ دھبا موجود تھا۔ اب چونکہ تمہارا ایمان دینِ حقیقی اسلام
پر ہے لہٰذا کفر و شرک کا وہ دھبا اب تمہاری آتما سے دُھل چکا ہے۔‘‘
* ہیچ نقشی نیست کز آئینہ رو پنہان کند
دل چو روشن شد کتاب و دفترش درکار نیست
ترجمہ:کوئی نقش ایسا نہیں جو آئینے کے سامنے خود کو چھپا سکے، دل جب روشن
ہوجاتا ہے تو آئینہ بن جاتا ہے پھر اس کے سامنے کتاب و دفتر کی ضرورت نہیں
رہتی۔ (محک الفقر کلاں)
رزقِ فقراء کا بیان
فقراء اَلْفَقْرُلَا یُحْتَاجُ شان کے مالک ہیں۔ وہ اپنے قلبِ اطہر میں
ذاتِ حق تعالیٰ کے علاوہ کسی خواہش کو جگہ نہیں دیتے۔ مخلوقِ خدا ہمیشہ رزق
کی تلاش کرتی ہے اور فقراء رازق کو تلاش کرتے ہیں۔فقیرِ کامل اگر رضائے
الٰہی کی خاطر اور دینے والے کے تزکیۂ نفس کی خاطر کچھ قبول کرتا بھی ہے تو
اللہ تعالیٰ سے اُسے دس گنا دلوا بھی دیتا ہے۔ فقراء سوالی نہیں ہوتے اور
نہ ہی رزقِ حرام ان کے حلق سے نیچے اُترتا ہے۔فقراء فاقہ پر فاقہ برداشت
کرتے ہیں لیکن کسی اہلِ دنیا کے در پر سوالی نہیں بنتے۔ فقراء کا رزق توکل
کی راہ سے آتا ہے۔ اگر کوئی فقیر کو کچھ دیتا ہے تو ان فقراء کی طرزِ فکر
یہی ہوتی ہے کہ یہ رزق خالق نے بھیجا ہے۔ فقراء مال کی تمنا نہیں کرتے اور
اگر کوئی انہیں کچھ دے تو منع نہیں کرتے اور اگر قبول کر لیں تو جمع نہیں
رکھتے اور بقدرِ ضرورت استعمال کرکے باقی راہِ خدا اور دینِ حق کی ترویج
میں خرچ کر دیتے ہیں۔
* حضرت ابو ہریرہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کی ہے کہ
فقراء مالداروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ (ترمذی۔ ابنِ ماجہ)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
* فقراء نہ ہوتے تو اغنیاء ہلاک ہو جاتے۔
* فقراء نہ ہوتے تو اغنیاء کوڑھی ہو جاتے۔
* حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن ایک اعلان ہو گا کہ اُمتِ محمدیہ کے
فقرا ء کہاں ہیں؟ اُٹھو اور لوگوں کو میدانِ قیامت میں تلاش کر لو جس شخص
نے تم میں سے کسی کو میرے لیے ایک لقمہ دیا ہو یا میرے لیے کوئی گھونٹ پانی
پلایا ہو یا میرے لیے کوئی نیا یا پُرانا کپڑا دیا ہو ان کے ہاتھ پکڑ کر
جنت میں داخل کر دو۔ اس پر فقرائے اُمت اُٹھیں گے اور کسی کا ہاتھ پکڑ کر
کہیں گے یا اللہ! اس نے مجھے کھانا کھلایا تھا، اس نے مجھے پانی پلایا تھا
کوئی بھی فقرائے امت میں سے چھوٹا یا بڑا شخص ایسا نہ ہو گا جو ان کو جنت
میں داخل نہ کرائے۔ (کنز العمال)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ رزقِ فقراء کے بارے
میں فرماتے ہیں:
* ’’فقیر لایحتاج ہوتا ہے اور اُسے وصالِ معرفتِ حق تعالیٰ حاصل ہوتا ہے۔
وہ سوالی نہیں ہوتا، اور اگر وہ کسی سے کوئی چیز لیتا بھی ہے تو اُس کے
بدلے اللہ تعالیٰ سے اُسے دس گنا دلوا بھی دیتا ہے۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا فرمان ہے: ’’فقیر نہ طامع(طمع یا لالچ نہیں کرتا) ہوتا ہے نہ
مانع (کوئی دے تو منع نہیں کرتا) ہوتا ہے اور نہ ہی جامع (قبول کرے تو جمع
نہیں کرتا)ہوتا ہے۔‘‘ (کلید التوحید کلاں)
* حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’فقراء کی زبان اللہ کی تلوار
ہے‘‘۔ ان کی زبان قلم ہے جس پر ’’کن فیکون‘‘ کی سیاہی ازل سے لگی ہوئی ہے۔
اُن کی نظر لوحِ محفوظ کے مطالعہ پر لگی رہتی ہے یعنی وہ جس چیز کے لیے کہہ
دیں کہ ہوجا تو اللہ تعالیٰ کے کرم سے وہ چیز ہو جاتی ہے۔ سب سے بہتر آدمی
وہ ہے جو ان فقراء کو صدقات دے کر راضی رکھتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا فرمان ہے ’’صدقہ اللہ کے غضب کو ٹال دیتا ہے۔‘‘ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’قضا کو صدقہ و دعا کے علاوہ اور کوئی چیز
نہیں ٹال سکتی۔‘‘ (محک الفقر کلاں)
* مخلوق رزق کو تلاش کرتی ہے اور فقرا ء رازق کو تلاش کرتے ہیں۔ مخلوق کی
نظر سیم و زر پر رہتی ہے اور فقراء کی نظر اپنے مولیٰ قادرِ اکبر پر رہتی
ہے۔ (محک الفقر کلاں)
* فقیرِ کامل کے پیٹ میں حرام کا لقمہ ہرگز نہیں جاتا خواہ ظاہر وباطن میں
زمین و آسمان کی ہر چیز حرام ہوجائے کیونکہ یہ لوگ والئ ولایت ہیں، مشرق سے
مغرب تک تمام عالم انہی کی وجہ سے قائم ہے۔ وہ محض اہلِ جہان کی گردن سے
اپنا حق ساقط کرنے کی غرض سے کھاتے پیتے ہیں (ورنہ انہیں کھانے پینے کی
حاجت نہیں ہوتی)۔ جس طرح نبی کا حق اُمت پر ہوتا ہے اسی طرح علمائے عامل
اور فقیرِ کامل کا حق مخلوق پر ہوتا ہے۔ (عین الفقر)
* فقیر کے گھر میں فاقہ پر فاقہ پڑا رہتا ہے لیکن وہ کوئی شے طلب نہیں کرتا
کہ ’’اَلْفَقْرُلَا یُحْتَاجُ ‘‘فقیر صاحبِ کیمیا نظر ہے لیکن وہ کیمیا گری
نہیں کرتاکہ ’’اَلْفَقْرُلَا یُحْتَاجُ‘‘ فقیر اپنا تمام مال راہِ خدا میں
خرچ کر کے تارک وفارغ ہو جاتا ہے اور پھر دنیا سے کوئی غرض نہیں رکھتا کہ
’’اَلْفَقْرُلَا یُحْتَاجُ‘‘ فقیر اپنے دل میں دنیا و اہلِ دنیا سے رغبت
اور غیر ماسویٰ اللہ سے طمع نہیں رکھتا کہ ’’اَلْفَقْرُلَا یُحْتَاجُ‘‘۔
فقیر کی زبان اللہ کی تلوار ہے، وہ صاحبِ لفظ ہے اس کی خواہش اللہ تعالیٰ
پوری کرتا ہے لیکن وہ کسی چیز کی خواہش نہیں کرتا کہ ’’اَلْفَقْرُلَا
یُحْتَاجُ‘‘۔ فقیر مرتبۂ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر پہنچا ہوا ہے
اس لیے وہ کچھ نہیں چاہتا کہ ’’اَلْفَقْرُلَا یُحْتَاجُ‘‘۔ (عین الفقر )
فقراء کی حیاتِ جاوداں کا بیان
فقراء مرتے نہیں اور بعد از حیاتِ ظاہری‘ اپنی قبروں میں زندہ و جاوید رہتے
ہیں۔ وہ صرف حیاتِ فانی سے حیاتِ ابدی کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔ فقراء چونکہ
اسمِ اللہ ذات کی برکت سے زندہ ہوتے ہیں اس لیے مرنے کے بعد قبروں میں بھی
حیات ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ان فقراءِ
کاملین کی حیاتِ ابدی اور خاکِ قبر کے متعلق فرماتے ہیں:
* اُمتِ محمدی کے فنا فی اللہ و فنا فی ذات اولیاء اللہ کو موت نہیں آتی
بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے چلے جاتے ہیں چنانچہ حضور علیہ
الصلوٰۃو السلام نے فرمایا: ’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ مرتے نہیں بلکہ وہ
ایک گھر سے دوسرے گھر میں نقل مکانی کرتے ہیں۔‘‘ (کلید التوحید کلاں)
* جو لوگ فنا فی توحید ہو کر نورِ معرفتِ الٰہی میں غرق ہو جاتے ہیں وہ
ظاہر و باطن میں زندہ رہتے ہیں، اگرچہ بظاہر وہ زیرِ خاک ہوکر لوگوں کی نظر
میں اہلِ قبور نظر آتے ہیں، موت ان کی زندگی کا حجاب ہے اور زندگی ان کی
موت کا بے حجاب ثواب ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
* پس لائقِ ارشاد مرشد وہ ہے جو اپنے طالبوں میں سے بعض کو مرتبۂ کمال تک
پہنچا دے اور بعض کو جو طریقت میں خام رہ جائیں‘ مرنے کے بعد باطن میں
نگاہِ تلقین سے معرفتِ الٰہی بخش کر کامل کر دے ۔ مرشد کامل کی نشانی یہ ہے
کہ اگر کوئی اس کی خاکِ قبر لے کر اپنی آنکھوں میں سرمے کی طرح ڈال لے تو
بحکمِ الٰہی اس پر عرش سے تحت الثریٰ تک ہر مقام روشن ہو جائے گا۔ اگر کوئی
اس کی خاکِ قبر اٹھا کر کھا لے تو اس کا دل ذکرِ اسمِ اللہ سے زندہ ہو جائے
گا اور پھر ہرگز نہ مرے گا۔ اگر کوئی اس کی خاکِ قبر اٹھا کر اپنے سینہ پر
مل لے تو اس کا سینہ اس قدر صاف ہو جائے گا کہ کشف القلوب و کشف القبور کے
مراتب طے کر جائے۔ اگر کوئی اس کی خاکِ قبر اپنے جسم پر مل لے تو اسے جو
مرض بھی لاحق ہو گا اس سے مکمل صحت یاب ہو جائے گا۔ جان لے کہ اس کی قبر کی
مٹی میںیہ تاثیر اسمِ اللہ ذات کے ذکر کی وجہ سے ہے۔ اسمِ اللہ پاک ہے اور
ذکرِ اسمِ اللہ کی برکت سے ذاکر بھی پاک ہو جاتا ہے اور اس کی قبر اور قبر
کی مٹی بھی پاک ہو جاتی ہے۔ (محک الفقر کلاں)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
* نام فقیر تنہاں دا باھُو، قبر جنہاں دی جیوے ھُو
فقراءِ کاملین خود تو حیاتِ جاوداں کے مالک ہیں، اگر وہ کسی مردہ دل پر
نگاہ کر دیں اور اس کے قلب کو زندگی بخش دیں تو وہ بھی نہیں مرتا۔ سلطان
العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
* اُمتِ محمدیہ تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعہ قلزمِ دل پر عمارت استوار کر
کے اس میں رہائش پذیر ہے اور اُس سے فوائد حاصل کر رہی ہے کہ یہ توفیقِ
الٰہی سے قلزمِ دل کی مالک ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو ’’قم باذن
اللّٰہ‘‘ کہہ کر قبر کے مردوں کو اڑھائی گھڑی کے لیے زندہ فرمایا کرتے تھے
لیکن اُمتِ محمدی کے فقراء ایک ہی نظر سے مردہ دلوں کو وہ زندگی بخشتے ہیں
کہ وہ ابدالآباد تک زندہ رہتے ہیں اور کبھی نہیں مرتے۔ (محک الفقر کلاں)
عیسوی دم زندہ گرد اند نہ دل
ہر کہ زندہ دل شود ہرگز نمیرد
ترجمہ: دمِ عیسیٰ ؑ سے دل زندہ نہیں ہوتے کہ دل ایک مرتبہ زندہ ہو جائے تو
پھر مرتا نہیں۔
* فقیر خادم و عالم مخدوم ہے۔ علماء ناصح ہیں اور فقراء مسیح ہیں۔ مسیح
قبروں کے مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ فقیر اشتغالِ اللہ (ذکر و تصور اسمِ اللہ
ذات) سے دلوں کو زندہ کرتا ہے۔ مسیح کے زندہ کردہ مردے کو ایک روز یا ایک
گھڑی کی زندگی نصیب ہوتی تھی مگر فقراء کے زندہ کئے ہوئے دل کو ذکرِ اللہ
اور پاس انفاس سے ابد ی زندگی نصیب ہوتی ہے۔ (عین الفقر)
برکتِ فقراء کا بیان
جیسا کہ احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں بیان ہے کہ اغنیاء
اگر ہلاکت وکوڑھی ہونے سے محفوظ ہیں تو فقراء کی برکت کی وجہ سے۔ اگر فقراء
نہ ہوتے تو اہلِ دنیا زحمتوں کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے۔ جب آسمان سے کوئی
نعمت و ثروت نازل ہوتی ہے تو مخلوقِ خدا کی طرف موڑ دی جاتی ہے اور جب کوئی
مصیبت اور آزمائش نازل ہوتی ہے تو سیدھی ان فقراء پر نازل ہوتی ہے ۔
سیّدنا غو ث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ ان فقراء کے
متعلق فرماتے ہیں:
* ان فقراء کی وجہ سے خلقِ خدا سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔ انہی کے طفیل اللہ
تعالیٰ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ اور انہی کے سبب زمین قسم قسم کے اجناس
اور پھل پیدا کرتی ہے۔ (الفتح الربانی)
ان فقراء کی برکت و فضیلت کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو
رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* اگر مشرق و مغرب کا ہر ملک قیامت تک آفات سے محفوظ ہے تو یہ محض فقراء کے
قدموں کی برکت سے ہے اس لیے خلقِ خدا پر فقراء کا یہ حق ہے کہ اس کا ہر خاص
و عام فرد فقراء کی خدمت کرتا رہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
* ہر محلہ، ہر شہر اور ہر بستی ان درویشوں کے قدموں کی برکت سے قائم ہے۔
فقراء کا چلنا پھرنا او ر سیر و سفر میں محو رہنا حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’حکیم کا کوئی فعل بھی حکمت سے
خالی نہیں ہوتا۔‘‘ فقیرکا قدم، فقیر کا کلام، فقیر کی توجہ، فقیر کا وہم،
فقیر کا قہر، فقیر کا التفات اور فقیر کا فیض حکمتوں سے خالی نہیں ہوتا۔ اس
کی اصل وصلِ اسمِ اللہ ذات پر قائم ہے اور فقیر کا حال ہر قسم کے وبال سے
پاک ہوتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
فقراء کی ملکیت کابیان
فقراء کسی خاندان، جماعت، گروہ وغیرہ کی ملکیت نہیں ہوتے اور نہ ان کی
روحانیت کسی کی وراثت ہوتی ہے اور نہ ان کی تعلیمات پر کسی خاص گروہ یا
جماعت کا قبضہ ہوتا ہے۔ فقراء کی ذات، ان کی روحانیت اور تعلیمات عوام
الناس کے لیے ہوتی ہیں۔ فقرا ء کی حقیقی ملکیت جس کی طرف وہ اپنی تمام
زندگی دعوت دیتے ہیں‘ وہ فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم اور اسمِ اللہ
ذات ہے۔ اس لیے جو لوگ فقراءِ کاملین کی ذات اور روحانیت کو اپنی ذاتی
ملکیت قرار دیتے ہیں انہیں اپنے عقائد، افکار اور نظریات کی اصلاح کر لینی
چاہیے۔ اس بیماری اور بدعقیدگی میں اکثر فقراء کی اولادِ صلبی گرفتار ہوتی
ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فقراء کی ملکیت کے
بارے میں فرماتے ہیں:
* جان لے کہ اللہ کے دوست اہلِ ذکرِ اللہ غرق فنا فی اللہ فقیر کی نظر میں
اہل و عیال، ماں باپ، بہن بھائی، بیٹے بیٹیاں، خویش قبیلہ، یار دوست اور
مال و دولت وغیرہ سب تماشائے دنیا ہے جسے آخر کار فنا ہونا ہے۔ اسے دنیاوی
شان وشوکت ہرگز پسند نہیں آتی کہ اس کی نظر روزِ قیامت پر لگی رہتی ہے ۔ وہ
صرف فقر کو پسند کرتا ہے جو مراتب وملک سے بے نیاز ایک لازوال خزانہ
ہے۔فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اس دن بڑے بڑوں کو بولنے کی جرأت نہ ہو گی۔‘‘ جو
فقیر اسمِ اللہ سے ہٹ کر کسی چیز یا جائے رہائش کو اپنی ملکیت قرار دیتا ہے
وہ کافرِ مطلق ہے، فقیری و درویشی میں ا س کا کوئی حصہ نہیں۔ اے اولادِ
آدم! کتے سے تو کمتر نہ ہو کہ کتا کسی چیز یا رہائش گاہ کو اپنی ملکیت قرار
نہیں دیتا۔ مفادِ عامہ کے لیے وقف کی گئی چیز کسی کی ملکیت نہیں ہوتی جس
طرح کہ مسجد کسی کی ملکیت نہیں۔ اہلِ اللہ فقیر بھی لا ملک ہوتا ہے اور
مسجد کی طرح سجدہ گاہ خاصانِ خدا ہوتا ہے۔ (عین الفقر)
* یاد رہے کہ ہر کسی کی کچھ نہ کچھ ملکیت ہوتی ہے لیکن فقر کی ملکیت کچھ
بھی نہیں ہے۔ اگر اس کی کچھ ملکیت ہے بھی تو وہ اسمِ اللہ ذات ہے کہ اہلِ
فقر دنیا کی ملکیت سے منہ موڑ کر اسمِ اللہ ذات کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں
کہ مُلک و ملکیت محض شرک ہے ۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اس دن بولنا بھی ان
کی ملکیت میں نہ ہوگا۔‘‘ فقیر مُلک و ملکیت سے جدا ہوتا ہے۔ اُسے جو کچھ
دیتا ہے خداد یتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
فقراء کی علماء پر افضلیت کا بیان
فقرائے اُمتِ محمدیہ وہ اعلیٰ نفوس ہیں جو وحدانیتِ ذات کے اعلیٰ ترین
مراتب پر فائز ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
کی طرف سے ہدایت کے باطنی نظام کے امین، صاحبِ حال اور صاحبِ باطن ہونے کی
وجہ سے مخلوقِ خدا کے تزکیۂ نفس اور انہیں اللہ سے ملانے کے لیے مقرر ہیں
جو قیامت تک ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے رہیں گے۔ انسان کو توحیدِ حقیقی
انہی فقراء سے حاصل ہوتی ہے اور پھر وہ مشاہدہ سے عبادتِ حق تعالیٰ ادا
کرتے ہیں۔
سیّدنا غوث الاعظمؓ ان فقراء سے توبہ و تلقین اور توحید کے حصول کو یوں
بیان فرماتے ہیں:
* اللہ تبارک تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ز وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی (الفتح۔ 26)
ترجمہ: اوران پر تقویٰ کا کلمہ لازم کیا۔
اور وہ کلمہ لا الہ الا اللّٰہ ہے بشرطیکہ یہ (کلمہ) کسی ایسے قلب سے اخذ
کیا جائے جو متقی ہو اور جس میں اللہ تبارک تعالیٰ کے سوا کچھ (موجود) نہ
ہو۔ اس سے مراد وہ کلمہ نہیں جو عوام کی زبانوں پر ہے اور بے شک (کلمے کے)
الفاظ ایک ہی ہیں لیکن باطنی معانی میں فرق پایا جاتا ہے۔ اور جب توحید کا
بیج زندہ دل (فقیر) سے اخذ کیا جائے تو قلب کو زندہ کرتا ہے۔ پس یہی بیج
کامل بیج ہوتا ہے۔ کیونکہ ناقص بیج اُگ نہیں سکتا۔ (سرِّ الاسرار۔ فصل 5)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فقراء کی علماء پر
فضیلت بیان کرتے ہوئے اسمِ اعظم یعنی اسمِ اللہ ذات جو کہ توحید کی اکائی
اور بنیاد ہے، کو علماء کی بجائے فقراء سے حاصل کرنے کے بارے میں فرماتے
ہیں:
* سن! علماء کو قرآنِ مجید میں سے اسمِ اعظم اس لیے نہیں ملتا کہ اسمِ اعظم
صرف وجودِاعظم ہی میں قرار پکڑتا ہے۔ اگر کسی کو اسمِ اعظم مل بھی جائے اور
وہ اُس کا ذکر بھی کرتا رہے تو اُس پر تاثیرنہیں کرتا کہ جس کا وجود ہی بے
اعظم ہو اس پر اسمِ اعظم کیا تاثیرکرے گا؟ اسمِ اعظم کے بغیر ذکر جاری نہیں
ہوتا اور اسمِ اعظم صرف وجودِ اعظم میں ہی قرار پکڑتا ہے جو یا تو فقیرِ
کامل کے پاس ہوتا ہے یا علمائے عامل کے پاس، اورعلمائے عامل فقیرِ کامل
ہوتے ہیں۔ جو آدمی اسمِ اعظم پر اعتقاد نہیں رکھتا اور اللہ تعالیٰ سے بھی
اس کا اعتقاد اُٹھ جاتا ہے وہ احمق ہے۔ اسمِ اعظم اُسے نصیب ہوتا ہے جو
صاحبِ مسمّٰی ہے اور وہی صاحبِ اسمِ اعظم ہے۔ (عین الفقر)
* فقراء کا تعلق حلیم سے ہوتا ہے اور حلیم نام ہے اللہ کا۔ علماء کا تعلق
کلام سننے سے ہے اس لیے وہ اہلِ شنید ہیں اور فقراء کا تعلق دل کی آنکھ سے
معرفتِ دید سے ہے اس لیے وہ اہلِ دید ہیں۔ علماء کی اُمید طاعت وثواب پر ہے
اور فقراء کی اُمید فضل و دیدار پر ہے۔ بہشت اگر چہ گل و گلزار ہے مگر
عارفوں کے نزدیک دیدارِ حق کے بغیر محض خار ہے۔ (محک الفقر کلاں)
* علماء و فقراء میں کیا فرق ہے؟ علماء صاحبِ ادب، صاحبِ شرع اور وارث
الانبیاء ہیں اور فقراء تارک فارغ، صاحبِ ذکر فکر، صاحبِ معرفت، وارثِ
خُلقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ وہ ہر وقت معیتِ حق تعالیٰ میں
غرق رہتے ہیں۔ علماء رات دن علم کے مطالعہ، اس کی تکرار اور قیل و قال میں
مصروف رہتے ہیں اور فقراء اِشتغالِ اللہ میں غرق ہو کر اللہ تعالیٰ کے
دائمی وصال میں مسرور رہتے ہیں۔ علم و عالم کا مرتبہ مبتدی ہے۔اس مرتبے کا
حامل صاحبِ مذکور ہے۔ فقیر منتہی مرتبے کا مالک ہوتاہے، وہ صاحبِ مع اللہ
حضور ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ مذکور کا مرتبہ صاحبِ حضور کا ابتدائی مرتبہ
ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں علماء کے درجے بہت بلند ہیں چنانچہ فرمایا گیا ہے:
’’علم کا تعلق بلند درجات سے ہے۔‘‘ فقراء کو قربِ حق میں انتہائی بلند
مراتب حاصل ہیں کہ وہ ذکرِ اسمِ اللہ میں دائم غرق رہتے ہیں کیونکہ فرمانِ
حق تعالیٰ ہے ’’اور اپنے ربّ کے ذکر میں اس طرح غرق ہو جا کہ تجھے اپنی بھی
خبر نہ رہے‘‘۔ جان لے کہ درجات ذاتِ حق تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ ذاتِ حق تک
رسائی خاص الخاص مرتبہ ہے جو اللہ نے اولیائے خاص کو عطا کیا ہے۔ (محک
الفقر کلاں)
* علماء ہمیشہ اوراق و حروفِ کتب کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں اور فقراء ہمیشہ
معرفتِ الٰہی سے مشاہدہ میں غرق رہتے ہیں۔ معرفتِ الٰہی میں استغراقِ
مشاہدہ، مطالعۂ ورق سے ہرگز نصیب نہیں ہو سکتا لہٰذا جب تک طالبِ اللہ
مطالعۂ ورق ترک نہیں کرتا غرقِ مشاہدہ کے مراتب تک نہیں پہنچ سکتا۔ جب آدمی
صاحبِ غرق ہو جاتا ہے تو مطالعۂ ورق کو بھول جاتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
فقراء کا دنیاوی بادشاہ پرتصرف کا بیان
صاحبِ باطن فقراء ہرکام دلیل، وھم اور توجہ ونظر سے کرتے ہیں۔ تمام کائنات
اللہ تعالیٰ نے ان باصفا فقراء کے تصرف و ملکیت میں دے رکھی ہے کہ وہ جب‘
جہاں اور جتنا چاہیں رضائے الٰہی کی خاطر اس میں تصرف کریں۔ دنیاوی بادشاہ
اور حکمران یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی حکومت و ملکیت ان کی صلاحیتوں کی وجہ
سے ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ بھی فقراء ہی کے اختیار میں ہے کہ کسے
بادشاہی سے نوازنا ہے اور کسے بادشاہی و حکومت سے معزول ہونا چاہیے۔ یہ
بادشاہی و حکمرانی اللہ کے حکم سے فقراء کے ذریعے ان کی آزمائش ہوتی ہے کہ
آیا وہ اپنی حکومت و بادشاہی کے زمانے میں اللہ کے احکام اور عدل و انصاف
نافذ کرتے ہیں اور متوجہ اِلی اللہ رہتے ہیں یا نفسِ متکبر کا شکار ہو کر
مخلوقِ خدا پر زندگی تنگ کر دیتے ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کا فرمان ہے:
* ’’قوم کا سردار فقراء کا خادم ہوتا ہے۔‘‘
حدیثِ بالا کے مطابق جو قوم کا سردار، حکمران اور بادشاہ ان فقراء کا خادم
بنتا ہے وہ حکمرانی و بادشاہی کی آزمائش کے معاملہ میں بارگاہِ حق تعالیٰ
میں کامیاب رہتا ہے۔ اور قوم کا جو سردار، بادشاہ یا حکمران ان فقراء کے
بارے میں دل میں بغض و رنجش رکھتاہے وہ بارگاہِ خدا وندی میں بھی ظالم و بے
انصاف ٹھہرتا ہے اور دونوں جہانوں میں خراب و پریشان اور ذلیل و رسوا ہوتا
ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں:
* یاد رہے کہ اگر کسی شخص کو دین و دنیا میں کوئی مشکل پیش آجائے تو اس کی
مشکل کشائی کرنے یا کوئی عاجز و مفلس گداگر مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی
ملکِ سلیمانی جیسی بادشاہی حاصل کرنا چاہے تو اُسے بادشاہی عطا کر دینے یا
اگر کوئی ہفت اقلیم کا بادشاہ کسی فقیر ولی اللہ سے عداوت رکھتا ہو تو اسے
بادشاہی سے معزول کر دینے اور ایسے ہی دیگر مناصب و درجات و احکام و خدمات
کے جملہ امور کی چابی فقیرِ کامل اہلِ توحید کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ (نور
الہدیٰ کلاں)
* اگر صاحبِ جذب مالک الملکی فقیر کسی بادشاہ کو جذب کر لے تو وہ تما م عمر
پریشان و سرگردان رہے گا اور ہرگز آرام نہ پائے گا۔ اگر کوئی صاحبِ فقر
کامل فقیر ولی اللہ کسی بادشاہ کی طرف توجہ کر دے تو بادشاہ ایک حلقہ بگوش
غلام کی طرح ننگے پاؤں اس کی بارگاہ میں دوڑا چلا آئے گا۔ پس بادشاہ ولی
اللہ کے تابع ہوتا ہے اور مشرق سے مغرب تک ہر ملک اور ہر بادشاہی اور ہر
علاقہ فقیر کے تصرف میں ہوتا ہے۔ اگر ظاہر وباطن میں ولی اللہ فقیر کی توجہ
شاملِ حال نہ ہو تو بادشاہ کوئی مہم بھی سر نہیں کر سکتا چاہے اُس کے پاس
ہزاروں ہزار لشکر ہی کیوں نہ ہوں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
بادشاہی گنج بخش درویش کُو
بادشاہی ملک از دوریش جُو
ترجمہ: درویش گنج بخش بادشاہ ہوتا ہے اس لیے حکومت و بادشاہی کسی درویش سے
طلب کرو۔
ہر کہ خواہد بادشاہی ملک را
بادشاہی میکند حکم از خدا
ترجمہ: جب کوئی درویش سے بادشاہی طلب کرتا ہے تو بحکمِ خدا درویش اسے
بادشاہ بناد یتا ہے۔
بر درویش رو ہر صبح و شام
تاترا حاصل شود مطلب تمام
ترجمہ: صبح و شام کسی درویش کی بارگاہ میں حاضری دیا کر تاکہ تجھے ہر مطلب
حاصل ہوتا رہے۔
گر ترا بر سرزند سرپیش نہ
خدمتی بہر از خدا درویش بہ
ترجمہ: درویش اگر تجھے سرزنش بھی کرے تو اس کے سامنے سر جھکائے رکھ کہ
رضائے الٰہی کی خاطر کسی درویش کی خدمت کرنا عملِ صالح ہے۔ (نور الہدیٰ
کلاں)
فقراء اور درِ دنیا کا بیان
جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ فقراء لایحتاج شان کے مالک ہوتے ہیں وہ اللہ
تعالیٰ سے اس کی ذات کے سوا کچھ طلب نہیں کرتے اور اہلِ دنیا کے در پر کسی
خواہش میں نہیں جاتے اگر کبھی وہ کسی اہلِ دنیا کے در پر جاتے بھی ہیں تو
اس کا مقصد ان کی ذاتِ حق تعالیٰ کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔ بلکہ سلطان
العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ ان فقراء کو نصیحت فرماتے ہیں کہ وہ اہلِ
دنیا کے در پر ضرور جائیں۔ مگر فقط رضائے الٰہی کی خاطر، نافع المسلمین بن
کر اور انہیں مقامِ ظلم سے باہر نکالنے کے لیے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:
* اولیاء اللہ فقراء کی جان چاہے بھوک اور فقر وفاقہ سے لبوں پر ہی کیوں نہ
آجائے وہ لایحتاج ہی رہتے ہیں اور اپنے خلوت کدہ میں بھوک و افلاس سے مرتے
مر کیوں نہ جائیں اہلِ دنیا کے در پر ہرگز نہیں جاتے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ
کے حکم اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے محض رضائے الٰہی کی خاطر
مسلمانوں کے فائدے کے لیے اہلِ دنیا کے دروازے پر جاتے بھی ہیں تو انہیں
جمعیت بخشتے ہیں۔ اور مقامِ ظلم سے نکال کر مقامِ خوف میں لے آتے ہیں۔
(کلید التوحید کلاں)
* صاحبِ قوت فقیر جو دین میں قوی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت کا
فیض یافتہ ہو اہلِ دنیا کے در پر قدم نہیں رکھتا لیکن اُسے چاہیے کہ وہ
جائے اور نافع المسلمین بن کر اُن اہلِ دنیا میں اُٹھے بیٹھے اور انہیں
ظلمتِ دنیا سے نکالے جن کا دین و ایمان روٹی کپڑا اور خوفِ جان ہے حالانکہ
فقیر کے لیے دنیا واہلِ دنیا سے میل جول باعثِ ضرروزیان ہے۔ (محک الفقر
کلاں)
* عارف باللہ فقیر خواہ فقر و فاقہ سے جان بلب ہی کیوں نہ ہو جائے یا جان
سے بے جان ہو کر مر ہی کیوں نہ جائے کسی ظالم اہلِ دنیا کے در پر قدم ہرگز
نہیں رکھتا۔ ہاں! حکیم کا کوئی فعل بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر وہ کسی
اہلِ دنیا کے دروازے پر جاتا ہے تو اُسے اللہ سے ملانے کے لیے جاتا ہے۔ جو
کوئی اللہ تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے وہ حُبِّ دنیا کی پہچان کھو بیٹھتا ہے
جو کوئی شیطان کو پہچان لیتا ہے وہ حُبِّ دنیا میں غرق ہو جاتا ہے۔ حضرت
ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ دنیوی بادشاہی کو چھوڑ کر اللہ کی طرف آئے
اور اللہ سے عنایت اور مرشد کامل سے ولایت و ہدایت پا گئے۔ (محک الفقر
کلاں)
فقراء اور ترکِ دنیا کا بیان
فقراء اپنے کردار، اپنی تلقین و ارشاد او ر اپنی تعلیمات سے ہمیشہ عوام
الناس کو یہی پیغام دیتے رہے ہیں کہ وہ دنیا کی محبت کو دل میں جگہ نہ دیں
اورطالبِ مولیٰ بن کر قرب و معرفتِ الٰہی کے متلاشی رہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ دنیا سے فقراء کے
علیحدہ رہنے کو یوں بیان فرماتے ہیں:
* اس کتاب (محک الفقر کلاں) کا مصنف فقیر باھُو کہتا ہے کہ اہلِ دنیا
استسقاء کے مریض کی طرح بے حد پیاسا ہوتا ہے، دنیا زہر آلود دریا کی مثل
ہے۔ جب کوئی پیاسا مستسقی اس زہر آلود دریا میں غوطہ لگا کر اس کا زہر آلود
پانی پی لیتا ہے وہ مر جاتا ہے۔ وہ جس قدر زہریلا پانی پیتا جاتا ہے اسی
قدر اس کی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ اس کی پیاس جان کنی کی پیاس جیسی ہوتی ہے جو
تلخ سے تلخ تر ہوتی جاتی ہے یا یوں کہیے کہ دنیا کی پیاس روزِ حشر کی پیاس
سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقراء دنیا کے اس زہر آلود دریا کے
کنارے پیاسے ہی رہتے ہیں اور اس کا زہر آلود پانی نہیں پیتے، وہ لوگوں کو
بھی منع کرتے ہیں کہ یہ زہریلا پانی مت پیو ورنہ مرجاؤ گے۔ جس آدمی کو ان
کی یہ دل پذیر نصیحت اچھی نہیں لگتی وہ اس زہر بھرے دریا کے اردگرد منڈلاتا
رہتا ہے۔ جان لے کہ فقراء کا دل آبِ ذکرِ اللہ سے تر رہتا ہے جس سے انہیں
جمعیت حاصل رہتی ہے اور وہ اسی سے آبرو پا کر دونوں جہان میں سرخرو رہتے
ہیں۔
حاصلِ تحریر
الغرض! انسان کو مراتب انسان ہی سے حاصل ہوتے ہیں، انسان کا نصیب انسان ہی
سے وابستہ ہے، انسان کو ہدایت انسان ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ انسان کو حکمت
انسان ہی سکھاتا ہے۔ انسان کو مرتبۂ ولایت و غنایت پر انسان ہی پہنچاتا ہے
او ر انسان کو جمعیت بھی انسان ہی بخشتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
اس لیے ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ وقت ضائع کیے بغیر جلد از جلد کسی فقیرِ
کامل کو تلا ش کرے اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنا ہاتھ اُس کے دستِ
مبارک میں دے کر مقامِ امن میں داخل ہو جائے اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات
میں مشغول ہوکر فقراء سے حاصل ہونے والی تمام نعمتوں اور فضیلتوں کو اپنے
دامن میں سمیٹ لے۔ ان کی محبت کا اسیر ہو کر صحبتِ رسول (مجلسِ محمدی) صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچے اور مقاماتِ قرب و وصال حاصل کر لے۔ اگر وہ
عشق و محبت کی اس بازی میں ناکام ہو جائے تو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان
باھُو رحمتہ اللہ علیہ اُسے بشارت دیتے ہیں کہ:
* اے مردِ حق! تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ مرشد کامل کے طالب اگر مردود بھی
ہوں تو مرشدِ ناقص کے مقبول طالبوں سے بہتر ہوتے ہیں کیونکہ قیامت کے دن
مرشدِ کامل اپنے اُن مردود طالبوں کو جنہوں نے کبھی اُس سے اسمِ اللہ ذات
کی تلقین حاصل کی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُنہیں مقبول طالبوں میں
جمع کر کے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں داخل کر دے گا۔ جو مرشد
اتنی اہلیت نہیں رکھتا اُسے لوگوں کو اپنا طالب بنا کر تلقین کرنا گناہ ہے۔
ایسا ناقص مرشد قیامت کے دن شرمندہ و روسیاہ ہو گا۔ نیز طالبِ اللہ کے لیے
ضروری ہے کہ وہ کسی مرشدِ کامل کے ہاتھ پر دستِ بیعت کر کے اس سے تلقین
حاصل کر ے اور مرشدِ ناقص اور صحبتِ ناقصان سے کمان سے نکلے ہو ئے تیر کی
طرح دور بھاگے اور اگر وہ کسی ناقص سے تلقین لے چکا ہے تو اُسے چھوڑ کر
پورے خلوص کے ساتھ مرشدِ کامل سے رجوع کرے اور اپنی عمر کو ضائع ہو نے سے
بچالے، ایسا کرنا اس کے لیے بالکل روا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
پس اگر تُو آنا چاہے تو دروازہ کھلا ہے ورنہ حق بے نیاز ہے۔
انتخاب: ماہنامہ سلطان الفقر لاہور ستمبر2015 |